کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
تاریخ کی کتابوں میں حضور اکرم ﷺ کے حب الوطنی سے سرشار کلمات سنہری حروف میں ثبت ہیں ۔ جس وقت آپ ﷺ اپنے وطن مالوف مکہ مکرمہ سے کفار کی ظلم و زیادتی کی بناء پر ہجرت فرما رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘
(ترمذی)
مکہ مکرمہ کفار کے زیر تسلط تھا ، کفار و مشرکین کا غلبہ تھا ، بت پرستی کا رواج عام تھا ، اس کے باوصف مکہ مکرہ سے آپ ﷺ کا تعلق بہت گہرا تھا۔ مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ، لیکن آپ ﷺ نے وطن ترک کرنا نہیں چاہا ۔ جب ظلم و ستم انتہا کو پہنچا تو صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا اور آپ ﷺ بذات خود قیام پذیر رہے اور اپنی قوم سے نرمی کی توقعات وابستہ رکھیں، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور نرمی کی کوئی توقع باقی نہ رہی تو آپ ﷺ نے بادل نخواستہ ہجرت فرمائی ۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ حضور نبی کریم ﷺ کی محبوب و پسندیدہ شخصیات و مقامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ، ان کے والد حضرت ابوبکر ، حضرت اسامہ ، حضرات حسنین کریمین ، میٹھا شہد ، جبل احد اور اپنا وطن محبوب تھا۔‘‘
جب آپ ﷺ نے مدینہ کو اپنا وطن و مسکن بنا لیا تو چوںکہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ سے فطری و جبلی محبت تھی ، بارگاہ الہی میں دست بہ دعا ہوئے:
’’اے پروردگار! مدینہ کو ہمارے نزدیک محبوب بنا دے۔ جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت پیدا فرما۔‘‘
(بخاری و مسلم)
وطن کو ترک کرنا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے اور سخت تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی جان کی محبت کے ساتھ اپنے وطن سے محبت و تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کر لو اور اپنے گھروں سے نکل جاؤ ، تو وہ ہرگز نہ کرتے سوائے معدود چند افراد کے ‘‘۔
(سورہ النساء،۶۶)
اور ایک مقام پر وطن کی محبت کو دین ومذہب سے جوڑ کرفرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف سے منع نہیں کیا، جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہ کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو۔‘‘
(سورۃ الممتحنہ۔ ۸)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مستقل سکونت کے لئے چھوڑ دیا اور بارگاہ ایزدی میں عرض پرداز ہوئے ، جس کو قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :
’’ اور جب حضرت ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! اس کو امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندگان کو پھلوں سے سرفراز فرما جو لوگ ان میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے‘‘۔
(سورۃ البقرہ۔۱۲۶)
وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو، یہ ممکن نہیں ۔ بلکہ وطن کی ایک ایک شے سے محبت ہوتی ہے ۔ مسلم شریف میں حضور نبی کریم ﷺ کی دعاء منقول ہے کہ
’’اے پروردگار! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، خلیل اور نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لئے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لئے وہی بکہ اس کے دو چند کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
(مسلم شریف)
ح
’’ اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘
(ترمذی)
مکہ مکرمہ کفار کے زیر تسلط تھا ، کفار و مشرکین کا غلبہ تھا ، بت پرستی کا رواج عام تھا ، اس کے باوصف مکہ مکرہ سے آپ ﷺ کا تعلق بہت گہرا تھا۔ مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ، لیکن آپ ﷺ نے وطن ترک کرنا نہیں چاہا ۔ جب ظلم و ستم انتہا کو پہنچا تو صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا اور آپ ﷺ بذات خود قیام پذیر رہے اور اپنی قوم سے نرمی کی توقعات وابستہ رکھیں، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور نرمی کی کوئی توقع باقی نہ رہی تو آپ ﷺ نے بادل نخواستہ ہجرت فرمائی ۔
امام ذہبی علیہ الرحمہ حضور نبی کریم ﷺ کی محبوب و پسندیدہ شخصیات و مقامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ ، ان کے والد حضرت ابوبکر ، حضرت اسامہ ، حضرات حسنین کریمین ، میٹھا شہد ، جبل احد اور اپنا وطن محبوب تھا۔‘‘
جب آپ ﷺ نے مدینہ کو اپنا وطن و مسکن بنا لیا تو چوںکہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ سے فطری و جبلی محبت تھی ، بارگاہ الہی میں دست بہ دعا ہوئے:
’’اے پروردگار! مدینہ کو ہمارے نزدیک محبوب بنا دے۔ جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت پیدا فرما۔‘‘
(بخاری و مسلم)
وطن کو ترک کرنا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے اور سخت تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی جان کی محبت کے ساتھ اپنے وطن سے محبت و تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کر لو اور اپنے گھروں سے نکل جاؤ ، تو وہ ہرگز نہ کرتے سوائے معدود چند افراد کے ‘‘۔
(سورہ النساء،۶۶)
اور ایک مقام پر وطن کی محبت کو دین ومذہب سے جوڑ کرفرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف سے منع نہیں کیا، جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہ کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو۔‘‘
(سورۃ الممتحنہ۔ ۸)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مستقل سکونت کے لئے چھوڑ دیا اور بارگاہ ایزدی میں عرض پرداز ہوئے ، جس کو قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :
’’ اور جب حضرت ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! اس کو امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندگان کو پھلوں سے سرفراز فرما جو لوگ ان میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے‘‘۔
(سورۃ البقرہ۔۱۲۶)
وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو، یہ ممکن نہیں ۔ بلکہ وطن کی ایک ایک شے سے محبت ہوتی ہے ۔ مسلم شریف میں حضور نبی کریم ﷺ کی دعاء منقول ہے کہ
’’اے پروردگار! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، خلیل اور نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لئے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لئے وہی بکہ اس کے دو چند کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
(مسلم شریف)
ح