محترم بھائی میں نے دو سائیٹس دیکھی ہیں جن میں ہمارے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ اور مولانا شاکر فک اللہ اسرہ کے حوالہ جات دیے گئے ہیں جس پر میں اپنی رائے دینا چاہتا ہوں محترم
خضر حیات بھائی محترم
حافظ طاہر اسلام عسکری یا کوئی اور بھائی اصلاح کر دیں
میرے نزدیک سب اہل حدیثوں کو آپس میں متحد ہونا چاہئے اور جہاں کہیں اختلاف ہے اور اس اختلاف سے وہ اسلام سے نہیں نکلتا تو اسکو حتی الامکان اگنور کرنا چاہئے تاکہ ہماری قوت بڑھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر
یعنی جس طرح کافر اکٹھے ہیں تم اکٹھے نہ ہوئے تو فساد بڑھتا جائے گا
پس ہمیں ایسا موقف رکھنا چاہئے جس سے ہماری قوت بڑھے نہ کہ کم ہو
میرے خیال میں اہل حدیثوں میں اختلافات جن کو اگنور کیا جا سکتا ہے وہ مندرجہ ذیل دو قسم کے ہیں
1-نظریہ یا عقیدہ کا اختلاف
یعنی کسی
غیر متفق کافر کو کافر کہنے یا نہ کہنے میں اختلاف ہو جانا- پس اس میں کہیں مانع تکفیر کی پیچیدگیوں اور کہیں علماء کے فتاوی کے اختلاف کی وجہ سے اس اختلاف کی گنجائش دینا ہماری مجبوری ہے پس ہمیں جو موقف درست معلوم ہوتا ہے اسکو اپنا لیں مگر دوسرے کو اسکی خلاف ورزی پر اسلام سے نہ نکالیں کیونکہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہے ہاں زیادہ سے زیادہ دوسرے گروہ کو غلطی پر سمجھیں گے مگر ہو گا وہ ہمارا بھائی ہی- اسکی غلطی پر اسکو اپنی استطاعت کے مطابق احس طریقے سے سمجھائیں گے
پس
پہلا گروہ اگر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے مرتکب یا مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے والے کو کافر کہتا ہے تو اس وجہ سے ہم نے اسکو کافر یا خآرجی نہیں کہ دینا- اسی طرح
دوسرا گروہ اگر مانع تکفیر کی پچیدگیوں یا علماء کے فتاوی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا تو اسکو بھی کافر اور مرجیہ نہیں کہ دینا
اس بارے میری اور میرے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ اور غالبا محترم مولانا شاکر فک اللہ اسرہ کی رائے پہلے گروہ کے ساتھ ہے البتہ پہلے گروہ کو ہم دلائل تو دیتے ہیں مگر ہم میں سے کوئی انکو کافر یا مرجیہ نہیں کہتا
2-منہج یا طریقہ کار کا اختلاف
یعنی اوپر والے اختلاف کی وجہ سے کسی سے تعامل میں اختلاف آ جانا یا مصلحت اور مفسدہ کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے اختلاف آ جانا تو اس کی بھی گنجائش شریعت میں موجود ہے
پس
پہلا گروہ اگر شریعت کے نفاذ کے لئے پاکستان میں جہاد کرتا ہے تو ہم اسکو دلائل سے غلط ثابت کریں گے مگر اسکو کافر یا خارجی نہیں کہیں گے اسی طرح
دوسرا گروہ اگرچہ شریعت کے نفاذ کو لازمی سمجھتا ہے مگر مصلحت اور مفسدہ کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں اسکے لئے عسکری جدوجہد کو شریعت کے منہج کے خلاف سمجھتا ہے تو اسکو بھی کافر یا مرجیہ نہیں کہ دینا
اس بارے میرا اور میرے شیخ محترم امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ اور غالبا محترم مولانا شاکر فک اللہ اسرہ کا موقف بھی دوسرے گروہ کے ساتھ ہے اور ہم پہلے گروہ کو دلائل سےسمجھاتے ہیں مگر انکو کافر یا خارجی نہیں کہتے