• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان، دارالاسلام ؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
حوالہ
حضرت جواد صاحب!اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟کہیں یہ بھی فتنہ انگیزی تو نہیں؟؟؟
استادِ محترم نے جو حوالہ دیا اسکو پڑھا تو سمجھا کہ اوپر جتنی بات لکھی گئی ہے ہو سکتا ہے کوئی واقعی اس سے فتنہ انگیزی نہ مراد لے لے تو تھوڑا سا اور بھی آگے عبارت لکھ دیتا ہوں

شرعی طریقۂ کار کے مطابق جدوجہد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شرعی طریقۂ کار کیا ہے جس کے مطابق یہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ انتخابی طریق کار کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے کی وجہ سے اب مخلص مسلمانوں میں مسلح جدوجہد کی فکر فروغ پارہی ہے۔ یہ سوچ آج کل دینی حلقوں میں زیربحث رہتی ہے۔ اس بارے میں میری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلم معاشرے میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد اگر جائز بھی ہو لیکن عملاً مفید اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔ پھر وہ طریق کار کیا ہے جس کے مطابق جدوجہد کرنا مسلم معاشرے اور مسلمان قوم میں مفید بھی ہے اور ممکن العمل بھی؟
یہاں دو بنیادی باتوں کی توضیح کرنا ہے۔ وہ دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ کیا نفاذِ شریعت کے لیے مسلم معاشرے میں خروج جائز ہے؟
۲۔ کیا موجودہ حالات میں غیرحکومتی تنظیم کا خروج نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے؟
جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے تو جو حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کرے اور ملک کا نظام غیرشرعی قوانین پر چلا رہا ہو تو اس کے خلاف خروج [بغاوت] بالاجماع جائز ہے، بشرطیکہ اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کی جاسکتی ہو۔ لیکن جو حکمران مومن ہو اور جس کی حکومت میں عملاً شریعت نافذ ہو، مگر وہ اپنی شخصی زندگی میں منکرات و محرمات سے مجتنب اور فرائض و واجبات کا پابند نہ ہو، یعنی فسق و فجور میں مبتلا ہو، تو جمہور اہلِ سنت کے نزدیک اسے ہٹانے کے لیے قتال جائز نہیں ہے، اور بعض اہلِ سنت کے نزدیک کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے


یعنی کفر بواح میں خروج اگرچہ بالاجماع جائز کہ رہے ہیں مگر ساتھ اسلامی حکومت کے قیام کی استطاعت کی شرط بھی لگا رہے ہیں پس ہماری جماعۃ الدعوہ بھی اسی وجہ سے خروج کے خلاف ہے اگرچہ کفر بواح کا انکار مشکل ہے
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
  • اگرچہ ہمارے علما ے اسلام نے یہ جہاد تو خوب کیا کہ قادیانیوں اور حکومت پاکستان سے مقابلہ کر کے نوے سال کے بعد قادیانی مسئلہ ختم نبوت منوا کر ختم کرا دیا ہے،لیکن یہ حقیقی اور بنیادی کام یابی نہیں ہوئی؛اصل جہاد یہ تھا کہ جس طرح تمام فرقوں کے علما نے متفقہ طور پر حکومت کا مقابلہ کر کے ان سے قادیانی مسئلہ حل کرایا ،اس طرح شرعی حکومت قائم کرنے اور آئین اسلام کتاب و سنت کی رو سے نافذ کرانے پر جہاد کرنا علماے اسلام پر قطعی فرض تھا؛اگر اس فرض کی ادایگی کے لیے علماے اسلام جہاد کرتے اور اس جہاد سے کام یابی حاصل کر لیتے،تو یہ حقیقی کام یابی تھی؛اس سے تمام طاغوتی قلعے مسمار ہو جاتے اور ملک پر اللہ کی طرف سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتیں اور اس کے ذہن(کذا،غالباً ضمن ہو گا،ناقل) میں تمام قادیانی مسائل خلاف شریعت حل ہو کر کافور بن کر اڑ جاتے؛لیکن علماے اسلام نے یہ جہاد نہ کیا اور صرف کفر کی ایک شاخ کے قلع قمع کرنے پر تل گئے اور باقی ملک میں تمام طاغوتی کفر چھایا ہوا ہے۔جب تک آئین اسلام نافذ کرانے پر علما ے اسلام جہاد نہ کریں گے،تب تک حقیقی کام یابی حاصل نہ ہو گی۔تعجب ہے کہ ملک میں شرک فی الحکم،شرک فی الذات اور شرک فی الصفات بہ دستور جاری ہیں اور عدالتوں میں خلاف شریعت قانون چل رہا ہے اور علماے اسلام محض قادیانی مسئلہ شرک فی الرسالت پر جہاد کر کے خوشیاں منا رہے ہیں ،جو سراسر شریعت کے اسرار سے نادانی اور بے خبری ہے۔ بندہ عارف حصاری تمام علماے اسلام سے اپیل کرتا ہے کہ اب انتخاب کا مسئلہ ملک میں پیش ہونے والا ہے ،خدا را اس موقع کو غنیمت جانیں اور تمام علماے اسلام متفقہ قوت سے اس قدر طاقت جہاد کریں کہ پاکستان میں آئین اسلام نافذ کرنے پر حکم ران مجبور ہو جائیں،ورنہ آپ حضرات اس فرض سے سبک دوش نہ ہونے پر بہ روز قیامت ماخوذ ہوں گے؛وما علینا الا البلاغ ۔(عبدالقادر عارف الحصاریؒ،فتاویٰ حصاریہ و مقالات علمیہ،جلد7،صفحہ427
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
دارالاسلام دارالحرب کی کیا تعریف ہے؟ ہندوستا ن کسں قسم سے ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دارالاسلام وہ ملک ہے ۔ جہاں ادائے ارکا ن اسلام کی آزادی ہو۔ حدود شر عیہ جاری ہوں ۔ جیسے آج کل حجا ز۔ نجد۔ وغیرہ دارالحرب وہ ہے ۔ جس کا با دشاہ غیر مسلم ہو ۔ اور مسلم حکومت سے اس کی جنگ ہو۔ ہندوستان نہ دارالاسلام ہے ۔ نہ دارالحرب بلکہ بقو ل مولا نا محمد حسین بٹالوی مرحوم دارالسلام ہے۔ (اہلحدیث 17مارچ 1932ء)
فتاویٰ ثنائیہ
جلد 2 ص 360
محدث فتویٰ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مسئلہ:از الہور محلہ سادھواں مرسلہ میاں تاج الدین خیاط ۱۳ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ ہجرت کے احکاموں اور شرائط کا استعمال کس
صورت میں ہونا چاہئے؟
الجواب: دارالحرب سے داراالسلام کی طرف ہجرت فرض ہے
ٰاللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وہ لوگ جن کی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم
کرتے تھے ان سے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں
کمزور تھے، کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت
کرتے،تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور بہت بری جگہ پلٹنے کی
سورہ النساء :97
ہاں اگر حقیقۃً مجبور ہوتو معذور ہے،
مگر وہ جو دبا لئے گئے مرد اور عورتیں اور بچے جنہیں نہ کوئی تدبیر بن پڑے نہ راستہ جانیں
تو قریب ہے اللہ ایسوں کو معاف فرمائے اور اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے
سورہ النساء :98 ، 99
اور داراالسلام سے ہجرت کا حکم نہیں کیونکہ
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 2825
ہاں اگر کسی جگہ کسی عذر خاص کے سبب کوئی شخص اقامت فرائض سے مجبور ہوتو اسے اس جگہ کا بدلنا واجب اس مکان میں معذوری ہوتو مکان بدلے،محلہ میں معذوری ہوتو دوسرے محلہ میں چلا جائے، بستی میں معذوری ہو تودوسرے بستی میں جائے۔
مدارک التنزیل میں ہے: یہ آیت مبارکہ اس پر دال ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہر میں اقامت دین پر اس طرح قادر و متمکن نہیں جیسا کہ لازم ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرے شہرمیں اقامت پر قادر ہوجائے گا تو اس پر وہاں ہجرت کرنا لازم ہوجائیگا، اور حدیث میں ہے کہ جو شخص دین کی خاطر ایک جگہ سے دوسرے جگہ بھاگا خواہ وہ ایک بالشت ہی کیوں نہ ہو اس کے لئے جنت لازم ہوجاتی ہے اور وہ اپنے جِّد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ٰ اپنے نبی حضرت محمدﷺکی سنگت پائے گا۔
(مدارک التنزیل )تفسیر النسفی( تحت آیت ۹۹/۱ دارالکتاب العربی بیروت ۸۱۶ /۱
ہندوستان دارالحرب نہیں دارالسلا م ہے،(کما حققناہ فی فتوٰنا اعلام العلام )جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتوی اعلام العلام میں کی ہے۔( واﷲاعلم)۔
فتٰوی رضویہ امام احمد رضا بریلوی
یہ تحریر مفاد عامہ کے لئے پیش کی گئی تفصیلی فتٰوی کے لئے درجہ ذیل لنک پر تشریف لے جائیں شکریہ
علم کے پہاڑوں کا اعلان کہ بیشک ہندوستان داراالسلام ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
الجواب: دارالحرب سے داراالسلام کی طرف ہجرت فرض ہے
ہندوستان دارالحرب نہیں دارالسلا م ہے،(کما حققناہ فی فتوٰنا اعلام العلام )جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتوی اعلام العلام میں کی ہے۔( واﷲاعلم)۔
یہاں دارالاسلام اور دارالسلام گڈ مڈ ہو گئے ہیں استادِ محترم کی پوسٹ یہ تھی
دارالاسلام دارالحرب کی کیا تعریف ہے؟ ہندوستا ن کسں قسم سے ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
دارالاسلام وہ ملک ہے ۔ جہاں ادائے ارکا ن اسلام کی آزادی ہو۔ حدود شر عیہ جاری ہوں ۔ جیسے آج کل حجا ز۔ نجد۔ وغیرہ دارالحرب وہ ہے ۔ جس کا با دشاہ غیر مسلم ہو ۔ اور مسلم حکومت سے اس کی جنگ ہو۔ ہندوستان نہ دارالاسلام ہے ۔ نہ دارالحرب بلکہ بقو ل مولا نا محمد حسین بٹالوی مرحوم دارالسلام ہے۔ (اہلحدیث 17مارچ 1932ء)
محدث فتویٰ
علی صاحب نے فتوی جہاں سے نقل کیا ہے وہاں دارالاسلام کی بات ہو رہی ہے کہ ہندوستان دارالاسلام ہے مگر یہاں لکھتے ہوئے لفظ غلطی سے دارالسلام میں مکس ہو گیا ہے کیونکہ کاپی کرتے ہوئے فارمیٹنگ کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے لیکن چونکہ یہاں دونوں لفظوں کے علیحدہ مفہوم کے تحت بات چل رہی تھی تو بات میں ابہام پیدا ہو گیا ہے پس میں نے چاہا کہ بات کلیئر کر دوں کہ بہرام صاحب کے نقل کردہ فتوی میں دارالاسلام کی بات ہے دارالسلام کے متعلق کوئی وضاحت نہیں جس کا حوالہ استادِ محترم نے محمد حسین بٹالوی مرحوم کے حوالے سے لکھا ہے
باقی فتوی پر فرصت سے بات ہو گی ان شاءاللہ​
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
نقل شدہ فتوی کا خلاصہ
کسی جگہ پر کبھی صرف شرک کا حکم ہوتا ہے اور کبھی صرف اسلام کا حکم-ان صورتوں میں تو فقہاء میں حکم میں دارالکفر یا دارالاسلام میں اختلاف نہیں
لیکن اکثر دونوں مکس ہوتے ہیں البتہ غلبہ کسی ایک کو ہوتا ہے ایسی صورت میں امام احمد رضا بریلوی نے ابوحنیفہ کےحوالے سے یہ کہا ہے کہ دارالکفر تب ہو گا جب مکمل حکم شرک کا ہو اور جہاں تھوڑا سا حکم بھی اسلام کا ہو چاہے غلبہ شرک کا ہو تو وہ دارالاسلام ہی کہلائے گا اس میں انھوں نے صاحبین کے اختلاف کو مانا ہے کہ وہ غلبہ کی ہی شرط لگاتے ہیں مگر صاحبین کے قول کی بھی تاویل کر کے اپنے فتوی سے تطبیق دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام شروع میں تو تھوڑا ہی ہوتا ہے بعد میں ا ٓہستہ ا ٓہستہ ہی پھیلتا ہے وغیرہ پس انھوں نے ہندوستان کو بھی دارالاسلام ہی کہا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
http://www.twhed.com/vb/t3722.html
میں نے اوپر والی سائٹ پر دارالاسلام اور دارالکفر کی بحث کو دیکھا تو چاہا کہ استادِ محترم اور دوسروں کی رائے کے لئے یہاں لکھ دوں میرا زیادہ تر باتوں سے اتفاق ہے سوائے کچھ کے

داراکفر اور دارالحرب اور دارالاسلام کی وضاحت

يقول الفقهاء عن الدار التي تقابل دار الاسلام بأنها (داركفر) وتارة يقولون (دارحرب) والثاني اشهر ،والاول اصح لان الكفر هو المقابل للاسلام ، وأشمل لان دار الكفر تشمل دار الحرب، ودارالعهد . ففي القرآن الكريم نجد تقسيم الناس إلى مؤمنين وكفار ، ولكل من هذين القسمين بلاد أو دار تجمعهم

یعنی فقہاء کے ہاں دارالکفر اور دارالحرب کا مترادف بولا جانا بولا جانا مشہور ہے مگر صحیح یہ ہے کہ ان میں عموم خصوص کی نسبت ہے- دارالکفر دارااسلام کے مقابل ہے اور اس میں دارالعھد بھی داخل ہے جو دارالحرب نہیں

تمیز کرنے کی اہمیت
تبنى كثير من الاحكام الفقهيه ، منها الاحكام الخاصة، بالجهاد والمغانم ،والخمس والفئ ،وما حازه الكفار من اموال المسلمين والاسارى، والامان ،والمهادنة، والجزية ،والذمة ،واحكام المسلمين في دار الكفر، واحكام المستأمنين في دار الاسلام.

یعنی بہت سے فقہی احکامات کا دارومدار اس پر ہے

دارالاسلام یا دارالکفر کے حکم کی علت
وقد ذهب جمهور الفقهاء الى ان تحديد المناط الذي يبنى عليه الحكم على الدار بأنها من دور الاسلام اومن دور الكفر هو (غلبة الاحكام). فالدار التي يغلب عليها حكم الاسلام تكون دار اسلام .والدار التي يغلب عليها حكم الكفر تكون دار كفر.
یعنی حکم کی علت جمہور فقہاء کے ہاں احکام کا غلبہ ہے پس جہاں شرک کے احکام غالب ہوں گے وہاں داالکفر کا حکم اور جہاں اسلام کے احکام غالب ہوں گے وہاں دارالاسلام کا حکم لگے گا

جمہور فقہاء کا موقف
جاء في الفقه الحنفي :وعن ابي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى اذا أظهروا الشرك (أي احكام الشرك) فقد صارت دارهم دار حرب .لان البقعة انما تنسب الينا او إليهم باعتبار القوة والغلبة .(المبسوط .للامام شمس الدين السرخسي .مطبعة السعادة بمصر الطبعة الاولى 1324هـ 114/10).
وجاء في البدائع .ووجه قولهما ،-يعني ابا يوسف ومحمد -أن كل دار مضافة إما الى الاسلام وإما الى الكفر ،وانما تضاف الدار الى الاسلام اذا طبقت فيها احكامه .وتضاف الى الكفر اذا طبقت فيها احكامه ، كما تقول الجنة دار السلام .والنار دار البوار ، لوجود السلامة في الجنة والبوار في النار ،ولان ظهور الاسلام او الكفر بظهور احكامها .(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع لعلاء الدين ابي بكر الكاساني ).
وقال الامام ابوبكر الجصاص : إن حكم الدار انما يتعلق بالظهور والغلبة واجراء حكم الدين . والدليل على صحة ذلك إنا متى غلبنا على دار الحرب وأجرينا فيها أحكامنا صارت دار اسلام.(شرح مختصر الطحاوي -مخطوط- للامام الجصاص ،الجزء الاخير رقم 584لوحة رقم 33-معهد المخطوطات ).
ويرى ابوحنيفة ان العبرة في الحكم على الدار بأنها من دار الاسلام او من دار الكفر بتمام الغلبة لحكم الاسلام او لحكم الشرك. جاء في المبسوط قوله ،ولكن ابا حنيفة يعتبر تمام القهر والقوة .أي لاحكام الكفر.(المبسوط 10-114).
وجاء في الفقه الحنبلي كما قال ابو يعلى : وكل دار كانت الغلبة فيها لاحكام الاسلام دون احكام الكفر فهي دار اسلام ، وكل دار كانت الغلبة فيها لاحكام الكفر دون احكام الاسلام فهي دار كفر.(المعتمد في اصول الدين 276 للقاضي ابي يعلى الحنبلي). وقال البهوتي :ودار الكفر مايغلب فيها حكم الكفر .(كشف القناع على متن الاقناع 3-43 للعلامة منصور بن ادريس البهوتي). وأما الفقه المالكي فلقد جاء في المدونة : كانت -مكة-دار حرب ،لان أحكام الجاهلية كانت ظاهرة يومئذ .(المدونة الكبرى 3-23 للامام مالك بن انس ). وقال ابن حزم الظاهري : ودارهم _أي أهل الذمة الكفار الذين تؤخذ منهم الجزية ويخضعون لاحكام الاسلام _ دار اسلام لا دار شرك ، لان الدار انما تنسب للغالب عليها والحاكم فيها والمالك لها .(المحلى 13-140 ابو محمد علي بن احمد بن حزم الظاهري).

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ باقیوں کا تقریبا یہی مفہوم بنتا ہے کہ احکام کے غلبے کو دیکھا جائے گا البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں دارالکفر کے لئے غلبہ کی بجائے مکمل غلبہ یا نفاذ دیکھا جائے گا

حکم کی علت میں عقیدہ کا عدم اعتبار
وجمهور الفقهاء في تحديدهم للمناط لم يعتبروا عقيدة غالبية اهل الدار سواء اكانت عقيدتهم عقيدة الاسلام ام عقيدة الكفر . فالدار التي يغلب عليها حكم الكفر تكون دار كفر ولو كان غالبية اهلها مسلمين . وكذلك الدار التي يغلب عليها حكم الاسلام تكون دار اسلام ولو كان غالبية اهلها كافرين.(التحفه على حواشي الشمرواني وبن القاسم 9-269 لابن حجر الهيثمي).
قال ابن حزم :واذا كان اهل الذمة في مدائنهم (التي يحكمها الاسلام) لايمازجهم غيرهم فلا يسمى الساكن منهم لأمارة عليهم او لتجارة بينهم كافرا ولا مسيئا .بل هو مسلم محسن ودارهم دار اسلام لا دار شرك لان الدار انما تنسب للغالب عليها والحاكم فيها والمالك لها .(المحلى 13-140).
انما اعتبر جمهور الفقهاء ، سيادة الاحكام،دون اعتبار عقيدة القاطنين في الدار ،لان المناط الذي ذكروه هو الوصف المميز والوصف المؤثر. واما عدم اعتبارهم لوصف اخر كعقيدة سكان الدار فذلك لانه وصف غير مؤثر في تحقيق الغلبة والظهور للاحكام ،كما انه وصف غير مميز للدور بعضها عن بعض.وهذا هو السبب الذي حمل جمهور الفقهاء على عدم اعتبار عقيدة القاطنين في الدار ، واما كون عقيدة سكان الدار ليست وصفا مؤثرا .فلإنهم محكومون ، مقهورون ،تحت سيادة الاحكام ،وليس لهم منعة ولاقوة ،حتى ولو اقاموا في الدار شعائرهم وعباداتهم .فإقامة الشعائر في الدار لايدل على الغلبة والظهور لان المراد بالغلبة سيادة الاحكام التي تحتاج الى المنعة والقوة.

یعنی جمہور فقہاء نے علت میں علاقے والوں کے عقیدہ کا اعتبار نہیں کیا بلکہ احکام کے غلبہ کا ذکر کیا ہے جسکو آجکل ہم رِٹ کا نام دیتے ہیں کہ حکومت کی رٹ قائم ہے کہ نہیں- کیونکہ رہنے والوں کا عقیدہ غلبہ کے لئے موثر وصف نہیں
عقیدہ کے عدم اعتبار کی دلیل
ومما جاء في السنة. يدل على عدم جواز اعتبار عقيدة القاطنين في الدار ماجاء في شأن خيبر كما ورد في صحيح البخاري. فقد ورد فيه ان النبي صلى الله عليه وسلم (بعث اخا بني عدي من الانصار الى خيبر فأمره عليها )صحيح البخاري .وقد كانت خيبر خاضعة لاحكام الكفر فكانت دار كفر.ثم ظهرت عليها احكام الاسلام عندما غلب عليها النبي صلى الله عليه وسلم وفتحها ،وأمر عليها والي مسلم ليقيم الاحكام فيها .فصارت حينئذ دار اسلام .وكان القاطنين كلهم من اليهود . وبهذا يتقرر أن مناط الحكم على الدار هو غلبة الاحكام وسيادتها .وإن الحكم يدور مع علته وجودا وعدما . وانه لايجوز اعتبار اي سبب اخر. وأما ما حصل عندما سيطرت الدولة العبيدية الفاطمية الرافضية الكافرة على مصر و دول المغرب العربي والقاطنين اكثرهم مسلمين فقد قال الفقهاء عنها انها اصبحت دار كفر .
عقیدہ کے عدم اعتبار کے دلائل سنت میں موجود ہیں جیسے فتح خیبر سے پہلے خیبر کا دارالکفر ہونا اور غلبہ اسلام کے بعد رہنے والوں کی اکثریت یہودی ہونے کے باوجود دارالاسلام میں بدل جانا-اسی طرحمصر وغیرہ پر شیعہ کی خلافت فاطمیہ (عبیدیۃ) کے بارے فقہاء نے دارالکفر کا حکم لگایا ہے اگرچہ وہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی-پس حکم کی علت احکام کا غلبہ ہے اور حکم کا انحصار اپنی علت کے وجود اور عدم کے ساتھ انحصار ہوتا ہے کسی اور چیز کا اعتبار جائز نہیں-
موضوع کا خلاصہ
الخلاصة من الموضوع انه الان لاتوجد حكومة تحكم بحكم الله .كلها حكومات تحكم بقوانين وضعية تخدم بالاساس مصالحها وليس الشعب . لان شرع الله هو من ينصف الشعوب .والدليل عندما فتحت الاندلس وحكم شرع الله فرح الشعب النصراني ودخل منهم كثير بالاسلام بسبب عودة حقوقهم اليهم بعدما كانت مسلوبة من قبل ملوكهم الصليبين.
خلاصہ یہ کہ آج کوئی حکومت ایسی نہیں جو اللہ کے حکم سے فیصلہ کرے تمام حکومتیں وضعی قوانین نافذ کیے ہوئے ہیں اور مقصد حقیقت میں حکومتوں کے اپنے مفادات ہیں نہ کہ عوام کے مفادات- جبکہ شریعت میں عوام سے انصاف مقصد ہوتا ہے جسکی دلیل اندلس ہے کہ فتح سے پہلے نصرانی حکمام نے عوام کے حقوق سلب کیے ہوئے تھے جو فتح کے بعد عوام خوش ہو گئے اور اسلام میں داخل ہو گئے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اگرچہ اوپر والی باتوں میں اکثر مخلص علماء کا اتفاق ہی ہو گا مگر آج کے دور میں ممالک پر اطلاق کرنے میں ان میں جو اختلاف ظاہر ہو جاتا ہے اسکی وجہ میرے خیال میں دارالاسلام اور دارالکفر کی بحث میں کچھ ابہامات ہیں جن کو اگر دور کر دیا جائے تو کافی حد تک اختلافات کم ہو سکتے ہیں چنانچہ میں کوشش کروں گا کہ اپنی سوچ کے مطابق پہلے ان ابہامات کو بیان کروں باقی ساتھی خصوصا استادِ محترم حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی اس میں اصلاح اور اضافہ کر دیں تاکہ یہ طے ہونے کے بعد اسکو دور کرنے پر بھی بات ہو جائے گی
1- ایک وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ کلیئر نہیں ہوتا کہ کسی جگہ کو دارالکفر یا دارالاسلام کا حکم لگانے سے ہمیں کیا فرق پڑے گا- چنانچہ جو کسی جگہ کو دارالکفر ثابت کرنا چاہتے ہیں انکے نزدیک ایسا نہ کرنے سے دین یا جہاد کو کوئی بہت بڑا نقصان ہو جائے گا اسی طرح جو اسکو دارالاسلام ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انکو یہ فکر ہو سکتی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس جگہ پر فساد پیدا ہو جائے گا اب واقعی ایسا ہوتا ہے کہ نہیں اسکے لئے اس ابہام پر تفصیل سے بحث کرنا ہو گی کہ کسی جگہ کو دارالکفر یا دارالاسلام کہنے سے آج کے حالات میں کیا لازم آتا ہے کیونکہ حکم لگانے کا اصل مقصد یہی ہے
اسکے لئے ایک پہلو کی مثال دوں گا کہ کچھ لوگ حکمرانوں میں کفر بواح کو تو مانتے ہیں مگر سمجھتے ہیں کہ کفر کا حکم لگانے سے قتال جائز ہو جاتا ہے جس سے فساد پیدا ہوتا ہے پس فساد کو روکنے کے لئے پیچھے حکم کو ہی نہ متعین کریں پس اگر یہ ابہام دور کر دیا جائے کہ کفر سے تو کسی کا قتل یا اس سے لڑائی جائز نہیں ہو جاتی تو شاید خلا کم کی جا سکے
2-دوسرا ابہام یہ ہو سکتا ہے کہ کیا اسلام کے احکام کے غلبہ میں وہ احکام بھی آئیں گے جنکو اللہ کی رضا کے لئے نہیں لاگو کیا گیا بلکہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ایک مکسچر بنا دیا گیا ہو جیسے یاسق کے بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا تھا- اس کی ضرورت ایک تو اس لئے پڑتی ہے کیونکہ کچھ علماء کچھ مسلمان ممالک کے حکمران کی تکفیر کرتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اصل غلبہ تو حکمرانوں نے ہی دینا ہوتا ہے اب یہاں یہ معاملہ بھی آ جاتا ہے کہ اسلام اور دوسرے ادیان کے بہت سے احکام ایک ہو جاتے ہیں جن کو مکسچر میں شامل کرنے پر باطل کو اعتراض نہیں ہوتا پس کبھی باطل انکو صرف دھوکے کے لئے شامل کرنے پر تیار ہوتا ہے تو پھر ایسے تکفیری علماء کے ہاں ان احکام کے غلبہ کو لیا جائے گا یا نہیں- اس میں ہم فقہی نقطہ نظر سے اس بات کو دیکھ سکتے ہیں کہ قرون اولی میں جب کافر ملک بغیر جنگ جزیہ دے کر اطاعت قبول کرتے تھے تو کیا وہاں حدود بھی نافذ کی جاتی تھیں یا جزیہ کے بعد انکو اپنے قوانین نافذ کرنے کی اجازت ہوتی تھی اور اسکا سٹیٹس کیا ہوتا تھا
3-تیسرا ابہام یہ ہوتا ہے کہ کسی جگہ پر حکم لگانے کے لئے جب اس بات کو چیک کیا جاتا ہے کہ وہاں زیادہ اسلام کے احکام کا غلبہ ہے یا کفر کے احکام کا غلبہ ہے تو اسوقت احکام کی درجہ بندی نہیں کی جاتی کیونکہ اسلام کے تمام احکام ایک جیسے نہیں اسی طرح کفر کے تمام احکام ایک جیسے نہیں مثلا اگر اسلام کے ایسے ہزار احکام موجود ہوں جن پر باطل کو تکلیف نہ ہو (جیسے اوپر نمبر 2 میں لکھا ہے) اور ساتھ شرک بھی موجود ہو تو کیا غلبہ تصور کیا جائے گا

میں نے ابتداء کچھ باتیں لکھی ہیں پہلے اگر انکی اصلاح و اضافہ کر لیا جائے پھر ایک ایک پر بحث ہو جائے تو شاید کچھ بہتری ہو سکے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری یہ تجویز ہی ٹھیک نہ ہو پس کوئی بھائی بھی بغیر جھجک اصلاح کر سکتا ہے اللہ جزائے خیر دے امین- کیونکہ میں نے تو صرف سمجھنے کے لئے اور تفقہ کے لئے لکھا ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم عبدہ بھائی کے حکم پر میں اس دھاگے میں حاضری دے رہا ہوں ورنہ علمی لحاظ سے اس قابل نہیں ہوں۔
تھریڈ کا موضوع ہے "پاکستان، دار الاسلام؟"
اس کے لیے سب سے پہلے دار الاسلام کی تعریف کو دیکھتے ہیں:۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:۔
قال الجمهور: دار الإسلام هي التي نزلها المسلمون، وجرت عليها أحكام الإسلام
احکام اہل الذمۃ 2۔728 ط رمادی للنشر

"جمہور کہتے ہیں: دار الاسلام وہ ہے جہاں مسلمان بس جائیں اور اس پر اسلام کے احکام جاری ہوں۔"
دار الاسلام کی اس تعریف میں تو غالبا کسی کا اختلاف نہیں۔ اختلاف اس بات پر ہے کہ یہ دار الاسلام دار الکفر یا دار الحرب کب بنے گا؟
اس اختلاف میں بھی کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس جگہ پر احکام کفار غالب ہوجائیں۔
َ

لا بُدَّ أَوَّلًا مِنْ مَعْرِفَةِ مَعْنَى الدَّارَيْنِ، دَارِ الْإِسْلَامِ وَدَارِ الْكُفْرِ؛ لِتُعْرَفَ الْأَحْكَامُ الَّتِي تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِهِمَا، وَمَعْرِفَةُ ذَلِكَ مَبْنِيَّةٌ عَلَى مَعْرِفَةِ مَا بِهِ، تَصِيرُ الدَّارُ دَارَ إسْلَامٍ أَوْ دَارَ كُفْرٍ فَنَقُولُ: لَا خِلَافَ بَيْنَ أَصْحَابِنَا فِي أَنَّ دَارَ الْكُفْرِ تَصِيرُ دَارَ إسْلَامٍ بِظُهُورِ أَحْكَامِ الْإِسْلَامِ فِيهَا وَاخْتَلَفُوا فِي دَارِ الْإِسْلَامِ، إنَّهَا بِمَاذَا تَصِيرُ دَارَ الْكُفْرِ؟ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إنَّهَا لَا تَصِيرُ دَارَ الْكُفْرِ إلَّا بِثَلَاثِ شَرَائِطَ، أَحَدُهَا: ظُهُورُ أَحْكَامِ الْكُفْرِ فِيهَا وَالثَّانِي: أَنْ تَكُونَ مُتَاخِمَةً لِدَارِ الْكُفْرِ وَالثَّالِثُ: أَنْ لَا يَبْقَى فِيهَا مُسْلِمٌ وَلَا ذِمِّيٌّ آمِنًا بِالْأَمَانِ الْأَوَّلِ، وَهُوَ أَمَانُ الْمُسْلِمِينَ.
وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ - رَحِمَهُمَا اللَّهُ: إنَّهَا تَصِيرُ دَارَ الْكُفْرِ بِظُهُورِ أَحْكَامِ الْكُفْرِ فِيهَا.
البدائع و الصنائع 7۔130 ط دار الکتب العلمیۃ

والحاصل أن عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إنما تصير دارهم دار الحرب بثلاث شرائط: أحدها: أن تكون متاخمة أرض الترك ليس بينها وبين أرض الحرب دار للمسلمين، والثاني: أن لا يبقى فيها مسلم آمن بإيمانه، ولا ذمي آمن بأمانه، والثالث: أن يظهروا أحكام الشرك فيها، وعن أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى إذا أظهروا أحكام الشرك فيها فقد صارت دارهم دار حرب
المبسوط للسرخسی 10۔114 ط دار المعرفۃ

ولنا، أنها دار كفار، فيها أحكامهم، فكانت دار حرب - كما لو اجتمع فيها هذه الخصال -، أو دار الكفرة الأصليين.
المغنی لابن قدامۃ 9۔18 ط مکتبۃ القاہرۃ

دار الاسلام کی ایک تعریف اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ کے فتوی میں مندرجہ ذیل ہے:۔
دارالاسلام اس سر زمین کو کہتے ہیں جہاں قرآن وحدیث کے قوانین نافذ ہوں
اور ایک تعریف عموما کی جاتی ہے کہ "دار الاسلام اس ملک کو کہتے ہیں جہاں آزادی سے اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جا سکے"۔
کشاف میں دار الاسلام کی تعریف یہ لکھی ہے:۔


ودار الإسلام عندهم ما يجري فيه حكم إمام المسلمين من البلاد.
موسوعة كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم 1۔779 ط مکتبۃ لبنان

ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ " دار الاسلام وہ ہے جہاں احکام اسلام نافذ ہوں اور مسلمان اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکیں۔"
یہاں دو چیزیں وضاحت طلب ہیں:۔
  1. مسلمانوں کے دین پر عمل پیرا ہونے کا کیا مطلب ہے؟
  2. احکام اسلام کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟
1۔ دین پر مسلمانوں کے عمل پیرا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اپنے انفرادی معاملات (نماز، روزہ، زکاۃ، حج، نکاح، بیع و شراء وغیرہ) میں ان پر کوئی ایسی پابندی نہ ہو جو انہیں مستقل اس سے روک دے۔ جیسے آج کل بعض ممالک میں حجاب پر پابندی ہے۔ الا یہ کہ یہ پابندی کسی خاص جگہ پر یا کسی خاص وقت میں خاص عذر شرعی کی وجہ سے ہو جیسے حالات خرابی کی بنا پر کرفیو لگایا جائے اور مسجد جانے وغیرہ سے بھی روک دیا جائے۔
2۔ احکام اسلام کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کو عملی دنیا میں لانا ممکن ہو۔ چوں کہ اس بات پر بہت اختلاف ہوتا ہے اس لیے اس کی تھوڑی وضاحت عرض کرتا ہوں۔
ایک ہوتا ہے احکام کا عملی اجراء اور ایک ہوتا ہے اجراء کا ممکن ہونا۔ ان احکام میں حدود و قصاص سے لے کر تمام احکام شامل ہیں۔
احکام کے عملی اجراء میں اگر ہم غور کریں تو خلفاء راشدین کے بعد سے ہی احکام کے عملی اجراء میں ہمیں کوتاہی نظر آتی ہے۔ عمر بن عبد العزیزؒ نے جب حکومت سنبھالی تو تفسیر طبری میں جو اس وقت کے حکام کا حال لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المال کے خزانے کے بے دریغ استعمال پر وہ کم از کم معزول ہونے اور تعزیر کے مستحق تھے لیکن اسے جاری نہیں کیا گیا، اور اس بنا پر کسی نے اس وقت کی مملکت کو دار الاسلام سے خراج بھی نہیں قرار دیا۔ اسی طرح حجاج بن یوسف کا سعید بن جبیر رض کو قتل کرنے کا واقعہ مشہور ہے لیکن قصاص نہیں لیا گیا۔ حضرت حسین رض کے قاتلوں سے قصاص نہیں لیا گیا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں لیکن تاریخ میں کبھی بھی کسی نے ان واقعات میں احکام کے اجراء کے نہ ہونے کی وجہ سے مملکت اسلامی کو دار الاسلام سے خارج قرار نہیں دیا۔
احکام کے اجراء کے ممکن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کے قانون میں اس طرح شامل ہوں کہ مسلم ہوں اور اگر حکومت انہیں جاری کرنے لگے تو قانون اس کے لیے بلا جواز رکاوٹ نہ بن سکے۔ بلا جواز کی قید اس لیے ہے کہ بسا اوقات اس لیے رکاوٹ ہوتی ہے کہ گواہوں کی تعدیل ممکن نہیں ہوتی یا فوری اجراء پر مکمل نظام بکھر جاتا ہے یا اس طرح کی کوئی بھی رکاوٹ۔ اسے ہم غلط نہیں کہہ سکتے۔
پاکستان کے قوانین میں کچھ اس انداز سے شقیں شامل کی گئی ہیں کہ وہ اسلامی شقوں کے تحت رہتی ہیں۔ اگر اس میں کوئی شق غیر اسلامی ہو تو آپ اس پر بالدلیل مقدمہ کر سکتے ہیں جس کے بعد عدالت ایوان بالا اور ایوان زیریں کو مخصوص مدت کی مہلت دیتی ہے کہ اس دوران میں انہیں تبدیل کر دیا جائے ورنہ وہ خود ہی کالعدم قرار پاتی ہیں۔
آئین پاکستان کی بنیاد قرار داد مقاصد پر رکھی گئی ہے اور قرار داد مقاصد آئین کے ابتدائیہ یا دیباچے میں شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کسی صورت میں مسترد یا باطل نہیں کیا جاسکتا۔
قرار داد مقاصد کی پہلی شق ہے: اللہ تعالیٰ ہی کل کا ئنات کا بلا شرکت ِ غیرے حاکم ِمطلق ہے۔اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے،وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیاجائے گا۔
اس کی ایک اور شق ہے: جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،روادا ری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
مختصر الفاظ کے ساتھ یہ قرار داد کی دو شقیں انتہائی طویل مفہوم رکھتی ہیں۔ اسی کی بنیاد پر 1991 میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نے یہ اعلان کیا کہ صدر کو معافی کا جو اختیار ہے وہ حدود اربعہ کے قانون میں جاری نہیں ہو سکتا۔
آئین پاکستان کو غیر آئینی قرار دینا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کو صحیح طرح جانا نہیں جاتا۔ اگر آپ کسی آئینی شق کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شق قرآن و سنت اور فقہ مقارن کے خلاف ہے تو آپ بلا جھجھک عدالت میں اس پر کیس کر سکتے ہیں۔ عدالت اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجے گی جہاں اس پر بحث ہوگی اور اگر وہ واقعی ایسا ہوا تو واپس عدالت میں ان کے فیصلے کے ساتھ پہنچ جائے گا اور عدالت اس پر فیصلہ جاری کر دے گی۔
یہ نہ جانتے ہوئے یہ کہنا کہ یہ قانون شریعت کے خلاف ہے صرف نادانی ہے۔

ہاں اگر یہ کہا جائے کہ یہ قوانین تو موجود ہیں لیکن صرف کتابوں میں تو ان کی وضاحت میں کر چکا ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے موٹر سائیکل پر ہیلمٹ کی پابندی تو موجود ہے لیکن اگر میں نہیں پہنتا اور پولیس والا پکڑتا بھی نہیں ہے تو یہ انفرادی کمزوری و خطا ہے۔ اس میں نظام کا قصور نہیں۔ اسی طرح اگر ان قوانین پر عمل نہیں ہو رہا تو یہ حکمرانوں کی عملی کمزوری ہے اور کچھ ہم عوام کی بھی کہ ہم جمع ہو کر یہ مطالبہ نہیں کرتے۔ اس سے نظام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہاں ایک سوال سودی نظام کے بارے میں کیا جاتا ہے تو عرض یہ ہے کہ سودی نظام قانون پاکستان کے تحت بھی درست نہیں ہے لیکن حکومت اس کو ختم اس لیے نہیں کرتی کہ اس کے متبادل کوئی نظام حکومت کے پاس نہیں تھا۔ اب جب کہ ایک متبادل نظام بھی مہیا ہو گیا ہے تو امید ہے اسے جلد ہی بدلا جائے گا۔ جیسا کہ کچھ عرصہ پہلے اس پر قرارداد بھی منظور ہوئی ہے۔ لیکن اگر بالفرض اسے تبدیل نہیں بھی کیا جاتا تو بھی یہ حکومت کی عملی کمزوری سمجھی جائے گی۔
چناں چہ اصولی طور پر ہم پاکستان کو دارالاسلام ہی شمار کریں گے۔

اب عبدہ بھائی کے کچھ فرمودات پر غور کرتے ہیں:۔
1- ایک وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ کلیئر نہیں ہوتا کہ کسی جگہ کو دارالکفر یا دارالاسلام کا حکم لگانے سے ہمیں کیا فرق پڑے گا- چنانچہ جو کسی جگہ کو دارالکفر ثابت کرنا چاہتے ہیں انکے نزدیک ایسا نہ کرنے سے دین یا جہاد کو کوئی بہت بڑا نقصان ہو جائے گا اسی طرح جو اسکو دارالاسلام ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انکو یہ فکر ہو سکتی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس جگہ پر فساد پیدا ہو جائے گا اب واقعی ایسا ہوتا ہے کہ نہیں اسکے لئے اس ابہام پر تفصیل سے بحث کرنا ہو گی کہ کسی جگہ کو دارالکفر یا دارالاسلام کہنے سے آج کے حالات میں کیا لازم آتا ہے کیونکہ حکم لگانے کا اصل مقصد یہی ہے
اسکے لئے ایک پہلو کی مثال دوں گا کہ کچھ لوگ حکمرانوں میں کفر بواح کو تو مانتے ہیں مگر سمجھتے ہیں کہ کفر کا حکم لگانے سے قتال جائز ہو جاتا ہے جس سے فساد پیدا ہوتا ہے پس فساد کو روکنے کے لئے پیچھے حکم کو ہی نہ متعین کریں پس اگر یہ ابہام دور کر دیا جائے کہ کفر سے تو کسی کا قتل یا اس سے لڑائی جائز نہیں ہو جاتی تو شاید خلا کم کی جا سکے


اگر ہم کسی جگہ مثال کے طور پر پاکستان کو دار الکفر یا دار الحرب قرار دیتے ہیں تو اس سے ہوتا یہ ہے کہ یہاں موجود تمام اقلیتیں (ہندو، عیسائی وغیرہ) ذمیوں کے حکم سے نکل جائیں گے۔ ان پر حملہ کرنا اور ان کے اموال کو لینا درست ہو جائے گا کیوں کہ وہ دار الحرب میں موجود ہیں اور ہمارا حکومت دار الحرب سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے کہ ہم ان کے قوانین کی حفاظت کریں گے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ یہاں مسلح جد و جہد مطلقا جائز ہی نہیں لازم بھی ہو جائے گی کیوں کہ کوئی دار الاسلام جب کفر کے غلبے کی وجہ سے دار الکفر بن جائے تو اس کو اس سے نکالنا اور اس کا دفاع کرنا لازم ہے۔
تیسری بات یہ کہ اس کی افواج میں ملازمت کرنا کافر فوج کی ملازمت کی طرح ہو جائے گا۔
یہ وہ چند خرابیاں ہیں جو میرے ذہن میں آتی ہیں۔ واللہ اعلم
یہاں كفر بواح كی بابت یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کفر بواح سے مراد انتہائی واضح کفر ہے۔ عام کفر بھی احتمال ایمان سے لازم نہیں ہوتا تو بواح کس قدر واضح ہوگا یہ خود سوچ لیں۔ جبکہ اس طرح کا کفر عموما ہمارے حکمرانوں سے صادر نہیں ہوتا۔ یہ تو غالبا تب ہی ہو سکتا ہے جب وہ واضح شرک (عبادۃ اصنام وغیرہ) کرے اور جب اسے تفصیلا اس کا کفر بتایا جائے تب بھی اس پر ضد کرے اور کہے کہ میں یہی کفر کروں گا۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:۔
إلا أن تروا كفرا بواحا بموحدة ومهملة قال الخطابي معنى قوله بواحا يريد ظاهرا باديا
فتح الباری 13۔8 دار المعرفۃ

ہمارے حکمران اس قدر چالباز سیاستدان ہوتے ہیں کہ اگر ان کے دل میں کفر ہو بھی تب بھی وہ زبان سے ایمان کا ہی اظہار کریں گے۔ باقی جو عوام کے ساتھ ان کے افعال ہیں جیسے قتل و قتال اس کو دیکھ کر ان کے خلاف ظلم کے خاتمے کے لیے تو اٹھا جا سکتا ہے لیکن کفر کی وجہ سے نہیں۔
2-دوسرا ابہام یہ ہو سکتا ہے کہ کیا اسلام کے احکام کے غلبہ میں وہ احکام بھی آئیں گے جنکو اللہ کی رضا کے لئے نہیں لاگو کیا گیا بلکہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ایک مکسچر بنا دیا گیا ہو جیسے یاسق کے بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا تھا- اس کی ضرورت ایک تو اس لئے پڑتی ہے کیونکہ کچھ علماء کچھ مسلمان ممالک کے حکمران کی تکفیر کرتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اصل غلبہ تو حکمرانوں نے ہی دینا ہوتا ہے اب یہاں یہ معاملہ بھی آ جاتا ہے کہ اسلام اور دوسرے ادیان کے بہت سے احکام ایک ہو جاتے ہیں جن کو مکسچر میں شامل کرنے پر باطل کو اعتراض نہیں ہوتا پس کبھی باطل انکو صرف دھوکے کے لئے شامل کرنے پر تیار ہوتا ہے تو پھر ایسے تکفیری علماء کے ہاں ان احکام کے غلبہ کو لیا جائے گا یا نہیں- اس میں ہم فقہی نقطہ نظر سے اس بات کو دیکھ سکتے ہیں کہ قرون اولی میں جب کافر ملک بغیر جنگ جزیہ دے کر اطاعت قبول کرتے تھے تو کیا وہاں حدود بھی نافذ کی جاتی تھیں یا جزیہ کے بعد انکو اپنے قوانین نافذ کرنے کی اجازت ہوتی تھی اور اسکا سٹیٹس کیا ہوتا تھا
کسی حکم کو کسی بھی وجہ سے لاگو کیا گیا ہو اگر وہ اسلام کے مطابق درست ہے تو ہم اسے درست ہی کہہ سکتے ہیں۔
ویسے آج کے دور میں عوام کی پسند پر ہی قوانین بنائے جاتے ہیں چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی۔ پاکستان چوں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا ملک ہے اس لیے اس میں اسلامی قوانین بنائے گئے ہیں۔
اگر کوئی یہ چاہے کہ قوانین کو صرف اس اعتبار سے بنایا جائے کہ وہ قرآن و حدیث کے قوانین ہیں یا فقہ میں بنے بنائے قوانین کو نافذ کیا جائے تو اس میں فی الحال دو مسئلے ہیں: ایک تو عوام کا ایسا ذہن بنانا پہلے لازمی ہے۔ اور دوسرا قرآن و حدیث و فقہ کا موجودہ دور پر انطباق ضروری ہے۔
میں نے بہت پہلے یہ سوال کیا تھا کہ اگر ہمارے ملک میں خالص اسلامی قانون نافذ کیا جائے تو وہ سنیوں کا ہوگا یا شیعوں کا؟ سنیوں کا ہوگا تو مقلدین کا ہوگا یا اہل حدیث کا؟ مقلدین کا ہوگا تو دیو بندیوں کا ہوگا یا بریلویوں کا؟ اہل حدیث کا ہوگا تو جماعت المسلمین کا ہوگا یا جمعیت اہل حدیث کا؟
ہر فرقہ اپنا چاہے گا اور ہر فرقہ مسلمان کہلاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شیعہ کے علاوہ سب اپنی تائید قرآن و حدیث سے پیش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم قانون بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بڑے پیمانے پر قانون بنانا ہوگا۔


واللہ اعلم بالصواب
 
Top