- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
استادِ محترم نے جو حوالہ دیا اسکو پڑھا تو سمجھا کہ اوپر جتنی بات لکھی گئی ہے ہو سکتا ہے کوئی واقعی اس سے فتنہ انگیزی نہ مراد لے لے تو تھوڑا سا اور بھی آگے عبارت لکھ دیتا ہوںحوالہ
حضرت جواد صاحب!اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟کہیں یہ بھی فتنہ انگیزی تو نہیں؟؟؟
شرعی طریقۂ کار کے مطابق جدوجہد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شرعی طریقۂ کار کیا ہے جس کے مطابق یہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ انتخابی طریق کار کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے کی وجہ سے اب مخلص مسلمانوں میں مسلح جدوجہد کی فکر فروغ پارہی ہے۔ یہ سوچ آج کل دینی حلقوں میں زیربحث رہتی ہے۔ اس بارے میں میری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلم معاشرے میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد اگر جائز بھی ہو لیکن عملاً مفید اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔ پھر وہ طریق کار کیا ہے جس کے مطابق جدوجہد کرنا مسلم معاشرے اور مسلمان قوم میں مفید بھی ہے اور ممکن العمل بھی؟
یہاں دو بنیادی باتوں کی توضیح کرنا ہے۔ وہ دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ کیا نفاذِ شریعت کے لیے مسلم معاشرے میں خروج جائز ہے؟
۲۔ کیا موجودہ حالات میں غیرحکومتی تنظیم کا خروج نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے؟
جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے تو جو حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کرے اور ملک کا نظام غیرشرعی قوانین پر چلا رہا ہو تو اس کے خلاف خروج [بغاوت] بالاجماع جائز ہے، بشرطیکہ اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کی جاسکتی ہو۔ لیکن جو حکمران مومن ہو اور جس کی حکومت میں عملاً شریعت نافذ ہو، مگر وہ اپنی شخصی زندگی میں منکرات و محرمات سے مجتنب اور فرائض و واجبات کا پابند نہ ہو، یعنی فسق و فجور میں مبتلا ہو، تو جمہور اہلِ سنت کے نزدیک اسے ہٹانے کے لیے قتال جائز نہیں ہے، اور بعض اہلِ سنت کے نزدیک کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے
یعنی کفر بواح میں خروج اگرچہ بالاجماع جائز کہ رہے ہیں مگر ساتھ اسلامی حکومت کے قیام کی استطاعت کی شرط بھی لگا رہے ہیں پس ہماری جماعۃ الدعوہ بھی اسی وجہ سے خروج کے خلاف ہے اگرچہ کفر بواح کا انکار مشکل ہے