• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پاکستان، دارالاسلام ؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اب آپکی پہلی پوسٹ کا جواب دیتا ہوں
آپ نے فرمایا کہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کسی بھی قانونی شق کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ سوال میں نے ایک قانون دان سے کیا تھا تو اس نے کہا کہ قرارداد مقاصد قانون کے دیباچہ میں شامل ہے یعنی اس چیز پر جس پر قانون کی بنیاد ہے اس لیے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
جی محترم بھائی میں نے آپ کو کہا تھا کہ آپ نئے ہیں جبکہ میں نے یونیورسٹی میں ایک خاص پہلو سے قانون پڑھایا ہے اسکی اصطلاحات اور فراڈ کو جانتا ہوں
آپ کو جس وکیل نے بتایا ہے کہ قرارداد مقاصد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو اس سے پوچھیں کہ کون سی شق کے تحت آپ یہ دعوی کر رہے ہیں
یہ بیچاری قرار داد مقاصد پہلے ۱۹۵۶؁ء کے دستور میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی،پھر ۱۹۶۲؁ء کے دستور میں بھی اسے دیباچہ قراردیا گیا اور اپریل ۱۹۷۲؁ء کے ہنگامی دستور اور ۱۹۷۳؁ء کے دستور میں بھی اسے دیباچے کی حیثیت دی گئی۔
پھر دفعہ۲ور دفعہ۲ الف کے ذریعے اس قرارداد کو دستور کا مستقل حصہ بنادیاگیا۔دستور کی دفعہ۲کہتی ہے کہ:
''ریاستِ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا''۔ اور دفعہ۲الف میں مذکور ہے کہ :
''قراردادِ مقاصد،جسے دستورکے ساتھ بطور ضمیمہ بھی ملحق کیا گیا ہے،میں درج اصول واحکام کو دستور کا مستقل حصہ قرار دیاجاتا ہےجو بعینہ من وعن مؤثر ہوں گے''
اصل عبارت یوں ہے:
Islam to be State religion
2. Islam shall be the State religion of Pakistan.
2A. The Objectives Resolution to form part of substantive provisions
2A. The principles and provisions set out in the Objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly. [PART I Introductory, Article 2].​
پس قرار داد مقاصد دستور میں شامل ایک شق 2 الف کی وجہ سے ہی حیثیت حاصل کر سکی ہے ورنہ پہلے اسکی کوئی حیثیت نہیں تھی
اب اس شو 2 الف کو بھی کسی وقت ختم کیا جا سکتا ہے دستور کی دفعہ۲۳۸ واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ پارلیمان کو دستور میں ترامیم کا حق حاصل ہے ۔ جبکہ دفعہ ۲۳۹ میں آئینی ترمیم کے لئے دوتہائی اکثریت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اسی دفعہ کے تحت پانچویں اور چھٹے بند میں دو انتہائی اہم باتیں نصاً مذکور ہیں:
پہلی یہ بات کہ کسی بھی آئینی ترمیم کے خلاف کسی سطح کی عدالت میں کسی بنیاد پر اعتراض کرنا ممکن نہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہر قسم کے شک کو رفع کرنے کے لیے یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ مجلسِ شوریٰ (یعنی پارلیمان)کو دستور کی دفعات میں ترمیم کا لا محدود اختیار حاصل ہے
اصل عبارت یہ ہے
"(5) No amendment of the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatever.
(6) For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majilis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution" [CONSTITUTION OF PAKISTAN, PART XI Amendment of ConstitutionArticle 239].​

دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسی قرار داد مقاصد کے دیباچے میں کئی مرتبہ ''جمہوریت ''کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔ اور ''جمہوریت''کی اصطلاح اسی معروف معنی اور معلوم صفات کی حامل ہے۔یہ معانی وصفات جمہوریت کا ایسا جزوِلاینفک ہیں کہ اگر انہیں اس سے الگ کردیاجائے تو جو کچھ باقی بچے گا وہ کسی طور بھی جمہوریت نہیں کہلائے گا۔انہی اساسی صفات میں سےایک یہ بھی ہے کہ قانون سازی اور حکمرانی کا حق عوام کی غالب اکثریت کے پاس ہو اور باقی تمام اقدار واخلاق اسی بنیاد پر طے ہوں ۔پس وہ حرام ہوگاجسے اکثریت حرام کہے اور حلال وہ ہوگا جسے اکثریت حلال قرار دے۔
اسی طرح دیباچے میں یہ بھی عبارت ملتی ہے کہ :''پاکستان عدلِ اجتماعی کے اصولوں پر قائم ایک جمہوری ریاست ہوگی''
دیباچے میں یہ عبارت بھی مذکور ہے کہ :''(ہم اس)جمہوریت کی حفاظت کا عزمِ مصمم کیے (ہوئے ہیں)جو ظلم واستبداد کے خلاف عوام کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے'' اب نجانے اس عبارت کےذریعے یہ 'اسلامی'دستور کس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے رہا ہے؟پوری جمہوریت کی حفاظت کا؟اکثریت کے حقِ حکمرانی اور حقِ قانون سازی کے تحفظ کا؟آخر کس بات کا ؟پس یہ بات توبڑے واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ دستورِ پاکستان کی ابتدائی سطور سے ہی حق وباطل کی آمیزش کا اغاز ہوجاتاہے
قراردادِ مقاصد کے اسلامی احکامات
جہاں تک قراردادِ مقاصد میں موجود اسلامی ہدایات واحکامات کا تعلق ہے ،تو ان کی عبارتوں میں ایسا عموم پایاجاتا ہے کہ ان سے کوئی متعین حکم اخذکرنا ممکن نہیں،البتہ کچھ عمومی باتیں شاید اخذ کی جاسکیں۔
(۱)مثلاً یہ عبارت کہ:
''یہ بات اظہرمن الشّمس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ کل ہے اور پاکستان کے عوام کو جو اقتدار واختیار بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کا احق حاصل ہے ،وہ ایک مقدس امانت ہے''۔
یہ ایک عمومی سی عبارت ہے جو نہ تو یہ بات صراحتاً کہتی ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ صرف شریعتِ اسلامی کی ہوگی اور نہ ہی اس بات پر دوٹوک دلالت کرتی ہے کہ شرعی احکامات کو ایک ایسے بلند وبرتر مصدر کی حیثیت حاصل ہوگی جس کے مقابل کوئی دوسری شریعت یا قانون قابل قبول نہ ہوں گے۔اسی طرح اس عبارت میں تصریح بھی نہیں کی گئی کہ شرعی احکامات کو عوامی اکثریت کی رائے پر بھی فوقیت دی جائے گی
(۲)اسی طرح یہ عبارت کہ:
''مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل بنایاجائے گاکہ وہ اپنی زندگی قرآنِ پاک اور سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کردہ اسلامی تعلیمات ،تشریحات اور ضروریات کے حسبِ منشاء ترتیب دے سکیں''۔
یہ بھی محض ایک وعدہ ہے ،جو کہ ساٹھ سال گزرجانے کے بعد بھی پورانہیں ہوسکا۔
مزید اس بارے کوئی معلومات چاہئے ہوں تو حاضر ہوں

آپ نے وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں فرمایا۔ محترم بھائی اس فیصلے کا نتیجہ کیا ہوا میں نہیں جانتا۔ اگر آپ عرض کر دیں تو شکرگزار ہوں گا۔
جی ہونا کیا تھا قانونی طور پر یہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح کچھ نہیں کر سکتی آج کل نظریاتی کونسل کا کم عمری کی شادی پر مشوری دینے پر پارلیمنٹ والے جو حال کر رہے ہیں کہ تم لولی لنگڑی کو یہ کیسے جرات ہوئی کہ ہمارے بنائے قانون پر اعتراض کر سکو
پس وہ صرف اعتراض تو کر سکتی ہے مگر مشوری کی حد تک ماننا نہ ماننا پارلیمنٹ کا کام ہے مگر پارلیمنٹ کو یہ مشوری بھی گوارہ نہیں جسکی خود اجازت دی ہوئی ہے اور فرحت اللہ بابر کا بیان اس بارے جنگ میں پڑھ لیں

آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وفاقی شرعی عدالت کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ قانون پر کچھ نہیں کر سکتی۔ تو میں نے اس عدالت کا غالبا ذکر ہی نہیں کیا۔ میری اولین مراد عدالت سے آپ کے معروف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ ہے۔
محترم بھائی میں نے اسکا ذکر اسلئے کیا تھا کہ شرعی معاملات کو صرف یہی دیکھ سکتی ہے خیر اس لولی لنگڑی کا تذکرہ کو چھوڑ دیتے ہیں جہاں تک سپریم کورٹ کے ججوں کا تعلق ہے تو وہ میں نے اوپر 239 کے تحت بتا دیا ہے کہ جو پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کہ دے وہ چیف جسٹس کا باپ بھی اعتراض تو کیا اس مقدمے کو سن بھی نہیں سکتا

آپ کا یہ اشکال اس پر بجا ہوگا کہ اس میں "عادل" ججز موجود نہیں ہیں لیکن غیر عادل کچھ اس قدر بھی غیر عادل نہیں ہوتے کہ وہ واضح قرآن و حدیث کے مخالف فیصلہ دے سکیں۔
بھائی آپ سلمان تاسیر کو مارنے والے ممتاز قادری کے فیصلے کو اٹھا کر پڑھ لیں اخبار میں بھی مکمل لگا تھا اس بات سے قطع نظر کہ درست تھا یا غلط مگر جج فیصلہ میں کہتا ہے کہ اگرچہ یہ کام شریعت کے عین مطابق تھا مگر ہم نے شریعت کو نہیں دیکھنا ہوتا ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے پس میں اسکو پھانسی دیتا ہوں

میں نے ایک پروسیجر عرض کیا تھا:۔اگر یہ پروسیجر واقعی ایسا ہی ہے جیسے میری معلومات میں ہے تو پھر اس سے کوئی شق خارج نہیں ہو سکتی۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہم یہ کام کریں۔
ہاں ایک معاملہ ہوتا ہے کہ اگر متبادل کوئی طریقہ نہ ہو تو عدالت وقتی طور پر اس پر فیصلہ موقوف کر دیتی ہے اور علماء کرام سے مدد طلب کرتی ہے۔ پھر اس پر وہ طویل معاملہ چلنا شروع ہوتا ہے جو آپ سود کے معاملات میں دیکھ رہے ہیں۔ سود سے غیر سودی بینکاری کی عالمی تحقیق، اس کا تجرباتی نفاذ اور آہستہ آہستہ اسٹیٹ بینک کو اس طرف لانا۔ اگر اس میں کوئی اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے ٹال مٹول کرے تو ہم اسے آئین کی کمزوری نہیں قرار دے سکتے۔ آئین نے ہمارے لیے راستہ رکھا ہے اور ہم اس راستے پر نہیں چل رہے۔
جی میں نے اوپر بتا دیا کہ دفعہ 239 کے تحت پارلیمنٹ کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو پروسیجر یہ کیسے ہے محترم بھائی اسلامی نظریاتی کونسل بھی آپ کے مشورے پر عمل کر کے عدالت جا کر شرعیت کے حق میں فیصلہ نہیں کروا سکتی دیکھیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل جو پارلیمنٹ کو کم عمری کی شادی پر مشورہ دے رہی ہے کیا وہ عدالت میں جا کر آپ کے مطابق اس غیر شرعی شق کو ختم نہیں کرا سکتی تھی اسکو مشورہ دینے کی کیا ضرارت تھی اور پھر فرحت اللہ بابر پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی درج نہیں کرا سکتی تھی بھئی یہ سارے ہمیں بے وقوف بنانے کی باتیں ہیں اللہ سمجھ دے امین

باقی جواب اگلی فرصت میں انشاءاللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا عبدہ بھائی۔
اصل میں مجھے بنیادی اسی اسلامی نظریاتی کونسل اور عدالت والی بات پر غلطی لگی تھی۔ جب وہ کچھ نہیں کر سکتی تو پھر ساری باتیں واقعی صرف الفاظ کی حد تک رہ جاتی ہیں۔
ویسے آگے مزید لکھیے گا۔ میرے علم میں اضافہ ہوگا۔
یہاں اس بات میں تشنگی رہ جاتی ہے کہ جب یہ سب ایسا ہی ہے جیسا ظاہر ہو رہا ہے تو پھر ہم اس میں کیا اصلاح کر سکتے ہیں اور اس کے لیے کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟ اس پر بھی براہ کرم روشنی ڈالیے گا۔
 

چاچا جی

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2014
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
اگرچہ میں اسکا علیحدہ تھریڈ بنا چکا ہوں لیکن چونکہ یہ پوسٹ بالکل اس تھریڈ سے متعلق ہے اس لیے یہاں بھی لگا رہا ہوں
آئین ایک مذہبی مقدس دستاویز ہے - چیف جسٹس پاکستان
http://www.nawaiwaqt.com.pk/lahore/02-Mar-2014/285643
لاہور (وقائع نگار خصوصی+ سٹاف رپورٹر+ ایجنسیاں) چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عدلیہ بطور ادارہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کر رہا ہے۔ ایف سی کالج کے سالانہ ڈنر میں بطور مہمان خصوصی خطاب میں انہوں نے کہا جمہوریت، قانون کی حکمرانی، برداشت، روا داری اور بنیادی حقوق ہماری اقدار ہیں۔ جن کو عدم برداشت، تشدد اور دیگر منفی عوامل سے خطرہ ہے۔ اس وقت تمام اداروں اور طبقوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک انصاف فراہم کرنے والا معاشرہ وجود میں آئے۔ ان چینجز کو قبول کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کر کے ہی ہم ملک کا مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح کا آئین ساز اسمبلی سے خطاب ہی ہمارا وژن ہے۔ انہوں نے ایف سی کالج میں بطور طالب علم اپنے دور کے بارے میں ماضی کی یادوں کو تقریب کے شرکاء سے شیئر کیا۔ جسٹس تصدق نے کہا کہ لو گ روزانہ مار ے جارہے ہیں ہمیں سچ کیلئے آواز اٹھانا ہوگی' آج ہمیں مہلک ہتھیاروں اور غیر ریاستی عنا صر سے خطرات لاحق ہے مگردہشت گردی ملک کو ایک نیا پاکستان بننے سے نہیں روک سکتی' ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے' بطور شہری ہم امن اور ترقی میں حصہ دار ہیں' ملک میں قتل وغارت اور دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں' آئین شہر یوں کو حقوق اور سستا انصاف فراہم کر تا ہے' آئین میں موجود اقدار کو قتل وغارت سے خطرہ ہے۔ آئین ایک مذہبی مقدس دستاویز ہے جس میں معاشرے کا ہر فرد اپنی مرضی کی زندگی گزار کیلئے آزاد ہے مگر غیر ریاستی عناصر ملک میں دہشت گردی کرکے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس وقت بہت سے چیلنجز درپیش ہے اس کیلئے نوجوانوں کو بھی آگے بڑھ کر اپنے اور ملک کے بہتر مستقبل اور معاشرے کی اصلاح کیلئے اپنا کردار ادا کر نا چاہئے۔ غیر ریاستی عناصرموت کا کاروبارکر رہے ہیں' مذہبی اور لسانیت کے نام پر موت بانٹی جا رہی ہے۔

علماء کرام سے گزارش ہے کہ کیا یہ "تبدیل" نہیں ؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
غلبہ احکام کی بابت آپ نے فرمایا تو میری عرض یہ ہے کہ غلبہ سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ کوئی کسی قبر کے سامنے سربسجود ہو۔ اگر آپ اسے شرک سمجھتے ہیں تو آپ کو اس پر ایک باقاعدہ مدلل بحث تیار کر کے عدالت میں دینی ہوگی اور اس پر عدالت اس پر پابندی لگا دے گی۔
محترم بھائی ہم اکثر لاشعوری طور پر توحید اس کو سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہ مانگیں باقی جو مانگتے ہیں انکو غلط کہیں یا نہ کہیں اس کا توحید کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ تو حید ہماری ہمارے شرک میں ملوث نہ ہونے سے ہی پوری ہو جائے گی تو میرے خیال میں یہ درست سوچ نہیں
ایک انسان ساری زندگی ایک اللہ سے مانگتا رہے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے مگر شریک ٹھرانے والے کو غلط نہ سمجھے تو اسکو کوئی موحد نہیں کہ سکتا بلکہ توحید کا جھگڑا ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار پر شروع ہوا تھا
اس پس منظر میں آپ توحید کے غلبہ کو دیکھیں تو قانون میں آپ کو توحید کے غلبے کا احساس ہو جائے گا ان شاءاللہ

اور اگر آپ غلبہ سے مراد یہ لیتے ہیں کہ عوام و حکمران میں احکام نافذ ہوں تو میرے بھائی میں نے یہی عرض کیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں بھی دار الاسلام قرار دیا گیا ہے۔ بہت سے احکام ہر زمانے میں نافذ نہیں رہے۔ حرم مکی کے بارے میں ارشاد ہے انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ھذا۔ شیعہ کی حالت سے آپ واقف ہیں۔ وہ کیسے دندناتے وہاں آتے ہیں؟ شہزادوں کے محل میں کیا کیا ہوتا ہے مشہور ہے۔ عرب کے اچھے کردار کے ساتھ برائیاں بھی کیسی ہیں اور کس طرح عام ہیں معروف ہیں اور نکیر کچھ بھی نہیں۔ تو عوام میں نفاذ کو اس معاملے میں ہم نہیں لا سکتے ورنہ پوری دنیا ہی دار الکفر ہو جائے گی اور ہمیں طالبانان افغانستان کا دوبارہ انتظار کرنا ہوگا۔
محترم بھائی سعودی عرب میں شریعت نافذ ہے البتہ وہاں بھی آپ کو پھر ایسے اشکالات نظر آئیں گے
محترم بھائی میں نیچے دو صورتیں لکھوں گا جن کے ہوتے ہوئے بھی شریعت کے نفاذ کو موثر سمجھا جائے گا
1-اپنے کسی ذاتی فائدہ کے لئے کسی فیصلے کو تاویل کرتے ہوئے شریعت کے خلاف کرنا
2-اشکال یا غلط فہمی کی وجہ سے کسی فیصلے کو شریعت کے خلاف کرنا

پس ہم تو متفق علیہ معاملات کو دیکھیں گے نہ کہ مختلف فیہ معاملات کو دیکھ کر شریعت کے نفاذ کے متعلق فیصلہ کریں گے میں نے ایک اور جگہ پوسٹ میں عثمان پیرذادہ کے جنگ میں ایک حالیہ کالم کا حوالہ دیا تھا جس میں اس نے کچھ اجتہادی باتوں میں تبدیلی کو بنیاد بنا کر شریعت کو تبدیل کرنا جائز قرار دیا تھا اسنے لکھا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے شراب کو چالیس سے 80 کیا اسی طرح حلالہ والے کو سنگسار کرنے کا اجتہاد کیا وغیرہ وغیرہ تو پھر آج ہماری پارلیمنٹ کی اکثریت شریعت میں حالات کے مطابق تبدیلی کیوں نہیں کر سکتی

ایک سوال آپ نے دریافت فرمایا:۔
---------
تو میں نے عرض کیا تھا:۔
------------------
جس وقت ہم کسی ملک میں ویزہ لے کر جاتے ہیں تو ہم اس سے اس بات کا معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کا خیال رکھیں گے۔ اگر کوئی بغیر ویزہ کے داخل ہو تو اس کا مسئلہ آپ علماء کرام سے معلوم کر سکتے ہیں۔ وہ اگر دو وجہ سے (بعض کے نزدیک مسلم حکمرانوں کے معاہدہ کی وجہ سے اور بعض کے نزدیک فقط مصلحت کی وجہ سے) منع نہ کریں تو جو جواب دیں وہ مجھے بھی بتائیے گا۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔
محترم بھائی ویسے تو میں نے یہاں سے انڈیا جانے والے مسلمانوں کی بات نہیں کی تھی بلکہ ادھر کے رہنے والے مسلمانوں کی بات کی تھی پس آپ ان مسلمانوں کو یہاں کے مسلمانوں سے مختلف تصور نہیں کر سکتے
لیکن اگر آپ ویزے والے معاہدے کو دلیل بنانا چاہتے ہیں تو محترم بھائی قانون میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے constructive notice یعنی آپ جا کر نیازی کی اسلام آباد وای بس پر بیٹھ گئے مگر آپ نے کنڈیکٹر وغیرہ سے کوئی معاہدہ نہیں کیا مگر حقیقت میں انکی پریکٹس یا انکا بورڈ آپ کے لئے اور انکے لئے ایک نوٹس ہے اور معاہدہ ہے جس کا کوئی فریق انکار نہیں کر سکتا
پس پاکستان میں رہتے ہوئے آپ کو یہ constructive notice ہوتا ہے کہ آپ اسکے تمام قوانین کی پابندی کریں گے اور انکو مانیں گے
دوسرا اگر آپ یہاں لاعلمی کا اظہار کریں تو اس پر بھی قانون ہے کہ ignorance of law is no excuse یعنی آپ جہالت کا کہہ کر اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتے-
پس ویزہ کے بغیر بھی آپ کا پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے

یہ بندہ کا اپنا اجتہاد ہے۔ ممکن ہے صواب ہو اور ممکن ہے خطا۔
آخر میں اس ساری بحث کو سمیٹنے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ بعض باتیں کہنے میں تو بہت آسان ہوتی ہیں اور میں بھی کہتا رہا ہوں لیکن زمین پر موجودہ حالات میں لانا بہت مشکل ہوتی ہیں۔اگر آپ کے خیال میں کثرت سے قانون پاکستان میں نہیں ہونا چاہیے تو قانون کس طرح بنایا جائے اور اس کا نفاذ کس طرح کیا جائے؟ یہ ایک اہم اور فکری سوال ہے؟ اگر آپ تمام ملک کے افراد کے تناظر میں اس پر غور فرمائیں اور اپنی رائے عنایت فرمائیں تو وہ نہایت قیمتی ہوگی۔
جی محترم بھائی اگلی پوسٹ میں بھی آپ نے اسی طرح لکھا ہوا ہے میں ان شاءاللہ اگلی فرصت میں اس پر رائے دوں گا ویسے مجھے یہ نہ سمجھیں کہ میں کوئی طالبان ہوں اور اس قانون کو بالکل وقعت نہیں دیتا بلکہ میرا اعتراض یہ ہے کہ آپ اس قانون کو شریعت کہ کر نہ منوائیں بلکہ کسی اور لحاظ سے (معاہدہ وغیرہ کے تحت بات کریں) ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس ضیاں جاتا رہا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہاں اس بات میں تشنگی رہ جاتی ہے کہ جب یہ سب ایسا ہی ہے جیسا ظاہر ہو رہا ہے تو پھر ہم اس میں کیا اصلاح کر سکتے ہیں اور اس کے لیے کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟ اس پر بھی براہ کرم روشنی ڈالیے گا۔
محترم بھائی اس سلسلے میں "اسلامی سیاسی نظام کی خصوصیات" دھاگہ بنایا ہے
البتہ جہاں تک آپ کی اصلاح کے طریقے کار کی بات ہے تو محترم بھائی اصلاح کے طریقے ڈھونڈنے کے لئے کسی چیز کے غلط ہونے پر شرح صدر ہونا چاہیے پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا
پس اگر سود غلط ہے تو متبادل نظام کی عدم فراہمی اسکی جواز کی دلیل نہیں بن سکتی واللہ اعلم

اگر آپ کے خیال میں کثرت سے قانون پاکستان میں نہیں ہونا چاہیے تو قانون کس طرح بنایا جائے اور اس کا نفاذ کس طرح کیا جائے؟ یہ ایک اہم اور فکری سوال ہے؟ اگر آپ تمام ملک کے افراد کے تناظر میں اس پر غور فرمائیں اور اپنی رائے عنایت فرمائیں تو وہ نہایت قیمتی ہوگی۔
محترم بھائی جہاں تک ملک کے تمام افراد کو پسند آنے والا حل چاہیے تو وہ شاید نہ دے سکوں البتہ شریعت کی روشنی میں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کیا ہونا چاہئے اس پر اپنی رائے نئے دھاگے "اسلامی سیاسی نظام کی خصوصیات" میں دینے کے بعد آپ کے سوال پر بحث کروں گا ان شاءاللہ

بعض باتیں کہنے میں تو بہت آسان ہوتی ہیں اور میں بھی کہتا رہا ہوں لیکن زمین پر موجودہ حالات میں لانا بہت مشکل ہوتی ہیں۔
محترم بھائی لایکلف للہ نفسا الا وسعھا کے تحت ہم سے عمل کے بارے ہماری طاقت سے زیادہ نہیں پوچھا جائے گا مگر کسی غلط کام کو غلط نہ کہنے کا پوچھا جائے گا
 

جہان حیرت

مبتدی
شمولیت
اپریل 02، 2014
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
3
اسلامی نظریہ کونسل ختم کر دی جائے' سندھ اسمبلی کی متفقہ قرارداد
http://www.nawaiwaqt.com.pk/front-page/01-Apr-2014/292531
کراچی (وقائع نگار+ ایجنسیاں) سندھ اسمبلی نے متفقہ قرارداد کے ذریعہ اسلامی نظریہ کونسل کی طرف سے خواتین کے معاملات سے متعلق حالیہ سفارشات پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس کونسل کو ختم کردیا جائے۔ یہ قرارداد فنکشنل لیگ کی خاتون رکن مہتاب اکبر راشدی نے پیش کی تھی جس پر کئی دیگر ارکان کے دستخط بھی موجود تھے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ''یہ ایوان اسلامی نظریہ کونسل کی حالیہ سفارشات پر سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ کونسل نے خواتین سے متعلق معاملات پر مکمل لاپروائی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اور سفارش کی ہے کہ شادی کیلئے عمر کی کم سے کم کوئی حد نہیں، زیادتی کے واقعات میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مخالفت کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دوسری شادی کیلئے بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلامی نظریہ کونسل کی یہ تمام سفارشات افسوسناک اور خواتین مخالف ہیں ۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات کو حل کرنے کی بجائے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار اور الجھن پیدا کی جا رہی ہے۔ ایوان سفارش کرتا ہے کہ اسلامی نظریہ کونسل مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے، لہٰذا اس سے جان چھڑا لینی چاہئے کیونکہ پاکستان اب مزید نقصانات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔'' سینئر وزیر تعلیم نثار احمد کھوڑو نے قرارداد کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اسلام سے پہلے بیٹیوں کو دفن کردیا جاتا تھا لیکن اسلام اصلاحات لیکر آیا۔ اسلامی نظریہ کونسل کو اس طرح کے فتوے نہیں دینے چاہئیں ۔ اگر ایسے فتوے آتے رہے تو فتوے دینے والوں کی مخالفت ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت نے کہا کہ اسلامی نظریہ کونسل ہم پر فتوے مسلط نہ کرے۔ قوم کے ساتھ یہ مذاق ہے کہ دوسری شادی کیلئے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ سندھ اسمبلی کی طرف سے قومی اسمبلی کو یہ پیغام ہے کہ اگر اس میں ہمت نہیں ہے تو ہم میں تو ہمت ہے ۔ پیپلز پارٹی کے رکن سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اللہ اور اسکے رسولؐ کے بنائے ہوئے قانون میں کسی کو ترمیم کا اختیار نہیں ہے۔ اسلام میں شادی کیلئے نہ صرف رضامندی ضروری ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شادی سے پہلے دولہا اور دلہن ایک دوسرے کو پسند کریں۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کی نامزدگی دیکھ بھال کر کرنی چاہئے اور ایسے لوگوں کو رکن بنانا چاہئے جو قانون، روایات، رسم و رواج اور ثقافت سے واقف ہوں۔ ایوان میں بلاول کو ملنے والے دھمکی آمیز خط پرتشویش کا اظہار کیا گیا اور ان کی سلامتی کیلئے دعا بھی درخواست بھی کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے متعدد ارکان نے یہ مسئلہ اٹھایا۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کو ملنے والے دھمکی آمیز خط کی مذمت کرتے ہیں، وہ قوم کا اثاثہ ہیں۔ انہیں ہر جگہ فول پروف سیکورٹی ملنی چاہیے، میرا پنجاب حکومت سے رابطہ ہے۔ پنجاب حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ انکے دورہ پنجاب کے دوران ہر ممکن اور انکی تسلی کے مطابق سکیورٹی فراہم کی جائیگی۔ سندھ اسمبلی نے ایک بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی جس کے تحت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے کی رقم میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ یہ بل پراونشل موٹر وہیکل (ترمیمی) بل 2014ء کہلائیگا، جس کے ذریعہ پراونشل موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965ء میں متعدد ترامیم کی گئیں۔
 
Top