• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وسیلے کے بارے مالک الدار والی روایت کی حقیقت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حضرت عمر نے اس کو قبول کیا۔
یہ دعوی بلا دلیل ہے ۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی ہی نہیں ، بلکہ یہ خود ساختہ کہانی ہے ۔
عمر فاروق جنہوں نے ابو موسی اشعری جیسے جلیل القدر صحابی کو حدیث رسول بیان کرنے پر گواہ مانگ لیا تھا ، کسی رجل مجہول کی خواب کو عقیدہ سمجھ لیا ؟
عمر جو خود صحرا میں جاکر بارش مانگا کرتے تھے ، وہ کسی اجنبی کو قبر رسول پر گھٹنے ٹیکنے دیں گے ؟
اور اگر یہ اتنا نیک کام تھا ، اور قابل تحسین تھا ، تو اس شخص کا نام صیغہ راز میں کیوں رکھا گیا ؟
جس شخص کی خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائیں ، قحط ختم ہونے کی خوشخبری سنائیں ، اس شان والی شخصیت کا کوئی نام تک نہ جانتا ہو ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عمر فاروق جنہوں نے ابو موسی اشعری جیسے جلیل القدر صحابی کو حدیث رسول بیان کرنے پر گواہ مانگ لیا تھا ، کسی رجل مجہول کی خواب کو عقیدہ سمجھ لیا ؟
اگر کوئی سمجھے تو یہ جملہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہے ؛
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا عبقری جو اللہ کے دین (اشد فی امر اللہ ) معروف ہو ؛
جو صرف ’’ کسی کی رہائش گاہ میں داخلے کیلئے اجازت کی اہمیت پر پیش کردہ جلیل القدر صحابی کی پیش کردہ حدیث پر گواہ طلب کرنا ضروری سمجھے ، اور گواہ کے نہ ملنے کی صورت میں سزا کی وعید سنائے ، وہ عقیدہ جیسے اہم موضوع پر کسی بھی آدمی کی محض خواب کو قبول کرلے ،یہ ناممکن ہے ؛
’’ أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: كُنَّا فِي مَجْلِسٍ عِنْدَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَأَتَى أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ مُغْضَبًا حَتَّى وَقَفَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمُ اللهَ هَلْ سَمِعَ أَحَدٌ مِنْكُمْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ، فَإِنْ أُذِنَ لَكَ، وَإِلَّا فَارْجِعْ» قَالَ أُبَيٌّ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمْسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي فَرَجَعْتُ، ثُمَّ جِئْتُهُ الْيَوْمَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ، أَنِّي جِئْتُ أَمْسِ فَسَلَّمْتُ ثَلَاثًا، ثُمَّ انْصَرَفْتُ. قَالَ: قَدْ سَمِعْنَاكَ وَنَحْنُ حِينَئِذٍ عَلَى شُغْلٍ، فَلَوْ مَا اسْتَأْذَنْتَ حَتَّى يُؤْذَنَ لَكَ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ كَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَوَاللهِ، لَأُوجِعَنَّ ظَهْرَكَ وَبَطْنَكَ، أَوْ لَتَأْتِيَنَّ بِمَنْ يَشْهَدُ لَكَ عَلَى هَذَا، فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: فَوَاللهِ، لَا يَقُومُ مَعَكَ إِلَّا أَحْدَثُنَا سِنًّا، قُمْ، يَا أَبَا سَعِيدٍ، فَقُمْتُ حَتَّى أَتَيْتُ عُمَرَ، فَقُلْتُ: قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا "
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ:
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اند آنے کی تین دفعہ اجازت طلب کی لیکن کوئی جواب نے ملنے پر واپس لوٹ گئے۔ بعد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں واپس میرے پاس لاؤ۔ وہ واپس آئے تو کہا: اے ابوموسیٰ تم کیوں لوٹ گئے، ہم کام میں مشغول تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اجازت مانگنا تین بار ہے، پھر اگر اجازت ہو تو بہتر نہیں تو لوٹ جاؤ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر گواہ لا ئیں ،ورنہ سزا ہوگی)‘‘
(صحیح مسلم ۔۔ الآداب )
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ابو صالح اور مالک الدار کے درمیان انقطاع کا جواب ابھی تک کسی نے نہیں دیا ہے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابو صالح اور مالک الدار کے درمیان انقطاع کا جواب ابھی تک کسی نے نہیں دیا ہے!
یہ روایت منقطع ہے۔ امام خلیلی فرماتے ہیں:
يقال: إن أبا صالح سمع مالك الدار هذا الحديث , والباقون أرسلوه (الارشاد: ص 314)
رضا بھائی اس علت کی ذرا وضاحت فرمائیں ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہ دعوی بلا دلیل ہے ۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی ہی نہیں ، بلکہ یہ خود ساختہ کہانی ہے ۔
عمر فاروق جنہوں نے ابو موسی اشعری جیسے جلیل القدر صحابی کو حدیث رسول بیان کرنے پر گواہ مانگ لیا تھا ، کسی رجل مجہول کی خواب کو عقیدہ سمجھ لیا ؟
عمر جو خود صحرا میں جاکر بارش مانگا کرتے تھے ، وہ کسی اجنبی کو قبر رسول پر گھٹنے ٹیکنے دیں گے ؟
اور اگر یہ اتنا نیک کام تھا ، اور قابل تحسین تھا ، تو اس شخص کا نام صیغہ راز میں کیوں رکھا گیا ؟
جس شخص کی خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائیں ، قحط ختم ہونے کی خوشخبری سنائیں ، اس شان والی شخصیت کا کوئی نام تک نہ جانتا ہو ؟
سبحان اللہ حضرت آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ یہ بات نہیں پہنچیِ۔پھر جب اس کی سند صحیح ثابت ہو گءی تو بات۔ختم۔اور اگر یہ من گھڑت ہے تو مالک دار ثقہ کیسے؟کیا آپ لوگ محدثین سے زیادہ علم رکھتےہیں۔بات صرف اتنی ہے آپ نے تسلیم نہیں کرنا۔اب لاجواب ہوکر ادھر ادھر کت قیاسات شروع کر دیے۔
مجھے یہ بتاءیے کہ حضرت عمر کا صحرا میں دعا مانگنا اس عمل کے منافی کیسے؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
میں نے احمد رضا کی مکمل عبارت نقل کی ہے جس میں موصوف نے مدلس کے عنعنہ کو مردود و نامستند قرار دیا ہے۔ اس کو الزامی جرح کہیں یا جو بھی ہے تو جرح ہی۔
زارا یہ بتاءیں علامہ صاحب کیا الزامی جرح قبول ہوتی ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سبحان اللہ حضرت آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ یہ بات نہیں پہنچیِ۔
جو دلیل آپ کے پاس پہنچنے کی ہے ۔
پھر جب اس کی سند صحیح ثابت ہو گءی تو بات۔ختم۔
مجہول راوی کی موجودگی میں سندصحیح کیسے ؟
اور اگر یہ من گھڑت ہے تو مالک دار ثقہ کیسے؟
ہر راوی کی کسی سے روایت اس کی توثیق کی دلیل نہیں ، محدثین بطور معلومات جھوٹی سچی ہر قسم کی روایات باسند بیان کردیتے ہیں ، تاکہ استدلال کرنے والا اس کی حالت دیکھ کر اس کی صحت و ضعف کا فیصلہ کرسکے ، اور یہ کہ یہ استدلال کے قابل ہے کہ نہیں ؟
کیا آپ لوگ محدثین سے زیادہ علم رکھتےہیں۔
نہیں ، لیکن اتنا علم تو رکھتے ہیں ، جتنا محدثین نے ہم تک پہنچایا ہے ۔ کیا آپ محدثین سے زیادہ علم رکھتے ہیں ، جس راوی کا نام تک انہیں معلوم نہیں ہوسکا ، آپ اسے قابل اعتماد ثابت کرنے پر مصر ہیں ؟
بات صرف اتنی ہے آپ نے تسلیم نہیں کرنا۔
ہم نے جو تسلیم کیا ، اس کی وضاحت اوپر والے مراسلات میں موجود ہے ، لیکن آپ بتائیں ، آپ نے کیا تسلیم کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ، کیا ہم آپ کو کہہ سکتے ہیں : بات صرف اتنی ہے آپ نے تسلیم نہیں کرنا ؟
اب لاجواب ہوکر ادھر ادھر کت قیاسات شروع کر دیے۔
اس کی ابتدا آپ نے کی تھی ، روایت میں کہیں ذکر نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رجل مجہول کی بات سن کر اس کو قبول کیا ، لیکن آپ نے زور قیاس سے ایسا ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ، جوابا ہم نے بھی آپ کا شوق پورا کردیا ۔
مجھے یہ بتاءیے کہ حضرت عمر کا صحرا میں دعا مانگنا اس عمل کے منافی کیسے؟
اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک قبر نبوی کے سامنے جاکر دعا مانگنے سے بارش ملتی تھی ، تو یہ بات لوگوں سے چھپائی کیوں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کی درخواست کیوں کی ؟
 
شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
زارا یہ بتاءیں علامہ صاحب کیا الزامی جرح قبول ہوتی ہے؟
لیں جناب فتاویٰ رضویہ کا سکین ملاحظہ کریں:

اس سے بھی تسّلی نہیں ہوتی تو کتاب کی فہرست میں جو عنوان قائم کیا گیا ہے وہ بھی پیشِ خدمت ہے:

@قادری رانا
اس کے متعلق کیا خیال ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
زارا یہ بتاءیں علامہ صاحب کیا الزامی جرح قبول ہوتی ہے؟
الزامی دلیل گو حقیقی دلیل نہیں ہوتی ، لیکن اگر آپ کو الزام دیا جارہا ہے تو آپ اس کا مناسب جواب دے دیں کہ آپ فاضل بریلوی کے اس موقف کو درست نہیں سمجھتے ، یا اگر درست سمجھتے ہیں تو پھر مالک الدار والی روایت میں بھی اعمش کی تدلیس کی علت قبول کر لیں ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
رضا بھائی اس علت کی ذرا وضاحت فرمائیں ۔
امام خلیلی رحمہ اللہ نے صیغہ تمریض استعمال کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک ابو صالح نے مالک الدار سے براہ راست یہ حدیث نہیں سنی۔ اور پھر آگے انہوں نے یہ بھی فرما دیا کہ والباقون أرسلوه یعنی دیگر رواۃ نے اسے مرسلا بیان کیا ہے جس سے اس بات کو مزید تقویت مل جاتی ہے کہ یہاں پر انقطاع ہے۔
اور پھر کوئی ایسا طریق بھی نہیں ہے جس میں ابو صالح نے مالک الدار سے سماع کی تصریح کی ہو۔
واللہ اعلم۔
 
Top