محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,861
- ری ایکشن اسکور
- 41,093
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کتاب زکوٰۃ کے مسائل کا بیان
باب زکوٰۃدینا فرض ہے اور اللہ عزوجل نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے )کہ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا ۔ انہوں نے نبی کریمﷺ سے متعلق (قیصر روم سے اپنی ) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ، زکوٰۃ ، صلہ رحمی، ناطہ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
تشریح حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اپنی رو ش کے مطابق پہلے قرآن مجید کی آیت لائے اور فرضیت زکوۃ کو قرآن مجید سے ثابت کیا۔ قرآن مجید میں زکوۃ کی بابت بیسیوں آیات میں اللہ پاک نے حکم فرمایا ہے اور یہ اسلام کا ایک عظیم رکن ہے ۔جو اس کا منکر ہے وہ بالاتفاق کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ زکوۃ نہ دینے والوں پر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کا اعلان فرما دیا تھا۔
زکوۃ ۲ ھ میں مسلمانوں پر فرض ہوئی ۔ یہ درحقیقت اس صفت ہمدردی و رحم کے باقاعدہ استعمال کا نام ہے جو انسان کے دل میں اپنے ابنائے جنس کے ساتھ قدرتاً فطری طور پر موجودد ہے ۔ یہ اموال نامہ یعنی ترقی کرنے والوں میں مقرر کی گئی ہے جن میں سے ادا کرنا ناگوار بھی نہیں گزر سکتا۔ اموال نامہ میں تجارت سے حاصل ہونے والی دولت ، زراعت ، اور مویشی (بھیڑ، بکری گائے وغیرہ) و نقد روپیہ اور معدنیات اور وفائن شمار ہوتے ہیں جن کے مختلف نصاب ہیں۔ ان کے تحت ایک حصہ ادا کرنا فرض ہے ۔ قرآن مجید میں ا للہ پاک نے زکوۃ کی تقسیم ان لفظوں میں فرمائی ہے۔
انما الصدقات للفقرآء والمساکین والعاملین علیہا والمؤلفۃ قلوبہم وفی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ وابی السبیل الایۃ (سورہ التوبہ)
یعنی زکوۃ کا مال فقیروں اور مسکینوں کے لئے۔ اور تحصیلداران زکوۃ کے لئے (جو اسلامی اسٹیٹ کی طرف سے زکوۃ کی وصولی کے لئے مقرر ہوں گے ان کی تنخواہ اس میں سے ادا کی جائے گی ) اور ان لوگون کے لئے جن کی دل افزائی اسلام میں منظور ہو یعنی نو مسلم لوگ ۔ اور غلاموں کو آزادی دلانے کے لئے۔ اور ایسے قرض داروں کا قرض چکانے کے لئے جو قرض نہ اتار سکتے ہوں۔ اور اللہ کے راستے میں (اسلام کی اشاعت اور ترقی و سربلندی کے لئے) اور مسافروں کے لئے۔
بخاری شریف میں فرماتے ہیں:۔
والزکوۃ فی اللغۃ المنماء یقال زکاالزرع اذا انما و یرد ایضا فی المال و ترد ایضا فی بمعنی التطہیر و شرعا باعتبار ین معاً اما بالاول فلان اخراجہا سبب للنماء فی المال و بمعنی ولیل الاول ما نقص مال من صدقۃ والنہا یضاعف توابہا کما جاء ان اللہ یربی الرکن الثلالث من الارکان التی بنی الا سلام علیہا کما تقدم فی کتاب الایمان وقال ابن العربی تطلق الزکوۃ علی الصدقۃ الواجبۃ والمندربۃ والنفقۃ والحق والقفو وتعریفہا فی الشرع اعطاء جزء من انصاب الحولی الی فقیر و نحوہ غیرۃامی ولا مطلبی ثم لہا رکن و ہو الاخلاص و شرط ہو السبب وہو النصاب الحولی وشرط من تجب علیہ وہوالعقل والبلوغ والحریۃ ولہا حکم و ہو سقوط الوجواب فی الدنیا الہ اثواب فی الاخری وحکمۃ وہی تطہیر من الادناس ورفع الدرجۃ واتسرقاق الاحرار انتہی وہو حید الکن فی شرط من بجب عفلیہ اخلتلاف فی بعض فروعہ واما اصل فرضییۃ الزکوۃ فمن حجد ہا کفروانما ترجم الصنف بذالک علی عادتہ فی ایراد الایلۃ الشروعیۃ المتفق علیہا والمختلف فیہا (فتح الباری ج۶ ص ۸)
اختلف فی اول وقت فرض الزکوۃ فذہب الاکثر الی انہ وقع بعد الہجرۃ فقیل کان فی الستۃ الثانیۃ قبل رمضان اشارالیہ النووی۔
خلاصہ یہ کہ لفظ زکوۃ نشوونما پر بولا جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ زکا الزرع یعنی زراعت کھیت نے نشوونما پائی جب وہ بڑھنے لگے تو ایسا بولا جاتا ہے اسی طرح مال کی بڑھوتری پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔اور پاک کرنے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ اور شرعاُ ہر دو اعتبار سے اس کا استعمال ہو ہے۔ اول تو یہ کہ اس کی ادائیگی سے مال میں بڑھوتری ہوتی ہے اور یہ بھی اس کے سبب اجر و ثواب کو نشوونما حاصل ہوتی ہے یا یہ بھی کہ یہ زکوۃ ان اموال سے ادا کی جائے جو بڑھنے والے ہیں ۔ جیسے تجارت ، زراعت وغیرہ۔ اول کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں وارد ہے کہ صدقہ نکالنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ وہ بڑھ ہی جاتا ہے ۔ اور یہ بھی کہ اس کا ثواب دوگنا سہ گنا بڑھتا ہے ۔ جیسا کہ آیا ہے کہ اللہ پاک صدقہ کے مال کو بڑھاتا ہے ۔ اور دوسرے اعتبار سے نفس کو نجس سے پاک کرنے والی چیز ہے ۔ اور گناہوں سے بھی پاک کر تی ہے ۔ اور اسلام کا یہ تیسرا عظیم رکن ہے ۔ ابن العربی نے کہا کہ لفظ زکوۃ صدقہ فر ض اور صدقہ نفل اور دیگر عطا یا پر بھی بولا جاتا ہے ۔
اس کی شرعی تعریف یہ کہ مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد فقراء و دیگر مستحقین کو اسے ادا کرنا ۔ فقراء ہاشمی اور مطلبی نہ ہوں کہ ان کے لئے اموال زکوۃ استعمال جائز نہیں ہے ۔ زکوۃ کے لئے بھی کچھ اور شرائط ہیں ۔ اول اس کی ادائیگی کے وقت اخلاص ہونا ضروری ہے ، ریا و نمود کے لئے کوئی زکوۃ ادا کرے تو وہ عند اللہ زکوۃ نہیں ہوگی ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک حد مقررہ کے اندر وہ مال ہو اور اس پر سال گزر جائے ۔اور زکوۃ عاقل، بالغ ، آزاد پر واجب ہے اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب حاصل ہونا مقصود ہے ۔ اور اس میں حکمت یہ کہ یہ انسانوں کو گناہوں کے ساتھ خصائل رذالت سے بھی پاک کرتی ہے اور درجات بلند کرتی ہے۔
اور یہ اسلام میں ایک بہترین عمل ہے ۔ مگر جس پر یہ واجب ہوا س کی تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے اور یہ اسلام میں ایک قطعی فریضہ ہے کہ جس کے لئے کسی اور مزید دلیل کی ضرورت ہی نہیں ۔ اور دراصل یہ قطعی فرض ہے جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے ۔ یہاں بھی مصنف نے اپنی عادت کے مطابق اور شرعیہ سے اس کی فرضیت ثابت کی ہے وہ اور جو متفق علیہ ہیں جن میں پہلے آیت شریفہ پھر چھ احادیث ہیں۔(جن کا مفہوم ہے)
(۱) ہم سے ابو عامر ضحاک بن مخلد نے بیان کیا۔ ان سے زکریا بن اسحق نے ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ان سے ابو معبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا۔ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان کے مال میں کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدارلوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔
(۲) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے شعبہ نے محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب سے بیان کیا ۔ ان سے موسی بن طلحہ نے اور ان سے ابو ایوب نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے ۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے ۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے ۔ (سنو) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکوۃ دو اورصلہ رحمی کرو اور نہر نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن عثمان اوران کے باپ عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ان دونوں صاحبان نے موسی بن طلحہ سے سنا ۔ اور انہوں نے ابو ایوب سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے اسی حدیث کی طرح (سنا) ابو عبداللہ (امام بخاریؒ) نے کہا مجھے ڈر ہے کہ محمد سے روایت غیر محفوظ ہے اور روایت عمر بن عثمان سے (محفوظ ہے)۔
(۳) ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ۔ ان سے یحییٰ بن سید حیان نے ان سے ابو زرعہ نے اور ان سے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا۔ اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ۔ اسکا کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔ فرض نماز قائم کر۔ فرض زکوۃ دے ۔ اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جن وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو ۔ تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔
(۴) ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ۔ ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے ۔ ان سے ابو یان نے ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے کہ نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ۔ مگر یحییٰ بن سعید قطان کی یہ رویات مرسل ہے ۔ کیونکہ ابوزرعہ تابعی ہیں ۔ انہوں نے آنحضرتﷺ سے نہیں سنا اور وہیب کی روایت جو اوپر گزری وہ موصول ہے اور وہیب ثقہ ہیں ۔ ان کی زیادت مقبول ہے ۔ اس لئے حدیث میں کوئی علت نہیں (وحیدی)
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
قال القرطبی فی ہذال الحدیق وکداحدیث طلحۃ فی قصۃ الاعرابی وغیرہما دلالۃ علی جواز ترک التطوعات لکن من داوم علی ترک السنن کان نقصا فی دینہ فان کان ترکہا تہا و نابہا و غبۃ عنہا کان ذلک فسقاً یعنی لورود الوعید علیہ حیث قال ﷺ من رغب عن سنتی فلیس منی وقد کان صدر الصحابۃ ومن تبعم یواظبون علی السنن مواطبتہم علی الفرائض ولا یفرقون بینہما فی اغتنام ثوابہماً (فتح الباری)
یعنی قرطبی نے کہا کہ اس حدیث میں اور نیز حدیث طلحہ میں جس ایک دیہاتی کا ذکر ہے ۔ اس پر دلیل ہے کہ نفلیات کا ترک کر دینا بھی جائز ہے ۔ مگر جو شخص سنتوں کے چھوڑنے پر ہمیشگی کرے گا۔ وہ اس کے دین میں نقص ہوگا اور اگر وہ بے رغبتی اور سستی سے ترک کر رہا ہے تو یہ فسق ہوگا ۔ اس لئے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے جیسا کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں کی طرح ہمیشگی کیا کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے خیال میں وہ لوگ فرضوں اور سنتوں میں فرق نہیں کرتے تھے ۔
حدیث بالا میں حج کا ذکر نہیں ہے اس پر حافظ فرماتے ہیں ۔ لم یذکر الحج لانہ کان حینئد حاجا ولعلہ ذکرہ لہ فاختصرہ یعنی حج کا ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ وہ اس وقت حاجی تھا۔۔ یا آپﷺ نے ذکر فرمایا مگر راوی نے بطور اختصار اس کا ذکر چھوڑ دیا۔
بعض محترم حنفیوں نے اہل حدیثوں پر الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ سنتوں کا اہتمام نہیں کرتے ۔ یہ الزام سراسر غلط ہے الحمد ﷲ اہل حدیث کا بنیادی اصول توحید و سنت پر کار بند ہونا ہے ۔سنت کی محبت اہل حدیث کا شیوہ ہے لہذا یہ ہی الزام بالکل بے حقیقت ہے ۔ ہاں معاندین اہل حدیث کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کے ہاں اقوال ائمہ اکثر سنتوں پر مقدم سمجھے جاتے ہیں تو یہ ایک حد تک درست ہے ۔ جس کی تفصیل کے لئے اعلام الموقعین علامہ ابن قیم کا مطالعہ مفید ہوگا۔
(۵) ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ۔ کہا کہ ہم سے حمد بن زید نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا ۔ کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ا ور عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ: ہم ربیعہ قبیلہ کی ایک شاخ ہیں ۔ اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ کے درمیان پڑتے ہیں ۔ اس لئے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں (کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہو جاتی ہیں اور راستے پر امن ہو جاتے ہیں ) آپ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلادیجئے۔ جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کے لئے کہیں جو ہمائے ساتھ نہیں آ سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتاہوں۔ اللہ تعالی پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا (یہ کہتے ہوئے) آپﷺ نے اپنی انگلی سے ایک اشارہ کیا ۔ نماز قائم کرنا ۔ پھر زکوۃ ادا کرنا ۔ اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا حکم دیتا ہوں اور میں تمہیں کدوکے تو نبی سے اور حنتم (سبز رنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا) نقیر (کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن) اور زفت لگا ہوا برتن (زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا) کے استعمال سے منع کرتا ہوں ۔ سلیمان اور ابو النعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے ، الایمان باللہ شہادۃ ان لاالہٰ الا اللہ یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب لا الہٰ الا اللہ کی گواہی دینا ۔
تشریح یہ حدیث اوپر کئی بار گزر چکی ہے ۔ سلیمان اور ابو النعمان کی روایت میں ایمان باللہ کے بعد واؤعطف نہیں ہے ۔ اور حجاج کی روایت میں واؤ عطف تھی ۔ جیسے اوپر گزری ۔ ایمان باللہ اور شہادۃ ان لا الہ الا اللہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ یہ پانچ باتیں ہوگئیں ۔ کیونکہ آپ نے اس کا امر کیا ۔ اور امر وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے ۔ مگر جب کوئی دوسراقرینہ ہو جس سے عدم وجوب ثابت ہو ۔ حافظ نے کہا کہ سلیمان کی روایت کو خود مؤلف نے مغازی میں اور ابو النعمان کی روایت کو بھی خود مئولف نے خمیس میں وصل کیا ۔ (وحیدی)
چار قسم کے برتن جن کے استعمال سے آپ ﷺ نے منع فرمایا یہ وہ تھے جن میں عرب لوگ شراب بطور ذخیرہ رکھا کرتے تھے ۔ اور اکثر ان ہی سے صراحی اور جام کا کام لیا کرتے تھے ۔ ان برتنوں میں رکھنے سے شراب اور زیادہ نشہ آور ہو جایا کرتی تھی ۔ اس لئے آپ نے ان کے استعمال سے منع فرمادیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ممانعت ایک وقتی ممانعت تھی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نہ صرف گناہوں سے بچنا بلکہ ان اسباب اور دوائی سے بھی پرہیز کرنا لازم ہے جن سے ان گناہوں کے لئے آمادگی پیدا ہو سکتی ہو ۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں کہا گیا کہ لا تقربو الزنا یعنی ان کاموں کے بھی قریب نہ جاؤ جن سے زنا کے لئے آمادگی کا امکان ہو۔
(۶) ہم سے ابو الیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ۔ کہ کہ ہمیں شعیب بن ابی جمزہ نے خبر دی ۔ان سے زہری نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ جب رسول اللہﷺ فوت ہوگئے ۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے اور (کچھ نے زکوۃ سے انکار کر دیا اور حضر ت ابو بکر صدیقؓ نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہﷺ کے اس فرمان کی موجودگی میں کیوں کر جنگ کر سکتے ہیں کہ ’’ مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دے دیں ۔ اور جو شخص اس کی شہادت دے دے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا ۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہوگا ‘‘۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دٖیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوہ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نما ز تو پڑھے مگر زکوۃ کے لئے انکار کر دے ) کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے زکوۃ میں چار مہینے کے بچے کے دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالی نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا تھا اور بعد میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔
تشریح وفات نبوی کے بعد مدینہ کے اطراف میں مختلف قائل جو پہلے اسلام لا چکے تھے اب انہوں نے سمجھا کہ اسلام ختم ہوگیا ۔ لہذا ان میں سے بعض بت پرست بن گئے بعض مسیلمہ کذاب کے تابع ہوگئے جیسے یمامہ والے اور بعض مسلمان رہے مگر زکوۃ کی فرضیت کا انکار کرنے لگے ۔ اور قرآن مجید کی یوں تاویل کرنے لگے کہ زکوۃ لینا آنحضرت ﷺ سے خاص تھا۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ۔ خذ من اموالہم صدقۃ تطہرہم و تزکیہم یہا وصل علیہم ان صلوتک سکن لہم۔ اور پیغمبر کے سوا اور کسی کی دعا سے ان کو تسلی نہیں ہو سکتی ۔ وحسابہ علی اللہ کا مطلب ہی کہ دل میں اس کے ایمان ہے یا نہیں اس سے ہم کو غرض نہیں اس کی پوچھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہوگی اور دنیا میں جو کوئی بازن سے لا الہ الا اللہ کہے گا اس کو مومن سمجھیں گے ۔ اور اس کے مال اور جان پر حملہ نہ کریں گے۔ صدیقی الفاظ میں فرق بین الصلوۃ والزکوۃ کا مطلب ہے کہ جو شخص نماز کو فرض کہے گا مگر زکوہ کی فرضیت کا انکار کرے گا ہم ضرور ضرور اس پر جہاد کریں گے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعد میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا اور سب صحابہ متفق ہو گئے اور زکوہ نہ دینے والوں پر جہاد کیا ۔ یہ حضرت صدیق اکبرؓ کی فہم و فراست تھی اگر وہ اس عزم سے کام نہ لیتے تو اسی وقت اسلامی نظام درہم برہم ہو جاتا مگر حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے عزم صمیم سے اسلام کو ایک بڑے فتنے سے بچا لیا ۔ آج بھی اسلامی قانون یہی ہے کہ ہر کوئی خص محض کلمہ گو ہونے سے مسلمان نہیں بن جاتا۔ جب تک وہ نماز ، زکوۃ ، روزہ ، حج کی فرضیت کا اقراری نہ ہواور وقت آنے پر ان کو ادا نہ کرے جو کوئی کسی بھی اسلام کے رکن کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفقہ طور پر اسلام سے خارج اور کافر ہے ۔ نماز کے لئے تو صفاف مودود ہے من ترک الصوۃ متعمداً فقد کفر جس نے جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک وقت کی نماز بھی ترک کر دی تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔