ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(ii) قتل عمد کی اسلام میں سزا موت ہے، لیکن اگر مقتول کے ورثا بعض مصلحتوں کی بنا پر قاتل سے صلح کرکے اسے معاف کردیں تو اسلامی ریاست اس قاتل پر سزائے موت کو نافذ نہیں کرسکتی۔ کیا ایک قاتل کومقتول کے ورثا سے اس طرح کی معافی کا ملنا اس کے لئے ہر بار قتل کی واردات میں معافی کا لائسنس سمجھا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ فرض کیجئے وہی قاتل دوسری بار اسی خاندان کے کسی اور فرد مثلاً پہلے مقتول کے بھائی کو قتل کردیتا ہے تو کیا مقتول کے ورثا کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ دوسری مرتبہ بھی اسی قاتل کو معافی دے دیں یا پہلے قتل میں قاتل کو ملنے والی معافی بذات ِخود دوسرے قتل کے مقدمے کے لئے بھی کافی سمجھی جائے گی؟ معمولی سی عقل و فہم رکھنے والا کوئی بھی فرد اس کا جواب یقینا نفی میں دے گا۔ تو پھر وحید الدین خان حضور اکرمﷺکی طرف سے بعض افراد کو دی جانے والی معافی کو ’معافی ٔ عام‘ کس عقلی دلیل کی بنیاد پر ٹھہرا رہے ہیں۔ وہ شاتم ِرسول کی سزائے موت سے جن دلائل کی بنیاد پر اِنکار کر رہے ہیں وہ دلائل قیاس مع الفارق کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایسے بے جوڑ دلائل کی بنیاد پر ایک ایسی بات سے انکار کرنا جس پر امت کا اجماع ہو، یقینا خواہش نفس کی پیروی کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے، اسلامی تعلیمات کی پیروی کا اس معاملے میں دعویٰ محض ایک خود فریبی اور جگ فریبی ہے۔ وحید الدین خان محض اپنے آپ کو روشن خیال، رواداری پر عمل پیرا اور موجودہ یورپی دانشوروں کی نگاہ میں قابل قبول بنانے کی مریضانہ خواہش کے اتباع میں اپنی عقل و دانش کو سربازار نیلام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔