• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب زکوۃ کے مسائل کا بیان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کتاب زکوٰۃ کے مسائل کا بیان

باب زکوٰۃدینا فرض ہے اور اللہ عزوجل نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے )کہ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا ۔ انہوں نے نبی کریمﷺ سے متعلق (قیصر روم سے اپنی ) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ، زکوٰۃ ، صلہ رحمی، ناطہ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
تشریح حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اپنی رو ش کے مطابق پہلے قرآن مجید کی آیت لائے اور فرضیت زکوۃ کو قرآن مجید سے ثابت کیا۔ قرآن مجید میں زکوۃ کی بابت بیسیوں آیات میں اللہ پاک نے حکم فرمایا ہے اور یہ اسلام کا ایک عظیم رکن ہے ۔جو اس کا منکر ہے وہ بالاتفاق کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ زکوۃ نہ دینے والوں پر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کا اعلان فرما دیا تھا۔
زکوۃ ۲ ؁ھ میں مسلمانوں پر فرض ہوئی ۔ یہ درحقیقت اس صفت ہمدردی و رحم کے باقاعدہ استعمال کا نام ہے جو انسان کے دل میں اپنے ابنائے جنس کے ساتھ قدرتاً فطری طور پر موجودد ہے ۔ یہ اموال نامہ یعنی ترقی کرنے والوں میں مقرر کی گئی ہے جن میں سے ادا کرنا ناگوار بھی نہیں گزر سکتا۔ اموال نامہ میں تجارت سے حاصل ہونے والی دولت ، زراعت ، اور مویشی (بھیڑ، بکری گائے وغیرہ) و نقد روپیہ اور معدنیات اور وفائن شمار ہوتے ہیں جن کے مختلف نصاب ہیں۔ ان کے تحت ایک حصہ ادا کرنا فرض ہے ۔ قرآن مجید میں ا للہ پاک نے زکوۃ کی تقسیم ان لفظوں میں فرمائی ہے۔
انما الصدقات للفقرآء والمساکین والعاملین علیہا والمؤلفۃ قلوبہم وفی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ وابی السبیل الایۃ (سورہ التوبہ)
یعنی زکوۃ کا مال فقیروں اور مسکینوں کے لئے۔ اور تحصیلداران زکوۃ کے لئے (جو اسلامی اسٹیٹ کی طرف سے زکوۃ کی وصولی کے لئے مقرر ہوں گے ان کی تنخواہ اس میں سے ادا کی جائے گی ) اور ان لوگون کے لئے جن کی دل افزائی اسلام میں منظور ہو یعنی نو مسلم لوگ ۔ اور غلاموں کو آزادی دلانے کے لئے۔ اور ایسے قرض داروں کا قرض چکانے کے لئے جو قرض نہ اتار سکتے ہوں۔ اور اللہ کے راستے میں (اسلام کی اشاعت اور ترقی و سربلندی کے لئے) اور مسافروں کے لئے۔
بخاری شریف میں فرماتے ہیں:۔
والزکوۃ فی اللغۃ المنماء یقال زکاالزرع اذا انما و یرد ایضا فی المال و ترد ایضا فی بمعنی التطہیر و شرعا باعتبار ین معاً اما بالاول فلان اخراجہا سبب للنماء فی المال و بمعنی ولیل الاول ما نقص مال من صدقۃ والنہا یضاعف توابہا کما جاء ان اللہ یربی الرکن الثلالث من الارکان التی بنی الا سلام علیہا کما تقدم فی کتاب الایمان وقال ابن العربی تطلق الزکوۃ علی الصدقۃ الواجبۃ والمندربۃ والنفقۃ والحق والقفو وتعریفہا فی الشرع اعطاء جزء من انصاب الحولی الی فقیر و نحوہ غیرۃامی ولا مطلبی ثم لہا رکن و ہو الاخلاص و شرط ہو السبب وہو النصاب الحولی وشرط من تجب علیہ وہوالعقل والبلوغ والحریۃ ولہا حکم و ہو سقوط الوجواب فی الدنیا الہ اثواب فی الاخری وحکمۃ وہی تطہیر من الادناس ورفع الدرجۃ واتسرقاق الاحرار انتہی وہو حید الکن فی شرط من بجب عفلیہ اخلتلاف فی بعض فروعہ واما اصل فرضییۃ الزکوۃ فمن حجد ہا کفروانما ترجم الصنف بذالک علی عادتہ فی ایراد الایلۃ الشروعیۃ المتفق علیہا والمختلف فیہا (فتح الباری ج۶ ص ۸)
اختلف فی اول وقت فرض الزکوۃ فذہب الاکثر الی انہ وقع بعد الہجرۃ فقیل کان فی الستۃ الثانیۃ قبل رمضان اشارالیہ النووی۔

خلاصہ یہ کہ لفظ زکوۃ نشوونما پر بولا جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ زکا الزرع یعنی زراعت کھیت نے نشوونما پائی جب وہ بڑھنے لگے تو ایسا بولا جاتا ہے اسی طرح مال کی بڑھوتری پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔اور پاک کرنے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ اور شرعاُ ہر دو اعتبار سے اس کا استعمال ہو ہے۔ اول تو یہ کہ اس کی ادائیگی سے مال میں بڑھوتری ہوتی ہے اور یہ بھی اس کے سبب اجر و ثواب کو نشوونما حاصل ہوتی ہے یا یہ بھی کہ یہ زکوۃ ان اموال سے ادا کی جائے جو بڑھنے والے ہیں ۔ جیسے تجارت ، زراعت وغیرہ۔ اول کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں وارد ہے کہ صدقہ نکالنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ وہ بڑھ ہی جاتا ہے ۔ اور یہ بھی کہ اس کا ثواب دوگنا سہ گنا بڑھتا ہے ۔ جیسا کہ آیا ہے کہ اللہ پاک صدقہ کے مال کو بڑھاتا ہے ۔ اور دوسرے اعتبار سے نفس کو نجس سے پاک کرنے والی چیز ہے ۔ اور گناہوں سے بھی پاک کر تی ہے ۔ اور اسلام کا یہ تیسرا عظیم رکن ہے ۔ ابن العربی نے کہا کہ لفظ زکوۃ صدقہ فر ض اور صدقہ نفل اور دیگر عطا یا پر بھی بولا جاتا ہے ۔
اس کی شرعی تعریف یہ کہ مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد فقراء و دیگر مستحقین کو اسے ادا کرنا ۔ فقراء ہاشمی اور مطلبی نہ ہوں کہ ان کے لئے اموال زکوۃ استعمال جائز نہیں ہے ۔ زکوۃ کے لئے بھی کچھ اور شرائط ہیں ۔ اول اس کی ادائیگی کے وقت اخلاص ہونا ضروری ہے ، ریا و نمود کے لئے کوئی زکوۃ ادا کرے تو وہ عند اللہ زکوۃ نہیں ہوگی ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک حد مقررہ کے اندر وہ مال ہو اور اس پر سال گزر جائے ۔اور زکوۃ عاقل، بالغ ، آزاد پر واجب ہے اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب حاصل ہونا مقصود ہے ۔ اور اس میں حکمت یہ کہ یہ انسانوں کو گناہوں کے ساتھ خصائل رذالت سے بھی پاک کرتی ہے اور درجات بلند کرتی ہے۔
اور یہ اسلام میں ایک بہترین عمل ہے ۔ مگر جس پر یہ واجب ہوا س کی تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے اور یہ اسلام میں ایک قطعی فریضہ ہے کہ جس کے لئے کسی اور مزید دلیل کی ضرورت ہی نہیں ۔ اور دراصل یہ قطعی فرض ہے جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے ۔ یہاں بھی مصنف نے اپنی عادت کے مطابق اور شرعیہ سے اس کی فرضیت ثابت کی ہے وہ اور جو متفق علیہ ہیں جن میں پہلے آیت شریفہ پھر چھ احادیث ہیں۔(جن کا مفہوم ہے)
(۱) ہم سے ابو عامر ضحاک بن مخلد نے بیان کیا۔ ان سے زکریا بن اسحق نے ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ان سے ابو معبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا۔ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان کے مال میں کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدارلوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔
(۲) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے شعبہ نے محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب سے بیان کیا ۔ ان سے موسی بن طلحہ نے اور ان سے ابو ایوب نے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے ۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے ۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے ۔ (سنو) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکوۃ دو اورصلہ رحمی کرو اور نہر نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن عثمان اوران کے باپ عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ان دونوں صاحبان نے موسی بن طلحہ سے سنا ۔ اور انہوں نے ابو ایوب سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے اسی حدیث کی طرح (سنا) ابو عبداللہ (امام بخاریؒ) نے کہا مجھے ڈر ہے کہ محمد سے روایت غیر محفوظ ہے اور روایت عمر بن عثمان سے (محفوظ ہے)۔

(۳) ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ۔ ان سے یحییٰ بن سید حیان نے ان سے ابو زرعہ نے اور ان سے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا۔ اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ۔ اسکا کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔ فرض نماز قائم کر۔ فرض زکوۃ دے ۔ اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جن وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو ۔ تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔
(۴) ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ۔ ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے ۔ ان سے ابو یان نے ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے کہ نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ۔ مگر یحییٰ بن سعید قطان کی یہ رویات مرسل ہے ۔ کیونکہ ابوزرعہ تابعی ہیں ۔ انہوں نے آنحضرتﷺ سے نہیں سنا اور وہیب کی روایت جو اوپر گزری وہ موصول ہے اور وہیب ثقہ ہیں ۔ ان کی زیادت مقبول ہے ۔ اس لئے حدیث میں کوئی علت نہیں (وحیدی)
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
قال القرطبی فی ہذال الحدیق وکداحدیث طلحۃ فی قصۃ الاعرابی وغیرہما دلالۃ علی جواز ترک التطوعات لکن من داوم علی ترک السنن کان نقصا فی دینہ فان کان ترکہا تہا و نابہا و غبۃ عنہا کان ذلک فسقاً یعنی لورود الوعید علیہ حیث قال ﷺ من رغب عن سنتی فلیس منی وقد کان صدر الصحابۃ ومن تبعم یواظبون علی السنن مواطبتہم علی الفرائض ولا یفرقون بینہما فی اغتنام ثوابہماً (فتح الباری)
یعنی قرطبی نے کہا کہ اس حدیث میں اور نیز حدیث طلحہ میں جس ایک دیہاتی کا ذکر ہے ۔ اس پر دلیل ہے کہ نفلیات کا ترک کر دینا بھی جائز ہے ۔ مگر جو شخص سنتوں کے چھوڑنے پر ہمیشگی کرے گا۔ وہ اس کے دین میں نقص ہوگا اور اگر وہ بے رغبتی اور سستی سے ترک کر رہا ہے تو یہ فسق ہوگا ۔ اس لئے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے جیسا کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں کی طرح ہمیشگی کیا کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے خیال میں وہ لوگ فرضوں اور سنتوں میں فرق نہیں کرتے تھے ۔
حدیث بالا میں حج کا ذکر نہیں ہے اس پر حافظ فرماتے ہیں ۔ لم یذکر الحج لانہ کان حینئد حاجا ولعلہ ذکرہ لہ فاختصرہ یعنی حج کا ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ وہ اس وقت حاجی تھا۔۔ یا آپﷺ نے ذکر فرمایا مگر راوی نے بطور اختصار اس کا ذکر چھوڑ دیا۔
بعض محترم حنفیوں نے اہل حدیثوں پر الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ سنتوں کا اہتمام نہیں کرتے ۔ یہ الزام سراسر غلط ہے الحمد ﷲ اہل حدیث کا بنیادی اصول توحید و سنت پر کار بند ہونا ہے ۔سنت کی محبت اہل حدیث کا شیوہ ہے لہذا یہ ہی الزام بالکل بے حقیقت ہے ۔ ہاں معاندین اہل حدیث کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کے ہاں اقوال ائمہ اکثر سنتوں پر مقدم سمجھے جاتے ہیں تو یہ ایک حد تک درست ہے ۔ جس کی تفصیل کے لئے اعلام الموقعین علامہ ابن قیم کا مطالعہ مفید ہوگا۔

(۵) ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ۔ کہا کہ ہم سے حمد بن زید نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے ابو جمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا ۔ کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ا ور عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ: ہم ربیعہ قبیلہ کی ایک شاخ ہیں ۔ اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ کے درمیان پڑتے ہیں ۔ اس لئے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں (کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہو جاتی ہیں اور راستے پر امن ہو جاتے ہیں ) آپ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلادیجئے۔ جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کے لئے کہیں جو ہمائے ساتھ نہیں آ سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتاہوں۔ اللہ تعالی پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا (یہ کہتے ہوئے) آپﷺ نے اپنی انگلی سے ایک اشارہ کیا ۔ نماز قائم کرنا ۔ پھر زکوۃ ادا کرنا ۔ اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا حکم دیتا ہوں اور میں تمہیں کدوکے تو نبی سے اور حنتم (سبز رنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا) نقیر (کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن) اور زفت لگا ہوا برتن (زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا) کے استعمال سے منع کرتا ہوں ۔ سلیمان اور ابو النعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے ، الایمان باللہ شہادۃ ان لاالہٰ الا اللہ یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب لا الہٰ الا اللہ کی گواہی دینا ۔
تشریح یہ حدیث اوپر کئی بار گزر چکی ہے ۔ سلیمان اور ابو النعمان کی روایت میں ایمان باللہ کے بعد واؤعطف نہیں ہے ۔ اور حجاج کی روایت میں واؤ عطف تھی ۔ جیسے اوپر گزری ۔ ایمان باللہ اور شہادۃ ان لا الہ الا اللہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ یہ پانچ باتیں ہوگئیں ۔ کیونکہ آپ نے اس کا امر کیا ۔ اور امر وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے ۔ مگر جب کوئی دوسراقرینہ ہو جس سے عدم وجوب ثابت ہو ۔ حافظ نے کہا کہ سلیمان کی روایت کو خود مؤلف نے مغازی میں اور ابو النعمان کی روایت کو بھی خود مئولف نے خمیس میں وصل کیا ۔ (وحیدی)
چار قسم کے برتن جن کے استعمال سے آپ ﷺ نے منع فرمایا یہ وہ تھے جن میں عرب لوگ شراب بطور ذخیرہ رکھا کرتے تھے ۔ اور اکثر ان ہی سے صراحی اور جام کا کام لیا کرتے تھے ۔ ان برتنوں میں رکھنے سے شراب اور زیادہ نشہ آور ہو جایا کرتی تھی ۔ اس لئے آپ نے ان کے استعمال سے منع فرمادیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ممانعت ایک وقتی ممانعت تھی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نہ صرف گناہوں سے بچنا بلکہ ان اسباب اور دوائی سے بھی پرہیز کرنا لازم ہے جن سے ان گناہوں کے لئے آمادگی پیدا ہو سکتی ہو ۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں کہا گیا کہ لا تقربو الزنا یعنی ان کاموں کے بھی قریب نہ جاؤ جن سے زنا کے لئے آمادگی کا امکان ہو۔
(۶) ہم سے ابو الیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ۔ کہ کہ ہمیں شعیب بن ابی جمزہ نے خبر دی ۔ان سے زہری نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ جب رسول اللہﷺ فوت ہوگئے ۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے اور (کچھ نے زکوۃ سے انکار کر دیا اور حضر ت ابو بکر صدیقؓ نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہﷺ کے اس فرمان کی موجودگی میں کیوں کر جنگ کر سکتے ہیں کہ ’’ مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دے دیں ۔ اور جو شخص اس کی شہادت دے دے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا ۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہوگا ‘‘۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دٖیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوہ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نما ز تو پڑھے مگر زکوۃ کے لئے انکار کر دے ) کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے زکوۃ میں چار مہینے کے بچے کے دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالی نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا تھا اور بعد میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔
تشریح وفات نبوی کے بعد مدینہ کے اطراف میں مختلف قائل جو پہلے اسلام لا چکے تھے اب انہوں نے سمجھا کہ اسلام ختم ہوگیا ۔ لہذا ان میں سے بعض بت پرست بن گئے بعض مسیلمہ کذاب کے تابع ہوگئے جیسے یمامہ والے اور بعض مسلمان رہے مگر زکوۃ کی فرضیت کا انکار کرنے لگے ۔ اور قرآن مجید کی یوں تاویل کرنے لگے کہ زکوۃ لینا آنحضرت ﷺ سے خاص تھا۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ۔ خذ من اموالہم صدقۃ تطہرہم و تزکیہم یہا وصل علیہم ان صلوتک سکن لہم۔ اور پیغمبر کے سوا اور کسی کی دعا سے ان کو تسلی نہیں ہو سکتی ۔ وحسابہ علی اللہ کا مطلب ہی کہ دل میں اس کے ایمان ہے یا نہیں اس سے ہم کو غرض نہیں اس کی پوچھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہوگی اور دنیا میں جو کوئی بازن سے لا الہ الا اللہ کہے گا اس کو مومن سمجھیں گے ۔ اور اس کے مال اور جان پر حملہ نہ کریں گے۔ صدیقی الفاظ میں فرق بین الصلوۃ والزکوۃ کا مطلب ہے کہ جو شخص نماز کو فرض کہے گا مگر زکوہ کی فرضیت کا انکار کرے گا ہم ضرور ضرور اس پر جہاد کریں گے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعد میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا اور سب صحابہ متفق ہو گئے اور زکوہ نہ دینے والوں پر جہاد کیا ۔ یہ حضرت صدیق اکبرؓ کی فہم و فراست تھی اگر وہ اس عزم سے کام نہ لیتے تو اسی وقت اسلامی نظام درہم برہم ہو جاتا مگر حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے عزم صمیم سے اسلام کو ایک بڑے فتنے سے بچا لیا ۔ آج بھی اسلامی قانون یہی ہے کہ ہر کوئی خص محض کلمہ گو ہونے سے مسلمان نہیں بن جاتا۔ جب تک وہ نماز ، زکوۃ ، روزہ ، حج کی فرضیت کا اقراری نہ ہواور وقت آنے پر ان کو ادا نہ کرے جو کوئی کسی بھی اسلام کے رکن کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفقہ طور پر اسلام سے خارج اور کافر ہے ۔ نماز کے لئے تو صفاف مودود ہے من ترک الصوۃ متعمداً فقد کفر جس نے جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک وقت کی نماز بھی ترک کر دی تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
عدم زکوۃ دینے پر بیعت کرنا

اللہ پاک نے (سورۃ برأۃ میں) فرمایا (جس کا مفہوم ہے)کہ اگر وہ (کفار و مشرکین) توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دینے لگیں تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
(۷) ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے اسماعیل بن خالد نے بیان کیا ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے نماز قائم کرنے ، زکوۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی تھی۔ (معلوم ہوا کہ دینی بھائی بننے کے لئے قبولیت ایمان و اسلام کے ساتھ ساتھ نماز قائم کرنا اور صاحب نصاب ہونے پر زکوۃ ادا کرنا بھی ضروری ہے)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب زکوۃ نہ ادا کرنے والے کا گناہ

اور اللہ تعالی نے (سورۃ براۃ میں ) فرمایا (جس کا مفہوم ہے) کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آخر آیت َذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ تک یعنی اپنے مال کو گاڑنے کا مزہ چکھو آیت میں کنز کا لفظ ہے ۔ کنز اسی مال کو کہیں گے جس کی زکوۃ نہ دی جائے ۔ اکثر صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ آیت اہل کتاب اور مشرکین اور مؤمنین سب کو شامل ہے ۔ امام بخاری نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض صحابہؓ نے اس آیت کو کافروں کے ساتھ خاص کیا ہے ۔ (وحیدی)
(۸) ہم سے اب والیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی جمزہ نے خبر دی کہا کہ ہم سے ابو الزناد نے بیان کیا ۔ کہ عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ (قیامت کے دن) اپنے مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کا حق (زکوۃ) نہیں ادا کیا اس سے زیادہ موٹے تازے ہو کر آئیں گے (جیسے دنیا میں تھے ) اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گے (مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ منہ سے کاٹیں گے ۔ بچاس ہزار برس کا جو دن ہوگا اس دن یہی کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ بندوں کافیصلہ کر ے اور وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں ۔ بہشت میں یادوذخ میں) بکریاں بھی اپنے ان مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کے حق نہیں دئیے تھے پہلے سے زیادہ موٹی تازی ہو کر آئیں گی اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کا حق یہ بھی ہے کہ اسے پانی ہی پر (یعنی جہاں وہ چراگاہ میں چر رہی ہوں) دوہا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس طرح نہ آئے کہ وہ اپنی گردن پر ایک ایسی بکری اٹھائے ہوئے ہو جو چلا رہی ہو ۔ اور وہ مجھ سے کہے کہ اے محمدﷺ! مجھے عذاب سے بچائیے اور میں اسے یہ جواب دوں کہ تیرے لئے میں کچھ نہیں کر سکتا (میرا کام پہنچانا تھا) سو میں نے پہنچا دیا۔ اسی طرح کوئی شخص اپنی گردن پر اونٹ لئے ہوئے قیامت کے دن نہ آئے کہ اونٹ چلا رہا ہو ۔ اور وہ خود مجھ سے فریا دکرے کہ اے محمدﷺ! مجھے بچائیے۔ اور میں یہ جواب د ے دوں کہ تیرے لئے میں کچھ نہیں کر سکتا ۔میں نے تجھ کو (اللہ کا حکم زکوۃ) پہنچا دیا تھا۔
تشریح
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو تنبیہ فرمائی ہے ہ جو لوگ اپنے اموال اونٹ بکری وغیرہ میں سے مقررہ نصاب کے تحت زکوۃ نہیں ادا کریں گے ۔ قیامت کے دن ان کا یہ حال ہوگا جو یہاں مذکور ہوا۔ فی الواقع وہ جانور ان حالات میں آئیں گے۔ اور اس شخص کی گردن پر زبردستی سوار ہو جائیں گے ۔ وہ حضور اکرمﷺ کو مدد کے لئے پکارے گا۔ مگر آپﷺ کا یہ جواب ہوگا جو مذکور ہوا ۔ بکری کو پانی پر دوہنے سے غرض یہ کہ عرب میں پانی پر اکثر غریب محتاج لوگ جمع رہتے ہیں ۔ وہاں وہ دودھ نکال کر مساکین فقراء کو پلایا جائے ۔ بعضوں نے کہا کہ یہ حکم زکوۃ کی فرضیت سے پہلے تھا۔ جب زکوۃ فرض ہو گئی تو اب کوئی صدقہ یا حق واجب نہیں رہا۔ ایک حدیث میں ہے کہ زکوۃ کے سوا مال میں دوسرا حق بھی ہے ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (جس کا مفہوم ہے) کہ اونٹوں کا بھی یہ حق ہے کہ ان کا دودھ پانی کے کنارے پر دوہا جائے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وانما خص الحلب بموضع المآء لیکون اسہل علی المحتاج من قصد المنازل وارفق بالماشیۃ الخ یعنی پانی پر دودھ دوہنے کے خصوص کا ذکر اس لئے فرمایا کہ وہاں محتاج اور مسافر لوگ آرام کے لئے قیام پذیر رہتے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناہ مثالی جسم اختیار کرلیں گے۔ اور وہ جسمانی شکلوں میں سامنے آئیں گے۔ اسی طرح نیکیاں بھی مثالی شکلیں اختیار کر کے سامنے لائی جائیں گی۔ ہر دو قسم کی تفصیلات بہت سی احادیث میں موجود ہیں۔ حدیث نمبر۹ میں بھی ایسا ہی ذکر موجود ہے۔
(۹) ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے والد سے بیان کیا ۔ ان سے ابو صالح سمانن نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جسے اللہ پاک نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوۃ نہیں ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا ۔ اس کی آنکھوں کے پاس دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ (جیسے سانپ کے ہوتے ہیں ) پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں سے اسے پکڑلے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں ۔ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت پڑھی(جس کا مفہوم ہے) ۔’’ اور وہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ اللہ تعالی نے انہیں جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے اور وہ اس میں بخل سے کام لیتے ہیں کہ ان کا مال ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ وہ برا ہے جس مال کے معاملہ میں انہوں نے بخل کیا ہے ۔قیامت میں اس کاطوق بنا کر ان کی گردن میں ڈالا جائے گا ۔‘‘

تشریح :
نسائی میں یہ الفاظ اور ہیں ۔ ویکون کنز احد کم یو م القیامۃ شجاعاً اقرع یفر مہ صاحبہ و یطلبہ انا کنزک فا یزال حتی یلقمہ اصہعہ یعنی وہ گنجا سانپ اس کی طرف لپکے گا اور وہ شخص اس سے بھاگے گا ۔ وہ سانپ کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں ۔ پس وہ اس کی انگلیوں کا لقمہ بنالے گا۔ یہ آیت کریمہ ان مالداروں کے حق میں نازل ہوئی جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوۃ ادا نہ کریں بلکہ دولت کو زمین میں بطور خزانہ گاڑتے تھے۔ آج بھی اس کا حکم یہی ہے جو مالدار مسلمان زکوۃ ہضم کر جائیں ان کا یہی حشر ہوگا۔ آج سونا چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے جو چاندی اور سونے ہی کے حکم میں داخل ہے ۔اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنا بنا کر رکھتے اور زکوۃ نہیں دیتے ان کے وہی نوٹ ان کے لئے دوزخ کا سانپ بن کر ان کے گلوں کا ہار بنائے جائیں گے۔
باب جس مال کی زکوۃ دے دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے ۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے) کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوۃ نہیں ہے۔
(۱۰) ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے میرے والد شبیب نے بیان کیا ۔ ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے خالد بن اسلم نے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالی کے اس فرمان کی تفسیر بتلائیے کہ ’’ جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ بنا کر رکھتے ہیں۔‘‘ ابن عمرؓ نے اس کا جواب دیا کہ اگر کسی نے سونا چاندی جمع کیا ۔اور اس کی زکوۃ نہ دی تو اس کے لئے ویل (خرابی) ہے ۔ یہ حکم زکوۃ کے احکام نازل ہونے سے پہلے تھا ۔ لیکن جب اللہ تعالی نے زکوۃ کا حکم نازل کر دیا تو اب وہی مال و دولت کو پاک کر دینے والی ہے۔
تشریح یعنی اس مال سے متعلق یہ آیت نہیں ہے وَالَّذِیْنَ یَکْنِرُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ ۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی مال جمع کرے تو گنہگار نہیں بشرطیکہ زکوۃ دیا کرے ۔ گو تقوی اور فضیلت کے خلاف ہے ۔ یہ ترجمہ بات خود ایک حدیث ہے ۔ جسے امام مالک نے ابن عمرؓ سے موقوفاً نکالا ہے ۔اور ابو داؤد نے ایک مرفوع حدیث نکال۔ جس کا مطلب یہی ہے ۔ حدیث (لیس فیما دون خمس اواق صدقہ ) یہ حدیث اسی باب میں آتی ہے۔امام بخاری نے اس حدیث سے دلیل لی کہ جس مال کی زکوۃ ادا کی جائے وہ کنز نہیں ہے اس کا دبانا اور رکھ چھوڑنا درست ہے کیونکہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں بموجب نص حدیث زکوۃ نہیں ہے ۔ پس اتنی چاندی کا رکھ چھوڑنا اور دبانا کنز نہ ہوگا ۔ اور آیت میں سے اس کو خاص کرنا ہوگا اور خاص کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ زکوۃ اس پر نہیں ہے جس مال کی زکوۃ ادا کر دی گئی وہ بھی کنز نہ ہوگا کیونکہ اس پر بھی زکوۃ نہیں رہی ۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے پانچ اوقیوں کے دوسودرہم ہوئے یعنی ساڑے باون تولہ چاندی یہی چاندی کا نصاب ہے اس کے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔
کنز کے متعلق بیہقی میں عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں ہے کل ما ادیت زکوۃہ وان کان تحت سبع ارضین فلیس بکتروکل ملاتق دی زکوتہ فہو کنز وان کان ظاہراً علی وجہ الارض (فتح الباری) یعنی ہر وہ مال جس کی تو نے زکوۃ ادا کر دی ہے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ ساتویں زمین کے نیچے دفن ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوۃ نہیں ادا کی وہ کنز ہے اگرچہ وہ زمین کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہو۔ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے کہ ما ابالی لو کان لی مثل احد ذہبا اعلم عددہ ازکیہ واعمل فیہ بطاعۃ اللہ تعالی (فتح) یعنی مجھ کو کچھ پرواہ نہیں جب کہ میرے پاس احد پہاڑ جنتا سونا ہو اور میں زکوۃ ادا کرکے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں یعنی اس حالت میں اتنا خزانہ بھی میرے لئے مضر نہیں ہے۔
(۱۱) ہم سے اسحاق بن یزید نے بیان کی۔ کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی ، کہا کہ ہمیں اوزاعی نے خبر دی ۔ کہا کہ مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے خبر دی کہ عمرو بن یحییٰ بن عمارہ بن ابوالحسن سے اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔ پانچ اوقیہ سے کم (چاندی ) میں زکوۃ نہیں ہے پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے ۔ اور پانچ وسق سے کم (غلہ) میں زکوۃ نہیں ہے۔
تشریح ایک اوقیہ چاندی چالیس درہم کا ہوتا ہے ۔ پانچ اوقیہ کے دو سو درم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہوتی ہے یہ چاندی کا نصاب ہے ۔ دسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے صاع چار مد کا ۔ مد ایک رطل اور تہائی رطل کا۔ ہندوستانی وزن (اسی تولہ سیر کے حساب سے ) ایک دسق پکے ساڑھے چار من یا پانچ من کے قریب ہوتا ہے ۔ پانچ دسق بائیس من ، یا ۲۵من ہوا۔ اس سے کم پر زکوۃ (عشر )نہیں ہے۔
(۱۲) ہم سے علی ابن ہاشم نے بیان کیا ۔ انہوں نے ہشیم سے سنا ۔ کہا کہ ہمیں حصین نے خبر دی ، انہیں زید بن وہب نے کہا کہ میں مقام ربذہ سے گزر رہا تھا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ دکھائی دئیے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ رضی اللہ عنہ سے میرا اختلاف (قرآن کی آیت) ’’(ترجمہ): جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ‘‘ کے متعلق ہوگیا۔ معاویہؓ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے ۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان میں کچھ تلخی پیدا ہوگئی ۔ چنانچہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ (جو ان دنوں خلیفہ المسلمین تھے) کے یہاں میری شکایت لکھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں ۔ چنانچہ میں چلا آیا ۔ (وہاں جب پہنچا) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو ۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنے پاس آنے کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کر لو ۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں (ربذہ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کریں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔
تشریح
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بڑے عالی شان صحابی اور زہد ووویشی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے۔ ایسے بزرگ شخصیت کے پاس خواہ مخواہ لوگ بہت جمع ہوتے ہیں ۔ حضرت معاویہؓ نے ان سے یہ اندیشہ کیا کہ کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو وہاں سے بلا بھیجا تو فوراً چلے آئے ۔ خلیفہ اور حاکم اسلام کی اطاعت فرض ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس مجمع ہونے لگا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی وہی اندیشہ ہوا جو معاویہؓ کو ہوا تھا ۔ انہوں نے صاف تو نہیں کہا کہ تم مدینہ سے نکل جاؤ ۔ مگر صلاح کے طور پر بیان کیا ۔ ابوذررضی اللہ عنہ نے ان کی مرضی پاکر مدینہ کو بھی چھوڑا اور ربذہ نامی ایک گاؤں میں جاکر رہ گئے۔ اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔
امام احمد اور ابو یعلیٰ نے مرفوعاً نکالا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابو ذرؓ سے فرمایا تھا کہ جب تو مدینہ سے نکا لا جائے گا تو کہا جائے گا؟انہوں نے کہا شام کے ملک میں آپﷺ نے فرمایا کہ جب تو وہاں سے بھی نکالا جائے گا ، انہوں نے کہا کہ میں پھر مدینہ شریف آجاؤں گا آپﷺ نے فرمایا جب پھر وہاں سے نکالا جائے گا تو کیا کرے گا؟ ابوذرؓ نے کہا میں اپنی تلوار سنبھال لوں گا اور لڑوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بہتر بات یہ ہے کہ امام وقت کی با ت سن لینا اور مان لینا وہ تم کو جہاں بھیجیں چلے جانا۔ چنانچہ حضرت ابوذرؓ نے اسی ارشاد پر عمل کیا اور دم نہ مارا اور آخر دم تک ربذہ ہی میں رہے ۔
جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ کی بیوی جو ساتھ تھیں اس موت غربت کا تصور کرکے رونے لگیں۔ کفن کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ آخر ابو ذرؓ کو ایک پیشگوئی یاد آئی اور بیوی سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اس ٹیلے پر جا بیٹھنا کوئی قافلہ آئے گا وہی میرے کفن دفن کا انتظام کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ حضرت عبدللہ بن مسعود ؓ اچانک ایک قافلہ کے ساتھ ادھر سے گزرے ۔ اور صورت حال کو معلوم کرکے رونے لگے پھر کفن دفن کا انتقام کیا۔ کفن میں اپنا عمامہ ان کو دے دیا رضی اللہ عنہم ورضو عنہ۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
وفی ہذال الحدیث من الفوائد غیر ما تقدم الکفار مخاطبون بفروع الشریعۃ لاتفاق ابی در ومعاویہ ان لایہ نتزلت فی اہل الکتاب و فیہ ملاطفۃ الائمۃ للعماء فان معاویۃ لم یجسر علی الانکار علیہ حتی کاتب من ہوا عالی منہ فی امرہ و عثمان لم یخنق علی ابی ذر مع کونہ کان مخالفالہ فی تاویلہ فیہ التحذیر من الشقاق والخروج علی الائمۃ والترغیب فی الطاعۃ الاولی المرو امرالافضل بطاعۃ المفضول خشیۃ المفسدۃ و جواز الاختلاف فی الاجتہاد والاخذ بالشدۃ فی الامر بالمعروف وان ادی ذلک الی فراق الوطن وتقدیم دفع المفسدۃ علی جلب المنفعۃ لان فی یقاء ابی ذر بالمدینۃ مصلحۃ کبیرۃ من بث علمہ فی طالب العلم و مع ذلک فرجح عند عثمان دفع ما یتوقع عندالمفسدۃ من الاخذبمذہبہ الشدید فی ہذہ المسئلۃ ولم یامرو بعد ذلک بالرجوع عنہ لان کلامنہما کان مجتہداً (فتح الباری ج ۶ ص ۱۵)
یعنی اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں۔ حضرت ابوذرؓ اور حضرت معاویہؓ یہاں تک متفق تھے کہ یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔پس معلوم ہوا کہ شریعت کے فروعی احکامات کے کفار بھی مخاطب ہیں ۔اور اس سے یہ بھی نکلا کہ حکام اسلام کو علماء کے ساتھر مہربانی سے پیش آنا چاہیے ۔ حضرت معاویہ نے یہ جسارت نہیں کہ کی کھلم کھلا حضرت ابوذرؓ کی مخالفت کریں ۔بلکہ یہ معالمہ حضرت عثمان ؓ تک پہنچا دیا ۔ جو اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ برحق تھے ۔ اور واقعات معلوم ہونے پر حضرت عثمان ؓ نے بھی حضرت ابوذرؓ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی ۔ حالانکہ وہ ان کی تاویل کے خلاف تھے ۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ اہل اسلام کو باہمی نفاق و شقاق سے ڈرنا ہی چاہیے ۔ اور آئمہ برحق پر خروج نہ کرنا چاہئیے بلکہ اولوالامر کی اطاعت کرنی چائیے اور اجتہادی امور میں اس سے اختلاف کا جواز بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ امر بالمعروف کرنا ہی چاہیئے خواہ اس کے لئے وطن چھوڑنا پڑے۔ اور فساد کی چیز کو دفع ہی کرنا چاہیئے اگرچہ وہ نفع کے خلاف ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو حضرت ابو ذرؓ کو حکم فرمایا اس میں بڑی مصلحت تھی کہ یہاں مدینہ میں رہیں تو لوگ ان کے پاس بکثرت علم حاصل کرنے آئیں گے اور اس مسئلہ متنازعہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے ۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوذرؓ کو اس شدت سے رجوع کرنے کا بھی حکم نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ یہ سب مجہتدتھے اور ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد کا خود ذمہ دار ہے۔
خلاصۃ الکلام یہ کہ حضرت ابوذرؓ اپنے زہد و تقوی کی بنا پر مال کے متعلق بہت دت برتتے تھے ۔اور وہ اپنے خیال پر اٹل تھے۔ مگر دیگر اکابر صحابہ نے ان سے اتفاق نہیں کیا اورنہ ان سے زیادہ تعرض کیا ۔ حضرت عثمان ؓ نے خود ان کی مرضی دیکھ کر ان کو ربذہ میں آباد فرمایا تھا۔ باہمی ناراضگی نہ تھی جیسا کہ بعض خوارج نے سمجھا۔ تفصیل کے لئے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔
(۱۳) ہم سے عیاض بن ولید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالاعلی بن عبدالاعتلی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے سعید جریری نے ابو العلا یزید سے بیان کیا ۔ ان سے احنف بن قیس نے انہوں نے کہا کہ بیٹھا (دوسری سند) اور امام بخاری نے فرمایا کہ مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے کہا کہ مجھ سے سعید جریری نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو العلاء بن شخیر نے بیان کیا ۔ ان سے احنف بن قیس نے بیان کیا کہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اتنے میں سخت بال موٹے کپڑے اور موٹی جھوٹی حالت میں ایک شخص آیا۔ اور کھڑے ہو کرسلام کیا اور کہا کہ خزانہ جمع کرنے والوں کو اس پتھر بشارت ہو جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چھاتی کی بھٹنی پر رکھ دیا جائے گا جو مونڈھے کی طرف سے پار ہو جائے گا اور مونڈھے کی پتلی ہڈی پر رکھا جائے گا تو سینے کی طرف پار ہو جائے گا اس طرح وہ پتھربرابر ڈھلکتا رہے گا یہ کہہ کر وہ صاحب چلے گئے اور ایک ستون کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھ گئے ۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا اور ان کے قریب بیٹھ گیا اب تک مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ صاحب کون ہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بات قوم نے نا پسند نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب تو بے وقوف ہیں مجھ سے میرے خلیل نے کہا تھا کہ (میں نے پوچھا کہ آپ کے خلیل کون ہیں؟ جواب دیا کہ رسول اللہﷺ ) اے ابوذر ! کیا احد پہاڑ تو دیکھتا ہے ۔ ابورذر رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اس وقت میں نے سورج کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ کتنا دن ابھی باقی ہے کیونکہ مجھے (آپ کی بات سے) یہ خیال گزرا کہ آپ اپنے کسی کام کے لئے مجھے بھیجیں گے میں نے جواب دیا کہ جی ہاں (احد پہاڑ میں نے دیکھا ہے) آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو میں اس کے سوا دوست نہیں رکھنا کہ صرف تین دینار بچار کر باقی تمام (اللہ کی راہ میں) دے ڈالوں (ابوذرؓ نے پھر فرمایا کہ) ان لوگوں کو کچھ معلوم نہیں یہ دنیا جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں ۔ ہرگز نہیں ! اللہ کی قسم نہ میں ان کی دنیا ان سے مانگتا ہوں اور نہ دین کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھتا ہوں تاآنکہ میں اللہ تعالی سے جاملوں ۔
تشریح
شاید تین اشرفیاں اس وقت آپ پر قرض ہوں گی یا یہ آپ کا روزانہ کا خرچ ہوگا ۔ حافظ نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مال جمع نہ کرے ۔ مگر یہ اولویت پر محمول ہے کیونکہ جمع کرنے والا گو زکوۃ دے تب بھی اس کو قیامت کے دن حساب دینا ہوگا۔ اس لئے بہتریہی ہے کہ جو آئے خرچ کرڈالے مگر اتنا بھی نہیں کہ قرآن پاک کی آیت کے خلاف ہو جس میں فرمایا وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُوراً ً (بنی اسرائیل) یعنی اتنے بھی ہاتھ کشادہ نہ کروں کہ تم خالی ہو کر شرمندہ اور عاجز بن کر بیٹھ جاؤ خود آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ ایک مسلمان کے لئے اس کے ایمان کو بچانے کے لئے اس کے ہاتھ میں مال کا ہونا مفید ہوگا ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بعض دفعہ محتاجگی کافر بنا دیتی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ درمیانی راستہ بہتر ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان

(۱۴) ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے اسماعیل بن ابی خالد سے بیان کیا کہا کہ مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حسد کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی ۔ دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالی نے حکمت (عقل علم قرآن و حدیث اور معاملہ فہمی) دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔
تشریح
امیر اور عالم ہر دو اللہ کے ہاں مقبول بھی ہیں اور مرد ود بھی ۔ مقبول وہ جو اپنی دولت کو راہ اﷲ میں خرچ کریں زکوۃ اور صدقات سے مستحقین کی خیر گیری کریں اور اس بارے میں ریا و نمود سے بھی بچیں یہ مالدار اس قابل ہیں کہ ہر مسلمان کو ان جیسا مالدار بننے کی تمنا کرنی جائز ہے ۔ اسی طرح عالم جو اپنے علم پر عمل کریں اور لوگوں کو علمی فیض پہنچائیں ریا نمود سے دور رہیں ۔ خشیت و محبت الہی بہر حال مقدم رکھیں یہ عالم بھی قابل رشک ہیں۔ امام بخاری کا مقصد یہ کہ لله (اللہ کے لیے)خرچ کرنے والوں کا بڑا درجہ ہے ایسا کہ ان پر رشک کرنا جائز ہے جبکہ عام طور پر حسد کرنا جائز نہیں۔ مگر نیک نیتی کے ساتھ ان پر حسد کرنا جائز ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب صدقہ میں ریا کاری کرنا

کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے (جس کا مفہوم ہے) کہ اے لوگو! جو ایمان لا چکے ہو اپنے صدقات کواحسان جتا کر اور (جس نے تمہارا صدقہ لیا ہے اسے) ایذا دے کر برباد نہ کرو۔ جیسے وہ شخص (اپنے صدقات برباد کردیتا ہے) جو لوگوں کو دکھانے کے لئے مال خرچ کرتا ہے ۔ اور اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا۔ (سے) اللہ تعالی کے ارشاد ’’ (ترجمہ ) اور اللہ اپنے منکروں کی ہدایت نہیں کرتا ‘‘ (تک ) ۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ (قرآن مجید میں) لفظ صَلْداً سے مراد صاف اور چکنی چیز ہے۔ عکرمہؓ نے کہ (قرآن مجیدمیں) لفظ وَابِلٌ سے مراد روز کی بارش ہے اور لفظ طل سے مراد شبنم اوس ہے۔
تشریح
یہاں صدقہ فرض یعنی زکوۃ اور صدقہ نفل یعنی خیرات ہر دو شامل ہیں ۔ ریاکاری کے دخل سے ہر دو بجائے ثواب کے باعث عذاب ہوں گے ۔جیسا کہ دوسری حدیث میں آیا ہے ۔ کہ قیامت کے دن ریاکار سخی کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ تو نے ناموری کے لئے مال خرچ کیا تھا سو تیرا نام دنیا میں جواد سخی مشہور ہوگیا اب یہاں آخرت میں تیرے لئے کیا رکھا ہے۔ ریا کار سے بدتر وہ لوگ ہیں جو غرباء و مساکین پر احسان جتلاتے اور ان کو روحانی ایذا پہنچاتے ہیں ۔ اس طرح کے زکوۃ و صدقات عند اللہ باطل ہیں۔
حضرت امام بخاری نے یہاں باب میں ان آیات ہی پر اکتفا فرمایا اور آیت میں احسان جتلانے اور ایذا دینے کو ریا کار کافروں کے صدقہ کے ساتھ تشبیہ دے کر ان کی انتہائی قباحب پر دلیل لی ہے ۔ صلدا وہ صاف پتھر جس پر کچھ بھی نہ ہو ۔
ہذا مثل ضرب الہ لا عمال الکفار یوم القیمۃ بقول لا یقدرون علی شئ مما کسبوا یومئذ کما ترک ہذا المطر الصفا نقیا لیس علیہ شئ
یعنی یہ مثال اللہ نے کافروں کے لئے بیان فرمائی کہ قیامت کے دن ان کے اعمال کا لعدم ہو جائیں گے ۔ اور وہ وہاں کچھ بھی نہ پا سکیں گے جیسا کہ بارش نے اس پتھر کو فرمائی کہ قیامت کے دن ان کے اعمال کالعدم ہو جائیں گے اور وہ وہاں کچھ بھی نہ پا سکیں گے جیسا کہ بار نے اس پتھر کو ۔
باب اللہ پاک چوری کے مال میں سے خیرات نہیں قبول کرتا اور وہ صرف پاک کمائی سے قبول کرتا ہے کیونکہ اللہ پاک کا ارشاد ہے ’’ بھلی بات کرنا اور فقیر کی سخت باتوں کو معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے نتیجہ میں (اس شخص کو جسے صدقہ دیا گیا ہے ) اذیت دی جائے کہ اللہ بڑا بے نیاز نہایت بردبار ہے۔
تشریح اس آیت سے امام بخاریؒ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب چور چوری کے مال میں سے خیرات کو ے گا تو جن لوگوں پر خیرات کرے گا ان کو جب اس کی خبر ہوگی تو وہ رنجیدہ ہوں گے ان کو ایذا ہوگی۔
باب حلال کمائی میں سے خیرات قبول ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالی کسی نا شکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا وہ لوگ جو ایمان الئے اور نیک عمل کئے نماز قائم کی اور زکوۃ دی انہیں ان اعمال کا ان کے پروردگار کے یہاں ثواب ملے گا۔ اور نہ انہیں کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔
(۱۵) ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا۔ انہوں نے ابوالنصر سالم بن ابی امیہ سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد نے ان سے ابو صالح نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالی صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لئے اس میں زیادتی کرتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو (کھلا پلاکر) بڑھاتا ہے ۔ تا آنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے ۔ عبدالرحمن کے ساتھ اس روایت کی متابعت سلیمان نے عبداللہ بن دینار کی روایت سے کی ہے اور ورقاء نے ابن دینار سے کہا ان سے سعید بن یسار نے ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اور اس کی روایت مسلم بن ابی مریم زید بن اسلم اور سہیل نے ابو صالح سے کی ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے۔
تشریح :
حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں یعنی ایسا نہیں کہ اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے قوت میں کم ہو جیسے مخلوقات میں ہوا کرتا ہے ۔ اہل حدیث اس قسم کی آیتوں اور حدیثون کی تایل نہیں کرتے اور ان کو ان کے ظاہری معنے پر محمول رکھتے ہیں ۔ سلیمان کی رویات مذکورہ کو خود مؤلف نے اور ابو عوانہ نے وصل کیا اور ورقاء کی روایت کو امام بیہقی اور ابو بکر شافعی نے اپنے فوائد میں اور مسلم کی روایت کو قاضی ابو یوسف بن یعقوب نے کتاب الزکوۃ میں اور زید بن اسلم اور سہیل کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا ۔ (وحیدی)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :-
قال اہل العلم میں اہل السنۃ والجماعتہ نومن بہذاہ الاحادیث و لا نتوہم فیہما تبیہا ولا نقول کیف
یعنی اہل سنت والجماعت کے جملہ اہل علم کا قول ہے کہ ہم بلاچوں و چراں ان احادیث پر ایمان لاتے ہیں او راس میں کسی قسم کا وہم نہیں کرتے۔ اور نہ ہم کیفیت کی بحث میں جاتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب صدقہ اس زمانہ سے پہلے کہ اس کا لینے والا باقی نہ رہے گا

(۱۶) ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے سعید بن خالد نے بیان کیا کہا کہ میں نے حارثہ بن وہبؓ سے سنا انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا تھا کہ صدقہ دیا کرو ایک ایسا زمانہ بھی تم پر آنے والا ہے جب ایک شخص اپنے مال کا صدقہ لے کر نکلے گا اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں پائے گا ۔ (جس کے پاس صدقہ لے کر جائے گا) وہ یہ جواب دے کہ اگر تم کل اسے لائے ہو تے تو میں اسے قبول کرلیتا آج تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔
تشریح
قیامت کے قریب زمین کی ساری دولت باہر نکل آئے گی اور لوگ کم رہ جائیں گے ایسی حالت میں کسی کو مال کی حاجت نہ ہوگی ۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کی غنیمت جانو جب تم میں محتاج لوگ موجود ہیں اور جتنی ہو سکے خیرات دو ۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ قیامت کے قریب ایسے جلد جلد انقلاب ہوں گے کہ آج آدمی محتاج ہے کل امیر ہوگا ۔ آج اس دور میں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ ساری روئے زمین پر ایک طوفان برپا ہے ۔ مگر وہ زمانہ ابھی دور ہے کہ لوگ زکوٰۃ صدقات لینے والے باقی نہ رہیں گے ۔
(۱۷) ہم سے ابو الیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی کہا کہ ہم سے ابو الزناد نے بیان کیا ان سے عبدالرحمن بن ہر مزعرج نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا قیامت آنے سے پہلے مال و دولت کی اس قدر کثرت ہو جائے گی اور لوگ اس قدر مال دار ہوجائیں گے اس وقت صاحب مال کو اس کی فکر ہوگی کہ اس کی زکوۃ کون قبول کرے ۔ اور اگر کسی کو دینا بھی چاہے گا تو اس کو یہ جواب ملے گا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے (قیامت کے قریب جب زمین اپنے خزانے اگل دے گی تب یہ حالت پیش آئے گی)
(۱۸) ہم سے عبداللہ بن سندی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو عاصم نبیل نے بیان کیا کہا کہ ہمیں سعدان بن بشیر نے خبر دی کہا کہ ہم سے اب مجاہد سعد ملائی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے محل بن خلیفہ طائی نے بیان کیا کہا کہ میں نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں موجود تھا کہ دو شخص آئے ۔ ایک فقر وفاقہ کی شکایت لئے ہوئے تھا اور دوسرے کو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت تھی اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا (اور اسے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہوگا) اور رہا فقر وفاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک (مال ودولت کی کثرت کی وجہ سے یہ حال نہ ہو جائے کہ) ایک شخص اپنا صدقہ لے کر تلاش کرے لیکن کوئی اسے لینے والا نہ ملے ۔ پھر اللہ تعالی کے سامنے ایک شخص اس طرح کھڑ ا ہو گا کہ اسکے اور اللہ تعالی کے درمیان میں کوئی پردہ نہیں ہوگا ور نہ ترجمانی کے لئے کوئی ترجمان ہوگا پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا کہ کیامیں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا ؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا ۔ پھر اللہ تعالی پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا ؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہوگی پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہئیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی (کا صدقہ کرکے اس سے اپنا بچاؤ کر سکو) اگر یہ بھی میسر نہ آسکے تو اچھی بات منہ سے نکالے (یہ بھی ایک بڑا صدقہ ہے )
یعنی اگر خیرات نہ دے تو اس کو نرمی سے جواب ہی دے ۔ کہ اس وقت میں مجبور ہوں معاف کرو گھرکنا جھگڑنا اللہ پاک کلام فرمائے گا اس حدث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں اگر آوا زاور حروف نہ ہوں نو بندہ سنے گا کیسے اور سمجھے گا کیسے؟ (وحیدی)
اس حدیث میں یہ پیشگوئی بھی ہے ہ ایک دن عرب میں امن وامان عام ہوگا۔ چور ڈاکو عام طور پر ختم ہو جائیں گے یہاں تک کہ قافلے مکہ شریف سے (خفیر) کے بغیر نکلا کریں گے۔ خفیر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو عرب میں ہر ہر قبیلہ سے قافلہ کے ساتھ سفر کرکے اپنے قبیلہ کی سرحد امن و عافیت کے ساتھ پار کرا دیا کرتا تھا وہ راستہ بھی بتلاتا اور لوٹ مار کرنے والوں سے بھی بچاتا تھا۔
آج اس چودہویں صدی میں حکومت عربیہ سعودیہ نے حرمین شریفین کو امن کا اس قدر گہوارہ بنا دیا ہے کہ مجال نہیں کوئی کسی پر دست اندازی کر سکے ۔ اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے ۔ اور حاسدین و معاندین کے اوپر اس کو ہمیشہ غلبہ عطا فرمائے ۔آمین۔
(۱۸) ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے ابو اسامہ (حماد بن اسامہ) نے بیان کیا ۔ ان سے بریدبن عبداللہ نے ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آجائے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہوگا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہو جائیں گی کیونکہ مردوں کی کمی ہو جائے گی اور عورتوں کی زیادتی ہوگی - (قیامت کے قریب یا تو عورتوں کی پیداش بڑھ جائے گی ، مرد کم پیدا ہوں گے ۔ یا لڑائیوں کی کثرت سے مردوں کی قلت ہو جائے گی اور ایسا کئی دفعہ ہو چکا ہے)
باب اس بارے میں کہ جہنم کی آک سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعہ ہو اور (قرآن مجید میں ہے) وَمَثَلُ الَّذِینَ یُنْفِقُونَ اَمْوَالَہُمْ (ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں) سے فرمان باری مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ تک (یہ آیت سورئہ بقرہ کے رکوع ۳۵ میں ہے ۔اس آیت اور حدیث سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ صدقہ تھوڑا ہو یا بہت ہر طرح اس پرثواب ملے گا۔ کیونکہ آیت میں مطلق اموالہم کا ذکر ہے جو قلی اور کثیر سب کو شامل ہے)
(۱۹) ہم سے اقراء عبید اللہ بن سعید نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہم سے ابو النعمان حکم بن عبداللہ بصری نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ان سے سلیمان اعمش نے ان سے ابو وائل نے اور ان سے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کام کیا کرتے تھے (تاکہ اس طرح جو مزدوری ملے اسے صدقہ کر دیا دائے) اسی زمانہ میں ایک شخص آیا اور اس نے صدقہ کے طور پر کافی چیزیں پیش کیں۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریا کار ہے ۔ پھر ایک اور شخص (ابو عقیل نامی) آیا۔ اور اس نے صرف ایک صاع کا صدقہ کیا اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالی کو ایک صاع صدقہ کی کیا حاجت ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔’’ وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں جو صدقہ زیادہ دیتے ہیں اور ان پربھی جو محنت سے کرا کر لاتے ہیں ۔ (اور کم صدقہ کرتے ہیں) آخر آیت تک۔
تشریح
یہ طعنہ مارنے والے کم بخت منافقین تھے ۔ ان کو کسی طرح چین ہی نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنا آدھا مال آٹھ ہزار درہم صدقہ کردیے تو ان کو ریا کار کہنے لگے۔ ابو عقیلؓ بچارے غریب آدمی نے محنت مزدوری سے کمائی کرکے ایک صاع کھجور اللہ کی راہ میں دی تو اس پر ٹھٹھامارنے لگے ۔ کہ اللہ کو اسکی احتیاج نہ تھی۔
ارے مردود!اللہ کو تو کس چیز کی احتیاج نہیں ۔آٹھ کروڑ بھی ہوں تو اس کے آگے بے حقیقت ہیں وہ دل کی نیت کو دیکھتا ہے ایک صاع کھجور بھی بہت ہے ۔ ایک کھجور بھی کوئی خلوص کے ساتھ حلال مال سے دے تو وہ اللہ کے نزیک مقبول ہے ۔ انجیل شریف میں ہے کہ ایک بڑھیا نے خیرات میں ایک دمڑی دی لوگ اس پر ہنسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس بڑھیا کی خیرات تم سب سے بڑھ کر ہے ۔ (وحیدی)
(۲۰) ہم سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعم نے بیان کیا ۔ ان سے شقیق نے اور ان سے ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار میں جاکر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے ۔ اور اس طرح ایک مد(غلہ یا کھجور وغیرہ) حاصل کرتے ۔ (جسے صدقہ کردیتے) لیکن آج ہم سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینا ر) موجود ہیں۔
(۲۱) ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا۔ ان سے ابو اسحاق عمرو بن عبداللہ سبیعی نے کہ میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا انہو ں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ کہتے سنا کہ جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی (مگر ضرور صدقہ کرکے دوزخ کی آگ سے بچنے کوشش کرو۔)
تشریح
ان ہر دو احادیث سے صدقہ کی فضیلت ظاہر ہے اور یہ بھی کہ دور اول میں صحابہ کرامؓ جبکہ وہ خود نہایت تنگی کی حالت میں تھے۔ اس پر بھی ان کو صدقہ خیرات کو کس درجہ شوق تھا کہ خود مزدوری کرتے بازار میں قلی بنتے کھیت میں مزدٖوروں میں کام کرتے پھر جو حاصل ہوتا اس میں سے غرباء ومساکین مسلمانوں کی امداد کرتے۔ اہل اسلام میں یہ جذبہ اس چیز کا بین ثبوت ہے ہ اسلام نے اپنے پیروکاروں میں نبی نوع انسان کے لئے ہمدردی و سلوک کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے ۔ قرآن مجید کی آیت لن تنالو البر حتیّٰ تنفقوں امما تحبون میں اللہ پاک نے رغبت دلاء کہ صدقہ خیرات میں گھٹیا چیز نہ دو بلکہ پیار سے پیاری چیزوں کا صدقہ کرو برخلاف اس کے بخیل کی حد درجہ مذمت کی گئی ارو بتلایا کہ جنت کی بو بھی نہ پائے گا ۔یہی صحابہ کرام تھے جن کا حال آپ نے سنا پھر اللہ نے اسلام کی برکت سے ان کو اس قدر بڑھآیا کہ لاکھوں کے ملک بن گئے۔
حدیث ولو بشق تمرۃ مختلف لفظوں میں وارد ہوئی ہے ۔
برانی میں ہے اجعلوا بینکم وبین النار حجاباً ولو بشق تمرۃ اپنے اور دوزخ کے درمیان صدقہ کرکے حجاب پیدا کرو اگرچہ وہ صدقہ ایک کچھور کی پھانک ہی سے ہو ۔ نیز مسند احمد میں یوں ہے لیتق احد کم وجہہ بالنار ولو بشق تمرۃیعنی تم اپنا چہرہ آگ سے بچانا چاہیے جس کا واحد ذریعہ صدقہ ہے اگرچہ وہ آدھی کھجور ہی ہے کیوں نہ ہو اور مسند احمد میں ہی حدیث عائشہ ؓ سے یوں ہے آپﷺ نے خود حضرت عائشہؓ کو خطاب فرما یا
یا عائشۃ استتری من النار ولو بشق تمرۃ الحدیث
یعنی اے عائشہ! دوزخ سے پروہ کرو اگرچہ وہ کھجور کی ایک پھانک ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو ۔
آخر میں علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : -
وفی الحدیث الحث علی الصدقۃ بما قل وما جل وان لا تتحتقر ما بتصدق بہ وان الیسیر من الصدقۃ یستر المتصق من النار (فتح)
یعنی حدیث میں ترغیب ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ صدقہ بہرحال کرنا چاہیے ۔ اور تھوڑے صدقہ کو حقیر نہ جاننا چاہیئے کہ تھوڑا سے تھوڑا صدقہ بھی متصدق کے لئے دوزخ سے حجاب بن سکتا ہے ۔
(۲۲) ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا ۔ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ۔ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن الی بکر بن حزم نے بیان کیا ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لئے مانگتی ہوئی آئی ۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے دے دی وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی پھر وہ اٹھی اور چلی گئی اس کے بعد نبی کریمﷺ تشریف لائے تو میں نے آپﷺ سے اس کا حل بیان کیا ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سے بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لئے دوزخ سے بچاؤ کے لئے آڑ بن جائیں گی۔
تشریح
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس عورت نے ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دئیے جو نہایت قلیل صدقہ ہے اورباوجود اس کے آنحضرت ﷺ نے اس کو دوزخ سے بچاؤ کی بشارت دی میں کہتا ہوں اس تکلف کی حاجت نہیں بات میں دو مضمون تھے ایک تو کھجور کا ٹکڑا دے کر دوزخ سے بچنا دوسرے قلیل صدقہ دینا تو عدی کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت ہوگیا اور حضرت عائشہؓ کی حدیث سے دوسرا مطلب۔ انہو ں نے بہت قلیل صدقہ دیا یعنی ایک کھجور (وحیدی)
اس سے حضرت عائشہ ؓ کی خیرات کے لئے حرص بھی ثابت ہوئی اور یہ اس لئے کہ آنحضرتﷺ کا ارشاد تھا
لا یرجع من عندل سائل ولو بشق تمرۃ رواہ البزار من حدیث ابی ہریرہ (فتح)
یعنی تمہارے پاس سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانا چاہیے اگرچہ کھجور کی آدھی پھانک ہی کیوں نہ ہو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب تندرستی اور مال کی خواہش کے زمانہ میں صدقہ دینے کی فضیلت

اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم کو موت آجائے الآیۃ اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ ’’ اے ایمان والو: ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں خرچ کرو اس سے پہلے کہ وہ دن قیامت آجائے۔جب نہ خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی اور نہ شفاعت الآیۃ۔
ان آیتوں سے حضرت امام بخاریؒ نے یہ نکالا کہ صدقہ کرنے میں جلدی کرنا چائیے ایسا نہ ہو کہ موت آن پہنچے اس وقت کف افسوس ملتا رہے کہ اگر میں اور جیتا تو صدقہ دیتا یہ کرتا وہ کرتا با کا مطلب بھی قریب قریب یہی ہے۔ (وحیدی)
(۲۳) ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہمارۃ بن قعقاع نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو زرعہ نے بیان کیا ہا کہ ہم سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہاکہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے وقت بخل کے باوجود کرو تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید اور (اس صدقہ خیرات میں) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آجائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لئے اتنا اور فلاں کے لئے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہوچکا۔
حدیث میں ترغیب ہے کہ تندرستی کی حالت میں جب کہ مال کی محبت بھی دل میں موجود ہو صدقہ خیرات کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے نہ کہ جب موت قریب آجائے اور جان حلق میں پہنچ جائے مگر یہ شریعت کی مہربانی ہے کہ آخر وقت تک بھی جب کہ ہوش و حواس قائم ہوں مرنے والوں کی تہاری مال کی وصیت کرنا جائز قرار دیا ہے ورنہ اب وہ مال تو مرنے والے کے بجائے وارثوں کا ہو چکاہے۔ پس عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ تندرستی میں حسب توفیق صدقہ وخیرات میں جلدی کرنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔
(۲۴) ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو عوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا ان سے فراس بن یحییٰ نے ان سے شعبی نے ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریمﷺ کی بعض بیویوں نے آپﷺ سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ سے کون جاکر ملے گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہوگا اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کردیا تو سودہ رضی اللہ عنہ سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں ۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ کی مراد صدقہ (زیادہ) کرنے والی سے تھی۔ اورسودہ رضی اللہ عنہا ہی سب سے پہلے نبی کریمﷺ سے جا کر ملیں۔ صدقہ کرنا آپ کو بہت محبوب تھا ۔
تشریح
اکثر علماء کرام نے کہا ہے کہ طول یدہا اور کانت کی میروں سے حضرت زینبؓ مراد ہیں گو ان کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے کیونکہ اس امر پر اتفاق ہے کہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد سب بیویوں میں پہلے حضرت زینبؓ ہی کا انتقال ہوا تھا لیکن امام بخاریؒ نے تاریخ میں جو روایت کی اس میں ام المؤمنین حضرت سودہؓ کی صراحت ہے اور یہاں بھی اس رویات میں حضرت سودہ ؓ کا نام آیا ہے اور یہ مشکل ہے اور ممکن ہے یوں جواب دینا کہ جس جلسہ میں یہ سوال آنحضرتﷺ سے ہوا تھا وہاں حضرت زینب موجود نہ ہوں گی۔ اور جتنی بیویاں وہاں موجود تھیں ان سب میں پہلے حضرت سودہ ؓ کا انتقال ہوا مگر ابن حبان کی روایت میں یوں ہے کہ اس وقت آپ کی سب بیویاں موجود تھیں۔ کوئی باقی نہ رہی تھی اس حالت میں یہ احتمال بھی نہیں چل سکتا ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
قال لنا محمد بن عمر یعنی الواقدی ہذا الحدیث وہل فی سورۃ وانما ہو فی زینب حجش فہی اول نسائہ بہ لحوقا و توفیت فی خلافۃ عمر و بقیت سورۃ الی ان توفیت فی خلافۃ معاویۃ فی شوال سنۃ اربع وخمسین قال ابن بطال ہذا الحدیث سقط منہ ذکر زینت لاتتفاق اہل السیر علی ان زینب اول من مات من ازواج النبیﷺ یعنی ان الصواب وکانت زینب اسرعنا الخ ولکن ینکر علی ہذا التاویل تلک المتقدمۃ المصرح فیہا بان الضمیر لسودۃ و قرات مجط الحافظ الی علی الصدافی ظاہر ہذا اللفظ ان سدۃ کانتتت اسرع وہوا خلاف المعروف عند اہل العلم ان زینب اول من مات من الازواج ثم نقلہ عن مالک من روایتہ عن الواقدی قال و یقویہ روایۃ عائشۃ بنت طلحۃ وقال ابن الجوزی ہذا الحدیث غلط من بعض الرواۃ واللعجب من البخاری کیف لم ینبہ علیہ ولا صحاب التعالیق و کل ذلک وہ وانما ہی زینب فانہا کانت اطولہن یذابا لعطاء کما رواہ مسلم من طریق عائشۃ بلفظ کانت اطولنا یداً زینب لانہا کانت تعمل و تتصدق و فی رویایتہ کانت زینب امؤاۃ صنا عۃ بالید وکانت تدبغ و تخرز و تصدق فی سبیل اللہ۔
یعنی ہم سے واقدی نے کہا کہ اس حدیث میں راوی سے بھول ہوگئی ہے درحقیقت سب سے پہلے انتقال کرنے والی حضرت زینبؓ ہی ہیں جن کا انتقال حضرت عمرؓ کی خلافت میں ہوا اور حضرت سودہؓ کا انتقال خلافت معاویہؓ ۵۴ھ میں ہوا ہے ۔ ابن بطال نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت زینبؓ کا کذر سافط ہوگیا ہے کیونکہ اہل سیر کا اتفاق ہے کہ امہات المومنین میں سب سے پہلے انتقال کرنے والی خاتون حضرت زینب ؓ بنت حجش ہی ہیں اور جن روایتوں میں حضرت سودہ کا نام آیا ہے ان میں راوی سے بھول ہوگئی ہے ابن جوزی نے کہا کہ اس میں بعض راویوں نے غلطی سے حضرت سودہؓ کا نام لے دیا ہے اور تعجب ہے کہ حضرت امام بخاری کو اس پر اطلاع نہ ہو سکی اور نہ ان اصحاب تعالیق کو جنہوں نے یہاں حضرت سودہؓ کا نام لیا ہے اور وہ حضرت زینبؓ ہی ہیں جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ہم میں سب سے زیادہ دراز ہاتھ والی (یعنی صدقہ و خیرات کرنے والی ) حضرت زینبؓ تھیں وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور دیگرمحنت مشقت واعت وغیرہ کرکے پیسہ حاصل کرتیں اور فی سبیل اللہ صدقہ خیرات کیا کرتی تھیں ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ناپنے کے لحاظ سے حضرت سودہؓ کے ہاتھ دراز تھے اور ازواج النبی ﷺ نے شروع میں یہی سمجھا کہ دراز ہاتھ والی بیوی کا انتقال پہلے ہونا چاہیے مگر جب حضرت زینبؓ کا انتقال ہوا تو ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ کی مراد ہاتھوں کا دراز ہونا نہ تھی بلکہ صدقہ وخیرات کرنے والے ہاتھ مراد تھے اور یہ سبقت حضرت زینبؓ کو حاصل تھی پہلے انہیں کا انتقال ہوا۔ مگر بعض راویوں نے اپنی لا علمی کی وجہ سے یہاں حضرت سودہؓ کا نام لے دیا ۔ بعض علماء نے یہ تطلیق بھی دی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس وقت یہ ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں حضرت زینبؓ تھیں آپ نے اس وقت کی حاضر ہونے والی بیویوں کے بارے میں فرمایا اور ان میں سے پہلے حضرت سودہؓ کا انتقال ہوا مگر اس تطبیق پر بھی کلام کیا گیا ہے۔
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں ۔
والحدیث یوہم ظاہرہ ان اول من ماتت من امہات المومنین بعد و فاتہ ﷺ سودۃ ولیس کذلک فتامل ولا تعجل فی ہذا المقام فانہ من مزالق الا قدام (شرح تراجم ابواب بخاری)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب سب کے سامنے صدقہ کرنا جائز ہے۔ اور اللہ تعالی نے (سورہ بقرہ میں) فرمایا کہ (جس کا مفہوم ہے) جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں پوشیدہ طور پر اور طاہر ان سب کا ان کے رب کے پاس ثواب ملے گا انہں کوئی ڈر نہیں ہوگا اور نہ انہیں کسی قسم کا غم ہوگا

اس آیت سے علانہی خیرات کرنے کا جواز نکلا گو پوشیدہ خیرات کرنا بہتر ہے ۔ کیونکہ اس میں ریا کا اندیشہ نہیں کہتے ہیں کہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اتری ان کے پاس چار اشرفیاں تھیں ایک دن کودی ایک رات کو دی ایک اعلانہی ایک چھپ کر (وحیدی)
یہاں حضرت امام بخاری نے مضمون باب کو مدلل کرنے کیلئے صرف آیت قرآنی کا نقل کرنا کافی سمجھا حن میں ظاہر لفظوں میں باب کا مضمون موجود ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
[FONT=&quot]باب چھپ کر خیرات کرنا افضل ہے ۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ وہ ایک شخص نے صدقہ کیا اور اسے چھپایا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا ’’ اگر تم صدقہ کو ظاہر کردو تو یہ بھی اچھا ہے اور اگر پوشیدہ طور پر دو اور دو فقرا کو تو یہ بھی تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارے گناہ مٹا دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح خبردار ہے۔[/FONT][FONT=&quot]‘‘[/FONT]
[FONT=&quot]یہاں حضرت امام نے مضمون باب کو ثابت کرنے کے لئے حدیث نبوی اور آیت قرآنی ہر دو سے استدلال فرمایا مقصد ریا کاری سے بچنا ہے اگر اس سے دور رہ کر صدقہ دیا جائے تو ظاہر ہو یا پوشیدہ ہر طرح سے درست ہے اور اگر ریا کا ایک شائبہ بھی نظر آئے تو پھر اتنا پوشیدہ دیا جائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو اگر صدقہ خیرات زکوٰۃ میں ریا نمود کا کچھ دخل ہوا تو وہ صدقہ و خیرات و زکوٰۃ مالدار کے لئے الٹا وبال جان ہو جائے گا[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اگر لاعلمی میں کسی نے مالدار کو صدقہ دے دیا (تو اس کو ثواب مل جائے گا)

(۲۵) ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ۔ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک شخص نے (بنی اسرائیل میں سے) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ (آج رات ) دینا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا۔ اور (ناواقفی سے) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا ۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے ۔ (آج رات) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا چنانچہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا اس شخص نے کہا اے اللہ تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالو ں گا چنانچہ اپنا صدقہ لئے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مربتہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا صبح ہوئی تو لوگوں کے زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے اس شخص نے کہا کہ اے اللہ ! حمد تیرے ہی لئے ہے (میں اپنا صدقہ لاعلمی سے چور فاحشہ اور مالدار کو دے آیا (اللہ تعالی کی طرف سے) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے ۔ اور مالدار کے ہاتھ میں پڑجانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو۔ اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے وہ خرچ کرے۔
تشریح اس حدیث میں نبی اسرائیل کے ایک سخی کا ذکر ہے جو صدقہ خیرات تقسیم کرنے کی نیت سے رات کو نکلا مگر اس نے لاعلمی میں پہلی رات میں اپنا صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا اور دوسری رات میں ایک فاحشہ عورت کو دے دیا اور تیسری شب میں ایک مالدار کو دے دیا جو مستحق نہ تھا یہ سب کچھ لا علمی میں ہوا بعد میں جب یہ واقعات اس کو معلوم ہوئے تو اس نے اپنی لاعملی کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی گویا یہ کہا
اللہم لک الحمد ای لالی ان صدقتی وقعت بیدمن لا یستحقہا فلک الحمد حیث کان ذلک بارا دتک ای لا یارا دتی فان اردۃ اللہ کلہا جمیلۃ
یعنی یا اللہ حمد تیرے لئے ہی ہے نہ میرے لئے میرا صدقہ غیر مستحق کے ہاتھ میں پہنچ گیا پس حمد تیرے ہی لئے ہے اس لئے کہ یہ تیرے ہی ارادے سے ہوا نہ میرے ارادے سے اور اللہ پاک جو بھی چاہے اور وہ جو ارجہ کرے وہ سب بہتری ہے ۔
حضرت امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ ان حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیرمستحق کو مل گیا مگر عند اللہ وہ قبول ہوگیا حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ ناواقفی سے اگر غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ بھی قبول کرلیتا ہے اور دینے والے کو ثواب مل جاتا ہے ۔ لفظ صدقہ میں نفلی صدقہ اورفرض صدقہ یعنی زکوۃ ہر دو داخل ہیں۔
اسرائیلی سخی کو خواب میں بتلایا گیا یا ہافت غیب نے خبر دی یا اس زمانہ کے پیغمبر نے اس سے کہا کہ جن جن غیر مستحق کو تو نے غلطی سے صدقہ دے دیا شاید وہ اس صدقہ سے عبرت حاصل کرکے اپنی غلطیوں سے باز آجائیں چور چوری سے اور زانیہ زنا سے رک جائے اور مالدا کو خود اسی طرح خرچ کرنے کی رغبت ہو ان صورتوں میں تیرا صدقہ تیرے لئے بہت کچھ موجب اجر و ثواب ہو سکتا ہے ۔ و نذا ہوا لمراد۔
 
Top