قرأت کا بیان
دعائے استفتاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرماتے تھے ۔ اسے تعوذ کہتے ہیں اور اس کی دعا یہ ہے :
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وَهَمْزِهِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء۔ ارواء الغلیل جلد 2 ص 53۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 273)
اسے اس طرح پڑھا بھی ثابت ہے :
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رای الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک)
اس کے بعد آہستہ آواز کے ساتھ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھنی چاہیے ۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر)
قرأت کا مسنون طریقہ
تعوذ اور بسملہ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سورۃ الفاتحۃ کی تلاوت فرماتے تھے ۔ تلاوت کا سنت طریقہ یہ ہے کہ قرأت کرتے وقت ہر آیت پر وقف کیا جائے ۔ مثال کے طور پر سورۃ الفاتحۃ پڑھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھ کر وقف کرتے ، پھر
الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ پڑھ کر ٹھہر جاتے ۔ پھر
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے اور ٹھہر جاتے ۔ پھرمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے اور اس پر وقف فرماتے تھے اور اسی طرح ایک ایک آیت پر رک کر سورت پوری کرتے تھے ۔ یہ معمول صرف سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے لیے ہی نہ تھا بلکہ دوسری سورتوں کی تلاوت کرتے وقت بھی یہی طریقہ ہوتا تھا کہ آیت کے اختتام پر وقف کرتے اور اسے اگلی آیت سے نہیں ملاتے تھے ۔
(سنن الترمذی کتاب القراءات باب فی فاتحۃ الکتاب۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2927)
آج کل اکثر قاری اور امام مسجد اس سنت سے ناواقف یا لا پرواہ ہیں بلکہ سامعین بھی اسی قاری کو پسند کرتے ہیںجو گلا پھلا کر ایک ہی سانس میں متعدد آیات پڑھ سکتا ہو۔
سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اور بطور رکن نماز میں اس کی اہمیت
سورۃ الفاتحہ قرآن مجید کی عظیم الشان سورتوں میں سے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی ہے ۔
عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام و الماموم فی الصلوات کلھا فی الحضر، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ)
''اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے (اس میں) فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی''
ایک اور حدیث میں اس سورت کی اہمیت یوں بیان ہوئی ہے :
لاَ تُجْزِئُ صَلاَةٌ لاَ يَقْرَأُ الرَّجُلُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ أم الکتاب فی الصلاۃ و خلف الأمام، ارواء الغلیل جلد 2 ص 10)
"وہ نماز درست نہیں ہوتی جس میں آدمی فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے "
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثاً غَيْرُ تَمَامٍ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
''جس نے أم القرآن ( یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھے بغیر نماز ادا کی تو وہ (نماز) ناقص ہے ، ناقص ہے ، ناقص ہے ، نا مکمل ہے ''
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز کو "خداج" کہا گیا ہے جس کا مطلب ناقص اور خراب ہے ۔ یہ لفظ اونٹنی کے اس بچے کے لیے مستعمل ہے جو قبل از وقت ناتمام اور خراب حالت میں پیدا ہو جائے ۔ اس سے بعض علماء کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز ہو تو جاتی ہے لیکن نامکمل رہتی ہے ۔ لیکن اوپر صحیح البخاری اور سنن دار قطنی کی جو حدیثیں بیان کی گئی ہیں ان کی روشنی یہ موقف درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ ان میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں۔ خود اسی حدیث کے آخر میں ایسی نماز کو نامکمل کہا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب نماز مکمل ہی نہ ہو گی تو درست کیسے ہو سکتی ہے ۔ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا موقف بھی سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت کا ہے ۔
نماز میں اس کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے ایک فرمان میں اسے "الصلاۃ" یعنی نماز کے نام سے ذکر فرمایا ہے ۔
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمِدَنِي عَبْدِي يَقُولُ { الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ { مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ { إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ } يَقُولُ اللَّهُ هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ { اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ }يَقُولُ اللَّهُ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 779۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ فرماتاہے "میں نے نماز (یعنی سورۃ الفاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے ۔ پس اس کا نصف حصہ میرا ہے اور نصف میرے بندے کا ہے ۔ اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا۔ "
(پھربات جاری رکھتے ہوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
"(سورۃ فاتحہ) پڑھو، جب بندہ ا
لْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ عز و جل فرماتا ہے " میرے بندے نے میری حمد بیان کی"
(بندہ) کہتا ہے
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"۔
بندہ کہتا ہے
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری عظمت بیان کی"
بندہ کہتا ہے
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ فرماتا ہے "یہ (حصہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا"
بندہ کہتا ہے
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو اللہ فرماتا ہے "یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جس کا اس نے سوال کیا"۔
قرآن مجید میں سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اس آیت میں بیان ہوئی ہے ۔
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (سورۃ الحجر آیت 87)
(اے نبی!) ہم نے آپ کو السبع المثانی اور قرآنِ عظیم عطا کیا"
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي
(سنن ترمذی کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ الحجر صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 3125)
"اللہ تعالیٰ نے أم القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) جیسی ( عظیم الشان سورت) نہ تورات میں اتاری اورنہ انجیل میں۔
یہی السبع المثانی (بار بار دہرائے جانے والی آیات ) ہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ
(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ و لقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم)
"یہی السبع المثانی (بار بار دہرائی جانے والی آیات) اور قرآنِ عظیم ہے جو مجھے دیا گیا"
(سورۃ الفاتحہ کو "السبع المثانی" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سات آیات ہیں جنہیں نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے جبکہ قرآنِ عظیم کا نام بھی اس کی اہمیت اور فضیلت کے بیان کے لیے دیا گیا ہے ورنہ قرآن مجید کی ہر شئے ہی عظیم ہے ۔ جیسے کعبہ کو تعظیماً بیت اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ تمام مساجد اللہ کا گھر یعنی بیوت اللہ ہیں)
ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا قُمْتَ فَتَوَجَّهْتَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر حدیث نمبر804 ، 805)
"جب تو (نماز کے لیے ) کھڑا ہو تو قبلے کی طرف منہ کر کے تکبیر (تحریمہ) کہہ، پھر(دعائے استفتاح کے بعد) أم القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھ"
لیکن اگر کسی کو سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت یاد نہ ہو تو اسے جلد از جلد انہیں سیکھنا اور یاد کرنا چاہیے ، تب تک ان کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل پر مشتمل یہ کلمات نماز میں پڑھ سکتا ہے ۔
سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ
(صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ ، صحیح و ضعیف سنن نسائی حدیث نمبر 1068، ارواء الغلیل 303)
انہیں پڑھنے کی اجازت اس حدیث میں بھی دی گئی ہے :
فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهِ وَإِلَّا فَاحْمَدْ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 807)
"اگر تجھے قرآن میں سے کچھ یاد ہو تو اسے پڑھ، ورنہ اللہ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل بیان کر"
اہلِ سنت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر نماز میں سورۃ فاتحہ کی اہمیت کے قائل ہیں۔ فقہاء کا اصل اختلاف امام کے پیچھے اسے پڑھنے کے مسئلے پر ہے جس کا ذکر آئندہ آئے گا ان شاء اللہ۔
امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ ائمہ اور فقہاء میں مختلف فیہ چلا آتا ہے ۔ اس بارے میں فقہاء کے تین گروہ ہیں:
1۔ امام مکحول، امام اوزاعی، امام شافعی اور امام ابو ثور رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے سری اور جہری تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی۔ دور حاضر میں الشیخ بن باز سمیت کچھ عرب علماء نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔
2۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اصحاب الرائے سری یا جہری کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔
3۔ امام زہری، امام مالک، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر امام بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہو تو مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور سری نمازوں (یعنی جن میں امام آہستہ آواز میں پڑھتا ہے جیسے ظہر اور عصر وغیرہ) میں پڑھنی چاہیے ۔ دور حاضر کے مشہور محدث الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اصل صفۃ صلاۃ النبی" میں اس کے حق میں بہترین دلائل دیے ہیں جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی اس کی موافقت میں ہے اور دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی موقف درست،قرین انصاف اور اعتدال والا ہے یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ابتداء میں جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۃ پڑھ لینے کی اجازت دی تھی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔ ان دونوں واقعات کو امام ابو داؤد سمیت کئی محدثین نے روایت کیا ہے ۔ پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک دن فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے لیے قرأت کرنا مشکل ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا:
لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ
"شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟"
انہوں نے عرض کیا:
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی ایسا کر لیتے ہیں"
فرمایا:
لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
"تم ایسا مت کرو، سوائے اس کے کہ تم میں سے کوئی فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرے ، کیوں کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ہوئی"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، امام البانی نے کثرت طرق کی بناء پر اسے حسن کہا، دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ جلد1 ص 331، اور مشکاۃ المصابیح تلخیص الالبانی حدیث نمبر854)
بعد ازاں یہ اجازت واپس لے لی گئی اور امام کے بلند آواز میں پڑھنے کی صورت میں مقتدیوں کو قرأت سے بالکل منع فرما دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی فجر کی نماز کے بعد پیش آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے اور صحابہ سے دریافت فرمایا:
هَلْ قَرَأَ مَعِيَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفاً
"کیا تم میں سے کوئی ابھی میرے ساتھ ساتھ پڑھتا رہا ہے ؟"
ایک شخص نے عرض کیا :
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میں (پڑھتا رہا ہوں)"
فرمایا:
إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ
"میں بھی خیال کر رہا تھا کہ قرآن پڑھنے میں مجھے کیا چیز پریشان کر رہی ہے "
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات سننے کے بعد صحابہ کرام جہری نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے ساتھ قرأت کرنے سے رک گئے اور جن نمازوں میں امام بلند آواز سے قرأت نہیں کرتا ان میں آہستہ آواز سے پڑھا کرتے تھے ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من کرہ القراءۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جہر الامام، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 781)
خاموشی کے ساتھ امام کی قرأت سننا درحقیقت اس کی امامت قبول کرنے کا تقاضا اور اقتداء کی تکمیل کا مظہر ہے ، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے :
إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 918۔ ارواء الغلیل جلد 2 ص 120)
"امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو خاموش رہو"
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی اہمیت والی جو احادیث پیچھے بیان کی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز درست نہیں اور اس حدیث میں خاموشی سے امام کی قرأت سننے کا کہا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کی قرأت مقتدیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ،امام سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو مقتدیوں کو خود سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب اذا قرأ لامام فأنصتوا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 850 )
"جس کا امام (نماز پڑھا رہا ) ہو تو امام کی قرأت ہی اس (مقتدی) کی قرأت (کے لیے کافی) ہے ۔
غیرمناسب نہ ہو گا اگر یہ بات بھی بیان کر دی جائے کہ اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف احادیث کی تطبیق، تضعیف اور ناسخ و منسوخ کا اختلاف ہے اس میں "انکارِ حدیث" کا کوئی دخل نہیں ہے ۔
جن نمازوں میں امام آہستہ آواز سے تلاوت کرتا ہے انہیں سِرّی نمازیں کہا جاتا ہے جیسے ظہر اور عصر کی نماز۔ ان میں امام کے پیچھے آہستہ آواز میں قرأت کرنی چاہیے ۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب القراءۃ خلف الامام، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 915، ارواء الغلیل جلد 2 ص 28
"ہم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت اور آخری دورکعت میں (صرف) سورۃ الفاتحہ پڑھا کرتے تھے "
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے سری نمازوں میں آواز بلند کرنے کو ناپسند فرمایا ہے ۔ ایک دن ظہر کی نماز میں کسی شخص نے
"سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى یعنی سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھنی شروع کر دی۔ سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا:
أَيُّكُمْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى؟
"تم میں سے کس نے
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى پڑھی ہے ؟"
اس آدمی نے کہا: "میں نے (پڑھی ہے ) اور اس سے میرا ارادہ خیر کے سوا کچھ نہ تھا"
- تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رَجُلا خَالَجَنِيهَا
"مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے لیے (میری قرأت میں) پریشانی کا سبب بن رہا ہے "
(المعجم الکبیر للطبرانی، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب نھی المأموم عن جھر بالقراءۃ خلف امامہ)
دوسری روایت میں ہے کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے پیچھے بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے تو ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
خَلَطْتُمْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ
(مسند احمد مسند المکثرین من الصحابۃ مسند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، بخاری فی جزء القراءۃ)
"تم نے مجھ پر قرآن خلط ملط کر دیا "
آہستہ آواز سے قرأت کرنے کا حکم نہ صرف سری نمازوں کے لیے ہے بلکہ نوافل میں بآوازِ بلند قرأت کرنے سے دوسروں کو تکلیف ہو تو بھی آہستہ پڑھنا چاہیے ۔ ایسے ہی ایک واقعے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهُ فَلْيَنْظُرْ بِمَا يُنَاجِيهِ بِهِ وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقُرْآنِ
(موطا امام مالک کتاب استقبال القبلۃ باب وجوب القراءۃ فی السریۃ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 1603)
"نمازی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے تو اسے خیال کرنا چاہیے کہ اس سے کیا سرگوشی کر رہا ہے اور تم آپس میں ایک دوسرے پر بلند آواز سے قرآن مت پڑھو(تاکہ ساتھ کے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو)۔
قرآن مجید کی قرأت بڑے اجرو ثواب والا کام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفاً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ
(سنن ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فیمن قرأ حرفا من القرآن ما لہ من الأجر، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2910)
"جس نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے ۔ میں نہیں کہتا کہ "الم" حرف ہے بلکہ الف حرف ہے اور لام حرف ہے اور میم حرف ہے "
ائمہ اور فقہاء میں سے امام زہری، امام مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اجمعین اور محدثین کی ایک جماعت سری نماز میں امام کے پیچھے قرأت کرنے کی قائل ہے جبکہ احناف میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ سمیت کچھ دوسرے حنفی علماء بھی اسے درست کہا ہے ۔
آمین بالجہر
سورۃ الفاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین کہنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم جب سورۃ الفاتحہ کی قرأت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے تھے اور مقتدیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا:
إِذَا قَالَ الإِمَامُ (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ) فَقُولُوا آمِينَ ، فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَقُولُ آمِينَ وَإِنَّ الإِمَامَ يَقُولُ آمِينَ ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(سنن الدارمی کتاب الصلاۃ باب فی فضل التامین، صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 1071۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب جھر الماموم بالتامین)
"جب امام
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ (اس وقت) فرشتے آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے ، تو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
اس یعنی مقتدی امام سے پہلے یا بعد میں آمین نہ کہے بلکہ اس کے ساتھ ہی کہے ۔ اکثر نمازی اس میں تقدیم یا تاخیر کرتے ہیں جو درست نہیں ہے ۔
اسی مضمون کی دوسری حدیث ہے :
إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ آمِينَ وَالْمَلَائِكَةُ فِي السَّمَاءِ آمِينَ فَوَافَقَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع والتحمد و التامین، صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل التامین)
"جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہتا ہے اور (اس وقت) فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں۔ پھر (اگر) ان دونوں کی آمین میں موافقت ہو جائے تو اس (آمین کہنے والے ) کے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے :
فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التشھد فی الصلاۃ)
"(جب امام سورۃ فاتحہ ختم کرے تو) تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا"
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو آمین کے جو فضائل اور برکتیں عطا فرمائی ہیں یہود اس کی وجہ سے جلتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ
(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب الجھر بآمین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 691)
"یہودی جس قدر سلام اور آمین کی وجہ سے تم پر حسد کرتے ہیں اتنا کسی دوسری چیز پر نہیں کرتے "
سورۃ فاتحہ کے بعد قرأت کا بیان
(نماز میں قرأت کی ترتیب یوں ہے کہ)سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عام طور پر لمبی قرأت فرماتے تھے لیکن کسی عذر جیسے سفر، کھانسی یا بیماری کے سبب سے مختصر تلاوت بھی فرمائی ہے ، علاوہ ازیں دورانِ نماز کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی تو قرأت مختصر کر کے رکوع میں چلے جاتے تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو کیونکہ اس وقت عورتیں بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے آیا کرتی تھیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن فجر کی نماز دو چھوٹی سورتیں پڑھ کر نہایت اختصار کے ساتھ پڑھائی۔ صحابہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ نے (آج)ہلکی نماز کیوں پڑھائی؟"
فرمایا:
سَمِعْتُ بُكَاءَ صَبِيٍّ فَظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّهُ مَعَنَا تُصَلِّي فَأَرَدْتُ أَنْ أُفْرِغَ لَهُ أُمَّهُ
"میں نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو خیال کیا کہ اس کی ماں ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہی ہو گی تو میں چاہا کہ اس کے لیے اس کی ماں کو جلد فارغ کر دوں"
(مسند احمدمسند انس بن مالک، )
دوسری حدیث میں ہے :
إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ
میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے طول دینا چاہتا ہوں، پھر کسی بچے کا رونا سن کر اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے سے اس کی ماں کتنی سخت غمگین ہوجاتی ہے "
(صحیح البخاری کتاب الاذن باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی)
ضمناً اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے ۔
چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کے بارے میں جو حدیث عام طور پر مشہور ہے کہ "بچوں کو مسجدسے دور رکھو" وہ بالاتفاق ضعیف ہے ۔ اسے ضعیف قرار دینے والوں میں امام ابن جوزی، امام منذری، امام ہیثمی، حافظ ابن حجر عسقلانی ، اور بوصیری شامل ہیں اور عبدالحق اشبیلی نے اسے بے اصل قرار دیا ہے ۔ لیکن افضل یہی ہے کہ انہیں مسجد میں نہ لایا جائے کیونکہ نہ تو انہیں حوائج ضروریہ پر قابو ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں مسجد ، نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے آداب کا کچھ پتہ ہوتا ہے ، اور وہ اپنی فطری حرکات کی بنا پر بسا أوقات مسجد میں ناپاکی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے لیے پریشانی کا سبب بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا عام معمول یہ تھا کہ جب کوئی سورت شروع کرتے تو اسی رکعت میں اسے مکمل فرماتے تھے ۔ ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھنا اور ہر رکعت کو ایک سورت تک محدود رکھنا افضل ہے اگرچہ اس کا کچھ حصہ پڑھ لینے سے بھی نماز ہو جاتی ہے ۔ حدیث میں ہے :
أَعْطُوا كُلَّ سُورَةٍ حَظَّهَا مِنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"ہر سورۃ کو رکوع و سجود (یعنی نماز) میں سے اس کا حصہ دو"
(مسند احمد مسند البصریین حدیث من سمع النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 1934)
دوسری حدیث میں ہے :
لِكُلِّ سُورَةٍ رَكْعَةٌ
"ہر ایک سورت ایک رکعت کے لیے ہے "
(شرح معانی الآثار للطحاری کتاب الصلاۃ باب جمع السور فی الرکعۃ)
یعنی ہر رکعت میں ایک مکمل سورت پڑھو تا کہ اس کے ذریعے اس رکعت کا حصہ پورا ہو جائے ۔
لیکن یہ حکم صرف استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک ہی سورت دو رکعتوں میں مکمل کی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ جو سورت پہلی رکعت میں پڑھی دوسری رکعت میں بھی اسی کی تلاوت فرمائی جبکہ ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنا بھی ثابت ہے ۔
اس سلسلے میں ایک انصاری صحابی کا واقعہ ملتا ہے جو مسجد قباء میں جماعت کروایا کرتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی دوسری سورت پڑھنے سے قبل "قل ھو اللہ احد" یعنی سورۃ الاخلاص پڑھا کرتے تھے ۔ ان کے ساتھیوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "کیا آپ کے خیال میں صرف اس (سورۃ الاخلاص) کی تلاوت کافی نہیں کہ آپ اسے پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت ملانا ضروری سمجھتے ہیں؟ اسی کو پڑھا کریں یا پھر اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھ لیا کریں۔ " انہوں نے کہا "میں تو اس کو نہیں چھوڑ سکتا، تمہیں اسی حالت میں میری امامت اگرپسند ہے تو ٹھیک ورنہ میں امامت چھوڑ دیتا ہوں"۔ مقتدی انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کی امامت انہیں ناپسند تھی۔ لہٰذا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے اس صحابی سے دریافت فرمایا:
يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
"اے فلاں! تم اپنے ساتھیوں کی بات کیوں نہیں تسلیم کرتے اور کیوں ہر رکعت میں اس سورت کو لازمی پڑھتے ہو"؟
انہوں نے عرض کیا:
"مجھے اس (سورت) سے محبت ہے "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ
" اس (سورت) سے تیری محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی"
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ۔ ۔ ۔ ۔ )