حیدرآبادی بھائی بلاگنگ کی دنیا میں آپ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔۔۔
اور اسی طرح سے آپ کی خدمات فورمز پر اکثر نظروں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔۔۔
میں نے اعتراض کس بات پر کیا۔۔۔
ایک شخص اگر اپنی لاعلمی کی بنیاد پر کوئی بات کہتا ہے تو اصول یہ بتاتا ہے ہم اس سے دلیل مانگیں۔۔۔
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (ربط)
اگر تم اپنے قول میں صحیح ہے تو دلیل پیش کردو۔
اب آپ نے پہلے جو فرمایا!۔
کیا اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ یا مکہ سے قطعاَ کوئی محبت نہیں تھی؟
اب آپ یہ فرمارہے ہین!۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرنے لگے تو سرزمین مکہ سے مخاطب ہو کر جو کہا تھا اس کا کچھ مفہوم یہ ہے کہ اے سرزمین مکہ مجھے تجھ سے محبت ہے
حدیث میں ہے کہ جب حشر میں لوگوں کو اٹھایا جائے گا تو سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر شخص نفسی نفسی پکارہا ہوگا۔۔۔ تو یہ کیا ہے؟؟؟۔۔۔ دوسری بات حدیث میں ہے عراق کے کچھ لوگ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرنے کا کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور یمن کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔۔۔ حالانکہ نہ وہاں پر کوئی شامی تھا اور نہ ہی کوئی یمنی تھا لیکن جو چیز موجود تھی وہ محبت!۔
میری غلطی یہ تھی کے میں ایک قول کے غلط ہونے کو یہاں پیش کردیا۔۔۔
اس وجہ سے ایک نیک کام اعتراضات اور علم میں برتری کی نظر ہوگیا۔۔۔
لیکن جو بات ہم نے یہاں پر سمجھی وہ یہ ہے کہ جو بھائی بھی سب ہمارے دوست ہیں۔۔۔
کوئی بات کرے وہ دلیل کے ساتھ کرے۔۔۔ کیونکہ شیطان کبھی بھی کہیں بھی کام دکھا سکتا ہے۔۔۔
بس کردار بدل جاتے ہیں لیکن مقصد وہی ہے۔۔۔ فتنہ وفساد۔۔۔