نکاح سے متعلق چند اہم مباحث
1 مسنون خطبہ ٔ نکاح:
شب عروسی میں مرد اور عورت کے اکٹھاہونے سے پہلے جبکہ دونوں کے صنفی جذبات میں شدید ہیجان اور طوفان بپا ہوتا ہے ۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کی خواہش نفس اور ہیجان انگیز جذبات کو دائرہ انسانیت میں رکھنے کے لئے ایجاب و قبول کے وقت ایک بہت ہی فصیح و بلیغ خطبہ دیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی ہے ، زندگی کے مسائل اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کی تعلیم بھی ، گزشتہ زندگی کے گناہوں پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کی ہدایت بھی ہے اور آنے والی زندگی میں اپنے نفس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کا سوال بھی کیا گیا ہے، اس پُر مغز خطبہ نکاح میں قرآن مجید کی تین آیات شامل کی گئی ہیں ۔ ان تینوں آیات میں چار مرتبہ تقویٰ کی زبردست تاکید کی گئی ہے۔( ملاحظہ ہو مسئلہ نمبر91)
شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ ایک ایسا لفظ ہے جس میں معانی کا ایک جہاں آباد ہے ۔ مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ خلوت کی زندگی ہو یاجلوت کی، چاردیواری کے اندر ہو یا باہر، دن کی روشنی ہو یا رات کی تاریکی، ہر وقت اور ہر آن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی برضاو رغبت اطاعت اور فرماں برداری کا نام ہے ، تقویٰ۔ اس موقع پر تقویٰ کی اس قدر تاکید کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی خوشی کے موقع پر بھی انسان کا دل ، دماغ ، اعضاء ، یعنی سارا جسم و جان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے حکم کے تابع رہنے چاہئیں، شیطانی اورحیوانی افکار و اعمال اس پر غالب نہیں آنے چاہئیں نیز آنے والی زندگی میں مرد کو عورت کے حقوق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے اور عورت کو مرد کے حقوق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔ مرد کو فطرت نے جو ذمہ داریاں سونپی ہیں وہ انہیں پورا کرے اور عورت کو فطرت نے جو ذمہ داریاں سونپی ہیں ، عورت انہیں پورا کرے اور دونوں میان بیوی اس معاملہ میں حدود اللہ سے تجاوز نہ کریں۔
خطبہ نکاح گویا پوری زندگی کا ایک دستور ہے جو نئے خاندان کی بنیاد رکھتے ہوئے ارکان خاندان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ خطبہ نکاح صرف دُلہا اور دُلہن کو ہی نہیں بلکہ تقریب ِ نکاح میں شریک سارے اہل ایمان کو مخاطب کرکے تقریب نکاح کو محض ایک عیش و طرب کی مجلس ہی نہیں رہنے دیتا بلکہ اسے ایک انتہائی پروقار اور سنجیدہ عبادت کا درجہ دے دیتا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ
اولاً : دولہا دُلہن سمیت حاضرین مجلس میں سے خطبہ نکاح کے مطالب و معانی کو سمجھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔
ثانیاً : نکاح خواں حضرات بھی مسرت کے ان جذباتی لمحات میں اس بات کی ضر ورت محسوس نہیں کرتے کہ ایک نئی اور پہلے کی نسبت زیادہ ذمہ دارانہ زندگی کا سفر شروع کرنے والے نوواردوں کو مستقبل کے نشیب و فراز سے گزر نے کا سلیقہ سکھلانے والے اس اہم خطبہ کی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نکاح خواں حضرات یا مجلس نکاح میں شامل کوئی بھی دوسرا عالم خطبہ نکاح کا ترجمہ کرکے اس کی مختصر تشریح اور وضاحت کردے ، باسعادت اور نیک روحیں خطبہ نکاح کے احکام میں سے بہت سی نصیحتیں عمر بھر کے لئے پلّے باندھ لیں گی جو ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کی ضمانت ثابت ہوں گی اور یوں مجلس نکاح کا انعقاد کسی رسم کی بجائے ایک بامقصد اور نفع بخش عمل بن جائے گا۔ ان شاء اللہ!
2 نکاح میں ولی کی رضامندی اور اجازت :
انعقاد نکاح کے لئے آج تک اسلامی اور مشرقی روایت بھی یہی رہی ہے کہ بیٹیوں کے نکاح باپوں کی موجودگی میں گھروں پر منعقد ہوتے دونوں خاندانوں کے بزرگ افراد کی موجودگی میں بیٹیاں نیک دعائوں اور تمنائوں کے ساتھ بڑی عزت اور احترام کے ساتھ گھروں سے رخصت ہوتیں اور والدین اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے کہ زندگی کا اہم ترین فریضہ ادا ہوگیا۔ والدین کے چہروں پر طمانیت ، عزت اور وقار کا ایک واضح تاثر موجود ہوتا لیکن جب سے مغرب کی حیا باختہ تہذیب نے ملک کے اندر پر پرزے نکالنے شروع کئے ہیں تب سے نکاح کا ایک اور طریقہ رائج ہونے لگا ہے۔ لڑکا اور لڑکی چوری چھپے معاشقہ کرتے ہیں ایک ساتھ مرنے جینے کا عہد ہوتا ہے ، والدین سے بغاوت کرکے فرار کا منصوبہ بنتا ہے اور ایک آدھ دن کہیں روپوش رہنے کے بعد اچانک لڑکا اور لڑکی عدالت میں پہنچ جاتے ہیں ، ایجاب و قبول ہوتا ہے اور عدالت اس فتوے کے ساتھ کہ ’’ولی کے بغیر نکاح جائز ہے۔‘‘ نکاح کی ڈگریاں عطا فرمادیتی ہے۔ والدین بے چارے ذلت اور رسوائی کا داغ دل پر لئے عمر بھر کے لئے منہ چھپائے پھرتے ہیں ۔ اس قسم کے عدالتی نکاح کو ’’کورٹ میرج‘‘ کہاجاتا ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف اسلامی تعلیمات بلکہ مشرقی روایات سے بھی سراسر بغاوت ہے جس کا مقصد فقط یہ ہے کہ ایسے نکاحوں کو اسلامی سند جواز مہیا ہوجائے تاکہ مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کو ملک کے اندر مسلط کرنے میں آسانی پیدا ہوجائے۔
نکاح کے وقت ولی کی موجودگی ، اس کی رضامندی اور اجازت کے بارے میں قرآن و حدیث کے احکام بڑے واضح ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں عورتوں کے نکاح کا حکم آیا ہے ، وہاں براہ راست عورتوں کو خطاب کرنے کی بجائے ان کے ولیوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’مسلمان عورتوں کے نکاح مشرکوں سے نہ کرویہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘Œ (سورہ بقرہ آیت نمبر221) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عورت از خود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ ان کے ولیوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں کے ساتھ نکاح نہ کریں ۔ ولی کی رضامندی اور اجازت کے بارے میں رسول اللہﷺکی چند احادیث بھی ملاحظہ ہوں ، ارشاد مبارک ہے :
1 ’’جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ (احمد ، ابودائود، ترمذی ، ابن ماجہ)
ابن ماجہ کی روایت کردہ ایک حدیث میں تو الفاظ اس قدر سخت ہیں کہ اللہ اور ا س کے رسول پر سچا ایمان رکھنے والی کوئی بھی مومنہ عورت ، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کا تصور تک نہیں کر سکتی۔ ارشاد مبارک ہے :
2 اپنا نکاح خود کرنے والی تو صرف زانیہ ہے۔‘‘
یہاں ضمنی طور پر دو باتیں قابل وضاحت ہیں ۔
اولاً : اگر کسی عورت کا ولی واقعی ظالم ہو اور وہ عورت کے مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہا ہو تو شرعاً ایسے ولی کی ولایت از خود ختم ہوجاتی ہے اور کوئی دوسرا اقرب رشتہ دار عورت کا ولی قرار پاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ پورے خاندان میں کوئی بھی خیرخواہ اور نیک آدمی ولی بننے کا مستحق نہ ہو تو پھر اس گائوں یا شہر کا نیک حاکم مجاز ولی بن کر عورت کا نکاح کرسکتا ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے :
’’جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کاولی حاکم ہے۔‘‘ (ترمذی)
ثانیاً : اسلام نے جہاں عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنے سے روک دیا ہے وہاں ولی کو بھی عورت کی مرضی کے بغیر نکاح کرنے سے روک دیا ہے۔
ایک کنواری لڑکی رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ’’اس کے باپ نے اس کا نکاح کردیا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے۔‘‘رسول اللہ ﷺنے اسے اختیار دیا کہ چاہے تو نکاح باقی رکھے چاہے تو ختم کردے۔ (ابودائود، نسائی ، ابن ماجہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح میں ولی اور عورت دونوں کی رضامندی لازم و ملزوم ہے۔ اگر کسی وجہ سے دونوں کی رائے میں اختلاف ہو تو ولی کو چاہئے کہ وہ عورت کو زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرکے اسے رائے بدلنے پر آمادہ کرے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر ولی کو عورت کا نکاح کسی ایسی جگہ کرناچاہئے جہاں لڑکی بھی راضی ہو۔
نکاح میں ولی اور عورت دونوں کی رضامندی کو لازم و ملزوم قرار دے کر شریعت اسلامیہ نے ایک ایسا متوازن اورمعتدل راستہ اختیار کیا ہے جس میں کسی بھی فریق کے نہ تو حقوق پامال ہوتے ہیں نہ ہی کسی فریق کا استحقار یا استخفاف پایا جاتا ہے۔
قرآن و حدیث کے ان احکام کے بعد آخر اس بات کی کتنی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ لڑکی اور لڑکا والدین سے بغاوت کریں۔ جوش ِ جوانی میں فرار ہو کر عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کی قربت سے لطف اندوز ہوتے رہیں اور پھر اچانک عدالت میں پہنچ کر نکاح کا ڈرامہ رچائیں اور قانونی میاں بیوی ہونے کا دعویٰ کریں؟ اگر ولی کے بغیر اسلام میں نکاح جائز ہے تو پھر اسلامی طرز معاشرت اور مغربی طرز معاشرت میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے؟ مغرب میں عورت کی یہی تو وہ ’’آزادی‘‘ہے جس کے تباہ کن نتائج پر خود مغرب کا سنجیدہ طبقہ پریشان اور مضطرب ہے۔ 1995ء میں امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن پاکستان کے دورے پر آئیں تو اسلام آباد کالج فار گرلز کی طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے بڑے حسرت آمیز لہجہ میں ان خیالات کا اظہار کیا کہ امریکہ میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاںبغیر شادی کے طالبات اور لڑکیاں حاملہ بن جاتی ہیں ۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ، خواہ عیسائی ہوں یا مسلم اپنے مذہب اور معاشرتی اقدار سے بغاوت نہ کریں بلکہ مذہبی و سماجی روایات اور اصولوں کے مطابق شادی کریںاور اپنے والدین کی عزت و آبرو اور سکون کو غارت نہ کریں۔
3 مساوات مرد و زن
مغرب میں مساوات مردوزن کا مطلب یہ ہے کہ عورت ہر جگہ مرد کے دوش بدوش کھڑی نظر آئے۔ دفتر ہو یا دکان ، فیکٹری ہو یا کارخانہ ، ہوٹل ہو یاکلب ، پارک ہو یا تفریح گاہ ، ناچ گھر ہو یا پلے گرائونڈ ، مساوات مردو زن یا آزادی نسواں یا حقوق نسواں کا یہ فلسفہ تراشنے کی اصل ضرورت عورت کو نہیں بلکہ مرد کو پیش آئی جس کے سامنے دو ہی مقصد تھے ۔
اولاً : صنعتی انقلاب کے لئے فیکٹریوں اور کارخانوں کی پیداوار میں اضافہ ۔
ثانیاً : جنسی لذت کا حصول۔
دوسرے لفظوں میں مغرب میں تحریک آزادی نسواں کا اصل محرک دو ہی چیزیں ہیں ’’شکم اور شرمگاہ۔‘‘امر واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے انسان کی ساری زندگی انہی دو چیزوں کے گرد گھوم رہی ہے ۔ اس فلسفہ حیات نے بنی نوع انسان کو کیا دیا ۔ اس پر ہم سیر حاصل بحث کر آئے ہیں۔ یہاں ہم ’’مساوات مردو زن‘‘ کے بارے میں اسلامی نظریہ حیات واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام نے مرداور عورت کی ذہنی اور جسمانی ساخت اور طبعی اوصاف کو پیش نظر رکھتے ہوئے دونوں کے الگ الگ حقوق اور فرائض مقررکئے ہیں۔ بعض امور میں دونوں کومساوری درجہ دیا گیا ہے، بعض میں کم او ربعض میں زیادہ۔