• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کا درست طریقہ - عبد اللہ حیدر

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز کا درست طریقہ

عبد اللہ حیدر​
فہرست
قبلہ....
قبلے کی طرف منہ کرنے کی فرضیت.....
سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں.....
فرض نماز سواری پر جائز نہیں.....
شدید خوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے...
قبلہ کی حدود.
قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا.
قبلے کی مختصر تاریخ..
حوالہ جات...

نماز کی نیت کا بیان..
نیت کب کی جائے...
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے...
تکبیر تحریمہ اور قیام کے مسائل...
تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے...
امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں.....
تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں...
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنے کا حکم...
ہاتھ کیسے باندھے جائیں...
حوالہ جات...

سترے کے مسائل...
سترے کی اہمیت اور وجوب...
کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے...
نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا..
سترے کی غیر موجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں..
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت....
حوالہ جات...

دعائے استفتاح کا بیاں..
پہلی دعا.
دوسری دعا.
تیسری دعا.
چوتھی دعا.
پانچویں دعا.
چھٹی دعا.
ساتویں دعا.
آٹھویں دعا.
نویں دعا.
دسویں دعا.

قیام کے مسائل...
فرض نماز میں قیام کی فرضیت.....
نفل نمازبیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے...
مریض کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت...
کشتی اور ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز کیسے پڑھی جائے...
دورانِ قیام ٹیک لگانا.
رات کے نوافل میں کیسے قیام کیا جائے...

قرأت کا بیان..
قرأت کا مسنون طریقہ...
سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اور بطور رکن نماز میں اس کی اہمیت.....
آمین بالجہر...
سورۃ فاتحہ کے بعد قرأت کا بیان..

قرأت سے متعلق کچھ مزید سنتوں کا بیان..
ہم معنی سورتوں کو اکٹھا پڑھنا...
ترتیب مصحف کا خیال رکھنا افضل ہے ، ضروری نہیں.....
لمبے قیام کی فضیلت.......
آیات کا جواب دینا..
کیا صرف سورۃ فاتحہ پر اقتصار کرنا جائز ہے ؟.
سری اور جہری قرأت کن نمازوں میں کرنی چاہیے....
صحابہ کوسری قرأت کا علم کیسے ہوتا تھا..
رات کے نوافل (تہجد) میں قرأت کیسے کی جائے...
تہجد وغیرہ میں سری اور جہری میں کونسا طریقہ افضل ہے...
دن کے نوافل میں قرأت کیسے ہو..
حوالہ جات...

سورتوں کی تفصیل جنہیں مختلف نمازوں میں پڑھا جائے...
نماز فجر میں مسنون قرأت...
حوالہ جات...
نماز فجر کی سنتوں میں قرأت...
حوالہ جات...
نماز ظہر و عصر میں قرأت کیسے کی جائے...
حوالہ جات...
مغرب کی نماز میں مسنون قرأت...
حوالہ جات...
عشاء کی نماز میں قرأت...
حوالہ جات...

نماز کی حرکات...
مسئلہ رفع الیدین..
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قبلہ

قبلے کی طرف منہ کرنے کی فرضیت
قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے ۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر 1
''جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے ) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ''

سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں
البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کر لینا جائز ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کر نفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔ 2
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے ۔ 3
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
''تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے ''۔
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے ۔ ( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز کے آغاز میں ''اللہ اکبر'' کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے ، اس کے بعد اپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4 پھر سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے 5۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے ۔

فرض نماز سواری پر جائز نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر ادا فرماتے تھے اس لیے فرض نماز سواری پر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

شدید خوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے
دشمن کی کثرت یا شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے ، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئے پڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔ بلکہ سخت لڑائی میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے 6فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس7
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے ''

قبلہ کی حدود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ 8
''مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے ''
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اسے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس کی جانب ہی کرنا چاہیے لیکن دور کے رہنے والوں کے لیے فقط درست سمت کا التزام ہی کافی ہے ۔

قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی رفاقت میں تھے ۔ آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعد الگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے ہمیں نماز لوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
'' تمہاری نماز ہو گئی''9

قبلے کی مختصر تاریخ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
''(اے محمد) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے ۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو''
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے ۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔ 10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے ۔


حوالہ جات
صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
2۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
3صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
4سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
5سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی الدابۃ فی الطین و المطر، تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
6صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
7سنن البیہقی جلد 3 ص 255
8سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
9سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
10صحیح البخاری کتاب الصلاۃ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز کی نیت کا بیان

نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا فرمان ہے :
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1)
"اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی"

نیت کب کی جائے
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ''روضۃ الطالبین'' میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے ۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلاً یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یا نفل نماز ہے وغیرہ"۔ 1

زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے ۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلاً ''نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے ، منہ طرف کعبہ شریف'' وغیرہ ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے ۔ البتہ انہوں نے اس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلاف کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیا ہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سے منع کرتے ہوئے ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے :
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 157
"اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے "

تکبیر تحریمہ اور قیام کے مسائل
نماز شروع کرنے کے لیے نمازی اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک یا کانوں کی لو تک بلند کر کے ''اللہ اکبر'' کہے ۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے یعنی اسے کہے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔

تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اپنی نماز کا آغاز "اللہ اکبر"2 کہہ کر فرمایا کرتے تھے ۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
إِنَّهُ لا تَتِمُّ صَلاةٌ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ مَوَاضِعَهُ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر4399)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کرنے کے بعد "اللہ اکبر" نہ کہہ لے "
جمہور علماء کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نماز کا آغاز ''اللہ اکبر'' کے سوا دوسرے الفاظ (جیسے ''الرحمٰن اکبر وغیرہ )سے نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری حدیث میں ہے :
مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فرض الوضوء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 139)
"طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے ، اور تکبیر تحریمہ کہنا نماز کی حُرمت ہے (یعنی اس سے نماز کی حرمت کا آغاز ہو جاتا ہے اور وہ تمام کام حرام ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے نماز میں منع فرمایا ہے ) اور ( پھر نماز کے آخر پر)سلام کہنے سے حلال ہوتے ہیں"۔
یعنی جس طرح کسی عمارت میں داخلے کے لیے راستے میں حائل دروازہ کھولنا پڑتا ہے اسی طرح ناپاکی انسان اور نماز کے درمیان حائل ہوتی ہے جسے ختم کیے بغیر نماز کا آغاز نہیں کیا جا سکتا اور وضو اور طہارت وہ کنجی ہے جن کے ذریعے نمازی ناپاکی کے اس دروازے کو کھول کر نماز کا آغاز کر سکتا ہے ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں منع کیے گئے کاموں اس وقت تک ممنوع ہی رہتے ہیں جب تک نمازی سلام نہ پھیر دے ، جمہور کا مذہب یہی ہے ۔

امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم جب جماعت کرواتے تو تکبیر تحریمہ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے تا کہ پیچھے موجود تمام نمازیوں تک آواز پہنچ جائے 3۔ جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم بیمار ہوتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے تکبیر کہتے تا کہ لوگوں کو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی تکبیر کی خبر ہو جائے 4۔ امام اور مقتدی دونوں کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إذا قال الإمام : الله أكبر فقولوا : الله أكبر (احمد و البیہقی بسند صحیح، مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)
"جب امام "اللہ اکبر"کہے تو تم بھی "اللہ اکبر"کہا کرو"۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی بیماری، نمازیوں کی کثرت یا کسی دوسرے عذر کی موجودگی میں موذن یا کسی دوسرے مقتدی کے لیے امام کے پیچھے پیچھے بلند آواز میں تکبیرات کہنا جائز ہے تا کہ تمام لوگوں تک آواز پہنچ سکے اوراس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر بلند کرنے والا شخص امام کی تکبیر ختم ہونے کے فوراً بعد اپنی تکبیر شروع کرے ۔ البتہ اکیلے نماز پڑھنے والا شخص اپنی تکبیرات آہستہ ہی کہے گا۔
تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں
تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک5 اور بعض دفعہ کانوں (کی لو) تک بلند کرنا سنت ہے 6۔ البتہ ایسا کرتے وقت کانوں کو چھونا سنت سے ثابت نہیں ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کبھی تو تکبیر تحریمہ کہنے کے ساتھ ہی ہاتھوں کو بلند فرما لیا کرتے تھے 7 اور کبھی کبھار پہلے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر تکبیر کہتے اور کبھی تکبیر کہنے کے فوراً بعد ہاتھ اٹھاتے تھے 8 لہذاکسی ایک سنت پر عامل ہونے کی بجائے ان تینوں طریقوں کو اپنی نمازوں میں ادل بدل کر اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب حدیث سے ثابت ہیں۔
ہاتھ اٹھاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ہاتھوں کی انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے تھے یعنی ان کے درمیان جان بوجھ کر فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی ان کو ملاتے تھے بلکہ اپنی اصل حالت میں چھوڑ دیتے تھے 9۔

دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنے کا حکم
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے 10 یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے فرمان مبارک میں بتایا ہے :
إنا معشر الأنبياء أُمِرنَا أن نعجِّل إفطارنا و نؤخر سحورنا و نضع أيماننا على شمائلنا في الصلاة (صحیح الجامع الصغیر حدیث نمبر، 4050، صحیح ا بن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
"ہم انبیاء کی جماعت کو افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ (حکم بھی دیا گیا ہے کہ) کہ ہم نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیں"۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جو باہنے ہاتھ کو داہنے ہاتھ کے اوپر رکھ کر نماز ادا کر رہا تھا تو انہوں نے اس کے ہاتھ کو کھینچا اور دائیں کو بائیں کے اوپر کر کے رکھ دیا۔ 11
ہاتھ کیسے باندھے جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے 12 اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے 13 اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا14۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو تھام لیا کرتے تھے 15۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ افضل یہ ہے کہ کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے ۔
نماز میں پہلوؤں پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا 16 گیا ہے (کیونکہ) یہ صلیب پرستوں کا انداز ہے اور یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے ۔ 17


حوالہ جات
1۔ روضۃ الطالبین 1/224
2۔ صحیح مسلم بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ
3۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری، المستدرک کتاب الامامۃ و و صلاۃ الجماعۃ باب حدیث عبدالوہاب، امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
4۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب من أسمع الناس تکبیر الامام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام۔
5۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
6۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ،
7۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
8۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام حدیث مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ
9۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 753
10۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 727
11۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 755
12۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 759۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 479۔ مسند احمد بن حنبل مسند الانصار حدیث ھلب الطائی رضی اللہ۔
13۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 727
14۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث سھل بن سعد رضی اللہ عنہ، الموطا امام مالک کتاب النداء للصلاۃ باب وضع الیدین احداھما علی الاخریٰ فی الصلاۃ
15۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 2247 جلد 5 ص 246۔ صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1031۔
16۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی مختصرا۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 947
17۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی التخصر و الاقعاء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 903
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سترے کے مسائل

سترے کی اہمیت اور وجوب
نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے آگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگر کوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزر جائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔
سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنیٰ نہیں فرمایا ہے جیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَداً يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ
(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)
''تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے ، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے ''
سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔ زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)
''جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے ، تو اس کے قریب ہو جائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے ) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے ''

کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے 3 اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے 4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے 5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8 اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے ) دوسری جانب کون گزر رہا ہے ''
اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے ۔ سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریباً ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے ، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نے توجہ منتشر ہونے کے ڈر سے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے ۔

نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا
نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کے ساتھ روکنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے ۔ نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے ) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے ''؟ فرمایا:
لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)
(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے )
''نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرے سامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے ۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے ) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے 11''
دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع) ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے ) سے (بچنے ) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دے اور پوری قوت سے اسے ہٹائے ۔ ( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے ) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے ''
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْراً لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )
''اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے ''

سترے کی غیر موجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں
اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ (مسلم و ابو داؤد)
''اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا ''سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے ''
اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے ۔
امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے ، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سے گزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ (اصل صفۃ صلاۃ ص 135)

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا فرمان ذی شان ہے :
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا (مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)
''قبروں کی طرف منہ کر کے نماز مت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو''


حوالہ جات
1۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ۔ صحیح سنن نسائی حدیث 749، ابن سعد (1/253)، و ھو مخرج فی ''الارواء'' (543)
2۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب قدر کم ینبغی ان یکون بین المصلی و السترۃ، و رواہ مسلم ایضاً
3۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الاسطوانۃ، مسلم، بیہقی، احمد۔
4۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الصلاۃ الی الحربۃ یوم العید، مسلم، ابن ماجہ
5۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی، احمد
6۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 348۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرانض الغنم و اعطان الابل
7۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الراحلۃ و البعیر و الشجر و الرحل، مسلم و ابن خزیمہ (92/2) و احمد
8۔ مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ و من مسند علی ابن ابی طالب
9۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی السریر
10۔ صحیح ابن خزیمہ جلد دوم ص 20 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت (باب بَابُ النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ.)
11۔ مسند احمد کی روایت میں اس آخری جملے کا اضافہ ہے ۔ دیکھیے مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
دعائے استفتاح کا بیاں

تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد جب نمازی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے تو دعائے استفتاح پڑھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اس موقع پر مختلف دعائیں پڑھتے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد، پاکیزگی اور تعریف بیان فرماتے ۔ دعائے استفتاح پڑھنا ضروری ہے کیونکہ نماز ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا:
لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 857)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کر کے تکبیر تحریمہ نہ کہے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور بڑائی بیان نہ کرے اور جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتا ہے وہ نہ پڑھ لے "
درج ذیل دعاؤں میں سے کوئی بھی دعااس موقع پر پڑھی جا سکتی ہے ۔ ان میں سے بعض دعاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نفل نمازوں میں پڑھا کرتے تھے ۔ انہیں فرض نماز میں پڑھنا بھی اگرچہ جائز ہے لیکن امام کو جماعت کرواتے وقت لمبی دعائیں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے تا کہ مقتدیوں پر مشقت نہ ہو۔

پہلی دعا
أَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ أَللّٰهُمَّ نَقِّنِيْ مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ أَللّٰهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر، صحیح مسلم کتاب المساجد باب ما یقال بین تکبیرۃ الاحرام و القراءۃ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر1039، ارواء الغلیل حدیث8۔ متن میں مذکور الفاظ سنن نسائی کے ہیں)
"اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری ڈال دے جیسے تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے ۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح پاک کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے ۔ اے اللہ! میری خطائیں (اپنی مغفرت کے )پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اس دعا کو فرض نمازوں میں پڑھا کرتے تھے ۔

دوسری دعا
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفاً مُسْلِماً وََّمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ۔ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ۔ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت۔ سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ۔ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ۔ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعاً إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ۔ وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ۔ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ۔ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ۔ ۔ وَالْمَهْدِيُّ مَنْ هَدَيْتَ۔ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ۔ لَا مَنْجَا وَلَا مَلْجَأ مَنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ۔ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ۔ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان، مستخرج ابی عوانۃ، السنن الکبریٰ للنسائی۔ یہاں تمام روایات کے الفاظ جمع کرکے بیان کیے گئے ہیں)
"میں نے یکسو اور فرمانبردار ہو کر اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔ اللہ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں۔ تو پاک اور حمد کے لائق ہے ۔ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں (یعنی تیرے سوا میں کسی کی عبادت نہیں کرتا)۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، تو میرے سارے گناہ معاف فرما دے ۔ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو معاف کر سکے ۔ مجھے اچھے اخلاق کی توفیق عطا فرما، تیرے سوا کوئی بھی اس کی توفیق نہیں دے سکتا۔ اور مجھ سے برے اخلاق کو دور رکھ، تیرے سوا ان کو دور رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔ اللہ! میں (تیرے دربار میں) حاضر ہوں تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں۔ اور شرکی نسبت تیری طرف نہیں کی جا سکتی۔ جسے تو ہدایت عطا فرما دے حقیقت میں وہی ہدایت یافتہ ہے ۔ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیری طرف ہی میرا لوٹنا ہے ۔ تجھ سے بھاگ کر نجات پانے اور پناہ ڈھونڈنے کی کوئی جگہ سوائے تیرے ہی پاس ہونے کے کہیں اور کوئی نہیں ہے ۔ تیری ذات بابرکت اور بلند و بالا ہے ۔ میں تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں"

تیسری دعا
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 776)
"اے اللہ! تو پاک ہے ،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے ۔ اور تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إن أحب الكلام إلى الله أن يقول العبد سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2598۔ سنن النسائی)
"اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کہے سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك

چوتھی دعا
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيراً۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيراً۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيراً
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775)
"اے اللہ! تو پاک ہے ،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے ۔ اور تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے ، اللہ کے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے ، اللہ کے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے ، اللہ کے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے ۔ اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا"۔
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم یہ دعا رات کی نفلی نماز میں پڑھتے تھے ۔

پانچویں دعا
اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيراً وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيراً وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاً
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اللہ سب سے بڑا ہے ۔ بہت بڑا۔ اس کے لیے حمد و شکر ہے بہت زیادہ۔ وہ (ہر عیب سے ) پاک ہے ۔ صبح و شام ہم اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں"
ایک صحابی نے ان کلمات سے نماز کا آغاز کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
عَجِبْتُ لَهَا فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اِن الفاظ کو (اللہ کی طرف سے اتنا )پسند کیا گیا کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے "

چھٹی دعا
الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْداً كَثِيراً طَيِّباً مُبَارَكاً فِيهِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"تمام تعریف اور حمد اللہ کے لیے ہے ، بکثرت ، پاکیزہ اور برکت دی گئی (حمد اور تعریف)۔
ایک صحابی نے ان کلمات کے ساتھ اپنی نماز کا آغاز کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكاً يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا جو اس کوشش میں تھے کہ کون پہلے ان الفاظ کو اوپر (اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جانے کے لیے ) اُٹھاتا ہے "۔

ساتویں دعا
أَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ حَقٌّ وَقَوْلُكَ حَقٌّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ أَنْتَ رَبُّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيْرُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهٖ مِنِّيْ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ أَنْتَ إِلٰهِیْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ و ھو الذی خلق السماوات والارض، صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ، ابو عوانہ، ابو داؤد، وابن نضر، وا لدارمی۔ یہاں امام البانی نے ان تمام روایات میں مذکور الفاظ کو جمع کر دیا ہے )
"اے اللہ! حمد وشکر تیرے ہی لیے ہے ۔ تو نور ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔ حمد و شکرتیرے لیے ہے تو قائم رکھنے والا ہے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کو بھی۔ اور حمد و شکر تیرے ہی لیے ہے ، تو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔ اور تیرے لیے حمد و شکر ہے ، تیری ذات برحق ہے ، تیرا وعدہ سچا ہے ، تیری باتیں حق ہیں، (قیامت کے دن) تیری ملاقات حق ہے ، جنت اور جہنم برحق ہیں، انبیاء برحق تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) برحق (سچے نبی)ہیں، قیامت (کا آنا) برحق ہے ۔ اے اللہ! میں نے خود کو تیرا مطیع کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر توکل کیا، تیری ہی طرف میں رجوع کرتا ہوں، تیری ہی مدد سے میں جھگڑا کرتا ہوں اور تیرے ہی فیصلے کا طلبگار رہتا ہوں۔ پس تو میرے اگلے ،پچھلے ، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے ۔ تو ہی اول ہے تو ہی آخر ہے ، تو ہی میرا معبود ہے ، تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی طاقت (عطا کرنا بھی) تیرے سوا کسی کے بس میں نہیں"۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم یہ دعا رات کے نوافل میں پڑھا کرتے تھے ۔

آٹھویں دعا
اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ)
"اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ! پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ حق کے بارے میں جو اختلاف کیا گیا ہے اس میں مجھے اپنے حُکم سے (درست بات کی) ہدایت عطا فرما، بے شک تو جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے "۔

نویں دعا
بعض دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم رات کی نفل نماز میں تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد دس دفعہ اللہ اکبر، دس دفعہ الحمدللہ، دس دفعہ سبحان اللہ، دس دفعہ لا الٰہ الا اللہ اور دس دفعہ استغفراللہ کہتے پھر دس دفعہ ہی یہ دعا فرماتے :
أَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ وَعَافِنِيْ
"اللہ! میری مغفرت فرما دے ، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق اور عافیت عطا فرما"
پھر دس مرتبہ یہ دعا فرماتے تھے :
أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الضِّيْقِ يَوْمَ الْحِسَابِ
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1356، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبۃ)
"اللہ! میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں قیامت کے دن کی تنگی سے "

دسویں دعا
رات کی نفلی نماز شروع کرنے کا ایک اور طریقہ جو سنت مطہرہ سے ملتا ہے یہ ہے کہ تین دفعہ اَللہُ أَ کْبَر کہ کر درج ذیل دعا پڑھی جائی:
ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 874، و رواہ الطیالسی ایضا)
"(اللہ) بادشاہت، غلبہ، کبریائی اور عظمت کا مالک (ہے )"۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قیام کے مسائل

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (44)
''(اے نبی) ہم نے آپ کی طرف (یہ) ذکر (یعنی قرآن) نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس چیز کو واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے اور تاکہ وہ غور کریں''
اس آیت سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو احادیث رسول کو ''بولی کارپوریشن آف اسلام'' کہہ کر ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے ذمے محض پیغام رسانی ہی نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کلام کا شارح بنا کر بھیجا تھا۔ اس بات کو نماز کے ایک اہم رکن ''قیام'' کی مثال سے سمجھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کس طرح تشریح اور عملی تفسیر بیان فرمائی۔ قرآن مجید میں قیام کرنے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے :
وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (البقرۃ238 )
''اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو''۔
پورے قرآن مجید میں اس اجمال کی کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ قیام کس طرح کرنا ہے ، رکوع و سجدے سے پہلے کرنا ہے یا بعد میں، اور کیا اس کی فرضیت تمام نمازوں کے لیے ہے وغیرہ۔ ان جیسے مسائل کے لیے بہرحال حدیث رسول کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے ذیل میں اہم مسائل کا تذکرہ صحیح احادیث کی روشنی میں کیا جاتا ہے ۔
فرض نماز میں قیام کی فرضیت
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَاناً فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرۃ 238،239)
''سب نمازوں کی حفاظت کرو اور (خاص طور پر) بیچ والی نماز کی1۔ اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو۔ پھر اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار جس حال میں ہو (نماز پڑھ لو)۔ پھر جب امن ہو جائے تو اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جس طریقے سے اس نے تمہیں سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے ''
علماء نے اس آیت کی روشنی میں فرض نماز میں قیام کے لازمی ہونے پر امت کا اجماع نقل کیا ہے ۔ فرض نماز پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی یا منفرد (یعنی اکیلے نماز پڑھنے والا) کسی کے لیے بھی عذر کے بغیر فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ البتہ اگر امام کسی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے پر قادر نہ ہو تو مقتدی بھی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے ۔ فرمان رسول ہے :
وَإِذَا صَلَّى قَائِماً فَصَلُّوا قِيَاماً وَإِذَا صَلَّى جَالِساً فَصَلُّوا جُلُوساً أَجْمَعُونَ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیوتم بہ)
"جب (امام) کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ (کسی عذر کی بنا پر) بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی (اس کے پیچھے ) بیٹھ کر نماز ادا کرو''
اس آیت مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سخت لڑائی یا شدید خوف وغیرہ کے موقع پر قیام کرنا ممکن نہ ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر بیٹھ کر یا جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے ۔ اس کا ذکر پیچھے استقبال قبلہ کے ذیل میں گزر چکا ہے ۔
نفل نمازبیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے
فرائض کے برعکس نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جا سکتے ہیں چاہے کوئی عذر موجود نہ ہو لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے سے آدھا اجر ملتا ہے ۔ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:
مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِداً حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا۔ ۔ ۔ )
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو وفات سے ایک سال پہلے تک رات کے نوافل بیٹھ کر ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا''
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے عمر مبارک کے آخری سال بیٹھ کر نوافل ادا فرمائے ہیں اس لیے نفل نماز طاقت رکھنے کے باوجود بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔ امام نوویؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس کے جواز پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے ۔ نوافل میں قیام کے ضروری نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم دورانِ سفرقیام کیے بغیرسواری پر تشریف فرما ہوتے ہوئے نوافل پڑھ لیا کرتے تھے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ینزل للمکتوبۃ، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر۔ ۔ )
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم رات کے نوافل اور وتر سواری پر بیٹھ کر ادا کر لیتے تھے چاہے اس کا رخ کسی بھی طرف ہوتا، البتہ فرض نماز اس پر بیٹھ کر نہیں پڑھتے تھے ''
مریض کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت
مریض کھڑا ہونے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے مرض الموت میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِداً (سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء اذا صلی الامام قاعدا فصلوا قعودا، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 362)
''نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے (مرض الموت میں) ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی''
ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آیا تھا جب مرض کی تکلیف کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے ، اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے ۔ نماز ختم ہونے کے بعد فرمایا :
إِنْ كِدْتُمْ آنِفاً لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِماً فَصَلُّوا قِيَاماً وَإِنْ صَلَّى قَاعِداً فَصَلُّوا قُعُوداً(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام)
''تم فارسیوں اور رومیوں جیسا کام کرنے کے قریب تھے ، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ تم اس طرح مت کرو۔ اپنے امام کی اقتدا کرو ، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو''
اسی بارے میں ایک اور حدیث عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی تکلیف تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے دریافت کیا (کیا مجھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہے ؟) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا :
صَلِّ قَائِماً فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِداً فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب)
''کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر نماز ادا کر سکتے ہو''
دوسری روایت میں ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ''میں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے '' تو فرمایا
مَنْ صَلَّى قَائِماً فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِداً فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِماً فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1231)
'' جس نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو وہ افضل ہے ، اور جس نے بیٹھ کر ادا کی اسے قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا، اور جس نے لیٹے ہوئے نماز پڑھی اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے نصف اجر ہے ''۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم گھر سے نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ مرض کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کر رہے ہیں۔ تو فرمایا :
صَلَاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1230)
''بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا''
بیٹھ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مریض زمین پر سجدہ کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کوئی اونچی چیز سامنے رکھ کر اس پر سجدہ کرنا ٹھیک نہیں بلکہ ایسی صورت میں سر کے اشارے سے رکوع و سجود کرنے چاہئیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز ادا کر رہا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اسے اٹھا کر پرے کر دیا۔ پھر اس نے لکڑی کے تختے پر نماز ادا کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اسے بھی پرے کر دیا۔ اور فرمایا :
صل على الارض ان استطعت والا فاوم ايماء واجعل سجودك اخفض من ركوعك
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 323، السنن الکبریٰ للبیہقی جلد2 ص 306)
''اگر طاقت ہو تو زمین پر نماز ادا کرو، ورنہ اشارے سے ادا کرو اور سجدہ کرتے وقت (سر کو) رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لو''
کشتی اور ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز کیسے پڑھی جائے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے کشتی میں نماز ادا کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا:
صَلِّ فيها قائماً إلا أن تخاف الغرق
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 3777، صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر 7225، سنن الدار القطنی کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ فی السفر و الجمع بین الصلاتین)
''اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ، سوائے اس کے کہ تجھے غرق ہونے کا ڈر ہو''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قیام کر سکتا ہو اس کے لیے کشتی یا ہوائی جہاز وغیرہ میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا درست نہیں ہے ۔
دورانِ قیام ٹیک لگانا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی عمر مبارک جب زیادہ ہو گئی تو انہوں نے نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون رکھ لیا تھاجس پر نماز پڑھتے وقت ٹیک لگا لیا کرتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یعتمد فی الصلاۃ علی عصا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 948 )
اسوہ حسنہ کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بوڑھے ، کمزور یا مریض آدمی کے لیے عصا یا دیوار وغیرہ کا سہارا لے کر نوافل پڑھنا جائز ہے ۔
رات کے نوافل میں کیسے قیام کیا جائے
اوپر ذکر گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم حیات مبارکہ کے آخری سال میں رات کے نوافل بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر دونوں طرح سے پڑھتے تھے ۔ ایسے میں اگر کھڑے ہو کر قرأت فرماتے تو قیام سے رکوع کی حالت میں جاتے ۔ اور جب بیٹھ کر قرأت کرتے تو رکوع بھی بیٹھے ہوئے ہی کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا و فعل بعض الرکعۃ قائما و بعضھا۔ ۔ )
لیکن یہ مستقل معمول نہ تھا بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بیٹھ کر نماز ادا فرماتے ، پھر جب قرأت سے تیس یا چالیس کے قریب آیات باقی ہوتیں تو کھڑے ہو کر ان کی تلاوت فرماتے پھر رکوع اور سجدے میں چلے جاتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے ۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا و فعل بعض الرکعۃ قائما و بعضھا۔ ۔ ۔ )۔ لہٰذا نمازی کو اختیار ہے کہ اپنی سہولت کے مطابق دونوں میں سے جس طریقے کو چاہے اختیار کر لے ۔
بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے لیے چوکڑی مار کر بیٹھنا مستحب ہے ۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم يصلي متربعاً
(سنن النسائی الصغریٰ کتاب قیام اللیل و تطوع النھار باب کیف صلاۃ القاعد، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1661)
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو چوکڑی کی حالت میں نماز پڑھتے دیکھا''۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قرأت کا بیان

دعائے استفتاح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرماتے تھے ۔ اسے تعوذ کہتے ہیں اور اس کی دعا یہ ہے :
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وَهَمْزِهِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء۔ ارواء الغلیل جلد 2 ص 53۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 273)
اسے اس طرح پڑھا بھی ثابت ہے :
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رای الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک)
اس کے بعد آہستہ آواز کے ساتھ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھنی چاہیے ۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر)

قرأت کا مسنون طریقہ
تعوذ اور بسملہ (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سورۃ الفاتحۃ کی تلاوت فرماتے تھے ۔ تلاوت کا سنت طریقہ یہ ہے کہ قرأت کرتے وقت ہر آیت پر وقف کیا جائے ۔ مثال کے طور پر سورۃ الفاتحۃ پڑھتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھ کر وقف کرتے ، پھر الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ پڑھ کر ٹھہر جاتے ۔ پھر الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پڑھتے اور ٹھہر جاتے ۔ پھرمَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ پڑھتے اور اس پر وقف فرماتے تھے اور اسی طرح ایک ایک آیت پر رک کر سورت پوری کرتے تھے ۔ یہ معمول صرف سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے لیے ہی نہ تھا بلکہ دوسری سورتوں کی تلاوت کرتے وقت بھی یہی طریقہ ہوتا تھا کہ آیت کے اختتام پر وقف کرتے اور اسے اگلی آیت سے نہیں ملاتے تھے ۔
(سنن الترمذی کتاب القراءات باب فی فاتحۃ الکتاب۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2927)
آج کل اکثر قاری اور امام مسجد اس سنت سے ناواقف یا لا پرواہ ہیں بلکہ سامعین بھی اسی قاری کو پسند کرتے ہیں‌جو گلا پھلا کر ایک ہی سانس میں متعدد آیات پڑھ سکتا ہو۔

سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اور بطور رکن نماز میں اس کی اہمیت
سورۃ الفاتحہ قرآن مجید کی عظیم الشان سورتوں میں سے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی ہے ۔
عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃ للامام و الماموم فی الصلوات کلھا فی الحضر، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ)
''اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے (اس میں) فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی''
ایک اور حدیث میں اس سورت کی اہمیت یوں بیان ہوئی ہے :
لاَ تُجْزِئُ صَلاَةٌ لاَ يَقْرَأُ الرَّجُلُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ أم الکتاب فی الصلاۃ و خلف الأمام، ارواء الغلیل جلد 2 ص 10)
"وہ نماز درست نہیں ہوتی جس میں آدمی فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے "
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثاً غَيْرُ تَمَامٍ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
''جس نے أم القرآن ( یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھے بغیر نماز ادا کی تو وہ (نماز) ناقص ہے ، ناقص ہے ، ناقص ہے ، نا مکمل ہے ''
اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز کو "خداج" کہا گیا ہے جس کا مطلب ناقص اور خراب ہے ۔ یہ لفظ اونٹنی کے اس بچے کے لیے مستعمل ہے جو قبل از وقت ناتمام اور خراب حالت میں پیدا ہو جائے ۔ اس سے بعض علماء کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز ہو تو جاتی ہے لیکن نامکمل رہتی ہے ۔ لیکن اوپر صحیح البخاری اور سنن دار قطنی کی جو حدیثیں بیان کی گئی ہیں ان کی روشنی یہ موقف درست معلوم نہیں ہوتا اس لیے کہ ان میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں۔ خود اسی حدیث کے آخر میں ایسی نماز کو نامکمل کہا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب نماز مکمل ہی نہ ہو گی تو درست کیسے ہو سکتی ہے ۔ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا موقف بھی سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت کا ہے ۔
نماز میں اس کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے ایک فرمان میں اسے "الصلاۃ" یعنی نماز کے نام سے ذکر فرمایا ہے ۔
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمِدَنِي عَبْدِي يَقُولُ { الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ { مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ } يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ { إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ } يَقُولُ اللَّهُ هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ { اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ }يَقُولُ اللَّهُ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 779۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب القراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ فرماتاہے "میں نے نماز (یعنی سورۃ الفاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے ۔ پس اس کا نصف حصہ میرا ہے اور نصف میرے بندے کا ہے ۔ اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا۔ "
(پھربات جاری رکھتے ہوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
"(سورۃ فاتحہ) پڑھو، جب بندہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ عز و جل فرماتا ہے " میرے بندے نے میری حمد بیان کی"
(بندہ) کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری ثنا بیان کی"۔
بندہ کہتا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ عز و جل فرماتا ہے "میرے بندے نے میری عظمت بیان کی"
بندہ کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اللہ فرماتا ہے "یہ (حصہ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے ملے گا"
بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو اللہ فرماتا ہے "یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ ملے گا جس کا اس نے سوال کیا"۔
قرآن مجید میں سورۃ الفاتحہ کی فضیلت اس آیت میں بیان ہوئی ہے ۔
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (سورۃ الحجر آیت 87)
(اے نبی!) ہم نے آپ کو السبع المثانی اور قرآنِ عظیم عطا کیا"
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي
(سنن ترمذی کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ الحجر صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 3125)
"اللہ تعالیٰ نے أم القرآن (یعنی سورۃ فاتحہ) جیسی ( عظیم الشان سورت) نہ تورات میں اتاری اورنہ انجیل میں۔ یہی السبع المثانی (بار بار دہرائے جانے والی آیات ) ہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ
(صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ و لقد آتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم)
"یہی السبع المثانی (بار بار دہرائی جانے والی آیات) اور قرآنِ عظیم ہے جو مجھے دیا گیا"
(سورۃ الفاتحہ کو "السبع المثانی" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سات آیات ہیں جنہیں نماز کی ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے جبکہ قرآنِ عظیم کا نام بھی اس کی اہمیت اور فضیلت کے بیان کے لیے دیا گیا ہے ورنہ قرآن مجید کی ہر شئے ہی عظیم ہے ۔ جیسے کعبہ کو تعظیماً بیت اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ تمام مساجد اللہ کا گھر یعنی بیوت اللہ ہیں)
ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا قُمْتَ فَتَوَجَّهْتَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر حدیث نمبر804 ، 805)
"جب تو (نماز کے لیے ) کھڑا ہو تو قبلے کی طرف منہ کر کے تکبیر (تحریمہ) کہہ، پھر(دعائے استفتاح کے بعد) أم القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ) پڑھ"
لیکن اگر کسی کو سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورت یاد نہ ہو تو اسے جلد از جلد انہیں سیکھنا اور یاد کرنا چاہیے ، تب تک ان کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل پر مشتمل یہ کلمات نماز میں پڑھ سکتا ہے ۔
سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ
(صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ ، صحیح و ضعیف سنن نسائی حدیث نمبر 1068، ارواء الغلیل 303)
انہیں پڑھنے کی اجازت اس حدیث میں بھی دی گئی ہے :
فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ بِهِ وَإِلَّا فَاحْمَدْ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 807)
"اگر تجھے قرآن میں سے کچھ یاد ہو تو اسے پڑھ، ورنہ اللہ کی تحمید، کبریائی اور تہلیل بیان کر"
اہلِ سنت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر نماز میں سورۃ فاتحہ کی اہمیت کے قائل ہیں۔ فقہاء کا اصل اختلاف امام کے پیچھے اسے پڑھنے کے مسئلے پر ہے جس کا ذکر آئندہ آئے گا ان شاء اللہ۔
امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ ائمہ اور فقہاء میں مختلف فیہ چلا آتا ہے ۔ اس بارے میں فقہاء کے تین گروہ ہیں:
1۔ امام مکحول، امام اوزاعی، امام شافعی اور امام ابو ثور رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے سری اور جہری تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی۔ دور حاضر میں الشیخ بن باز سمیت کچھ عرب علماء نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔
2۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اصحاب الرائے سری یا جہری کسی بھی نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔
3۔ امام زہری، امام مالک، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر امام بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہو تو مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور سری نمازوں (یعنی جن میں امام آہستہ آواز میں پڑھتا ہے جیسے ظہر اور عصر وغیرہ) میں پڑھنی چاہیے ۔ دور حاضر کے مشہور محدث الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اصل صفۃ صلاۃ النبی" میں اس کے حق میں بہترین دلائل دیے ہیں جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی اس کی موافقت میں ہے اور دلائل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی موقف درست،قرین انصاف اور اعتدال والا ہے یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ابتداء میں جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۃ پڑھ لینے کی اجازت دی تھی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔ ان دونوں واقعات کو امام ابو داؤد سمیت کئی محدثین نے روایت کیا ہے ۔ پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک دن فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے لیے قرأت کرنا مشکل ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا:
لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ
"شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟"
انہوں نے عرض کیا:
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی ایسا کر لیتے ہیں"
فرمایا:
لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
"تم ایسا مت کرو، سوائے اس کے کہ تم میں سے کوئی فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرے ، کیوں کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز نہیں ہوئی"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ بفاتحۃ الکتاب، امام البانی نے کثرت طرق کی بناء پر اسے حسن کہا، دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ جلد1 ص 331، اور مشکاۃ المصابیح تلخیص الالبانی حدیث نمبر854)
بعد ازاں یہ اجازت واپس لے لی گئی اور امام کے بلند آواز میں پڑھنے کی صورت میں مقتدیوں کو قرأت سے بالکل منع فرما دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی فجر کی نماز کے بعد پیش آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے اور صحابہ سے دریافت فرمایا:
هَلْ قَرَأَ مَعِيَ أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفاً
"کیا تم میں سے کوئی ابھی میرے ساتھ ساتھ پڑھتا رہا ہے ؟"
ایک شخص نے عرض کیا :
"جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میں (پڑھتا رہا ہوں)"
فرمایا:
إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ
"میں بھی خیال کر رہا تھا کہ قرآن پڑھنے میں مجھے کیا چیز پریشان کر رہی ہے "
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات سننے کے بعد صحابہ کرام جہری نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے ساتھ قرأت کرنے سے رک گئے اور جن نمازوں میں امام بلند آواز سے قرأت نہیں کرتا ان میں آہستہ آواز سے پڑھا کرتے تھے ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من کرہ القراءۃ بفاتحۃ الکتاب اذا جہر الامام، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 781)
خاموشی کے ساتھ امام کی قرأت سننا درحقیقت اس کی امامت قبول کرنے کا تقاضا اور اقتداء کی تکمیل کا مظہر ہے ، جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے :
إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 918۔ ارواء الغلیل جلد 2 ص 120)
"امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو خاموش رہو"
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کی اہمیت والی جو احادیث پیچھے بیان کی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی نماز درست نہیں اور اس حدیث میں خاموشی سے امام کی قرأت سننے کا کہا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کی قرأت مقتدیوں کے لیے کافی ہوتی ہے ،امام سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو مقتدیوں کو خود سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب اذا قرأ لامام فأنصتوا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 850 )
"جس کا امام (نماز پڑھا رہا ) ہو تو امام کی قرأت ہی اس (مقتدی) کی قرأت (کے لیے کافی) ہے ۔
غیرمناسب نہ ہو گا اگر یہ بات بھی بیان کر دی جائے کہ اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف احادیث کی تطبیق، تضعیف اور ناسخ و منسوخ کا اختلاف ہے اس میں "انکارِ حدیث" کا کوئی دخل نہیں ہے ۔
جن نمازوں میں امام آہستہ آواز سے تلاوت کرتا ہے انہیں سِرّی نمازیں کہا جاتا ہے جیسے ظہر اور عصر کی نماز۔ ان میں امام کے پیچھے آہستہ آواز میں قرأت کرنی چاہیے ۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَفِي الْأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب القراءۃ خلف الامام، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 915، ارواء الغلیل جلد 2 ص 28
"ہم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت اور آخری دورکعت میں (صرف) سورۃ الفاتحہ پڑھا کرتے تھے "
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے سری نمازوں میں آواز بلند کرنے کو ناپسند فرمایا ہے ۔ ایک دن ظہر کی نماز میں کسی شخص نے "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى یعنی سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھنی شروع کر دی۔ سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا:
أَيُّكُمْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى؟
"تم میں سے کس نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى پڑھی ہے ؟"
اس آدمی نے کہا: "میں نے (پڑھی ہے ) اور اس سے میرا ارادہ خیر کے سوا کچھ نہ تھا"
- تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
قَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رَجُلا خَالَجَنِيهَا
"مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے لیے (میری قرأت میں) پریشانی کا سبب بن رہا ہے "
(المعجم الکبیر للطبرانی، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب نھی المأموم عن جھر بالقراءۃ خلف امامہ)
دوسری روایت میں ہے کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے پیچھے بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے تو ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
خَلَطْتُمْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ
(مسند احمد مسند المکثرین من الصحابۃ مسند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، بخاری فی جزء القراءۃ)
"تم نے مجھ پر قرآن خلط ملط کر دیا "
آہستہ آواز سے قرأت کرنے کا حکم نہ صرف سری نمازوں کے لیے ہے بلکہ نوافل میں بآوازِ بلند قرأت کرنے سے دوسروں کو تکلیف ہو تو بھی آہستہ پڑھنا چاہیے ۔ ایسے ہی ایک واقعے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
إِنَّ الْمُصَلِّيَ يُنَاجِي رَبَّهُ فَلْيَنْظُرْ بِمَا يُنَاجِيهِ بِهِ وَلَا يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقُرْآنِ
(موطا امام مالک کتاب استقبال القبلۃ باب وجوب القراءۃ فی السریۃ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 1603)
"نمازی اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے تو اسے خیال کرنا چاہیے کہ اس سے کیا سرگوشی کر رہا ہے اور تم آپس میں ایک دوسرے پر بلند آواز سے قرآن مت پڑھو(تاکہ ساتھ کے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو)۔
قرآن مجید کی قرأت بڑے اجرو ثواب والا کام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفاً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ
(سنن ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فیمن قرأ حرفا من القرآن ما لہ من الأجر، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 2910)
"جس نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے ۔ میں نہیں کہتا کہ "الم" حرف ہے بلکہ الف حرف ہے اور لام حرف ہے اور میم حرف ہے "
ائمہ اور فقہاء میں سے امام زہری، امام مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ اجمعین اور محدثین کی ایک جماعت سری نماز میں امام کے پیچھے قرأت کرنے کی قائل ہے جبکہ احناف میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ سمیت کچھ دوسرے حنفی علماء بھی اسے درست کہا ہے ۔

آمین بالجہر
سورۃ الفاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین کہنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم جب سورۃ الفاتحہ کی قرأت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے تھے اور مقتدیوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا:
إِذَا قَالَ الإِمَامُ (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ) فَقُولُوا آمِينَ ، فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَقُولُ آمِينَ وَإِنَّ الإِمَامَ يَقُولُ آمِينَ ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(سنن الدارمی کتاب الصلاۃ باب فی فضل التامین، صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 1071۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب جھر الماموم بالتامین)
"جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ (اس وقت) فرشتے آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے ، تو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
اس یعنی مقتدی امام سے پہلے یا بعد میں آمین نہ کہے بلکہ اس کے ساتھ ہی کہے ۔ اکثر نمازی اس میں تقدیم یا تاخیر کرتے ہیں جو درست نہیں ہے ۔
اسی مضمون کی دوسری حدیث ہے :
إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ آمِينَ وَالْمَلَائِكَةُ فِي السَّمَاءِ آمِينَ فَوَافَقَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع والتحمد و التامین، صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل التامین)
"جب تم میں سے کوئی نماز میں آمین کہتا ہے اور (اس وقت) فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں۔ پھر (اگر) ان دونوں کی آمین میں موافقت ہو جائے تو اس (آمین کہنے والے ) کے پہلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے :
فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التشھد فی الصلاۃ)
"(جب امام سورۃ فاتحہ ختم کرے تو) تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا"
اللہ تعالیٰ نے اس امت کو آمین کے جو فضائل اور برکتیں عطا فرمائی ہیں یہود اس کی وجہ سے جلتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ
(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب الجھر بآمین، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 691)
"یہودی جس قدر سلام اور آمین کی وجہ سے تم پر حسد کرتے ہیں اتنا کسی دوسری چیز پر نہیں کرتے "

سورۃ فاتحہ کے بعد قرأت کا بیان
(نماز میں قرأت کی ترتیب یوں ہے کہ)سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عام طور پر لمبی قرأت فرماتے تھے لیکن کسی عذر جیسے سفر، کھانسی یا بیماری کے سبب سے مختصر تلاوت بھی فرمائی ہے ، علاوہ ازیں دورانِ نماز کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی تو قرأت مختصر کر کے رکوع میں چلے جاتے تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو کیونکہ اس وقت عورتیں بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے آیا کرتی تھیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن فجر کی نماز دو چھوٹی سورتیں پڑھ کر نہایت اختصار کے ساتھ پڑھائی۔ صحابہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ نے (آج)ہلکی نماز کیوں پڑھائی؟"
فرمایا:
سَمِعْتُ بُكَاءَ صَبِيٍّ فَظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّهُ مَعَنَا تُصَلِّي فَأَرَدْتُ أَنْ أُفْرِغَ لَهُ أُمَّهُ
"میں نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو خیال کیا کہ اس کی ماں ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہی ہو گی تو میں چاہا کہ اس کے لیے اس کی ماں کو جلد فارغ کر دوں"
(مسند احمدمسند انس بن مالک، )
دوسری حدیث میں ہے :
إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ
میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے طول دینا چاہتا ہوں، پھر کسی بچے کا رونا سن کر اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے سے اس کی ماں کتنی سخت غمگین ہوجاتی ہے "
(صحیح البخاری کتاب الاذن باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی)
ضمناً اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے ۔
چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کے بارے میں جو حدیث عام طور پر مشہور ہے کہ "بچوں کو مسجدسے دور رکھو" وہ بالاتفاق ضعیف ہے ۔ اسے ضعیف قرار دینے والوں میں امام ابن جوزی، امام منذری، امام ہیثمی، حافظ ابن حجر عسقلانی ، اور بوصیری شامل ہیں اور عبدالحق اشبیلی نے اسے بے اصل قرار دیا ہے ۔ لیکن افضل یہی ہے کہ انہیں مسجد میں نہ لایا جائے کیونکہ نہ تو انہیں حوائج ضروریہ پر قابو ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں مسجد ، نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے آداب کا کچھ پتہ ہوتا ہے ، اور وہ اپنی فطری حرکات کی بنا پر بسا أوقات مسجد میں ناپاکی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور نمازیوں اور عبادت کرنے والوں کے لیے پریشانی کا سبب بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا عام معمول یہ تھا کہ جب کوئی سورت شروع کرتے تو اسی رکعت میں اسے مکمل فرماتے تھے ۔ ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھنا اور ہر رکعت کو ایک سورت تک محدود رکھنا افضل ہے اگرچہ اس کا کچھ حصہ پڑھ لینے سے بھی نماز ہو جاتی ہے ۔ حدیث میں ہے :
أَعْطُوا كُلَّ سُورَةٍ حَظَّهَا مِنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"ہر سورۃ کو رکوع و سجود (یعنی نماز) میں سے اس کا حصہ دو"
(مسند احمد مسند البصریین حدیث من سمع النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 1934)
دوسری حدیث میں ہے :
لِكُلِّ سُورَةٍ رَكْعَةٌ
"ہر ایک سورت ایک رکعت کے لیے ہے "
(شرح معانی الآثار للطحاری کتاب الصلاۃ باب جمع السور فی الرکعۃ)
یعنی ہر رکعت میں ایک مکمل سورت پڑھو تا کہ اس کے ذریعے اس رکعت کا حصہ پورا ہو جائے ۔
لیکن یہ حکم صرف استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک ہی سورت دو رکعتوں میں مکمل کی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ جو سورت پہلی رکعت میں پڑھی دوسری رکعت میں بھی اسی کی تلاوت فرمائی جبکہ ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنا بھی ثابت ہے ۔
اس سلسلے میں ایک انصاری صحابی کا واقعہ ملتا ہے جو مسجد قباء میں جماعت کروایا کرتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی دوسری سورت پڑھنے سے قبل "قل ھو اللہ احد" یعنی سورۃ الاخلاص پڑھا کرتے تھے ۔ ان کے ساتھیوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "کیا آپ کے خیال میں صرف اس (سورۃ الاخلاص) کی تلاوت کافی نہیں کہ آپ اسے پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت ملانا ضروری سمجھتے ہیں؟ اسی کو پڑھا کریں یا پھر اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھ لیا کریں۔ " انہوں نے کہا "میں تو اس کو نہیں چھوڑ سکتا، تمہیں اسی حالت میں میری امامت اگرپسند ہے تو ٹھیک ورنہ میں امامت چھوڑ دیتا ہوں"۔ مقتدی انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کی امامت انہیں ناپسند تھی۔ لہٰذا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے اس صحابی سے دریافت فرمایا:
يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
"اے فلاں! تم اپنے ساتھیوں کی بات کیوں نہیں تسلیم کرتے اور کیوں ہر رکعت میں اس سورت کو لازمی پڑھتے ہو"؟
انہوں نے عرض کیا:
"مجھے اس (سورت) سے محبت ہے "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ
" اس (سورت) سے تیری محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی"
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ۔ ۔ ۔ ۔ )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قرأت سے متعلق کچھ مزید سنتوں کا بیان


ہم معنی سورتوں کو اکٹھا پڑھنا
سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کبھی کبھار نماز میں ان سورتوں کو ایک ہی رکعت میں پڑھا کرتے تھے جو معانی اور مضمون میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے "مفصل" سورتوں میں سے درج ذیل دو دو سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھیں۔ سورۃ ق یا اس سے اگلی سورۃ الحجرات سے لے کر سورۃ الناس تک کی سورتیں "مفصل" کہلاتی ہیں۔
{ الرَّحْمَن } (55 : 78 ) اور { النَّجْم } (53 : 62)
{ اقْتَرَبَتِ } (54 : 55) اور { الحَاقَّة } (69 : 52)
{ الطُّور } (52 : 49) اور { الذَّارِيَات } (51: 60)
{ إِذَا وَقَعَتِ } (56 : 96) اور { ن } (68 : 52)
{ سَأَلَ سَائِلٌ } (70 : 44) اور { النَّازِعَات } (79 : 46)
{ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ } (83 : 36) اور { عَبَسَ } (80 : 42)
{ المُدَّثِّر } (74 : 56) اور { المُزَّمِّل } (73 : 20)
{ هَلْ أَتَى } (76 : 31) اور { لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ القِيَامَةِ } (75 : 40)
{ عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ } (78 : 40) اور { المُرْسَلَات } (77 : 50)
{ الدُّخَان } (44 : 59) اور { إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ } (81 : 29)
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب ترتیل القراءۃ و اجتناب الھذ ، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب تخریب القرآن، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1262)

ترتیب مصحف کا خیال رکھنا افضل ہے ، ضروری نہیں
اس فہرست میں سورت کے نام کے بعد دائیں جانب سورت نمبر اور بائیں جانب اس سورت میں آیات کی تعداد لکھی گئی ہے جس پر غور کرنے سے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے انہیں مصحف میں موجود ترتیب کے مطابق نہیں پڑھا جس سے ترتیب کے خلاف پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے ، لیکن ترتیب کا خیال رکھنا افضل اور بہتر ہے ۔ اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے تہجد پڑھتے ہوئے سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران کو اسی ترتیب سے ایک ہی رکعت میں پڑھا تھا، یعنی سورۃ آل عمران کو سورۃ النساء کے بعد پڑھا جبکہ مصحف میں وہ سورۃ النساء سے پہلے آتی ہے ۔

لمبے قیام کی فضیلت
نماز میں لمبا قیام کرنا اور قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ قرأت کرنا افضل ہے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقِيَامِ
(شرح معانی الآثار کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی رکعتی الفجر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب افضل الصلاۃ طول القنوت)
"افضل نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے "

آیات کا جواب دینا
نماز میں کچھ آیات کا جواب دینا بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ۔ مثلاً:
جب سورۃ القیامۃ کی آخری آیت پڑھی جائے کہ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ المَوْتَى (تو کیا وہ (اللہ) اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے ؟" تو اس کے جواب میں کہا جائے "سبحانك فَبَلى
(السنن الکبریٰ للبیہقی، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 827)
سورۃ الاعلی میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى کے جواب میں سبحان ربي الأعلى پڑھنا چاہیے ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الدعاء فی الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر826)
اس حدیث کے الفاظ مطلق ہیں جب بھی یہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دینا چاہیے چاہے انہیں نماز میں پڑھا جائے یا نماز سے باہر، اور نماز خواہ نفلی ہو یا فرض۔ ابن ابی شیبہ نے ابو موسیٰ اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ وہ دونوں جب فرض نماز میں ان کی تلاوت کرتے تو جواب میں یہ کلمات کہتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ سے مطلقاً منقول ہے ۔

کیا صرف سورۃ فاتحہ پر اقتصار کرنا جائز ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھا کرتے تھے ۔ ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے بھی سورۃ الفاتحہ کے بعد قرآن میں سے جو آسان لگے اسے پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا لیکن اگر کوئی شخص صرف فاتحہ الکتاب پڑھ لے تو بھی اس کی نماز درست ہے اگرچہ اسے معمول بنا لینا صحیح نہیں ہے ۔ اس کی دلیل معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے واقعے میں ملتی ہے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتے ، پھر واپس (اپنے محلہ میں آ کر) اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے ۔ ایک دن انہوں نے واپس آ کر نماز پڑھانی شروع کی تو ان کے قبیلے بنی سلمہ کا سلیم نامی نوجوان بھی نماز میں شریک تھا۔ (معاذ رضی اللہ عنہ نے لمبی قرأت شروع کر دی) تو اس نے اکتا کر (جماعت چھوڑ دی اور) مسجد کے ایک کونے میں نماز ادا کی، پھر مسجد سے نکل کر اپنے اونٹ کی نکیل پکڑی اور چل دیا۔ جماعت ختم ہونے کے بعد معاذ رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا "اس شخص میں ضرور نفاق ہے ، میں اس کی حرکت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو آگاہ کروں گا"۔ (ادھر اس) نوجوان نے کہا "میں بھی ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو معاذ کی حرکت سے مطلع کروں گا"۔ صبح دونوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے ۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نوجوان کی شکایت کی تو اس نے (اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے ) کہا:
"اے اللہ کے رسول، یہ رات دیر گئے تک آپ کے پاس ٹھہرے رہتے ہیں، پھر وہاں سے واپس آ کر طویل قرأت شروع کر دیتے ہیں"
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے (معاذ رضی اللہ عنہ پر ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے ) کہا:
يَا مُعَاذُ أَفَتَّانٌ أَنْتَ
"اے معاذ کیا تو(لوگوں کو) فتنے میں مبتلا کرنے والا ہے ؟"
پھر نوجوان سے فرمایا:
كَيْفَ تَصْنَعُ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا صَلَّيْتَ
"بھتیجے ! جب تو نماز ادا کرتا ہے تو کیا (قرأت) کرتا ہے ؟"
اس نے کہا:
"میں فاتحۃ الکتاب پڑھتا ہوں اور (پھر نماز کے آخر میں تشہد اور نبی صلی اللہ و علی آلہ و سلم پر صلاۃ پڑھنے کے بعد) اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ اور معاذ (اس وقت ) آہستہ آواز میں کیا پڑھتے ہیں۔ "
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إِنِّي وَمُعَاذاً حَوْلَ هَاتَيْنِ أَوْ نَحْوَ هَذَا
’’میں اور معاذ انہی دو کے ارد گرد (بات کرتے ہیں) یا اسی طرح کی بات کرتے ہیں‘‘
(اس سے سورۃ فاتحہ پر اقتصار کا جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس صحابی کے صرف سورۃ فاتحہ پڑھنے پر خاموشی کا اظہار فرمایا اور انہیں سورت ملانے کا حکم نہیں دیا)
(ان دنوں دشمن کے حملے کی خبر گرم تھی اور صحابہ جنگ احد کی تیاری کر رہے تھے ) تو اس نوجوان نے کہا:
’’ جب دشمن آ پہنچے گا اور لوگوں کواس کے آنے کی خبر ہو جائے گی تو معاذ کو بھی معلوم ہو جائے گا (کہ میں منافق نہیں ہوں)۔
پھر (میدانِ اُحد میں)دشمن سے سامنا ہوا اور یہ نوجوان صحابی اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
مَا فَعَلَ خَصْمِي وَخَصْمُكَ ؟
’’مجھ سے اور تجھ سے جھگڑا کرنے والے نے کیا کیا‘‘؟
تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسول، اس نے اللہ کی تصدیق کی اور میں نے جھٹلایا، وہ تو شہید ہو گیا ہے ‘‘
حوالہ جات:
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی تخفیف الصلاۃ، صحیح سنن ابی داؤد ، 757، 758
صحیح ابن خزیمہ جلد سوم ص 65 المکتب الاسلامی بیروت،
سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما یقال بعد التشھد و الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم

سری اور جہری قرأت کن نمازوں میں کرنی چاہیے
سنت مطہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم (جماعت کرواتے ہوئے )نماز فجر کی دونوں رکعتوں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرأت فرماتے تھے جبکہ ظہر و عصر کی تمام رکعتوں، مغرب کی تیسری اور عشاء کی آخری دو رکعتوں میں سری قرأت کرنا سنت ہے ۔ اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے جیسا کہ امام نوویؒ نے بیان کیا ہے اور اس بارے میں کثرت سے احادیث بھی موجود ہیں جن کا بیان آگے مسنون(یعنی سنت کے مطابق) قرأت کے ذیل میں آئے گا ان شاء اللہ۔ نیز نمازِ جمعہ[1]، نماز عیدین[2]، نماز استسقاء[3] اور نماز کسوف[4]میں بلند آواز سے قرأت کرنا سنت ہے ۔

صحابہ کوسری قرأت کا علم کیسے ہوتا تھا
سری قرأت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی داڑھی مبارک ہلا کرتی تھی جس سے صحابہ کرام کو معلوم ہو جاتا کہ وہ قرأت فرما رہے ہیں[5]، جبکہ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم درمیان میں کوئی آیت بلند آواز سے پڑھ دیا کرتے جس سے سننے والے جان لیتے کہ وہ کون سی سورت پڑھ رہے ہیں[6]۔

رات کے نوافل (تہجد) میں قرأت کیسے کی جائے
رات کے نوافل (تہجد) میں نمازی کو اختیار ہے چاہے بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ آواز میں، دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں [7]، لیکن آواز اتنی بلند نہیں ہونی چاہیے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم رات کو اپنے گھر میں درمیانی آواز میں قرأت فرماتے تھے جسے حجرے میں موجود شخص ہی سن سکتا تھا[8]۔ (یہاں حجرہ سے مراد وہ دیوار یا آڑ ہے جو گھر کے دروازے کے سامنے بنائی جاتی ہے ، جیسا کہ گھر کی بیرونی چار دیواری)، لیکن کبھی کبھار معمول سے ہٹ کر اتنی بلند آواز میں بھی پڑھا ہے کہ حجرے سے باہر موجود افراد کو سنائی دے سکے [9]۔

تہجد وغیرہ میں سری اور جہری میں کونسا طریقہ افضل ہے
یہاںسوال پیدا ہوتا ہے کہ سری اور جہری میں افضل طریقہ کون سا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس آدمی کو ریاکاری اور دکھاوے کا اندیشہ ہواس کے لیے آہستہ آواز میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا ہے :
الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ
"قرآن کی جہری قرأت کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اعلانیہ صدقہ کرتا ہے اور پست آواز سے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ کرنے والے کی مانند ہے "
اور جب ریاکاری کا ڈر نہ ہو تو درمیانی آواز سے پڑھنا افضل ہے کیونکہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم گھر سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آہستہ آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ پر سے گزر ہوا تو انہیں بآواز بلند قرأت کرتے پایا۔ بعد میں جب وہ دونوں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يَا أَبَا بَكْرٍ مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي تَخْفِضُ صَوْتَكَ
"اے ابو بکر! میں (رات کو) آپ کے (گھر کے ) پاس سے گزرا تو (دیکھا کہ) آپ آہستہ آواز میں نماز پڑھ رہے ہیں"
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول!(اس کی وجہ یہ ہے کہ )میں جس (رب) سے سرگوشی کر رہا تھا وہ تو (ہلکی آواز بھی) سنتا ہے "۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:
مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تُصَلِّي رَافِعاً صَوْتَكَ
"میرا گزر جب آپ پر ہوا تو آپ نماز میں بلند آوا زسے قرأت کر رہے تھے "
انہوں نے جواب دیا:
"یا رسول اللہ! میرا ارادہ سوئے ہوئے کو جگانے اور شیطان کو بھگانے کا تھا"
اس پر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئاً
"اے ابوبکر، آپ اپنی آواز کچھ بلند کر لیا کریں"
اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئاً
"آپ اپنی آواز کچھ پست کیا کریں"
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی رفع الصوت بالقراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1329)

دن کے نوافل میں قرأت کیسے ہو
دن میں پڑھے جانے والے نوافل کے بارے میں صحیح سند کے ساتھ کچھ بھی مروی نہیں ہے لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سری قرأت کرنی چاہیے ۔ البتہ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ نفل پڑھتے ہوئے اونچی آواز میں قرأت کر رہے ہیں تو ان سے فرمایا :
يا عبد الله ! سمِّع الله ولا تُسْمِعنا
"اے عبداللہ! اللہ کو سنا ہمیں نہ سنا"


حوالہ جات
[1]۔ صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب ما یقرأ فی صلاۃ الجمعۃ
[2]۔ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ العیدین
[3]۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب کیف حول النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ظھرہ الی الناس
[4]۔ سنن ابن داؤد کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی صلاۃ الکسوف۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 118
[5]۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب رفع البصر الی الأمام فی الصلاۃ
[6]۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب
[7]۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی قراءۃ اللیل۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 449)
[8]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی رفع الصوت بالقراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1327)
[9]۔ سنن ابن ماجہ کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ اللیل، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1349)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورتوں کی تفصیل جنہیں مختلف نمازوں میں پڑھا جائے


احادیث صحیحہ میں کچھ ایسی سورتوں کا بیان ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے مختلف اوقات میں مختلف نمازوں میں پڑھا۔ ذیل میں ان کی تفصیل دی جا رہی ہے تا کہ جن لوگوں کو یہ سورتیں یاد ہیں وہ انہیں متعلقہ نمازوں میں پڑھیں اور جنہیں یاد نہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے طریقے پر عمل پیرا ہونے کی نیت سے انہیں سیکھنے کی کوشش کریں۔ واضح رہے کہ اس تحقیق کے پیچھے اتباع رسول کا جذبہ ہے ورنہ قرآن مجید کی کوئی بھی سورت نماز میں پڑھی جا سکتی ہے ۔

نماز فجر میں مسنون قرأت
نماز فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے درج ذیل سورتیں پڑھنا منقول ہے ۔ (مصحف میں تلاش کی آسانی کی خاطر نام کے بعد قوسین کے اندر سورت کا نمبر لکھ دیا گیا ہے )
1۔ طوال مفصل کی سورتیں[1]( چھبیسویں پارے میں سورۃ ق (50) سے آخر قرآن تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں)۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ان میں سے سورۃ الطور(52) کی تلاوت فرمائی تھی[2]۔ سورۃ الواقعہ (56) کو فجر کی دو رکعتوں میں[3] اور سورۃ ق (50) کو پہلی رکعت میں پڑھنا بھی ثابت ہے [4]۔
2۔ سورۃ التکویر (81) (اذا الشمس کورت)[5]
3۔ سورۃ الزلزال (99) (اذا زلزلت الأرض زلزالھا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ایک دفعہ دونوں رکعتوں میں یہی سورت پڑھی تھی۔ اس حدیث کے راوی صحابی کہتے ہیں "مجھے نہیں معلوم کہ (دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت) پڑھنا بھولنے کی وجہ سے تھا یا نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے عمداً ایسا کیا تھا"[6]۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مقصود دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنے کی مشروعیت اور جواز بتانا تھا۔
4۔ ایک سفر میں نماز فجر پڑھاتے وقت "قل اعوذ برب الفلق" اور "قل اعوذ برب الناس" یعنی سورۃ الفلق (113) اور سورۃ الناس (114) کی تلاوت فرمائی۔ ان دونوں سورتوں کو نماز میں پڑھنے کا حکم ایک دوسری حدیث میں بھی ملتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے عقبہ بن معاذ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا؛
" اقرأ في صلاتك المعوذتين
"اپنی نماز میں معوذتین پڑھا کرو[7]
فما تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بمثلهما
" ان جیسی کوئی (شئے ایسی) نہیں ہے جس کے ساتھ کسی پناہ لینے والے نے پناہ لی ہو"[8]
5۔ کبھی کبھار ان متوسط اور چھوٹی سورتوں کی بجائے ساٹھ آیات یا اس سے کچھ زیادہ کی قرأت بھی فرمائی ہے [9]۔ ( اس حدیث کے ایک راوی کا کہنا ہے کہ "میں نہیں جانتا اتنی قرأت دونوں رکعتوں میں ہوتی تھی یا ایک رکعت میں۔ )
6۔ سورۃ الروم (30)[10]، سورۃ یس (36) [11] ، سورۃ الصافات (37)[12] اور سورۃ المومنون (23)۔ سورۃ المومنون کی قرأت مکہ مکرمہ میں صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے فرمائی تھی، پھر اس سورت میں موسیٰ و ہارون علیہما السلام یا پھر عیسیٰ علیہ السلام (راوی کو شک ہے ) کے ذکر پر پہنچے تو کھانسی آ جانے کی وجہ سے رکوع میں چلے گئے [13]۔
8۔ جمعے کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں "الم ، تنزیل" یعنی سورۃ السجدۃ (32) اور دوسری رکعت میں "ھل اتی علی الانسان" یعنی سورۃ الدھر (76) کا پڑھنا مسنون ہے [14]۔ (لیکن ائمہ مساجد کو چاہیے کہ کبھی کبھار ان کی بجائے کوئی دوسری سورت پڑھا کریں تا کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس دن انہی سورتوں کو پڑھنا لازم ہے )
سنت مطہرہ کے عمومی قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے دوسری رکعت کوپہلی رکعت کی نسبت مختصر رکھنا چاہیے [15]۔

حوالہ جات
[1]۔ سنن نسائی الکبریٰ جلد 1 ص 338، صحیح و ضعیف سنن نسائی حدیث نمبر 982۔ حدیث حسن
[2]۔ سنن ابی داؤد کتاب المناسک باب الطواف واجب، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1882)
[3]۔ صحیح ابن خزیمہ جلد 1 ص 265 ناشر المکتب الاسلامی بیروت، مسند احمد مسند البصریین حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ
[4]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح
[5]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح
[6]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یعید سورۃ واحدۃ فی الرکعتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 816
[7]۔ ۔ مسند احمد مسند البصریین حدیث رجل رضی اللہ عنہ
[8]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی المعوذتین۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1462
[9]۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی صلاۃ الصبح۔ صحیح و ضعیف سنن ترمذی حدیث نمبر 306
[10]۔ رواہ البزار
[11]۔ المعجم الکبیر للطبرانی جلد 2 ص 361 حدیث 2019
[12]۔ مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
[13]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح
[14]۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ما یقرأ فی صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ
[15]۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب
نماز فجر کی سنتوں میں قرأت
نماز فجر کی سنتوں میں ہلکی قرأت کرنا منسون ہے ۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم صبح کی نماز کی دوسنتیں اتنی ہلکی پڑھتے تھے کہ میں سوچتی تھی کہ انہوں نے سورۃ الفاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں؟[1]۔ فجر کی سنتوں میں درج ذیل آیات اور سورتوں کا پڑھنا سنت سے ثابت ہے ۔
1۔ پہلی رکعت میں سورۃ البقرۃ کی آیت 136 اور دوسری رکعت میں سورۃ آل عمران کی آیت 64[2]۔ یہ دونوں آیات درج ذیل ہیں۔
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرۃ136)
قُلْ يَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوا إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران 64)
دوسری رکعت میں اس کی بجائے سورۃ آل عمران کی یہ آیت پڑھنا بھی مسنون ہے [3]:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران 52)
2۔ پہلی رکعت میں قل یایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ احد [4]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے انہیں فجرکی سنتوں میں پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ:
نِعْمَ السُّورَتَانِ هُمَا يُقْرَأُ بِهِمَا فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ
"دو بہترین سورتیں وہ ہیں جنہیں فجر کی دو رکعت (سنت) میں پڑھا جاتا ہے (یعنی) قل ھو اللہ احد اور قل یا ایھا الکافرون"[5]
ایک دفعہ کسی صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے سامنے فجر کی سنتوں کی پہلی رکعت میں قل یایھا الکافرون پڑھی تو فرمایا:
هَذَا عَبْدٌ آمَنَ بِرَبِّهِ
"یہ بندہ اپنے رب پر ایمان لایا"
پھر دوسری رکعت میں اس نے قل ھو اللہ احد پڑھی تو فرمایا:
هَذَا عَبْدٌ عَرَفَ رَبَّهُ
"اسے بندے نے اپنے رب کو پہچان لیا"[6]
یہ دونوں سورتیں ذیل میں دی جا رہی ہیں:

سورة الكافرون
بسم الله الرحمن الرحيم
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ (1) لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (2) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (3) وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ (4) وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (5) لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ
سورة الإخلاص
بسم الله الرحمن الرحيم
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ (4)

حوالہ جات
[1]۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر
[2]۔ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب استحباب رکعتی الفجر و الحث علیھما و تخفیفھما
[3]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رکعتی الفجر و فی تخفیفھما، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد 1260)
[4]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رکعتی الفجر و فی تخفیفھما، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد 1256)
[5]۔ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ 1150)
[6]۔ شرح معانی الآثار للطحاوی کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی رکعتی الفجر
نماز ظہر و عصر میں قرأت کیسے کی جائے
ظہر اور عصر کی نمازوں میں آہستہ آواز سے یعنی سری قرأت کرنی چاہیے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں دعائے استفتاح (سبحانک اللھم و بحمدک۔ ۔ ۔ )، تعوذ اور بسملہ کے بعد آہستہ آواز میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے ، پھر قرآن مجید کی کوئی سی دوسری سورت ملائی جائے اور اسے بھی آہستہ آواز ہی میں پڑھا جائے ۔ دوسری رکعت پہلی رکعت کے مثل ہے یعنی اس میں تعوذ، بسملہ، فاتحہ اور ملائی جانے والی سورت پڑھی جائے گی فرق صرف یہ ہے کہ اس میں دعائے استفتاح نہیں پڑھی جاتی[1]۔ تیسری اور چوتھی رکعت کا آغاز تعوذ اور بسملہ سے کرنے کے بعدنمازی کو اختیار ہے چاہے تو سورت الفاتحہ کے فوراً بعد رکوع میں چلا جائے [2] اور چاہے تو اس کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھ کر رکوع کر لے لیکن اگر وہ سورت ملانا چاہے تو اس کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آخری دو رکعتوں کو پہلی دونوں رکعتوں کی نسبت مختصر پڑھا جائے ، یعنی اگر پہلی رکعتوں میں تیس آیات کے بقدر تلاوت کی ہے تو آخری دونوں میں پندرہ آیات کے قریب کی جائے [3]۔ واضح رہے کہ آیات کو اس مقدار کے مطابق پڑھے جانے کو اتباع سنت کے جذبے سے دیکھا جانا چاہیے ورنہ قرآن مجید میں سے جو بھی اور جس قدر بھی آسان لگے اس کی تلاوت کی جا سکتی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ظہر و عصر میں عموماً سری قرأت فرماتے تھے لیکن کبھی کبھار بیچ میں کوئی آیت بلند آواز سے بھی پڑھ دیا کرتے تھے جس سے سننے والوں کو معلوم ہو جاتا کہ آپ کون سی سورت پڑھ رہے ہیں[4] نیز قرأت کرتے ہوئے آپ کی ریش مبارک ہلا کرتی تھی جس سے دیکھنے والے جان لیتے تھے کہ آپ قرأت فرما رہے ہیں[5]۔
ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ظہر کی نماز میں بعض دفعہ اتنا لمبا قیام فرمایا کرتے تھے کہ نماز شروع ہونے کے بعد کوئی شخص بقیع میں جا کر اپنی ضرورت پوری کر کے گھر میں آتا، پھر وضو کرنے کے بعد مسجد میں پہنچتا تو ابھی پہلی رکعت جاری ہوتی تھی [6]۔ نماز کو لمبا کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ نمازی پہلی رکعت جماعت کے ساتھ پا لیں [7]۔ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے اندازے کے مطابق ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام کی مقدار اتنی ہوتی تھی جس میں تیس آیات بشمول سورۃ الفاتحہ بقدر سورۃ السجدہ پڑھی جا سکیں اورآخری دونوں رکعتوں میں اس سے نصف یعنی پندرہ آیات پڑھنے کے بقدر قیام فرماتے تھے ۔ جبکہ عصر کی نماز ظہر سے مختصر ہوتی تھی جس کی پہلی دو رکعتوں میں پندرہ آیات اور آخری دو رکعتوں میں اس سے نصف کے بقدر قیام ہوتا تھا[8]۔
دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے درج ذیل سورتیں بھی ظہر یا عصر کی نماز میں پڑھی ہیں:
1۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى(سورت نمبر 87 کل آیات 17) اور هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الغَاشِيَةِ (سورت نمبر 88 کل آیات 26)[9]
2۔ السَّمَاءِ ذَاتِ البُرُوجِ (سورت نمبر 85 کل آیات 22) اور وا لسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (سورت نمبر 86 کل آیات 17) [10]
3۔ واللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (سورت نمبر 92 کل آیات 21) [11]، إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ(سورت نمبر 84 کل آیات 25) [12] اور ان جیسی دوسری سورتیں
سری نمازوں کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنی لازم ہے [13] اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ایک صحابی کو نماز کی پہلی رکعت پڑھنے کا طریقہ سکھاتے ہوئے اس میں قرآن (یعنی فاتحہ) پڑھنے کا حکم دیا اور پھر فرمایا:
ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا[14]
"پھر اپنی (باقی کی) تمام نماز میں بھی ایسا ہی کر"
دوسری روایت میں ہے :
ثُمَّ اصْنَعْ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ[15]
"پھر ہر رکعت میں ایسا ہی کر"
چنانچہ جن لوگوں نے آخری دو رکعت میں خاموش کھڑے رہنے یا تسبیح و تہلیل کو کافی قرار دیا ہے ان کی بات درست نہیں ہے ۔

حوالہ جات
[1]۔ صحیح بخاری کتاب الاذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب
[2]۔ صحیح بخاری کتاب الاذان باب یقرأ فی الأخریین بفاتحۃ الکتاب
[3]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر
[4]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب اذا أسمع الامام الآیۃ
[5]۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب من خافت القراءۃ فی الظھر و العصر
[6]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر
[7]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی القراءۃ فی الظھر، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث مبر 800
[8]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الظھر و العصر
[9]۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص 257۔ مطبوع المکتب الاسلامی بیروت حدیث نمبر 512
[10]۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب قدر القراءۃ فی صلاۃ الظھر و العصر، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 805
[11]۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب القراءۃ فی الصبح
[12]۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول ص 257۔ مطبوع المکتب الاسلامی بیروت حدیث نمبر 511
[13]۔ سورت فاتحہ پڑھنے کے مسئلے کا بیان پیچھے گزر چکا ہے ۔
[14]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب امر النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم الذی لایتم رکوعہ
[15]۔ مسند احمد مسند الکوفیین حدیث رفاعۃ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ
مغرب کی نماز میں مسنون قرأت
نماز مغرب میں بڑی سورتیں پڑھنے یا لمبی قرأت کرنے کوعموماً ناپسند کیا جاتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی حیات مبارکہ اور خلفائے راشدین کے زمانہ خلافت میں اس نماز میں چھوٹی اور بڑی سورتیں دونوں قسم کی سورتیں پڑھی جاتی تھیں۔ مختصر سورتیں پڑھنے کا التزام سب سے پہلے مروان بن الحکم نے اپنے دور حکومت میں شروع کیا تھا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس کے اس فعل کو خلاف سنت سمجھتے تھے اور اس پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا کرتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم مغرب کی نماز میں جو سورتیں پڑھا کرتے تھے ان کی کچھ تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے :[1]۔
1۔ قصار مفصل یعنی سورۃ البینہ سے سورۃ الناس تک کی سورتیں[2]۔ یہ تمام چھوٹی سورتیں ہیں، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ان میں سے کوئی سورت پڑھتے تو نماز جلدی ختم ہو جاتی تھی اور ابھی اتنی روشنی باقی ہوتی تھی کہ تیر انداز اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا[3]۔
2۔ ایک مرتبہ دورانِ سفر مغرب کی دوسری رکعت میں سورۃ والتین والزیتون (سورت نمبر 95 کل آیات 8 ) کی تلاوت فرمائی[4]۔
3۔ سورۃ محمد (سورت نمبر 47 کل آیات 38 )[5]
4۔ سورۃ الطور (سورت نمبر 52 کل آیات 49)[6]
5۔ سورۃ المرسلات (سورت نمبر 77 کل آیات 50)۔ یہ وہ سورت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے وفات سے قبل آخری نماز پڑھاتے ہوئے تلاوت فرمایا تھا[7]۔
6۔ ایک دفعہ سورۃ الاعراف کو دو رکعتوں میں پڑھا[8]۔
7۔ کبھی کبھار نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الانفال کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ [9]

حوالہ جات
[1]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب القراءۃ فی المغرب
[2]۔ صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 983
[3]۔ صحیح االبخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب وقت المغرب
[4]۔ مسند الطیالسی مسند البراء بن عازب رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 475
[5]۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 13399، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 477
[6]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجھر فی المغرب
[7]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب القراءۃ فی المغرب
[8]۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 812، سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب قدر القراءۃ فی المغرب
[9]۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 3795، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 787
عشاء کی نماز میں قرأت
عشاء کی نماز میں قرأت کے سلسلے میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا واقعہ بڑا سبق آموز ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ دور رسالت میں مسجد نبوی سے دور اپنے محلے میں امامت کروایا کرتے تھے ۔ ایک رات عشاء کی نماز میں انہوں نے سورۃ البقرۃ پڑھنی شروع کر دی جو قرآن مجید کی سب سے بڑی سورت ہے ۔ ان کی طویل قرأت سے تنگ آ کر ایک انصاری صحابی نے جماعت چھوڑی اور اپنی الگ نماز پڑھ کر گھر چلا گیا۔ نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں نے وقوعے سے آگاہ کیا تومعاذ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی حرکت کو سخت ناپسندکیا اور کہنے لگے "یہ شخص منافق ہے "۔ پھر دونوں فریق یہ معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی خدمت میں لے گئے ۔ دونوں کی بات سننے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ فَتَّاناً يَا مُعَاذُ إِذَا صَلَّيْتَ بِالنَّاسِ فَاقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ
(سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب من أم القوم فلیخفف، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ 986)
"اے معاذ! کیا تو (لمبی نماز پڑھا کر لوگوں کو) فتنے میں مبتلا کرنے والا بننا چاہتا ہے ؟ جب تولوگوں کو نماز پڑھائے تو (اس میں) والشمس وضحاھا، سبح اسم ربک الاعلیٰ، واللیل اذا یغشیٰ اور اقرأ باسم ربک (جیسی چھوٹی سورتیں) پڑھا کر"
اورفرمایا:
فَإِنَّهُ يُصَلِّي وَرَاءَكَ الْكَبِيرُ وَالضَّعِيفُ وَذُو الْحَاجَةِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب من شکا امامہ اذا طول)
"کیوں کہ تیرے پیچھے عمر رسیدہ، کمزور اور ضرورت مند (ہر قسم کے ) لوگ نماز پڑھتے ہیں"
اس واقعے میں ائمہ مساجد کے لیے اہم سبق پنہاں ہے کہ وہ لمبی لمبی نمازیں پڑھا کر لوگوں کو دین سے متنفر نہ کریں کیونکہ جماعت میں کمزور، مریض، بوڑھے اور کام کاج والے ہر قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو طویل قرأت برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے یا پھر اپنی معاشی و دنیاوی ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے فریضہ نماز سے جلدی عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین سے دوری، شیطانی وسوسوں یا دنیاوی مصروفیات میں حد سے زیادہ مشغولیت کی وجہ سے کچھ لوگوں کو چھوٹی سورتیں بھی طویل محسوس ہوتی ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ سے شدید محبت اور دین سے گہرا تمسک رکھنے والے لوگ عموماً طویل قرأت کو پسند کرتے ہیں، موخر الذکر کے نزدیک قرأت کی جو مقدار تھوڑی ہوتی ہے مقدم الذکر کے ہاں وہ طوالت کے زمرے میں آتی ہے تو کس کے فہم کو معیار مانا جائے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا عمل اور ان کی بتائی ہوئی مقدار اور حد اصل معیار ہے ، کسی کی ذاتی پسند یا ناپسند کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے ۔ مسنون مقدار اور حد کی مثال اوپر گزر چکی ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو سورۃ الشمس، سورۃ الاعلیٰ، سورۃ اللیل اور سورۃ العلق جیسی سورتیں پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ پس جس نے سنت کے مطابق نماز پڑھائی اس کی قرأت شرعی طور پر مختصرتصور کی جائے گی اور جس نے اس سے زیادہ کیا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے حکم کی مخالفت کی اور نمازیوں کے لیے ممکنہ فتنے کا سبب بنا۔
اس موقف کوان احادیث سے تقویت ملتی ہے جن میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز عشاء میں اوساط مفصل (آخری پارے کے شروع سے لے کر سورۃ والضحیٰ تک کی سورتیں) پڑھا کرتے تھے [1]، کچھ روایات میں اوساط مفصل کی جگہ"والشمس و ضحاھا" اور اس سے ملتی جلتی سورتیں" کے الفاظ ہیں[2] لیکن معنی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کیونکہ والشمس و ضحاھا وغیرہ اوساط مفصل میں داخل ہیں۔ ایک دفعہ سفر کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے پہلی رکعت میں سورۃ والتین و الزیتون[3] کی تلاوت فرمائی تھی جبکہ سورۃ الانشقاق کا نماز عشاء میں پڑھنا اور اس میں سجدے کی آیت پر سجدہ کرنا بھی ثابت ہے [4]۔

حوالہ جات
[1]۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔ صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 982
[2] صحیح و ضعیف سنن النسائی حدیث نمبر 983
[3]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجھر فی العشاء
[4]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجھر فی العشاء
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز کی حرکات


مسئلہ رفع الیدین
رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا سنت ہے ۔ اسے رفع الیدین کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت بکثرت اور تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ملتا ہے جنہیں صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے ۔ ہم پہلے اس بارے میں صحیح احادیث بیان کرتے ہیں، اس کے بعد فقہاء کے اختلاف کا سبب اور دوسرے ضروری امور کی وضاحت شامل کی جائے گی ان شاء اللہ۔
پہلی حدیث:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضاً
صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء،
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے ، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے "

دوسری حدیث:
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم صَنَعَ هَكَذَا
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام)
ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے ، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔

تیسری حدیث:
وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ
صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ بعد تکبیرۃ الاحرام)
’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی،۔ ۔ ۔ ۔ پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے "۔

چوتھی حدیث:
ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کے سامنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور ان سب نے اس بات کی تصدیق کی۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 730)

پانچویں حدیث:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَأتهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744)
’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے ، اور جب قرأت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے "

چھٹی حدیث:
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ
سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866)
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے "۔

ساتویں حدیث:
عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ
سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868
’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے "۔

آٹھویں حدیث:
عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.
سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609
’’ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے ، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے ، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے ۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کے د رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے "۔

نویں حدیث:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ وَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ
مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193
’’ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے "

دسویں حدیث:
عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه و سلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع
السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے "
یہ دس احادیث دس مختلف صحابہ نے روایت کی ہیں۔ ان میں دس ان صحابہ کو شامل کر لیا جائے جن کا ذکر ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے تو ان کی تعداد بیس ہو جاتی ہے ۔ پورے ذخیرہ احادیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے سوا کوئی ایسی چیز صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں ہے جو ان احادیث کے مخالف ہو۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
"کیا میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی نماز (جیسی نماز) نہ پڑھوں؟"
پھر انہوں نے نماز پڑھی اور پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ کہنے ) کے بعدپھر (باقی نماز میں) ہاتھ نہیں اٹھائے "
اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، طحاوی، بیہقی اور ابن حزم نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن اور امام ابن حزم صحیح کہتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے محدثین عبداللہ بن مبارک، دار قطنی اور امام ابن حبان و غیرھم نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ سند کے اعتبار سے اس میں کوئی طعن نہیں ہے ۔ اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں اور یہ روایت صحیح اور ثابت ہے ۔
فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اصل اختلاف یہ واقع ہوا ہے کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین میں افضل اور سنت کے قریب تر کون سا عمل ہے ۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہا اللہ رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں کیونکہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم عموماً اپنی نمازیں رفع الیدین کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ ابن عساکر کے بیان کے مطابق امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آخر میں رفع الیدین کرنے کو اختیار کر لیا تھا۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کو دلیل بناتے ہوئے رفع الیدین نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے ان ائمہ کے متبعین اور مقلدین کے درمیان طویل نزاع برپا ہوا ہے ۔ دونوں طرف سے اپنے امام اور مسلک کے حق میں دلائل پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ بنظر انصاف دیکھا جائے تو ائمہ ثلاثہ کا موقف قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ رفع الیدین تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ثابت ہے جس کا انکار جاہل یا متعصب آدمی ہی کر سکتا ہے چنانچہ احناف میں بھی ایسے علماء موجود رہے ہیں جو رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے ۔ ان میں سب سے مشہور نام عصام بن یوسف رحمہ اللہ کا ہے جو امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے ۔ البتہ متاخرین احناف کی جانب سے ایک عجیب و غریب دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رفع الیدین کا حکم منسوخ ہو چکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا آخری عمل ترک رفع الیدین کا تھا لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث باقی تمام صحابہ کی روایات کو منسوخ کر دیتی ہے ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے ۔ تمام مسالک کے علماء کے ہاں طے شدہ اصول ہے کہ دو متعارض احادیث میں تطبیق ممکن ہو تو ان میں سے کوئی بھی ناسخ یا منسوخ نہیں ہوتی۔ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین والی احادیث میں تطبیق یوں دی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے دونوں باتیں ٹھیک ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا عام معمول رفع الیدین کرنے کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والے بیسیوں صحابہ ہیں جبکہ نہ کرنے کی روایت صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
دوم: علماء و فقہاء کا اصول ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے ۔ یعنی اگر دو راویوں میں سے ایک کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے یہ کام کیا اور دوسرا کہے کہ نہیں کیا تو اس راوی کی بات پر عمل کیا جائے گا جس نے کام کرنے کا ذکر کیا ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ جب وہ کام سر انجام دیا گیا تو دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہو اور عدم اطلاع کی بنا پر نہ کرنے کو ٹھیک سمجھ بیٹھا ہو۔ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں تفصیل کے ساتھ اس اصول کی وضاحت کی ہے ۔ صحابہ کے اقوال کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے یعنی صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے تو ان کا قول نہ کرنے والی روایت پر مقدم ہو گا۔
نسخ کا دعویٰ اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ بعض خلفائے راشدین سمیت صحابہ کی کثیر تعداد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم دن میں پانچ مرتبہ سب کے سامنے ادا فرماتے تھے اس میں کوئی عمل منسوخ ہو جائے اور ایک صحابی کے سوا کسی دوسرے کو اس بات کا علم بھی نہ ہو سکے ؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی شخص رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتا تو کنکریاں مار کر اسے متوجہ کرتے تھے ۔ ابو الحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’جن لوگوں نے رفع الیدین کا منسوخ ہونا بیان کیا ہے ان کا قول بلا دلیل ہے ۔ اگر نسخ کا واقع ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ اس کے برعکس ہے جو وہ کہتے ہیں۔ کیونکہ مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے ساتھ عمر مبارک کے آخری دنوں میں نماز پڑھی تھی اور یہ دونوں صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے نماز میں رفع الیدین کیا تھا۔ پس ان کی روایتوں سے آخر تک رفع الیدین کرنے اور نسخ کے قول کے غلط ہونے کی دلیل ملتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن کرنے کی روایات زیادہ اور قوی تر ہیں"
علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (دار العلوم دیوبند) نے بھی "فیض الباری" میں رفع الیدین منسوخ ہونے کے قول کو غلط قرار دیا ہے ۔
لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی وجہ سے باقی تمام صحیح احادیث کو منسوخ کہہ دینا دلائل سے ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا فرض نہیں سنت ہے ۔ امام ابن حزم کہتے ہیں:
’’اگر یہ حدیث موجود نہ ہوتی تو جھکتے (یعنی رکوع میں جاتے ) وقت اور اٹھتے (یعنی رکوع سے کھڑے ہوتے ) وقت رفع الیدین کرنا ہر نمازی پر فرض قرار پاتا، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کیونکہ صحیح ہے اس لیے معلوم ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ باقی مواقع پر رفع الیدین کرنا فرض نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے "
یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے متاخرین احناف اور شافعیہ کے درمیان سخت اختلاف برپا ہوا ہے ۔ نوبت ایں جا رسید کہ فریقین نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی تک کہہ ڈالا۔ اس قسم کے خیالات نے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں بڑا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے ۔ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین میں بھی فروعی اختلافات موجود تھے لیکن ان میں سے کسی کے بارے میں نقل نہیں کیا گیا کہ اس نے اجتہادی مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے دوسروں کی اقتدا میں نماز پڑھنی چھوڑ دی ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اہل سنت کے چار مشہور مسالک (حنفی،شافعی، حنبلی، مالکی) میں بہت سے ایسے فقہی معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے جن میں ایک مسلک کے ہاں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دوسرے کے ہاں نہیں ٹوٹتا تو کیا وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا:
نَعَمْ تَجُوزُ صَلَاةُ بَعْضِهِمْ خَلْفَ بَعْضٍ كَمَا كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ لَهُمْ بِإِحْسَانِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ مَعَ تَنَازُعِهِمْ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الْمَذْكُورَةِ وَغَيْرِهَا . وَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ إنَّهُ لَا يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ وَمَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ فَهُوَ مُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُخَالِفٌ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَقَدْ كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ : مِنْهُمْ مَنْ يَقْرَأُ الْبَسْمَلَةَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْرَؤُهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَجْهَرُ بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَجْهَرُ بِهَا وَكَانَ مِنْهُمْ مَنْ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْنُتُ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَوَضَّأُ مِنْ أَكْلِ لَحْمِ الْإِبِلِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَتَوَضَّأُ مِنْ ذَلِكَ وَمَعَ هَذَا فَكَانَ بَعْضُهُمْ يُصَلِّي خَلْفَ بَعْضٍ : مِثْلَ مَا كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَالشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُمْ يُصَلُّونَ خَلْفَ أَئِمَّةِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ الْمَالِكِيَّةِ وَإِنْ كَانُوا لَا يَقْرَءُونَ الْبَسْمَلَةَ لَا سِرّاً وَلَا جَهْراً وَصَلَّى أَبُو يُوسُفَ خَلْفَ الرَّشِيدِ وَقَدْ احْتَجَمَ وَأَفْتَاهُ مَالِكٌ بِأَنَّهُ لَا يَتَوَضَّأُ فَصَلَّى خَلْفَهُ أَبُو يُوسُفَ وَلَمْ يُعِدْ . وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يَرَى الْوُضُوءَ مِنْ الْحِجَامَةِ وَالرُّعَافِ فَقِيلَ لَهُ : فَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ قَدْ خَرَجَ مِنْهُ الدَّمُ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . تُصَلِّي خَلْفَهُ ؟ فَقَالَ : كَيْفَ لَا أُصَلِّي خَلْفَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَمَالِكٍ
’’جی ہاں، ان کا ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ، صحابہ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اربعہ کے درمیان ان (فقہی) مسائل وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا تھا لیکن وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرتے تھے ۔ سلف میں سے کسی نے دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے ادا کرنے انکار نہیں کیا۔ جو شخص اس حقیقت کا انکار کرتا ہے وہ بدعتی اور گمراہ ہے اور سلف اور ائمہ کے اجماع کی مخالفت کرنے والا ہے ۔ صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد آنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو (نماز میں سورت فاتحہ) سے قبل بسم اللہ پڑھتے تھے اور ایسے بھی تھے جو نہیں پڑھتے تھے ، بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے والے بھی تھے اور آہستہ آواز میں پڑھنے والے بھی۔ فجر کی نماز میں (ہمیشہ) قنوت کرنے والے بھی تھے اور نہ کرنے والے بھی تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے اور وہ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھا کر وضو نہیں دہراتے تھے ۔ یہ ساری باتیں ہوتی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے ۔ مثلاً امام ابوحنیفہ، ان کے ساتھی اور امام شافعی وغیرہ اہل مدینہ کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے جو مالکی مسلک کے پیروکار تھے اور (سورت فاتحہ سے قبل) بسم اللہ بالکل بھی نہیں پڑھتے تھے (جبکہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے ائمہ کے نزدیک پڑھنی چاہیے )۔ ایک دفعہ امام ابو یوسف نے ہارون الرشید کے پیچھے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس نے پچھنے لگوائے تھے اور امام مالک کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے نیا وضو نہیں کیا، (امام ابو یوسف اس عمل سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے لیکن انہوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی اور) بعد میں بھی نہیں دہرائی۔ امام احمد بھی پچھنے لگوانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے ، ان سے کسی نے پوچھا "اگر (مالکی) امام خون نکلنے کے بعد نیا وضو کیے بغیر نماز پڑھائے تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے (کیونکہ آپ کا کہنا ہے کہ اسے دوبارہ وضو کرنا ہو گا جبکہ امام مالک آپ کی بات تسلیم نہیں کرتے )؟ تو جواب میں انہوں نے کہا "(اختلاف اپنی جگہ لیکن ) یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں سعید بن المسیب اور مالک بن انس جیسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھوں"؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کے بعد مفصل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام کسی فقہی مسئلے میں مقتدی کے مسلک کی پیروی نہ کر رہا ہو تو مقتدی کی نماز اس لیے درست ہو گی کہ امام کی غلطی مقتدی کی نماز پر اثر نہیں ڈالتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
يُصَلُّونَ لَكُمْ فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ
’’صحیح البخاری کتاب الاذان باب اذا لم یتم الامام و اثم من خلفہ
’’وہ (یعنی امام) تمہارے لیے نماز پڑھاتے ہیں، پھر اگر وہ درست (طریقے پر عمل پیرا) رہیں تو (اس کا اجر) تمہارے لیے بھی ہے اور ان کے لیے بھی، اور اگر وہ خطا کریں تو تمہارے لیے (اجر) ہے اور (خطا کا وبال) ان پر ہے "۔
اور امام کی نماز اس لیے درست ہو گی کہ اس نے اپنے علم کے مطابق سنت کی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے چاہے وہ خود اجتہاد کرنے کی شکل میں ہو یا کسی دوسرے مجتہد کے اجتہاد پر عمل کرنے کی صورت میں۔

نا مکمل
 
Top