• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جناب من ابھی آپ اردو ادب کی رعنائیوں کی لذت سے ناآشنا ہیں۔جب آُ کو اس بحر عمیق سے
جب مالک الدار خواب کا مشاہدہ نہیں کرسکتا تو سند اس سے کیسے شروع ہوتی ہے ؟!
جواب ممتاز قادری والی مثال سے دیا جا چکا ہے غور کریں۔
خواب سنانے تک ہے ، آپ کا یہ دعوی پہلے کا مناقض ہے کہ سند مالک الدار سے شروع ہوتی ہے ۔
حضرت دیکھیں میں نے پہلے کہا تھا کہ میں اپنے بچوں سے بیان کروں کہ طاہر قادری کو خواب میں رسول اللہ کی زیارت ہوئی؟تومیں اس کا خواب دیکھا ہے؟ِکہ حالات کا مشاہدہ کیا ہے؟ظاہری بات جس بات کو اس بیان کیا میں نے اس کا مشاہدہ کیا۔
اسی طرح جس بات کو رجل مجہول نے بیان کیا مالک دار نے اس کو روایت کیا
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہ وضاحت آپ کی ہے ، اس کو روایت کے الفاظ سے ثابت کردیں تو آپ کی بات وزنی ہوگی ، ورنہ اپنی طرف سے قرائن اور قیاس کا مقابلہ ہمارا پہلے بھی ہوچکا ہے ۔
روایت کے کونسے الفاظ میری وضاحت کے خلاف ہیں؟؟
اگر آپ نے ’ کیونکہ ‘ کے سہارے بات کرنی ہے ، تو چھوڑیں سند کے چکر ، اپنی اپنی طبع آزمائی کرکے دیکھ لیتے ہیں ۔
اگر مگر کی بات نہیں یہ حقیقت ہے کہ وہ مالک دار خازن عمر تھے۔اور انہوں نے یہ واقعہ اپنے مشاہدے کا بیان کیا ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ دونوں باتیں مزید وضاحت کی محتاج ہیں ۔ ابو صالح عن مالک الدار پر انقطاع کا حکم لگانے کے لیے مزید واضح قول کی ضرورت ہے ۔ امام خلیلی کی بات ذرا مبہم ہے ۔
اس کی دیگر اسانید بھی ذکر کریں ، جن سے امام خلیلی کی بات کو تقویت ملتی ہو ۔
بات کچھ سمجھ نہیں آئی!
انقطاع کا ثبوت کیوں دینا ہوگا؟ ثبوت تو حدیث کو صحیح قرار دینے والے کو کم از کم ابو صالح اور مالک الدار کی ملاقات کے ممکن ہونے کا دینا ہو گا! اب وہ مالک الدار کی وفات اور ابو صالح کی پیدائش تلاش کرکے سن تمیز کی گنجائش رکھ کر بتلائے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حضرت دیکھیں میں نے پہلے کہا تھا کہ میں اپنے بچوں سے بیان کروں کہ طاہر قادری کو خواب میں رسول اللہ کی زیارت ہوئی؟تومیں اس کا خواب دیکھا ہے؟ِکہ حالات کا مشاہدہ کیا ہے؟ظاہری بات جس بات کو اس بیان کیا میں نے اس کا مشاہدہ کیا۔
اسی طرح جس بات کو رجل مجہول نے بیان کیا مالک دار نے اس کو روایت کیا
آپ کیا طاہر القادری کے پلنگ کے ساتھ گھڑے ہو کر اس کے خوابوں کا مشاہدہ کرتے ہو؟ نہیں بھائی، آپ نے طاہر القادری کے خواب کا بیان اس کی زبانی سنا، اور طاہر القادری نے اپنا خواب بیان کیا، اگر طاہر القادری خواب بیان کرنے میں جھوٹا ہے، تو آپ کے سچے ہونے سے طاہر القادری کا خواب سچا نہیں ہو جائے گا۔ فتدبر!
قادری بھائی! مالک الدار اس بات کے پہلے راوی ہیں کہ اس مجہول شخص نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کیا گفتگو کی، مگر اس مجہول شخص کا قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جانا، وہاں جا کر دعا کرنا، اور دعا میں کیا الفاظ کہنا، اور پھر نبي صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں آنا، اور خواب ميں کیا کہنا، یہ تمام امور اس مجہول شخص کی توثیق کے محتاج ہیں! کیونکہ وہ اپنے اس مبینہ عمل یعنی قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر دعا کرنے اور کن الفاظ میں دعا کرنے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب میں آنے اور خواب میں کہے گئے اور دیکھے گئے کا خود ہی روای ہے، فتدبر !!
سبحان اللہ حضرت آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ یہ بات نہیں پہنچیِ۔پھر جب اس کی سند صحیح ثابت ہو گءی تو بات۔ختم۔اور اگر یہ من گھڑت ہے تو مالک دار ثقہ کیسے؟
بھائی جان!یہاں سند میں دو جگہ انقطاع ہے، اس روایت کے من گھرت ہونے سے الزام ان پر جاتا ہے ، جن کے ذکر نہیں ہے اور سند ان کے عدم ذکر کی وجہ سے منقطع ہے، اس کا الزام مالک الدار پر نہیں جاتا۔
قادری بھائی!ویسے اتنا تو بتائیں کہ کیا یہ حدیث واقعتاً آپ کی دلیل ہے؟
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
کیا ابو صالح کی مالک الدار سے اس کے علاوہ بھی کوئی روایت موجود ہے جس سے پتا چل سکے کہ ابو صالح کا مالک سے سماع ثابت ہے؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
آپ کیا طاہر القادری کے پلنگ کے ساتھ گھڑے ہو کر اس کے خوابوں کا مشاہدہ کرتے ہو؟ نہیں بھائی، آپ نے طاہر القادری کے خواب کا بیان اس کی زبانی سنا، اور طاہر القادری نے اپنا خواب بیان کیا، اگر طاہر القادری خواب بیان کرنے میں جھوٹا ہے، تو آپ کے سچے ہونے سے طاہر القادری کا خواب سچا نہیں ہو جائے گا۔ فتدبر!
حضرت بالکل درست مگر اس کے جھوٹے ہونے سے یہ بات بالکل ثابت نہیں ہوتی کہ رسول اللہ خواب میں نہیں آسکتے ہم اس کو جھوٹا اس کے کردار کی وجہ سے کہتے ہیں اس بات کی وجہ سے نہیں ایسے ہی بالفرض رجل مجہول نے جھوٹ بھی بولا ہو۔اگر یہ شرک یا ناجائز ہوتا تو اس پر فتوی لگتا۔
یہ تمام امور اس مجہول شخص کی توثیق کے محتاج ہیں
اس کا جواب دے چکا
قادری بھائی!ویسے اتنا تو بتائیں کہ کیا یہ حدیث واقعتاً آپ کی دلیل ہے؟
کیاں اس میں کوئی اعتراض
 

bhatti

مبتدی
شمولیت
جنوری 03، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
11
السلام علیکم
اہل علم سے گذارش ہے کہ اوپر دیے ہوۓ حوالوں کا ایک جگہ جواب دیا گیا ہے اس کی تحقیق درکار ہے۔
امام یعقوب بن سفیان الفارسی لکھتے ہیں
وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَأَبِي إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشِ مَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ مُدَلِّسٌ يَقُومُ مَقَامَ الْحُجَّةِ
ترجمہ:اور سفیان (ثوری) ، ابو اسحاق اور اعمش کی حدیث جب تک اس کی تدلیس کا علم نہ ہو تو وہ حجۃ (یعنی قبول کرنے) کے قائم مقام ہو گی۔
المعرفۃ التاریخ (2/637
Amash.jpg

امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا
اسکا جواب دیا کہ امام حاکم نے اس سند کی حدیث کو صحیح کہا ہے؎
الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَا: ثنا زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْحَسَّانِيُّ، أَنْبَأَ مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ، ثناالْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ» . «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا فَقَدِ احْتَجَّا جَمِيعًا بِمَالِكِ بْنِ سُعَيْرٍ، وَالتَّفَرُّدُ مِنَ الثِّقَاتِ مَقْبُولٌ»
المستدرک حاکم رقم 100
[التعليق - من تلخيص الذهبي] على شرطهما وتفرد الثقة مقبول

اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:

’’اور یہ حدیث اعمش نے یقینا ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘
[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]


امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)

امام بیہقی نے اس سند سے روایت کیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعُطَارِدِيُّ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي يَقُولُ: يَا وَيْلَهُ أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَيْتُ فَلِيَ النَّارُ " رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي الصَّحِيحِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ

السنن الکبریٰ رقم 3700

۵)حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اور اعمش کی عن والی روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس تھے۔‘‘
[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]




وَذكر من طَرِيق الدَّارَقُطْنِيّ عَن أبي هُرَيْرَة، قَالَ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ -: " إِذا قَالَ: {غير المغضوب عَلَيْهِم وَلَا الضَّالّين} فأنصتوا ".
قَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: حَدثنَا مُحَمَّد بن عُثْمَان بن ثَابت الصيدلاني، وَأَبُو سهل ابْن زِيَاد، قَالَا: حَدثنَا مُحَمَّد بن يُونُس، حَدثنَا عَمْرو بن عَاصِم، حَدثنَا مُعْتَمر قَالَ: سَمِعت أبي يحدث عَن الْأَعْمَش، عَن أبي صَالح، عَن أبي هُرَيْرَة، فَذكره.

ثمَّ قَالَ: الصَّحِيح الْمَعْرُوف، " إِذْ قَالَ الإِمَام: {غير المغضوب عَلَيْهِم وَلَا الضَّالّين} فَقولُوا: آمين "

بیان الوہم و الایہام رقم1115 اور 1116
چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:
’’وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیںہم ان کی صرف ان روایات سے حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریںمثلاًسفیان ثوری، الاعمش اورا بواسحاق وغیرہ جو کہ زبر دست ثقہ امام تھے۔‘‘
[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]


امام ابن حبان نے ان سے روایت کیا ہے
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْأَنْمَاطِيُّ الزَّاهِدُ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم: "من سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نسبه"
صحیح ابن حبان رقم 84



۶)اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:
’’یہ حدیث صحیح نہیں۔‘‘
[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]


امام ابن الجوزی متشدد ہے ۔
۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:
’’اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیر ثقہ سے روایت لیتے تھے۔‘‘
[علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم:ص۱۳۸]


یہ جھوٹ ہے

وَوجدت فِيهِ حَدِيث الْأَعْمَش عَن أبي صَالح عَن أبي هُرَيْرَة عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
من نفس عَن مُؤمن كربَة الحَدِيث
قَالَ أَبُو الْفضل
وَهُوَ حَدِيث رَوَاهُ الْخلق عَن الْأَعْمَش عَن أبي صَالح فَلم يذكر الْخَبَر فِي إِسْنَاده غير أبي أُسَامَة فَإِنَّهُ قَالَ فِيهِ عَن الْأَعْمَش قَالَ حَدثنَا أَبُو صَالح
وَرَوَاهُ أَسْبَاط بن مُحَمَّد عَن الْأَعْمَش عَن بعض أَصْحَابه عَن أبي صَالح عَن أبي هُرَيْرَة

علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم رقم 35

امام ابی حاتم کی تحقیق

قَالَ أَبِي: رَوَاهُ شُعَيب بْنُ خَالِدٍ ، ومحمد ابن عَيَّاش العامريُّ ، وسُفْيانُ الثوريُّ من رواية النُّعْمان بن عبد السَّلام
عنه، فقالوا كلُّهم: عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هريرة، عن النبيِّ (ص) ... هَذَا الحديثَ.
قَالَ أَبِي: الصَّحيحُ عندي موقوفٌ.

علل الحدیث لابن ابی حاتم رقم 384

امام دارقطنی کی تحقیق

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: لَا يَزْنِي الزَّانِي ... الْحَدِيثَ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ أَصْحَابُ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.
وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَرَوَاهُ مُطَرِّفُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا.
وَخَالَفَهُ يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ رَوَاهُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ.
وَالصَّحِيحُ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفٌ.


علل الدارقطنی رقم1487


امام ابن ملکان کی تحقیق

وَخَالف أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ فِي حَدِيث أبي هُرَيْرَة، قَالَ ابْنه فِي «علله» : سَأَلته عَن حَدِيث رَوَاهُ (عَفَّان) عَن أبي عوَانَة، عَن الْأَعْمَش، عَن أبي صَالح، عَن أبي هُرَيْرَة مَرْفُوعا: «أَكثر عَذَاب الْقَبْر فِي الْبَوْل» فَقَالَ أبي: هَذَا حَدِيث بَاطِل. قَالَ ابْنه: يَعْنِي: مَرْفُوعا.
وَالْحق مَا قَالَه الْحَاكِم والضياء الْمَقْدِسِي، فَإِن إِسْنَاده حسن؛ بل صَحِيح كَمَا ذَكرْنَاهُ بِطرقِهِ.


البدرالمنیر 325/2

امام عسقلانی کی تحقیق

حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ: «إذَا تَوَضَّأْتُمْ فَابْدَءُوا بِمَيَامِنِكُمْ» أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَابْنُ مَاجَهْ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ كُلُّهُمْ مِنْ طَرِيقِ زُهَيْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْهُ. زَادَ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ: «إذَا لَبِسْتُمْ» قَالَ ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ: هُوَ حَقِيقٌ بِأَنْ يُصَحَّحَ، وَلِلنَّسَائِيِّ وَالتِّرْمِذِيِّ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ إذَا لَبِسَ قَمِيصًا بَدَأَ بِمَيَامِنِهِ» .

التلخیص الخبیر رقم20
امام ترمذی کی تحقیق

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.
وَفِي البَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي سَبَّحَ.
حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَالعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ.

جامع الترمذی رقم369



 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم
اہل علم سے گذارش ہے کہ اوپر دیے ہوۓ حوالوں کا ایک جگہ جواب دیا گیا ہے اس کی تحقیق درکار ہے۔
امام یعقوب بن سفیان الفارسی لکھتے ہیں
وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَأَبِي إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشِ مَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ مُدَلِّسٌ يَقُومُ مَقَامَ الْحُجَّةِ
ترجمہ:اور سفیان (ثوری) ، ابو اسحاق اور اعمش کی حدیث جب تک اس کی تدلیس کا علم نہ ہو تو وہ حجۃ (یعنی قبول کرنے) کے قائم مقام ہو گی۔
المعرفۃ التاریخ (2/637
18526 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا
اسکا جواب دیا کہ امام حاکم نے اس سند کی حدیث کو صحیح کہا ہے؎
الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَا: ثنا زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْحَسَّانِيُّ، أَنْبَأَ مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ، ثناالْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ» . «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا فَقَدِ احْتَجَّا جَمِيعًا بِمَالِكِ بْنِ سُعَيْرٍ، وَالتَّفَرُّدُ مِنَ الثِّقَاتِ مَقْبُولٌ»
المستدرک حاکم رقم 100
[التعليق - من تلخيص الذهبي] على شرطهما وتفرد الثقة مقبول

اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:

’’اور یہ حدیث اعمش نے یقینا ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘
[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]

امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)


امام بیہقی نے اس سند سے روایت کیا ہے

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسٍ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعُطَارِدِيُّ، ثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي يَقُولُ: يَا وَيْلَهُ أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَيْتُ فَلِيَ النَّارُ " رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي الصَّحِيحِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ

السنن الکبریٰ رقم 3700

۵)حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:
’’اور اعمش کی عن والی روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس تھے۔‘‘
[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]




وَذكر من طَرِيق الدَّارَقُطْنِيّ عَن أبي هُرَيْرَة، قَالَ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ -: " إِذا قَالَ: {غير المغضوب عَلَيْهِم وَلَا الضَّالّين} فأنصتوا ".
قَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: حَدثنَا مُحَمَّد بن عُثْمَان بن ثَابت الصيدلاني، وَأَبُو سهل ابْن زِيَاد، قَالَا: حَدثنَا مُحَمَّد بن يُونُس، حَدثنَا عَمْرو بن عَاصِم، حَدثنَا مُعْتَمر قَالَ: سَمِعت أبي يحدث عَن الْأَعْمَش، عَن أبي صَالح، عَن أبي هُرَيْرَة، فَذكره.

ثمَّ قَالَ: الصَّحِيح الْمَعْرُوف، " إِذْ قَالَ الإِمَام: {غير المغضوب عَلَيْهِم وَلَا الضَّالّين} فَقولُوا: آمين "

بیان الوہم و الایہام رقم1115 اور 1116
چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:
’’وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیںہم ان کی صرف ان روایات سے حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریںمثلاًسفیان ثوری، الاعمش اورا بواسحاق وغیرہ جو کہ زبر دست ثقہ امام تھے۔‘‘
[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]


امام ابن حبان نے ان سے روایت کیا ہے
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْأَنْمَاطِيُّ الزَّاهِدُ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم: "من سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نسبه"
صحیح ابن حبان رقم 84



۶)اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:
’’یہ حدیث صحیح نہیں۔‘‘
[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]

امام ابن الجوزی متشدد ہے ۔
۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:
’’اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیر ثقہ سے روایت لیتے تھے۔‘‘
[علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم:ص۱۳۸]


یہ جھوٹ ہے

وَوجدت فِيهِ حَدِيث الْأَعْمَش عَن أبي صَالح عَن أبي هُرَيْرَة عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم
من نفس عَن مُؤمن كربَة الحَدِيث
قَالَ أَبُو الْفضل
وَهُوَ حَدِيث رَوَاهُ الْخلق عَن الْأَعْمَش عَن أبي صَالح فَلم يذكر الْخَبَر فِي إِسْنَاده غير أبي أُسَامَة فَإِنَّهُ قَالَ فِيهِ عَن الْأَعْمَش قَالَ حَدثنَا أَبُو صَالح

وَرَوَاهُ أَسْبَاط بن مُحَمَّد عَن الْأَعْمَش عَن بعض أَصْحَابه عَن أبي صَالح عَن أبي هُرَيْرَة

علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم رقم 35

امام ابی حاتم کی تحقیق

قَالَ أَبِي: رَوَاهُ شُعَيب بْنُ خَالِدٍ ، ومحمد ابن عَيَّاش العامريُّ ، وسُفْيانُ الثوريُّ من رواية النُّعْمان بن عبد السَّلام
عنه، فقالوا كلُّهم: عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هريرة، عن النبيِّ (ص) ... هَذَا الحديثَ.

قَالَ أَبِي: الصَّحيحُ عندي موقوفٌ.
علل الحدیث لابن ابی حاتم رقم 384

امام دارقطنی کی تحقیق

وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: لَا يَزْنِي الزَّانِي ... الْحَدِيثَ.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ أَصْحَابُ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.
وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَرَوَاهُ مُطَرِّفُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا.

وَخَالَفَهُ يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ رَوَاهُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ.
وَالصَّحِيحُ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفٌ.

علل الدارقطنی رقم1487


امام ابن ملکان کی تحقیق

وَخَالف أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ فِي حَدِيث أبي هُرَيْرَة، قَالَ ابْنه فِي «علله» : سَأَلته عَن حَدِيث رَوَاهُ (عَفَّان) عَن أبي عوَانَة، عَن الْأَعْمَش، عَن أبي صَالح، عَن أبي هُرَيْرَة مَرْفُوعا: «أَكثر عَذَاب الْقَبْر فِي الْبَوْل» فَقَالَ أبي: هَذَا حَدِيث بَاطِل. قَالَ ابْنه: يَعْنِي: مَرْفُوعا.
وَالْحق مَا قَالَه الْحَاكِم والضياء الْمَقْدِسِي، فَإِن إِسْنَاده حسن؛ بل صَحِيح كَمَا ذَكرْنَاهُ بِطرقِهِ.

البدرالمنیر 325/2

امام عسقلانی کی تحقیق

حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ: «إذَا تَوَضَّأْتُمْ فَابْدَءُوا بِمَيَامِنِكُمْ» أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَابْنُ مَاجَهْ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ كُلُّهُمْ مِنْ طَرِيقِ زُهَيْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْهُ. زَادَ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ: «إذَا لَبِسْتُمْ» قَالَ ابْنُ دَقِيقِ الْعِيدِ: هُوَ حَقِيقٌ بِأَنْ يُصَحَّحَ، وَلِلنَّسَائِيِّ وَالتِّرْمِذِيِّ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ إذَا لَبِسَ قَمِيصًا بَدَأَ بِمَيَامِنِهِ» .

التلخیص الخبیر رقم20
امام ترمذی کی تحقیق

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ.
وَفِي البَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ عَلِيٌّ: كُنْتُ إِذَا اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي سَبَّحَ.
حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

وَالعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ.
جامع الترمذی رقم369
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، یہ بات اوپر گزر چکی ہے کہ اس حدیث پر ضعف کا حکم صرف اعمش کی تدلیس کی بنا پر ہی نہیں ہے ، بلکہ اس میں اور بھی وجوہ ضعف موجود ہیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ہل علم سے گذارش ہے کہ اوپر دیے ہوۓ حوالوں کا ایک جگہ جواب دیا گیا ہے اس کی تحقیق درکار ہے۔
امام یعقوب بن سفیان الفارسی لکھتے ہیں
وَحَدِيثُ سُفْيَانَ وَأَبِي إِسْحَاقَ وَالْأَعْمَشِ مَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ مُدَلِّسٌ يَقُومُ مَقَامَ الْحُجَّةِ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
مدلسین کے متعلق محفوظ اور مسلم قاعدہ یہی کہ جب تک سماع کی تصریح نہ ہو انکی روایت تشنہ ثبوت رہے گی
امام ابن حبان ؒ اپنی صحیح ابن حبان کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
وأما المدلسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي إسحاق وأضرابهم من الأئمة المتقين وأهل الورع في الدين لأنا متى قبلنا خبر مدلس لم يبين السماع فيه وإن كان ثقة لزمنا قبول المقاطيع والمراسيل كلها لأنه لا يدري لعل هذا المدلس دلس هذا الخبر عن ضعيف ۔۔۔الخ
ترجمہ :​
یعنی وہ مدلس جو ثقہ و عادل ہیں ، وہ جب تک سماع کی تصریح نہ کریں ہم انکی روایات سے احتجاج نہیں کریں گے ،
جیسے ابو اسحاق السبیعی ،امام سفیان الثوری ؒ ،اور امام اعمش ؒ اور ان کی مثل ثقہ و عادل ، متقین اور نیک ائمہ رواۃ ۔
اوراگرچہ وہ ثقہ حضرات ہیں لیکن پھر بھی ہم ان کی سماع کی تصریح کے بغیر روایات قبول کرلیں تو لازماً یہ ہوگا کہ ہم نے تمام مقطوع اور مراسیل تسلیم کرلیں ،
کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ مدلس نے اس روایت میں ضعیف سے تدلیس کی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابن حبان کے استاذ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کتاب التوحید میں ایک روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں :
’’ فإن في الخبر عللا ثلاثا , إحداهن: أن الثوري قد خالف الأعمش في إسناده، فأرسل الثوري ولم يقل: عن ابن عمر والثانية: أن الأعمش مدلس، لم يذكر أنه سمعه من حبيب بن أبي ثابت ۔۔ الخ
کہ اس روایت میں تین علتیں ہیں ، ایک یہ کہ سفیان نے اعمش کی مخالفت کی ہے ، دوسری علت یہ کہ اعمش مدلس ہیں ، اور انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس روایت کو انہوں نے یہ روایت حبیب بن ابی ثابت سے سنی ہے یا نہیں ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

bhatti

مبتدی
شمولیت
جنوری 03، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
11
السلام علیکم
اس روایت کو صحیح ثابت کرنے کے لئےدلائل دینے والے حضرت اس تھریڈ کو دیکھ رہے ہیں لیکن یہاں جواب دینے کی بجائے اپنے فورمز پہ جواب دے کے داد وصول کر رہے ہیں۔ میں انکے فورم پہ گیا تھا لیکن انکی زبان کا استعمال ان سے دور رہنے پہ مجبورکر رہا ہے۔
 
Top