محمد جریر
رکن
- شمولیت
- نومبر 03، 2015
- پیغامات
- 103
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 37
اس موضوع پر ہم آپ سے کهل کر بات کرنے کے لیے رضی ہیں.اور اس "حقيقی دہشت گردی" ميں چاہے اب امریکہ آئے یا کوئی ملک یا پهر کوئی تنظیم بات دلائل کے ساته ہوگی.
ہم اس تجزیے سے متفق نہیں.کیونکہ اوباما کا یہ بیان صرف قولی حد تک محدود ہے.اور اس کا عمل اس کے الٹ ہے.جس سے امريکہ خود سب سے بڑا دہشت گرد ملک ثابت ہوتا ہے.جہاں تک مختلف عالمی تنازعات کے حوالے سے امريکی کردار يا بعض تجزيہ نگاروں کے نزديک "مجرمانہ عدم مداخلت" کا سوال ہے تو اس ضمن ميں صدر اوبامہ کی جانب سے اقوام متحدہ ميں کی گئ ايک تقرير کا حصہ پيش ہے جو ہمارے موقف کی وضاحت کرتا ہے۔
"جو امريکہ پر اس بنياد پر تنقيد کرتے رہے ہيں کہ امريکہ اکيلا ہی دنيا بھر ميں اقدامات اٹھاتا رہتا ہے، اب وہ خاموش تماشائ بن کر اس انتظار ميں کھڑے رہنے کے مجاز نہيں ہيں کہ امريکہ تن تنہا دنيا کے مسائل حل کر دے گا۔ ہم نے الفاظ اور عملی اقدامات کے ذريعے دنيا سے روابط قائم کرنے کے ايک نۓ دور کا آغاز کر ديا ہے۔ اب يہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس ضمن ميں اپنا کردار ادا کريں۔"
صدر اوبامہ کے الفاظ زمينی حقائق اور دنيا کے اہم ترين مسائل کے ضمن ميں ايک حقيقت پسندانہ تجزيہ ہے۔
بهائی جان دنیا کے سارے مسائل کی جڑ امريکہ ہے.یہ الزامات نہیں تلخ حقيقتیں ہیں.جن پر آپ بڑی آسانی سے ہاتھ صاف کررہے ہیں.يہ ايک غير حقيقی اور غير فطری بات ہے کہ دنيا بھر کے تمام تر مسائل کے ليے امريکہ ہی کو مورد الزام قرار ديا جاۓ۔ اسی طرح يہ سوچ بھی غلط ہے کہ خطے کے ديگر فريقين اور اہم کرداروں کی ذمہ داريوں کو نظرانداز کر کے امريکہ سے ہی يہ توقع رکھی جاۓ کہ تمام تر مسائل کرنے ميں امريکی حکومت فيصلہ کن کردار ادا کرے۔
یہ آپکا اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے.کیونکہ پاکستان متعدد بار امریکہ کو باور کروا چکا ہے.کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حل کیا جائے. اور کشمیریوں کو حق خودارادیت ملنا چاہیے.پر آپ نے تو نئی ہی کہانی سنا دی.يہ بھی ياد رہے کہ بہت سے عالمی مسائل کئ دہائيوں پر محيط ہيں اور بعض ايشوز ايسے بھی ہيں جن ميں براہراست فريق امريکی مداخلت کے حق ميں ہی نہيں ہيں۔ کشمير کا مسلہ بھی اسی کيٹيگری ميں آتا ہے۔
ہاں اسی میں بے شمار اسلحہ کی تیاری جو کے امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے.امریکہ سب سے پہلے کسی ملک میں دہشت گردی کا آغاز کرتا ہے اور پهر وہاں یہ جدید ٹیکنالوجی (اسلحہ) فروخت کر کہ اپنی معیشت کو مضبوط کرتا ہے.اور اسی پیسے سے اپنے دجالی نظام کو دنیا پر زبردستی امپلائی کرتا ہے.ماضی بعيد ميں مختلف اقوام کی دنيا ميں حيثيت اور اثر رسوخ کا دارومدار جنگوں اور معرکوں کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے حالات اور نتائج کے تناظر ميں ہوتا تھا جبکہ جديد دور ميں کسی بھی قوم کی برتری کا انحصار سائنس اور ٹيکنالوجی کے ميدان ميں کاميابی، کاروبار اور معاش کے مواقعوں اور نت نۓ امکانات کی دستيابی پر مرکوز ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ يا کسی اور ملک کے ليے "سپر پاور" کی اصطلاح اس بنيادی اصول کی مرہون منت ہوتی ہے کہ عام انسانوں کے معيار زندگی ميں بہتری لانے کے لیے کتنے تخليقی ذرائع اور مواقعے مہيا کيے گۓ ہيں۔
پر آپ (امریکہ) کی راہ میں نہیں.کیونکہ امريکہ کا اسلحہ بکے رہا ہے.آج کے جديد دور ميں جنگيں اور فسادات اجتماعی انسانی ترقی اور کاميابی کی راہ ميں رکاوٹ ہيں۔
آپکے جهوٹے ہونے کی سب سے بڑی وجہ. ٹونی بلئیر کا انٹرویو ہے.جس سے پتا چلتا ہے کہ ٹيکس دہندگان کا پیسہ کیسی جنگوں ميں جهنکا جارہا ہے.جب آپ دنيا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی امريکی امداد کو غیر اہم قرار ديتے ہيں تو آپ يہ نقطہ نظرانداز کر ديتے ہیں کہ يہ پيسہ دراصل امريکہ کے ٹيکس دہندگان سے حاصل کيا جاتا ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی عوام اپنی حکومت کو محنت سے کمائ ہوئ دولت اس بنياد پر خرچ کرنے کی اجازت دے گي کہ اس امداد کے ذريعے دنيا بھر ميں جنگوں اور فسادات کا سلسلہ دانستہ جاری رکھا جاۓ؟