• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فضیلتِ نماز

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ کفارہ لما بینھن ما لم تغش الکبائر"
[صحیح مسلم، الطھارۃ، باب الصلوات الخمس والجمعۃ۔۔۔۔، حدیث:233 ]
"پانچ نمازیں، ان گناہوں کو جو ان نمازوں کے درمیان ہوئے، مٹا دیتی ہیں اور "اسی طرح" ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، جب کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا گیا ہو۔"

مثلا : فجر کی نماز کے بعد جب ظہر پڑھیں گے تو دونوں نمازوں کے درمیانی عرصے میں جو گناہ، لغزشیں اور خطائیں ہوچکی ہوں گی، اللہ تعالٰی انھیں بخش دے گا۔ اسی طرح رات اور دن کے تمام صغیرہ گناہ نماز پنجگانہ سے معاف ہوجاتے ہیں، گویا پانچوں نمازوں پر ہمیشگی مسلمانوں کے نامہ اعمال کو ہر وقت صاف اور سفید رکھتی ہے حتٰی کہ انسان نماز کی برکت سے آہستہ آہستہ صغائر سے باز رہتے ہوئے کبیرہ گناہوں کے تصور ہی سے کانپ اٹھتا ہے۔
[اگر عقیدہ، طریقہ نماز اور نیت درست ہو تو نماز پر ہمیشگی بندے کو گناہوں سے روک دیتی ہے۔ اگر کوئی شخص نماز پڑھنے کے باوجود کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو تو یقینا مذکورہ تین اوصاف میں سے کسی ایک میں ابھی تک خلل موجود ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ ( ع،ر) ]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنھم سے فرمایا:
" بھلا مجھے بتاؤ! اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے باہر نہر ہو اور وہ اس میں ہر روز پانج بار نہائے، کیا پھر بھی اس کے جسم پر میل باقی رہے گا؟ "صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا: نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہی مثال پانچوں نمازوں کی ہے، اللہ تعالی ان کے سبب گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔"
[صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب الصلوات الخمس کفارۃ، حدیث:528 ، وصحیح مسلم، المساجد، باب المشی الی الصلاۃ تمحی بہ الخطایا۔۔۔۔، حدیث:667 ]

سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ "میں نے گناہ کیا اور بطور سزا" میں حد کو پہنچا ہوں، لہذا مجھ پر حد قائم کریں۔ آپ نے اس سے حد کا حال دریافت نہ کیا "یہ نہ پوچھا کہ کون سا گناہ کیا ہے" اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس شخص نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ نے نماز پڑھ لی تو وہ شخص پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول! تحقیق میں حد کو پہنچا ہوں، لہذا مجھ پر اللہ کا حکم نافذ کیجیے۔ آپ نے فرمایا: "کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟" اس نے کہا: پڑھی ہے تو آپ نے فرمایا: اللہ نے تیرا گناہ بخش دیا ہے۔"
[صحیح مسلم، التوبۃ، باب قولہ تعالی: )اِنَّ الحَسَنْتِ یُذْھِیْنَ السَّیِّاتِ ( ھود 144:11 ، حدیث:2764 ]

اللہ کی رحمت اور بخشش کتنی وسیع ہے کہ نماز پڑھنے کے سبب اللہ نے اس کا گناہ، جسے وہ اپنی سمجھ کے مطابق "حد کو پہنچنا" کہہ رہا تھا، معاف کردیا۔ معلوم ہوا کہ نماز گناہوں کو مٹانے والی ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بندہ جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اُس کے سر اور کندھوں پر آ جاتے ہیں، پھر جب وہ رکوع یا سجدہ کرتا ہے تو یہ گناہ ساقط، یعنی معاف ہوجاتے ہیں۔
[السنن الکبرٰی للبیھقی:10/3 وسندہ حسن، وشرح معانی الآثار للطحاوی:477/1 ]

سیدنا عبادہ صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالٰی نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جس نے ان کے لیے اچھا وضو کیا، انھیں وقت پر ادا کیا، انھیں خشوع کے ساتھ پڑھا اور ان کا رکوع پورا کیا تو اس نمازی کے لیے اللہ کا عہد ہے کہ وہ اسے بخش دے گا اور جس نے ایسا نہ کیا، اس کے لیے اللہ کا عہد نہیں ہے، چاہے وہ اُسے بخش دے اور چاہے تو اُسے عذاب دے۔"
[صحیح] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب المحافظۃ علی الصلوات، حدیث:425 ، وسندہ صحیح، والسنن الکبرٰی للبیھقی:215/2 فیہ الصنابحی وھو ابو عبداللہ وللحدیث طریق آخر عند ابن حبان ) الموارد:252، الاحسان:1728 ( وسندہ حسن]

سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص آفتاب کے طلوع و غروب سے پہلے(فجر اور عصرکی) نماز پڑھے گا، وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہوگا۔"
[صحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاتی الصبح و العصر والمحافظۃ علیھما، حدیث:634]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جس شخص نے نماز عشاء باجماعت ادا کی ( تو اس کے لیے اتنا ثواب پایا کہ) گویا اس نے تمام رات نماز پڑھی۔"
[صحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ، حدیث:656 ]

سیدنا جندب قسری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی، وہ اللہ کے ذمے( عہدوامان) میں ہے۔"
[صحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء، والصبح فی جماعۃ، حدیث:657 ]

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تمہارے پاس فرشتے رات اور دن کو باری باری آتے ہیں۔ وہ (آنے اور جانے والے فرشتے) نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوتے ہیں۔ جو فرشتے رات کو تمہارے پاس رہے وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ اپنے بندوں کا حال خوب جانتا ہے: "تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟" وہ کہتے ہیں: ہم نے انھیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس اس حال میں گئے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔"
[صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، حدیث:555 ، و صحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاتی الصبح والعصر۔۔۔۔، حدیث"632 ]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"منافقوں پر فجر اور عشاء سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں۔ اگر انھیں ان نمازوں کا ثواب معلوم ہوجائے تو وہ ان میں ضرور پہنچیں اگرچہ انھیں سرین پر گھسٹ کر ہی آنا پڑے۔"
[صحیح البخاری، الاذان، باب فضل صلاۃ العشاء فی الجماعۃ، حدیث:657 ، و صحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، حدیث:651 ]
سرین پر گھسٹ کر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاوں سے چلنے کی طاقت نہ ہو تو ان نمازوں کے ثواب اور اجر کی کشش انھیں چوتڑوں کے بل چل کر مسجد پہنچنے پر مجبور کردے، یعنی ہر حال میں پہنچیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر اس قدر پیاری تھی کہ جب جنگ خندق کے دن کفار کے حملے اور تیر اندازی کے سبب یہ نماز فوت ہوگئی تو آپ کو شدید رنج پہنچا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:
"ہمیں کافروں نے درمیانی ، یعنی نماز عصر سے باز رکھا حتی کہ سورج بھی غروب ہوگیا، اللہ تعالی ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔"
[صحیح البخاری، الجھاد، باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ والزلزلۃ، حدیث:2931 ، و صحیح مسلم، المساجد، باب الدلیل لمن قال الصلاۃ الوسطٰی ھی صلاۃ العصر، حدیث:627 ]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نمازی اور شہید

سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک قبیلے کے دو شخص ایک ساتھ مسلمان ہوئے، ان میں سے ایک جہاد فی سبیل اللہ میں شہید ہوگئے اور دوسرے صاحب ایک سال کے بعد فوت ہوئے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا، اس شہید سے پہلے جنت میں داخل ہوگئے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے بڑا تعجب ہوا( کہ شہید کا رتبہ تو بہت بلند ہے، اس لیے جنت میں اسے پہلے داخل ہونا چاہیے تھا۔) میں نے صبح کے وقت خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس ( تقدیم و تاخیر) کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:
"جس شخص کا بعد میں انتقال ہوا ( کیا تم اس کی نیکیاں نہیں دیکھتے، کس قدر زیادہ ہوگئیں؟) کیا اس نے رمضان کے روزے نہیں رکھے؟ اور سال بھر کی (فرض نمازوں کی) چھ ہزار یا اتنی اتنی رکعتیں زیادہ نہیں پڑھیں؟"
[حسن] مسند احمد:333/2 ، وسندہ حسن، اسے حافظ منذری نے الترغیب والترھیب:244/1 میں حسن کہا ہے۔]
فائدہ: یہ دونوں صحابی مہاحرین میں سے تھے اور دونوں نے اکٹھی ہجرت کی تھی۔ جہاد وغیرہ تمام اعمالِ صالحہ میں یہ دونوں شریک و یکساں تھے۔ ان میں سے ایک میدانِ جہاد میں شہید ہوگیا اور دوسرا جہاد کی تیاری میں مصروف و مرابط رہا اور ساتھ ساتھ اعمالِ صالحہ بھی کرتا رہا۔ چونکہ حدیث میں آیا ہے کہ مرابط کا اجروعمل جاری رہتا ہے، لہذا یہ اپنے اس بھائی سے بڑھ گیا جو پہلے شہید ہوگیا تھا۔
[دیکھیے مشکل الآثار للطحاوی:301/3 ۔ معلوم ہوا کہ منکرینِ جہاد کا اس حدیث سے استدلال غلط ہے۔]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اہمیتِ نماز

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالٰی کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟
آپ نے فرمایا:
" وقت پر نماز پڑھنا۔"
میں نے کہا: پھر کون سا؟
آپ نے فرمایا:
"ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔"
میں نے کہا: پھر کون سا؟
آپ نے فرمایا:
"اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔"
[صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ لوقتھا، حدیث:527 ، وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان کون الایمان باللہ تعالی افضل الاعمال، حدیث:85 ]

اور فرمایا:
"آدمی اور شرک کے درمیان نماز ہی حائل ہے۔"
[صحیح مسلم، الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، حدیث:82 ]

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت کے دن جب اللہ تعالٰی بعض دوزخیوں پر رحمت کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ دوزخ سے ایسے لوگوں کو باہر نکال لائیں جو اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ فرشتے انھیں نشانِ سجدہ سے پہچان کر دوزخ سے نکال دیں گے( کیونکہ) سجدے کی جگہوں پر اللہ تعالٰی نے دوزخ کی آگ حرام کردی ہے وہاں آگ کا کچھ اثر نہ ہوگا۔"
[صحیح البخاری، الاذان، باب فضل السجود، حدیث:806 وصحیح مسلم، الایمان، باب معرفۃ طریق الرویۃ، حدیث:182 ]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سب سے افضل عمل اول وقت پر نماز پڑھنا ہے۔"
[صحیح] صحیح ابن خزیمۃ، الصلاۃ، باب اختیار الصلاۃ فی اول وقتھا، حدیث:327 ۔ امام ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ میں، امام ابن حبان نے الموارد، حدیث:280 میں، امام حاکم نے المستدرک:189,188/1 میں اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم میں سے کوئی آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو رحمتِ الٰہی اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔"
[حسن] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب مسح الحصی فی الصلاۃ، حدیث:945، وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ مسح الحصی فی الصلاۃ، حدیث:379 ، وسنن النسائی، السھوء، باب النھی عن مسح الحصی فی الصلاۃ، حدیث:1192 ، وسندہ حسن، امام ترمذی نے اسے حسن اور حافظ ابن حجر نے، بلوغ المرام، حدیث:238 میں صحیح کہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہیں:
"میں نے خواب میں اپنے بابرکت اور بلند قدر پروردگار کو بہترین صورت میں دیکھا، پس اس نے کہا: اے محمد! میں نے کہا: اے میرے رب! میں حاضر ہوں۔ اللہ نے فرمایا: مقرب فرشتے کس بات میں بحث کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ اللہ نے تین بار پوچھا۔ میں نے ہر بار یہی جواب دیا۔ پھر میں نے اللہ کو دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھوں کے درمیان رکھا۔ یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالی کی انگلیوں* کی ٹھنڈک اپنی چھاتی کے درمیان محسوس کی۔ پھر میرے لیے ہر چیز ظاہر ہوگئی اور میں نے سب کو پہچان لیا۔* پھر فرمایا: اے محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں حاضر ہوں۔ اللہ نے فرمایا: مقرب فرشتے کس بات میں بحث کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: کفارات (گناہوں کا کفارہ بننے والی نیکیوں) کے بارے میں۔
اللہ نے فرمایا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: نماز باجماعت کے لیے پیدل چل کر جانا، نماز کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا اور مشقت ( سردی یا بیماری وغیرہ)کے وقت پورا وضو کرنا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور کس چیز میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے کہا: درجات کی بلندی کے بارے میں۔ اللہ نے پوچھا: وہ کن چیزوں میں ہے؟ میں نے کہا: لوگوں کو کھانا کھلانے، نرم بات کرنے اور رات کو نماز پڑھنے میں جبکہ لوگ سورہے ہوں، پھر اللہ تعالٰی نے فرمایا: اب جو چاہو دعا کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں نے یہ دعا کی:

"اللھم! انی اسئلک فعل الخیرات وترک المنکرات وحب المساکین، وان تغفرلی وترحمنی، واذا اردت فتنۃ فی قوم فتوفنی غیر مفتون، واسئلک حبک وحب من یحبک وحب عمل یقرب الی حبک"
"اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نیکیوں کے کرنے کا، برائیوں کے چھوڑنے کا، مسکینوں کے ساتھ محبت کرنے کا اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرمائے، اگر تیرا کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنے کا ارادہ ہو تو مجھے تو مجھے آزمائش سے بچا کر موت دے دینا اور میں تجھ سے تیری محبت اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور میں تجھ سے وہ عمل کرنے کی توفیق مانگتا ہوں جو ) مجھے( تیری محبت کے قریب کردے۔ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا خواب حق ہے، پس اسے یاد رکھو اور دوسرے لوگوں کو بھی خواب یہ خواب سناو۔"
[حسن] جامع الترمذی، تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ ص، حدیث:3235 ، وسندہ حسن، ومسند احمد:243/5 امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔]
*اللہ کا ہاتھ اور انگلیاں: ہاتھ اور انگلیاں اللہ تعالی کے لیے ثابت ہیں اور یہ اللہ تعالٰی کی صفات ہیں، ان کی کیفیت ہم نہیں جانتے، ہم انھیں مخلوق کے ہاتھوں اور انگلیوں سے تشبیہ نہیں دیتے بلکہ دیگر غیبی امور کی طرح اللہ کی ان صفات پر بھی ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ الحمد للہ ( ع،ر) * خواب کے وقت زمین و آسمان کی ہر وہ چیز میں نے دیکھی اور پہچان لی جو اللہ نے مجھے دکھانا چاہی۔ سوال و جواب سے بھی یہی مفہوم اخذ ہورہا ہے، نیز ایک روایت میں صرف مشرق و مغرب کا ذکر ہے( جنوب و شمال کا نہیں)، لہذا اس حدیث کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے کہ پیدائشِ آدم سے لے کر لوگوں کے جنت اور دوزخ میں داخل ہونے تک کائنات کے ہر زمان و مکان کی ہر چیز اور ہر راز مجھے معلوم ہوگیا، اگر ایسے ہوتا تو اس خواب کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نہیں آنی چاہیے تھی کیونکہ جو چیز آپ کو پہلے ہی معلوم کروا دی گئی اس کی وحی بھیجنا تحصیل حاصل ہے مگر ایسا نہیں ہوا اور وحی آتی رہی بلکہ بسا اوقات آپ وحی کا انتظار فرمایا کرتے تھے۔(ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے صبح کی نماز پڑھی، وہ اللہ کی حفاظت اور ذمے میں ہے۔ پس اللہ تعالی تم سے اپنی حفاظت کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے، اس لیے کہ جس سے وہ یہ مطالبہ کرے گا، یقینا اسے اپنی گرفت میں لے کر منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا۔"
[صحیح مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ، حدیث:657 ]
مطالبے کا مطلب یا تو نماز میں کوتاہی پر مطالبہ و مواخذہ الہی سے ڈرانا ہے یا فجر کی نماز پڑھنے والے سے تعرض کرنے کی صورت میں مطالبہ و مواخذہ الہی سے ڈرانا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" امنی جبریل علیہ السلام عند البیت مرتین"
[صحیح] سنن ابی داود، الصلاۃ، باب فی المواقیت، حدیث:393 ، وسندہ حسن، وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی مواقیت الصلاۃ۔۔۔۔، حدیث:149 اسے امام ترمذی نے اور ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ، حدیث:325 میں، ابن ابی رود نے المنتقی:150,149 میں، حاکم نے المستدرک:193/1 میں اور ابوبکر ابن العربی نے عارضتۃ الاحوذی:202/1 میں صحیح کہا ہے۔]
"جبریل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو دفعہ امامت کرائی ہے۔"

امامتِ جبرئیل کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کا درجہ اتنا بلند، اس کی اہمیت اللہ کے نزدیک اتنی اعلٰی و ارفع اور اسے مخصوص ہیت، مقررہ قاعدوں، متعینہ ضابطوں اور نہایت خشوع و خضوع سے ادا کرنا اس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالٰی نے تعلیمِ امت کے لیے جبرئیل کو ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ جبرئیل نے اللہ کے حکم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی کیفیت، ہیت، اس کے اوقات اور اس کے قاعدے سکھائے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل کے بتائے اور سکھائے ہوئے وقتوں، طریقوں، قاعدوں اور ضابطوں کے مطابق نماز پڑھتے رہے اور امت کو بھی حکم دیا:
" اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔"
[صحیح البخاری، الاذان، باب الاذان للمسافرین، حدیث:631 ]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
احکامِ طہارت


پانی کے احکام

نماز کے لیے وضو شرط ہے۔ وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح وضو کے لیے پانی کا پاک ہونا شرط ہے۔

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کی گیا:
کیا ہم بضاعہ کے کنویں سے وضو کرسکتے ہیں۔ یہ ایسا کنواں ہے جس میں حیض والے کپڑے، کتوں کا گوشت اور بد بودار اشیاء) بعض اوقات( گرجاتی ہیں۔ بضاعہ کا کنواں ڈھلوان پر تھا اور بارش وغیرہ کا پانی ان چیزوں کو بہا کر کنویں میں لے جاتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الماء طھور لا ینجسہ شئیء"
[حسن] سنن ابی داود، الطھارۃ، باب ما جاء فی بئر بضاعۃ، حدیث:66 ، وسندہ حسن وجامع الترمذی، الطھارۃ، باب ما جاء ان الماء لاینجسہ شیء، حدیث:66 امام ترمذی نے اسے حسن جبکہ ابن حزم نے المحلّٰی:100/1 میں اور نووی رحمہ اللہ نے المجموع:82/1 میں صحیح کہا ہے۔ نیز دیکھیے التلخیص الحبیر:13/1 ، حدیث:2۔
"اس کا پانی پاک ہے (اور اس مین دوسری چیزوں کو پاک کرنے کی صلاحیت ہے۔) اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔"
معلوم ہوا کہ کنویں کا پانی پاک ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دریا اور سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار ( مچھلی) حلال ہے۔"
[صحیح] سنن ابی داود، الطھارۃ، باب الوضوء بماء البحر، حدیث:83، وسندہ صحیح، وجامع الترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی ماء البحر انہ طھور، حدیث:69 اس حدیث کو امام ترمذی، ابن خزیمہ نے صحیح، حدیث:111 میں ، ابن حبان نے صحیح ) الموارد( : 119 میں، حاکم نے المستدرک:141,140/1 میں ، امام ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اور نووی نے المجموع:82/1 میں صحیح کہا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو ٹھرے ہوئے پانی میں غسل کرنے سے منع فرمایا۔
[صحیح مسلم، الطھارہ، باب النھی عن الاغتسال فی الماء الراکد، حدیث:283 ]
 
Top