• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب زکوۃ کے مسائل کا بیان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب صدقہ دینے والے کی اور بخیل کی مثال کا بیان

(۴۷) ہم سے موسی بن اسماعلی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا ان سے ان کے باپ طاؤس نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی طرح ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے ہیں (دوسری سند) امام بخاری نے ہا اور ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی کہ عبدالرحمن ابن ہر مزاعرج نے اسن سے بیان کیا ارو انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور ابو ہریرہ نے نبی کریم ﷺ کو یہ ہے سنا کہ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی سی ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے ہوں چھاتیوں سے ہنسلی تک جب خرچ کرنے کا عادی (سخی) خرچ کرتا ہے تو اس کے تما م جسم کو (وہ کرتا) چھپا لیتا ہے یا (راوی نے یہ کہا کہ) تمام جسم پر وہ پھیل جاتا ہے اور اس کی انگلیاں اس میں چھپ جاتی ہیں اور چلنے میں اس کے پاؤں کا نشان مٹ جاتا ہے لیکن بخیل جب بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کرتے کا ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے بخیل اسے کشاد ہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہو پاتا عبداللہ بن طاؤس کے ساتھ اس حدیث کو حسن بن مسلمہ نے بھی طاؤس سے روایت کیا اس میں دو کرتے ہیں اور حنظلہ نے طاؤس سے دو زرہیں نقل کیا ہے اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا انہو نے عبدالرحمن بن ہرمز سے سنا کہا میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے آنحضرتﷺ سے پھر یہی حدیث بیان کی اس میں دو زرہیں ہیں۔

تشریح
اس حدیث میں بخیل اور متصدق کی مثال بیان کی گئی ہیں سخی کی زرہ اتنی نیچی ہو جاتی ہے جیسے بہت نیچا کپڑا آدمی جب چلے تو وہ زمین پرگھسٹتا رہتا ہے اور پاؤں کا نشان ماے دیتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ سخی آدمی کا دل روپیہ خرچ کرنے سے خوش ہوتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے بخیل کی زرہ پہلے ہی مرحلہ پر اس کے سینہ سے چمٹ کر رہ جاتی ہی اور اس کو سخاوت کی توفیق نہیں ہوتی اس کے ہاتھ زرہ کے اند مقید ہو کر رہ جاتے ہیں۔
حسن بن مسلم کی روایت کو امام بخاری نے کتاب اللباس میں اور حنظلہ کی روایت کو اسماعیلی نے وصل کیا اور لیث بن سعد کی رویات اس سند سے نہیں ملی لیکن ابن حبان نے اس کو دوسری سند سے لیث سے نکالا ۔ کذا قال الحافظ

باب محنت اور سوداگری کے مال میں سے خیرات کرنا ثواب ہے کیونکہ اللہ تعالی نے (سورۃ بقرہ میں) فرمایا کہ اے ایمان والو ! اپنی کمائی کی عمدہ پاک چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہیں آخر آیت غنی حمید تک ۔
تشریح حضرت امام بخاری نے اشارہ کیا اس روایت کی طر ف جو مجاہد سے منقول ہے کہ کسب اور کمائی سے اس آیت میں تجارت اور سودا گری مراد ہے ارو زمین سے جو چیز اگائیں ان سے غلہ اور کھجور مراد ہے۔
علامہ ابن حجر فرماتے ہیں
ہکذا اوردہ ہذا الترجمۃ مقتصرا علی الایۃ بغیر حدیث و کانہ اشار الی مار واہ شعبۃ عن الحکم عن مجاہد فی ہذہ الایہ یا ایہا الذین امنوا انفقو ا من طیبت ما کسبتم الایۃ قال من التجارۃ الحلاا اخرجہ الطبری و ابن ابی حاتم من طریق ادم عنہ واخرجہ الطبری من طریق ہشیم عن شعبۃ و لفظہ من طبیاتِ ما کسبتم قال من التجارۃ و مما اخرجنا لکم من الارض قال من الثمار و من طریق ابی بکر الہذ لی عن محمد بن سیرین عن عبیدۃ بن عمر وعن علی قال فی قولہ ومما اخرجنا لکم من الارض قال یعنی من الحب و اتمرو کل شی علیہ زکۃ وقال الذین ابن المنیر لم یقید الکسب طیب (فتح الباری)
یعنی یہاں اس باب میں حضرت امام بخاری نے صرف اس آیت کے نقل کردینے کو کافی سمجھا اور کوئی حدیث یہاں نہیں لائے گویا آپ نے اس رویات کی طرف اشارہ کر دیا جسے شعبہ نے حکم سے اور حکم نے مجاہد سے اس آیت کی تفسر میں نقل کیا ہے کہ من طیبت ما کسبتم سے مراد حلال تجارت ہے اسے طبری نے روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم نے طریق آدم سے اور طبری نے طریق ہشیم سے بھی شعبہ سے اسے روایت کیا ہے اور ان کے لفظ یہ کہ طیبات ما کسبتم سے مراد تجارت سے ہے اور مما اخرجنا لکم سے مراد پھل وغیرہ ہیں جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں اور طریق ابو بکر بذلی میں محمد بین سیرین سے انہوں عبیدہ بن عمر و سے انہوں نے حضرت علیؓ سے کہ مما اخرجنا لکم من الارض سے مراد دانے اور کھجور ہیں اور ہر وہ چیز جس پر زکوۃ واجب ہے مراد ہے زین ابن منیر نے کہا کہ یہاں بات میں امام بخاری نے باب میں کسب کو طیب سے ساتھ مقید نہیں کیا جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے یہ اس لیے کہ حضرت امام پہلے ایک باب میں کسب کی ساتھ طیب کی قید لگاچکے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے اگر (کوئی چیز دینے کے لئے) نہ ہو تو اس کے لئے اچھی بات پر عمل کرنا یا اجھی بات دوسرے کو بتلا دینا بھی خیرات ہے

(۴۸) ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے سعید بن ابی بردہ نے بیان کیا ان سے ان کے باپ ابو بردہ نے ان کے دادا ابو موسی اشعریؓ سے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان میں صدقہ کرنا ضروری ہے لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبیﷺ ! اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ فریادی کی مدد کرے لوگوں نے کہا اگر اس کی بھی سکت نہ ہو ۔ فرمایا پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری باتوں سے باز رہے کہ اس کا یہی صدقہ ہے ۔
تشریح امام بخاری نے ادب میں جو روایت نکالی اس میں یوں ہے کہ اچھی یا نیک بات کا حکم کرے۔ ابو داؤد طیالسی نے اتنا اور زیادہ کیا اور بری بات سے منع کرے معلو ہوا جو شخص نادار ہو اس کے لئے وعظ و نصیحت میں صدقہ کا ثواب ملتا ہے (وحید)
حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں
قال الشیخ اوب محمد بن ابی جمرۃ نعف اللہ بہ ترتیب ہذا الحدیث انہ ندب الی الصدقہ وعند العجز عنہا ندت الی ما یقرب منہا او یقوم مقامہا وہو العمل و الانتفاع و عند العجز عن ذلک ندب الی ما یقو مقامہ و ہوالا غاثہ و عند عدم ذلک ندب الی فعل المعروف ای من سوی ما تقدم کا ما طۃ الاذی و عند عدم ذلک ندب الی الصلوۃ فان لم یطق فترک الشرو ذلک خرالمراتب قال و معنی الشرہما ما منع الشرع ففیہ تسلیۃ للعاجز عن فعل المندوبات ادا کان عجزہ عن ذلک عن غیرا اختیار (فتح الباری)
مختصر یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث کو لا کریہاں درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہو تو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہو سکے یہ صدقہ ہے ۔ مثلا اچھے کا م کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا اور جب اس کی بھی توفیق نہ ہو تو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کر دینا ارویہ بھی نہ ہو سکے تو کئی اور نیک کام کر دینا مثلاً یہ کہ راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کر دیا جائے پھر نماز کی طرف رغبت دلائی کہ یہ بھی بہترین کام ہے آخری رتبہ یہ کہ برائی ترک کر دینا جسے شریعت نے منع کیا ہے یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لئے تسلی دلانا ہے جو افعال خیر سے بالکل عاجز ہو ارشاد باری تعالی ہے
و ما یفعلوا من خیر فلن یکفر
وہ لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا بلکہ اس کا بدلہ کسی شکل میں ضرور ملتا ہے قدرت کا یہی قانون ہے
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شراً یراہ
جو ایک ذرہ برابر خیرکرے گا وہ اسے بھی دیکھے گا اور جو ذرہ برابر شر کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا
از مکافات غافل مشو گندم از گندم بروید جوزجو

باب زکوۃ یا صدقہ میں کتنا مال دینا درست ہے ۔ اور اگر کسی نے ایک پوری بکری دے دی؟

(۴۹) ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو شہاب نے بیان کیا ان سے خالد حذاء نے ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نسیبہ نامی ایک انصار یہ عورت کے ہاں کسی نے ایک بکری بھیجی (یہ نسیبہ نامی انصاری عورت خود ام عطیہ ؓ ہی کا نام ہے) اس بکری کا گوشت انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے یہاں بھی بھیج دیا پھر نبی کریمﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اور تو کوئی چیز نہیں البتہ اس بکری کا گوشت جو نسیبہ نے بھیجا تھا وہ موجود ہے اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہی لاؤ اب اس کا کھانا درست ہوگیا۔
تشریح
باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ پوری بکری بطور صدقہ نسیبہؓ کو بھیجی گئی اب امت عطیہؓ نے جو تھوڑا گوشت اس بکری میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو تحفہ کے طور پر بھیجا اس سے یہ نکلا کہ تھوڑا گوشت بھی صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ ام عطیہؓ کا حضرت عائشہ ؓ کو بھیجنا صدقہ نہ تھا مگر ہدیہ تھا پس صدقہ کو اس پر قیاس کیا ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری نے یہ باب لا کر ان لوگوں کا رد کیا جو زکوۃ میں ایک فقیر کو اتنا دینا مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ صاحب نصاب ہو جائے امام ابو حنیفہ سے ایسا ہی منقول ہے ۔ لیکن امام محمد نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ (وحیدی)
آنحضرتﷺ نے اس بکری کے گوشت کو اس لئے کھانا حلال قرار دیا کہ جب فقراء ایسے مال میں سے تحفہ کے طور پر کچھ بھیج دے تو وہ درست ہے کیونکہ ملک کے بدل جانے سے حکم بھی بدل جاتا ہے یہی مضمون بریرہ ؓ کی حدیث میں بھی وارد ہے جب بریرہؓ نے صدقہ کا گوشتہ حضرت عائشہؓ کو تحفہ بھیجا تھا تو آپﷺ نے فرمایا تھا۔ ہو لہا صدقۃ ولنا ہدیۃ (وحیدی) وہ اس کے لئے صدقہ ہے ارو ہمارے لئے اس کی طرف سے تحفہ ہے۔

باب چاندی کی زکوۃ کا بیان

(۵۰) ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک ؒ نے خبر دی انہیں عمرو بن یحییٰ مازنی نے انہیں ان کے باپ یحییٰ نے انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ پانچ اونٹ سے کم میں زکوۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم (چاندی) میں زکوۃ نہیں اسی طرح پانچ دسق سے کم (غلہ) میں زکوۃ نہیں۔
تشریح
یہ حدیث ابھی اوپر باب ما ادی زکوتہ فلیس بکنز میں گزر چکی ہے اور دسق اور اوقیہ کی مقدار بھی وہیں مذکور ہو چکی ہے پانچ اوقیہ دو سودرم کے ہوتے ہیں ہر درم چھ دانق کا ہر دانف ۸ جو اور ۵/۲ جو کا تو درم ۵۰ جو اور ۵/۲ جو کا ہوا بعضوں نے کہا درم چار ہزا ارو دو سور ائی کے دانوں کا ہوتا ہے اور دینار ایک درم ارو ۷/۳ درم کا یا چھ ہزار رائی کے دانوں کا ہوتا ہے ۔ قیراط ۸/۳ دانق کا ہوتا ہے۔
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی مرحوم فرماتے ہیں کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے اور چاندی کا نصاب دوسو درہم ہیں کہ جن کے سکہ رائج الوقت دہلی سے ۵۶ روپے بنتے ہیں۔
وقال شیخ مشائخنا العلامۃ الشیخ عبداللہ الغزی فوری فی رسالۃ مع معربہ نصاب الفضۃ مائتا درہم ای خمسون و اثنتان تولجۃ ونصف تولجۃ وہی تساوی ستین روبیۃ من الروبیۃ الا نکیزیۃ المنافضۃ فی الہند فی زمن الانکلیز التی تکون بقدر عشر ما ہجۃ و نصف ما ہجۃ وقال الشیخ بحر العلوم اللکنوی الحنفی فی رسائل الارکان الاربعۃ ص ۱۷۸ وزن مائتی درہم وزن خمس و خمسین روبیۃ و کل روبیۃ احد عشر ما شج۔ مرعاۃ جلد ۳ ص ۴۱)
ہمارے شیخ المشائخ علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصب دو درم ہیں یعنی ساڑے باون تولہ او یہ انگریزی دور کے مروجہ چاندی کے روپے سے ساٹھ روپوں کے برابر ہوتی ہے جو روپیہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماشہ کا مروج تھا ۔ مولانا بحر العلوم لکھنوی فرماتے ہیں کہ دو سو درم وزن چانی ۵۵ روپے کے برابر ہے ارو ہر روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے ۔ ہمارے زمانہ میں چاندی کا نصاب اوزان ہندیہ کی مناسب سے ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔
خلاصہ یہ کہ غلہ میں پانچ دسق سے کم پر عشر نہیں ارو پانچ دسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیر وزن ۸۰ تولہ کے سیر کے حساب سے ہوتا ہے کیونکہ ایک دسق چار من ساڑھے پندرہ سیر کا ہوا۔
اوقیہ چالیس درم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا پر چالیسواں حصہ زکوۃ فرض ہے اور چاندی نصاب ساڑھے باون تولہ ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
(۵۱) ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہا کہ مجھے عمرو بن یحییٰ نے خبر دی انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اسی حدیث کو سنا ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب زکوۃ میں (چاندی سونے کے سوا اور) اسباب کا لینا

(جمہور علماء کے نزدیک زکوۃ میں چاندی سونے کے سوا دوسرے اسباب لینا درست نہیں لیکن حنفیہ نے اس کو جائز کہا ہے اور امام بخاری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے)
اور طاؤس نے بیان کیا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن والوں سے کہا تھا کہ مجھے تم صدقہ میں جوا اور جوار کی جگہ سامان و اسباب یعنی خمیصہ (دھاری دار چادریں) یا دسرے لباس دے سکتے ہو جس میں تمہارے لئے بھی آسانی ہوگی اور مدینہ میں نبی کریمﷺ کے اصحاب کے لئے بھی بہتر ہوگی اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ خالدرضی اللہ عنہ نے تو اپنی زرہیں اور ہتھیار اور گھوڑے سب اللہ کے راستے میں وقف کر دیئے ہیں (اس لئے ان کے پاس کوئی ایسی چیز ہی نہیں جس پر زکوۃ واجب ہوتی یہ جس حدیث کا ٹکڑا ہے وہ آئندہ تفصیل سے آئے گی)اور نبی کریمﷺ نے (عید کے دن عورتوں سے) فرمایا تھا کہ صدقہ کرو خواہ تمہیں اپنے زیور ہی کیوں نہ دینے پڑ جائیں ۔ تو آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسباب کا صدقہ درست نہیں ہے چنانچہ (آپﷺ کے اس فرمان پر) عورتیں اپنی بالیاں اور ہار ڈالنے لگیں ۔ آنحضورﷺ نے (زکوۃ کے لئے) سونے چاندی کی بھی کوئی تحصیص نہیں فرمائی ۔
تشریح
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن والوں کو اس لئے یہ فرمایا کہ اول تو جوا اور جوار کا یمن سے مدینہ تک لانے میں خرچ بہت پڑتا پھر اس وقت مدینہ میں صحابہؓ کو غلہ سے بھی زیادہ کپڑوں کی حاجت تھی تو معاذ رضی اللہ عنہ نے زکوۃ میں کپڑوں وغیرہ اسباب لینا ہی مناسب جانا ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اسباب کو وقف کرنے سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ زکوۃ میں اسباب دینا درست ہے اگر خالدرضی اللہ عنہ ان چیزوں کو وقف نہ کیا ہوتا تو ضرور ان میں سے کچھ زکوۃ میں دیتے بعضوں نے یوں توجیہ کی ہے کہ جب خالد رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کی سربراہی سامان سے کی اوریہ بھی زکوۃ کا ایک مصرف ہے تو گویا زکوۃ میں سامان دیا وہو الملطوب عیدین میں عورتوں کے زیور صدقہ میں دینے سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ زکوۃ میں اسباب کا دینا درست ہے کیونکہ ان عورتوں کے سب زیور چاندی سونے کے نہ تھے جیسے کہ ہار وہ مشک اور لونگ سے بنا کر گلوں میں ڈالتیں۔
مخالفین یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ نفل صدقہ تھا نہ فرض کیونکہ زیور میں اکثر علماء کے نزدیک زکوۃ فرض نہیں ہے۔ (وحیدی)
زیور کی زکوۃ کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ شیخ الحدیث صاحب نے حضرت الشیخ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر فتوی دیا ہے کہ زیور میں زکوۃ واجب ہے مولانا فرماتے ہیں وہوالحق (مرعاۃ)
واقعہ حضرت خالدرضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں۔
قصۃ خالد توول علی وجوہ احدھا انہم طالبو اخالد بالزکوۃ عن اثمان الاعتاد و والا درع بظن انہا للتجارۃ وان الزکوۃ فیہا واجبۃ فقال لہم لا زکوۃ فیہا علی فقالو اللنبی ﷺ ان خالداُ منع الزکوۃ فقال انکم تطلمونہ لانہ جبسہا و دففہا فی سبیل اللہ قبل الحول فلا زکوۃ فیہا الخ (مرعاۃ)
یعنی وقاعہ خالد کا کئی طرح تاوی کیا جا سکتا ہے یہ تو یہ کہ محصلین زکوۃنے خالدؓ سے ان کے ہتھیاروں اور زرہ ویرہ کی اس گمان سے زکوۃ طلب کی یہ سب اموال تجارت میں ارو ان میں زکوۃ واجب ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر زکوۃ واجب نہیں ہے یہ مقدمہ آنحضرتﷺ تک پہنچا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ خالد پر ظلم کر رہے ہو اس نے تو سال کے پورا ہونے سے پہلے ہی اپنے ان تمام سامانوں کو فی سبیل اللہ وقف کر دیا ہے ۔ پس اس پر اس مال میں زکوۃ اواجب نہیں ہے۔
لفظ اعتدہ کے متعلق مولانا فرماتے ہیں
بضم المثناۃ جمع عتد بفتتحتین و فی مسلم اعتادہ بزیادۃ الالف بعد التاء وہو ایضا جمعہ وقال النووی واحدۃ عتاد بفتح العین وقال الجزری الاعتد والاعتاد جمع عتاد وہوا ما اعدہ من السلاح والدواب و الالات الحرب ویجمع علی عتدۃ بکم التاء ایضا وقیل ہوا لخیل خاۃ یقال فرس عتیدای صب او معد اللرکوب اور سریع الوثوب۔
خلاصہ یہ ہے کہ لفظ اَعْتُد اعتد کی جمع ہیں ہر وہ چیز ہتھیار سے اور جانوروں سے اور آلات جنگ سے جو کئی جنگ کے لئے ان کو طیار کرے اور اس کی جمع اعتدہ بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے خاص گھوڑا ہی مراد ہے ۔ فرس عتید اس گھوڑے پر بولا جاتا ہے جو بہت تیز مضبوط سواری کے قابل ہو تیز قدم جلد کودنے اور دوڑنے والا۔
(۵۲) ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے والد عبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ انہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں (اپنے دو ر خلافت میں فرض زکوۃ سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے) اللہ اور رسو ل کے حکم کے مطابق یہ فرمان لکھا کہ جس کا صدقہ بنت مخاض تک پہنچ گیا ہو اور اس کے پاس بنت مخاض نہیں بلکہ بنت لبون ہے تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور اس کے بدلہ میں صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زائد دے دے گا۔ اوراگر اس کے پاس بنت مخا ض نہیں ہے بلکہ انب لبون ہے تو یہ ابن لبون ہی لے لیا جائے گا اور اس صورت میں کچھ نہیں دیا جائے گا ارو مادہ یا نر اونٹ جو تیسرے سال میں لگا ہو ۔
(۵۳) ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اسماعیل نے ایوب سے بیان کیا اور ان سے عطاء بن ابی رباح نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتلایا اس وقت میں موجود تھا جب رسول اللہﷺ نے خطبہ سے پہلے نماز (عید) پڑھی پھر آپ نے دیکھا کہ عورتوں تک آپﷺ کی آواز نہیں پہنچی اس لئے آپ ان کے پاس بھی آئے آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے جو اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے آپ نے عورتوں کو وعظ سنایا اور ان سے صدقہ کرنے کے لئے فرمایا اور عورتیں (اپنا صدقہ بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ) ڈالنے لگیں۔ یہ کہتے وقت ایوب نے اپنے کان اور گلے کی طرف اشارہ کیا ۔ (حضرت امام بخاری نے مقصد باب کے لئے اس سے بھی استدلال کیا کہ عورتوں نے صدقہ میں اپنے زیورات پیش کئے جن میں بعض چاندی سونے کے نہ تھے)

باب زکوۃ لیتے وقت جو مال جدا جدا ہوں وہ اکھٹے نہ کئے جائیں اور جو اکٹھے ہوں وہ جدا جدا نہ کئے جاویں اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔

(۵۴) ہم سے محمدبن عبداللہ انصاری نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ارو ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہی چیز کہی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے ضروری قرار دیا تھا ۔ یہ کہ زکوۃ (کی کمی یا زیادتی) کے خوف سے جدا جدا مال کو یک جا اور یک جا مال کو جدا جدانہ کیا جائے۔
تشریح
سالم کی روایت کو امام احمد اور ابو یعلیٰ اور ترمذی وغیرہ نے وصل کیا ہے امام مالک نے موطا میں اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے ۔ مثلاً تین آدمیوں کی الگ الگ چالیس چالیس بکریاں ہوں تو ہر ایک پر ایک بکری زکوۃ واجب ہے ۔ زکوۃ لینے والا جب آیا تو یہ تینوں اپنی بکریاں ایک جگہ کردیں ۔ اس صورت میں ایک ہی بکری دینی پڑے گی ۔ اسی طرح دو آدمیوں کی شرکت کے مال میں دو سو دو بکریاں ہوں تو تین بکریاں زکو ۃ کی لازم ہوں گی اگر وہ زکوۃ لینے والا جب آئے اس کو جدا جدا کریں تو دو ہی بکریاں دینی ہوں گی ۔ اس سے منع فرمایا کیونکہ یہ حق تعالی کے ساتھ فریب کرنا ہے معاذ اللہ وہ تو سب جانتا ہے (وحیدی)

باب اگر دو آدمی ساجھی ہوں تو زکوۃ کا خرچہ حساب سے برابر برابر ایک دوسرے سے مجرا کرلے۔ اور طاؤس ارو عطاء رحمۃ اللہ علیہما نے فرمایا کہ جب دو شریکوں کے جانور الگ الگ ہوں اپنے اپنے جانوروں کو پہنچانتے ہوں تو ان کو اکٹھا نہ کریں گے۔ اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ زکوۃ اس وقت تک واجب نہیں ہو سکتی کہ دونوں شریکوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں نہ ہو جائیں۔

(۵۵) ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ارو ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں فرض زکوۃ میں وہی بات لکھی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائی تھی۔ اس میں یہ بھی لکھوایا تھا کہ جب دو شریک ہوں تو وہ اپنا حساب برابر کر لیں۔
تشریح
عطاء کے قول کو ابو عبید نے کتاب الاموال میں وصل کیا ۔ ان کے قول کا مطلب یہ کہ جدا جدا رہنے دیں گے اور اگر ہر ایک کا مال بقدر نصاب ہوگا تو اس میں سے زکوۃ لیں گے ورنہ نہ لیں گے ۔ مثلاً دو شریکوں کی چالیس بکریاں ہیں مگر ہر شریک کو اپنی اپنی بیس بکریاں علیحدہ اور معین طور سے معلو م ہیں تو کسی پر زکوۃ نہ ہوگی اور زکوۃ لینے والے کو یہ نہیں پہنچتا کہ دونوں کے جانور ایک جگہ کرکے ان کو چالیس بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکوۃ کی ملے ۔ اور سفیان نے جو کہا امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے لیکن امام احمد اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ جب دونوں شریکوں کے جانور مل کر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوۃ لی جائے گی ۔ (وحیدی)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اونٹوں کی زکوۃ کا بیان

اس باب میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور ابوذر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہم نے نبی کریمﷺ سے روایتیں کی ہیں۔
(۵۶) ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ولید بن مسلم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا ان سے عطاء بن یزید نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت کے متعلق پوچھا (یعنی یہ کہ آپ اجازت دیں تو میں مدینہ میں ہجر ت کر آؤں) آپﷺ نے فرمایا افسوس ! اس کی تو شان بڑے ہے کیا تیرے پاس زکوۃ دینے کے لئے کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوۃ دیا کرتا ہے اس نے کہا کہ ہاں! اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ پھر کیا ہے سمندروں کے اس پار (جس ملک میں تورہے وہاں) عمل کرتا رہ اللہ تیرے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا۔
تشریح
مطلب آپﷺ کا یہ تھا کہ جب تم اپنے ملک میں ارکان اسلام آزادی کے ساتھ ادا کررہے ہو یہاں تک کہ اونٹوں کی زکوۃ بھی باقعدہ نکالتے رہتے ہو تو خواہ مخواہ ہجرت کا خیال کرنا ٹھیک نہیں ہجرت کوئی معمول کام نہیں ہے گھر در وطن چھوڑنے کے بعد جو تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں ان کو ہجرت کرنے والے ہی جانتے ہیں ۔ مسلمانان ہند کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہیے اللہ نیک سمجھ عطا کرے ۔آمین۔


باب جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ زکوۃ میں ایک برس کی اونٹنی دینا ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو

(۵۷) ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ۔ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ۔ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ارو ان سے انس رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس فرض زکوۃ کے ان فریضوں کے متعلق لکھا تھا جن کا اللہ نے اپنے رسولﷺ کو حکم دیا ہے ۔ یہ کہ جس کے اونٹوں کی زکوۃ جذعہ تک پہنچ جائے اور جذعہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو اس سے زکوۃ میں حصہ ہی لیا جائے گا ۔ لیکن اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لی جائیں گی اگر ان کے دینے میں اسے آسانی ہو ورنہ بیس درہم لئے جائیں گے ۔ (تاکہ حقہ کی کمی پوری ہو جائے) اور اگر کسی پر زکوۃ میں حقہ واجب ہوا ہو اور حقہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی لے لیا جائے گا ۔ اور زکوۃ وصول کرنے والا زکوۃ دینے والے کو بیس درہم یا دو بکریاں دے گا۔ اوراگر کسی پرزکوۃ حقہ کے برابر واجب ہوگئی ارو اس کے پاس صرف بنت لبون ہے تو اس سے بنت لبون لے لیا جائے گا اور زکوۃ دینے والے کو دو بکریاں یا بیس درہم ساتھ میں اور دینے پڑیں گے اور اگر کسی پر زکوۃ بنت لبون واجب ہو ا اور ہے اس کے پاس حقہ تو حقہ ہی اس سے لے لیا جائے گا اور (اس صورت میں) زکوۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زکوۃ دینے والے کو دے گا اور اگر زکوۃ میں بنت لبون واجب ہوا اور بنت لبون اس کے پاس نہیں تھا بلکہ بنت مخاض تھا تو اس سے بنت مخاض ہی لے لیا جائیگا لیکن زکوۃ دینے والا اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں دیگا۔
تشریح
اونٹ کی زکوۃ پانچ راس سے شروع ہوتی ہے اس سے کم پر زکوۃ نہیں پس اس صورت میں چوبیس اونٹوں تک ایک بنت مخاص واجب ہوگئی یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال پورا کرے دوسرے میں لگ رہی ہو اونٹنی ہو یا اونٹ پھر چھتیس پر بنت لبون یعنی وہ اونٹ جو دو سال کا ہوکرتیسرے میں چل رہا ہو پھر چھیالیس پر ایک حقہ یعنی وہ اونٹ و تین سال کا ہو کر چوتھے میں جل رہا ہو پھر اکسٹھ پر جذعہ یعنی وہ اونٹ جو چار سال کا ہوکر پانچویں میں چل رہا ہو ۔ حضرت امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اونٹ کی زکوۃ میں مختلف عمرکے اونٹ جو واجب ہوئے ہیں اگر کسی کے پاس اس عمر کا اونٹ نہ ہو جس کا دینا صدقہ کے طور پر واجب ہوا تھا تو اس سے کم یا زیادہ عمر والا کرنے والے کی طرف سے روپیہ یا کوئی اورچیز اتنی مالیت کی دی جائے گی جس سے اس کمی یا زیادتی کا حق ادا ہو جائے جیسا کہ تفصیلات حدیث مذکورہ میں دی گئی ہیں اور مزید تفصیلات حدث ذیل میں آرہی ہیں۔


باب بکریوں کی زکوۃ کا بیان

(۱۳۶۵) ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں بحرین (کا حاکم بنا کر ) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے​
یہ زکوۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کے لئے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے اس لئے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوۃ مانگے تو مسلمانوں کا اسے دے دینا چاہیے اوراگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اوننٹ پر ایک بکری دینی ہوگی (پانچ سے کم میں کچھ نہیں) لیکن جب اونٹوں کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے (تو چھتیس سے) پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی واجب ہوگی جب تعدا د چھیالیس تک پہنچ جائے (تو چھیالیس سے) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے (تو چھہتر سے) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹیناں واجب ہوں گی جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو (اکیانوے سے) ایک سو بیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو حفتی کے قابل ہوتی ہیں ۔ پھر ایک سو بیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوۃ جو (سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں) چر کرگزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو (تو چالیس سے )ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہوگی اور جب ایک سو بیس سے تعداد بڑھ جائے (تو ایک سو بیس سے) دو سو تک دو بکریاں واجب ہوں گی اور اگر دو سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے (تو دو سو سے ) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سو پر ایک بکری واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے بھی کم ہوں تو ان پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے اورچاندی میں زکوۃ چالیسواں حصہ واجب ہوتی ہے لیکن اگر کسی کے پاس ایک سو نوے (درہم) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی ۔ مگر جو خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہے تو اور بات ہے۔
تشریح
زکوۃ ان ہی گائے بیل یا اونٹوں یا بکریوں میں واجب ہے جو آدھے برس سے زیادہ جنگل میں چر لیتے ہوں اوراگرآدھے برس سے زیادہ ان کو گھر سے کھلانا پڑتا ہو تو ان پر زکوۃ نہیں ہے اہل حدیث کے نزدیک سو ا ان تین جانوروں یعنی اونٹ گائے بکری کے سوا اور کسی جانور میں زکوۃ نہیں ہے مثلاً گھوڑوں یا خچروں یا گدھوں میں ۔ (وحیدی)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب زکوۃ میں بوڑھا یا عیب دار جانور نہ لیا جائے گا مگر جب زکوۃ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے

(۱۳۶۶) ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسو ل اللہﷺ کے بیان کردہ احکام زکوۃ کے مطابق لکھا کہ زکوۃ میں بوڑھے عیبی اور نر نہ لئے جائیں البتہ اگر صدقہ وصول کرنے والا مناسب سمجھے (تو لے سکتا ہے) (مثلاً زکوۃ کے جانور سب مادیاں ہی مادیاں ہوں تو نر کی ضرورت ہو تو نر لے سکتا ہے یا کسی عمدہ نسل کے اونٹ یا گائے یا بکری کی ضرورت ہو او رگو اس میں عیب ہو مگر اس کی نسل لینے میں آئندہ فائدہ ہو تو لے سکتا ہے)


باب بکری کا بچہ زکوۃ میں لینا

(۱۳۶۷) ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی اور انہیں زہری نے (دوسری سند) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے ان سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (آنحضورﷺ کی وفات کے فورا بعد زکوۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے متعلق فرمایا تھا) قسم اللہ کی اگر یہ مجھے بکری کیایک بچہ کو بھی دینے سے انکار کریں گے جسے یہ رسول اللہﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر ان سے جہاد کروں گا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے سوا اور کوئی بات نہیں تھی جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جہاد کے لئے شرع صدر عطا فرمایا تھا ۔ اور پھر میں نے بھی یہی سمجھا کہ فیصلہ انہی کا حق تھا۔
تشریح
بکری کا بچہ اس وقت زکوۃ میں لیا جائے گا کہ تحصلیدار مناسب سمجھے یا کسی شخص کے پاس نرے بچے ہی بچے رہ جائیں حضرت امام بخاری نے حدیث عنوان میں یہ ارشارہ حضرت صدیق اکبرؓ کی ان لفظوں سے نکالا کہ اگر یہ لوگ بکری کا ایک بچہ جسے آنحضرتﷺ کے زمانہ میں دیا کرتے تھے اس سے بھی انکار کریں گے تو میں ان پر جہاد کروں گا پہلے پہل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوان لوگوں سے جو زکوۃ ہ نہ دیتے تھے لْڑنے میں تامل ہوا کیونکہ وہ کلمہ گو تھے لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان سے زیادہ علم تھا آخر میں حضرت عمرؓ بھی ان سے متفق ہوگئے اس حدیث سے صافی ہ نکلتا ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینے سے آدمی کا اسلام پورا نہیں ہوتا ب تک اسلام کے تمام اصول اور قطعی فرائض کو نہیں مانتا اگر اسلام کے ایک قطعی فر کا کوئی انکار کرے جیسے نما ز یا روزہ یا زکوۃ یا جہاد یا حج تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس پر جہاد کرنا درست ہے ۔ (وحیدی)


باب زکوۃ میں لوگوں کے عمدہ اور چھٹے ہوئے مال نہ لئے جائیں گے

(۱۳۶۸) ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا کہا کہ ہم سے روج بن قاسم نے بیان کیا ان ے اسماعیل بن امیہ نے ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے ان سے ابو معبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ دیکھو! تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب (عیسائی یہودی ) ہیں اس لئے سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا جب وہ اللہ کو پہچان لیں (یعنی اسلام لے قبول کرلیں) تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے دن اور رات میں پانچ نمازیں فر ض کی ہیں جب وہ اسے بھی ادا کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی (جو صاحب نصاب ہوں گے) اور انہیں کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوۃ وصول کر البتہ ان کی عمدہ چیزیں (زکوۃ کے طور پر لینے سے) پرہیز کرنا۔
(ان کے فقیروں میں تقسیم کا مطلب یہ ہے کہ ان ہی کے ملک کے فقیروں کو اس معنی کے تحت ایک ملک کی زکوۃ دوسرے ملک کے فقیروں کو بھیجنا ناجائز قرار دیا گیا ہے مگر جمہور علماء کہتے ہیں کہ مراد مسلمان فقراء ہیں خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی ملک کے ہوں اس معنی کے تحبت زکوۃ کا دوسرے ملک میں بھیجنا درست رکھا گیا ہے ۔ حدیث اورباب کی مطابقت ظاہر ہے ۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں :-
وقال شیخنا فی شرح الترمذی والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا او تکون فی النقل مصلحۃ نفع و اہم من عدمہ واللہ تعالی اعلم (مرعاۃ)
یعنی ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ صرف اسی صورت میں وہاں سے زکوۃ دوسری جگہ دی جائے جب وہاں مستحق لوگ نہ ہوں یا وہاں سے نقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو جو بہت ہی اہم ہو اور زیادہ سے زیادہ نفع بخش ہو کہ وہ نہ بھیجنے کی صورت میں حاصل نہ ہو ایسی حالت میں دوسری جگہ میں زکوۃ نقل کی جا سکتی ہے ۔)

باب پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے۔

(۱۳۶۹) ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہیں محمد بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ مازنی نے انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابو سعید خدریؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ دسق سے کم کھجور وں میں زکوۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوۃ نہیں اسی طرح پانچ اونٹوں سے کم میں زکوۃ نہیں ہے ۔
تشریح اس حدیث کے ذیل میں ابن حجر فرماتے ہیں:-
عن ابی سعید اواق من الورق صدقۃ وہو مطابق للفظ الترجمۃ و کان المصنف ارادان یبین بالترجمۃ ما ابہم فی لفظ الحدیث اعتماداً علی الطریق الاخریٰ واواق بالتنوین و بثبات التحتانیۃ مشدداً و مخففا جمع اوقیۃ الہمزہ و تشدید التحتانیۃ حکی الحیانی وقیۃ بحذف الانف وفتح الواؤ و مقدار الاوقیۃ فی ہذالحدیث اربعون درہما بالاتفاق والمراد بالدرہم الخالص من الفضۃ سواء کان مضروبا او غیر مضروب۔
او سف جمع وسق بفتح الواؤد و یجوز کشرہا کما حکاہ صاحب المحکم وجمعہ حینئذا وساق کحمل واحمال وقد وقع کذلک فی روایۃ لمسلم وہو ستوں صاعا بالاثفاق ووقع فی روایتہ ابن ماجۃ من طریق ابی البختری عن ابی سعید نحو ہذال الحدیث وفیہ والواسق ستون صاعاً۔
وقد اجمعوا علی ذلک فی خمسۃ اوسق فما زاداجمع العلماء علی اشتراط الحول فی الماشیۃ والنقددون المعشرات واللہ اعلم (فتح الباری)
خلاصہ عبارت یہ کہ پانچ اوقیہ چاندی میں زکوۃ ہے یہی لفظ باب کے مطابق ہے اور دوسری رویات پر اعتما کرتے ہوئی لفظ حدیث میں جو ابہام تھا اسے ترجمہ کے ذریعہ بیان کر دیا اور لفظ اواق اوقیہ کی جمع ہے جس کی مقدار متفقہ طور پر چالیس درہم ہے درہم سے خالصل چاندی کا سکہ مراد ہے جو مضروب ہو یا غیر مضروب
لفظ اوسق وسق کی جمع ہے اور وہ متفقہ طور پر ساٹھ صاع پر بولا گیا ہے اس پر اجمع ہے کہ عشر کے لئے پانچ دسق کا ہونا ضروری ہے اور جانوروں کیلئے اور نقدی کے لئے ایک سال کا گزر جانا بھی شرط ہے اس پر علماء کا اجماع ہے ۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث فرماتے ہیں:
قلت ہذا الحدیث صریح فی ان النصاب شرط لو جوب العشر ونصف العشر فلا تجب الزکوۃ فی شئ من الزروع والثمار حتی تبلغ خمسۃ اوسق وہ ہذا مذہب اکثر اہل العلم (مرعاۃ)
یعنی میں کہتا ہوں کہ حدیث ہذا صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ عشر یا نصف عشر کے لئے نصاف شرط ہے پس کھتی اور پھلوں میں کوئی زکوۃ فرض نہ ہوگی جب تک وہ پانچ دسق کو نہ پہنچ جائے اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور ایک دسق ساتھ صاع کا ہوتا ہے۔
الصاع اربعۃ امداد والمدر طل وثلث رطل فالصاع خمسۃ ارطال و ثلتث و طل و ذلک بالرطل الذی وزنہ مائۃ درہم وثمانیۃ عشرون درہما بالدراہم اللتی کل عشرۃ منہا وزن سبعۃ مثاقیل (مرعاۃ)
اور صاع جامد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا پس صاع کے پانچ اور ثلث رطل ہوئے ۔ اور یہ حساب اس رطل سے ہے جس کا وزن ایک سو اٹھائیس درہم کے برابر ہوں اور درہم سے مراد وہ جس کے دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہو۔
بعض علمائے احناف ہند نے یہاں کی سے عشر کو ساقط قرار دینے کی کوشش کی ہے جو یہاں کی اراضی کی خراجی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے حضرت حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارک پوری مدظلہ تعالی فرماتے ہیں ہیں۔
اختلف اصحاب الفتوی من الحنفیہ فی اراضی المسین فی بلا و الہند فی زمن الا نکلیز وتخبطوا فی ذلک فقال بعضہم لاعشر فیہا لانہا اراضی دارالحرب وقال بعضہم ان اراضی ۔
الحق عندنا وجوب العشر فی اراضی الہند مطلقاً ای علیا ای صفۃ کانت فیحب العشر او نصفہ علی المسلم فیہما یحصل لہ من الارض اذال بلغ النصاف سواء کانت لارض ملکالہ او لغیرہ زرع فیہا علی سبیل الا جارۃ ا و العاریۃ والمزارعۃ لان العشر فی الحب والزرع والعبر ۃ لمن یملکہ فیجب الزکوۃ فیہ علی ما الکہ المسلم ولیس من مئنۃ الارض فلای بیحث عن صفتہا والفربیۃ التی تاخذہا المملکۃ من اصحاب المزارع فی الہند لیست خراجاً شرعیاً ولا مما یسقط فریضۃ العشر کما لا یخفی وارجع الی المغنی ص۲/۷۲۸ (مرعاۃ ج۳ ص ۳۸)

یعنی انگریزی دور میں ہندی مسلمانوں کی اراضیات کے متعلق علماء احناف نے جو صاحبان فتویٰ تھے بعض نے یہ خبط اختیار کیا کہ ان زمینوں کی پیدا وار میں عشر نہیں ہے اس لئے کہ یہ اراضی دارالحرب ہیں بعض نے کہا کہ یہ زمینیں نہ تو عشری ہیں ہ خراجی بلکہ یہ حکومت کی زمینیں ہیں اور ہمارے نزدیک امر حق یہ ہے کہ آراضی ہند میں مطلقاً پیداوار نصاب پر مسلمانوں کے لئے عشر واجب ہے چاہے وہ زمین ان کی ملک ہوں یا غیر کی ہوں وہ کاشتکار ہوں یا ٹھیکیدار ہوں بہرحال اناج کی پیداوار پر جو نصاب کو پہنچ جائے عشر واجب ہے اور اس بارے میں زمین پر اخراجات اور سرکاری مالیانہ وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان میں سرکار جو محصول لیتی ہے وہ خراج شرعی نہیں ہے اور نہ اس سے عشر ساقط ہو سکتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب گائے بیل کی زکوۃ کا بیان

اور ابو حمید ساعد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں(قیامت کی دن اس حال میں) وہ شخص دکھلادوںگا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہوگی (سورہ مومنون میں لفظ) جو ار (خوار کے ہم معنی) یجارون (اس وقت کہتے ہیں جب) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔
(۱۳۷۰) ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے مغرور بن موید سے بیان کیا ۔ ان سے ابوذ ر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریمﷺ کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا (آپﷺ نے قسم اس طرح کھائی) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپﷺ نے قسم کھائی ہو (اس تاکید کے بعد فرمایا) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق نہ ادا کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازی کرکے پھروہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی ارو سینگ سے مارے گی جب آخر ی جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا (اور اسے اپنے سینگ سے مارے گا اور کھروں سے روندے گا) اس وقت تک (یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ۔ اس حدیث کو بکیر بن عبداللہ نے ابو صالح سے روایت کیا ہے انہوں ے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
(اس حدیث سے باب کا مطلب عین گائے بیل کی زکوۃ کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اسی امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے مسلم کی روایت اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوۃ نہ اداکرتا ہو ۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی ۔ اس لئے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی ۔

باب اپنے رشتہ داروں کو زکوۃ دینا

اور نبی کریم ﷺ نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی تھی) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ناطہ جوڑنے کا ار صدقے کا (اہل حدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یاخاوند جورو کو یا جورو خاوند کو دے بعضوں نے کہا اپنے چھوٹے بچے کو رض زکوۃ دینا بالاجماع درست نہیں ۔ اور امام ابو حنیفہ ارو امام ماکل نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا۔ اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے مترجم (مولانا وحید الزمان مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہونا کیسا؟ (وحیدی)
رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کے آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اوریحییٰ بن یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی (وحیدی)
(۱۳۷۱) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم ہم سے امام ماکلک نے بیان کیا ان سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیر حاء کا باغ تھا یہ باغ مسجد نبویﷺ کے بالکی سامنے تھا اور رسول اللہﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البرالخ یعنی ’’ تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو یہ سن کر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے سے پیاری چیز نہ خرچ کرو اور مجھے بیر حاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے ۔ اس لئے میں اسے اللہ تعالی کے لئے خیرات کرتا ہوں اس کی نیک اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے ا میدوار ہوں اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے ۔ راوی نے بیان کیا ہ یہ سن کر روسول اللہﷺ نے فرمایا خوب ! یہ تو بڑی ہی آمدین کا ملا ہے یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو ابو طلحہ ؓ نے کہا یارسول اللہﷺ میں ایسا ہی کروں گا چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا ۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متبعت روح نے کی ہے یحییٰ بن یحییٰ اوراسماعیل نے مالک کے واسطہ سے (رائح کے بجائے) رائح نقل کیا ہے۔
تشریح اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کر سکتی ہے اورگو یہ صدقہ فرض زکوۃ نہ تھا مگر فرض زکوۃ کو بھی اس پر قیاس کیا ہے بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہو جیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوۃ دینا درست نہیں اور چونکہ عبداللہ بن مسعود زندہ تھی اس لئے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پرواجب نہ تھا لہذا ماں کو اس پرخیرات خرچ کرنا جائز ہوا ۔ واللہ اعلم (وحیدی)
(۱۳۷۲) ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی انہیں عیاض بن عبداللہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ عیدالضحے یا عیدالفطر میں عید گاہ تشریف لے گئے پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا فرمایا لوگوں! صدقہ دو پھر آپﷺ عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہ فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! ایسا کیوں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اس لئے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو میں تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کاآزمودہ مراد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتے ہو ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعودؓ کی بیوی زینب ؓ آئیں اور اجازت چاہی آپﷺ سے کہا گیا کہ یہ زیبت آئی ہیں آپﷺ نے فرمایا اچھا انہیں اجازت دے دو چنانچہ اجازت دے دی گئی انہوں نے آکر عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ! آج آپ نے صدق کا حکم دیا تھا اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود ؓ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروںگا ۔ رسول اللہﷺ نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود نے صحیح کہا تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں ۔ جنہیں تم صدقہ کے طور پر یہ دوگی ۔ (معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں)

باب گائے بیل کی زکوۃ کا بیان

اور ابو حمید ساعد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں(قیامت کی دن اس حال میں) وہ شخص دکھلادوںگا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہوگی (سورہ مومنون میں لفظ) جو ار (خوار کے ہم معنی) یجارون (اس وقت کہتے ہیں جب) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔
(۱۳۷۰) ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے مغرور بن موید سے بیان کیا ۔ ان سے ابوذ ر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریمﷺ کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا (آپﷺ نے قسم اس طرح کھائی) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپﷺ نے قسم کھائی ہو (اس تاکید کے بعد فرمایا) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق نہ ادا کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازی کرکے پھروہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی ارو سینگ سے مارے گی جب آخر ی جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا (اور اسے اپنے سینگ سے مارے گا اور کھروں سے روندے گا) اس وقت تک (یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ۔ اس حدیث کو بکیر بن عبداللہ نے ابو صالح سے روایت کیا ہے انہوں ے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
(اس حدیث سے باب کا مطلب عین گائے بیل کی زکوۃ کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اسی امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے مسلم کی روایت اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوۃ نہ اداکرتا ہو ۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی ۔ اس لئے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی ۔

باب اپنے رشتہ داروں کو زکوۃ دینا

اور نبی کریم ﷺ نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی تھی) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ناطہ جوڑنے کا ار صدقے کا (اہل حدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یاخاوند جورو کو یا جورو خاوند کو دے بعضوں نے کہا اپنے چھوٹے بچے کو رض زکوۃ دینا بالاجماع درست نہیں ۔ اور امام ابو حنیفہ ارو امام ماکل نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا۔ اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے مترجم (مولانا وحید الزمان مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہونا کیسا؟ (وحیدی)
رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کے آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اوریحییٰ بن یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی (وحیدی)
(۱۳۷۱) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم ہم سے امام ماکلک نے بیان کیا ان سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیر حاء کا باغ تھا یہ باغ مسجد نبویﷺ کے بالکی سامنے تھا اور رسول اللہﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البرالخ یعنی ’’ تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو یہ سن کر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے سے پیاری چیز نہ خرچ کرو اور مجھے بیر حاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے ۔ اس لئے میں اسے اللہ تعالی کے لئے خیرات کرتا ہوں اس کی نیک اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے ا میدوار ہوں اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے ۔ راوی نے بیان کیا ہ یہ سن کر روسول اللہﷺ نے فرمایا خوب ! یہ تو بڑی ہی آمدین کا ملا ہے یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو ابو طلحہ ؓ نے کہا یارسول اللہﷺ میں ایسا ہی کروں گا چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا ۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متبعت روح نے کی ہے یحییٰ بن یحییٰ اوراسماعیل نے مالک کے واسطہ سے (رائح کے بجائے) رائح نقل کیا ہے۔
تشریح اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کر سکتی ہے اورگو یہ صدقہ فرض زکوۃ نہ تھا مگر فرض زکوۃ کو بھی اس پر قیاس کیا ہے بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہو جیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوۃ دینا درست نہیں اور چونکہ عبداللہ بن مسعود زندہ تھی اس لئے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پرواجب نہ تھا لہذا ماں کو اس پرخیرات خرچ کرنا جائز ہوا ۔ واللہ اعلم (وحیدی)
(۱۳۷۲) ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی انہیں عیاض بن عبداللہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ عیدالضحے یا عیدالفطر میں عید گاہ تشریف لے گئے پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا فرمایا لوگوں! صدقہ دو پھر آپﷺ عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہ فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! ایسا کیوں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اس لئے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو میں تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کاآزمودہ مراد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتے ہو ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعودؓ کی بیوی زینب ؓ آئیں اور اجازت چاہی آپﷺ سے کہا گیا کہ یہ زیبت آئی ہیں آپﷺ نے فرمایا اچھا انہیں اجازت دے دو چنانچہ اجازت دے دی گئی انہوں نے آکر عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ! آج آپ نے صدق کا حکم دیا تھا اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود ؓ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروںگا ۔ رسول اللہﷺ نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود نے صحیح کہا تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں ۔ جنہیں تم صدقہ کے طور پر یہ دوگی ۔ (معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں)

باب یتیموں پر صدقہ کرنا بڑا ثواب ہے

(۱۳۷۵) ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ہشام ستوائی نے یحییٰ سے بیان کیا ان سے بلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عکاء بن یسار نے بیان کیا ۔ اور انہو ں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ نبی کریمﷺ ایک دن منبر پرتشریف فرماء ہوئے ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشخالی اور اس کی زیبائش و آرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے ۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی اس پر نبی کریمﷺ خاموش ہوگئے اس لئے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی تم سے نبی کریمﷺ سے ایک بات پوچھی لیکن آنحضورﷺ نے پسینہ صاف کیا (جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کو آنے لگتا تھا) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں ہم نے محسوس کیا کہ آپﷺ نے اس کے (سوال کی) تعریف کی پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی (مگر بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہیں جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں البتہ ہریالی چئنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کو کھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کرکے پاخانہ پیشاب کردیتا ہے اور پھر خوب چرتا ہے اسی طرح یہ مال و دولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے اور مسلان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین یتیم اور مسافر کو دیا جائے ۔ یا جس طرح نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں اگر کوئی شخص زکوۃ حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہوگا۔
تشریح
اس طویل حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے مستقبل کی بابت کئی ایک اشارے فرمائے جن میں سے بیشتر باتیں وجود میں آچکی ہیں ۔ اس سلسلہ میں آپ نے مسلمانوں کے عروج و اقبال کے دور پر بھی اشارہ فرمایا اور یہ بھی بتلایا کہ دنیا کی ترقی مال و دولت کی فراوانی یہاں کا عیش و عشرت یہ چیزیں بطاہر خیر ہیں مگر بعض دفعہ ان کا نتیجہ شر سے بھی تبدیل ہو سکتا ہے اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ حضور کیا خیر بھی کبھی شر کا باعث ہو جائے گی اس سوال کے جواب کیلئے آنحضرت ﷺ وحی کا انتظار میں خاموش ہوگئے جس سے کچھ لوگوں کو خیال ہوا کہ آپﷺ اس سوال سے خفا ہوگئے ہیں کافی دیر بعد جب اللہ پاک نے آپ کو بذریعہ وحی جواب سے آگاہ فرما دیا تو آپﷺ نے یہ مثال دے کر جو حدیث میں مذکورہے سمجھایا اوربتلایا کہ گو دولت حق تعالی کی نعمت اور اچھی چیز ہے مگر جب بے موقع اور گناہوں میں صرف کی جائے تو یہی دولت عذاب بن جاتی ہے جیسے فصل کی ہر گھاس وہ جانوروں کے لئے بڑی نعمت ہے مگر جو جانور ایک ہی مرتبہ گر کر اس کو حد سے زیادہ کھا جائے تو اس کے لئے یہ گھاس زہر کا کام دیت ہے ۔ جانور پر کیا منحصر ہے یہی روٹی جو آدمی کی لئے باعث جیات ہے اگر اس میں بے اعتلالی کی جائے تو باعث موت بن جایتی ہے تم نے دیکھا ہوگا قحط سے متاثر بھوکے لوگ جب ایک ہی مرتبہ کھانا پالیتے ہیں اور حد سے زیادہ کھا جاتے ہیں تو بعض وفعہ ایسے لوگ پانی پیتے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ یہ کھانا ان کیلئے زہر کا کام دیتا ہے۔
پس جو جانور ای ہی مرتبہ ربیع کی پیداوار پر نہیں گرتا بلکہ سوکھی گھاس پر جو بارش سے ذرا ذرا ہری نکلتی ہے اس کے کھانے پرقناعت کرتا ہے اور پھر کھانے کے بعد سورج کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوکر اس کے ہضم ہونے کا انتظار کرتا ہے پاخانہ پیشاب کرتا ہے تو وہ ہلاک نہیں ہوتا۔
اسی طرح دنیا کا مال بھی ہے جو اعتدال سے حرام وحلال کی پابندی کیساتھ اس کو کماتا ہے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے آپ کوکھاتا ہے مسکین بیتمی مسافروں کی مدج کرتا ہے تو وہ بچا رہتا ہے مگر جو حریص کتے کی طرح دنیا کے مال واسباب پر گر پڑتا ہے اور حلال و حرام کی قیدا ٹھا دیتا ہے آخر وہ مال اس کو ہضم نہیں ہوتا اوراستفراغ کی ضرورت پڑتی ہے کبھی بدہضمی ہوکر اسی مال کی دھن میں اپنی جان بھی گنوا دیتا ہے پس مال و دنیا کی ظاہری خوبصورتی پر فریب مت کھاؤ ہو شیار رہو حلوہ کے اندر زہر لپٹا ہوا ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کالذی یاکل ولا یشبع میں ایسے لالچی طماع لوگوں پر اشارہ ہے جن کو جوع البقر کی بیماری ہو جاتی ہے اور کسی طرح ان کی حرص نہیں جاتی۔
حدیث اور باب میں مطابقت حدیث کا جملہ فنعم صاحب المسلم ما اعظے منہ المسکین والیتیم وابن السبیل ہے کہ اس سے یتیموں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
باب عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکوۃ دینا اس کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے۔
(۱۳۷۶) ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ان سے شقیق نے ان سے عمرو بن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ نے (اعمش نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نخعی سے کا تو انہوں نے بھی مجھ سے ابو عبیدہ سے بیان کیا ان سے عمرو بن حارت نے اور ان سے عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ نے بالکل اسی طرح حدیث بیان کی (جس طرح شقیق نے کی کہ) زینتؓ نے بیان کیا کہ میں مسجد نبویﷺ میں تھی ۔ رسول اللہﷺ کو میں نے دیکھا آپ یہ فرمارہے تھے صدقہ کرو خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اورچند یتیموں پر بھی جوان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہﷺ سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پراور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ تم خود جاکر رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت میں آپﷺ کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا جو میری جیس ضرورت لے کر موجود تھیں (جو زیب ابو مسعود انصاری کی بیوی تھیں) پھر ہمارے سامنے سے بلالؓ گزرے تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہﷺ سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کریگا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کردوں ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا وہ اندر کئے اور آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلالؓ نے کہہ دیا کہ زینب نام کیہ ں آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال ؓ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی ۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں بے شک درست ہے اور انہیں دوگنا ثواب ملے گا ایک قرابتدار ی کا اور دوسرا خیرات کرنے لگا۔
تشریح
اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فر ض صدقہ یعنی زکوۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے امام شافعیؓ اور ثوریؓ اور صاحبین اور امام مالک اور امام احمد سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو (بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں دینا درست ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں اورا مام ابو حنیفہ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوۃ دینا درست نہیں وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے ۔ (وحیدی)
لیکن خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں زکوۃ فرض کو مراد لیا ہے جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔
(۱۳۷۷) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدہ نے ان سے ہشام نے بیان کاا ان سے ان کے باپ نے ان سے زینب بنت ام سلمہ نے ان سے ام سلمہ نے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اگر میں ابو سلمہ (اپنے پہلے خاوند) کے بیٹوں پرخرچ کروں تو درست ہے یا نہیں کیونکہ وہ میری بھی اولاد ہیں آپ نے فرمایا کہ ہاں ان پر خرچ کر تو جو کچھ بھی ان پر خرچ کرے گی اس کا ثواب تجھ کو ملے گا ۔ (محتاج اولاد پر صدقہ خیرات حتی کہ مال زکوۃ دینے کا جواز ثابت ہوا۔)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اللہ تعالی کے فرمان (زکوۃ کے مصارف بیان کرتے ہوئے زکوۃ) غلام آزاد کرانے میں مقروضوں کے قر ض ادا کرانے میں اور اللہ کے راستے ہیں خرچ کی جائے (اس کا بیان)

( وفی الرقاب سے یہی مراد ہے ۔بعضوں نے کہا کہ مکاتب کی مدد کرنا مراد ہے اور اللہ کی راہ سے مراد غازی اور مجاہد لوگ ہیں ۔ اور امام احمد اوراسحق نے کہا کہ حاجیوں کو دینا بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے)
اور ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ اپنی زکوۃ میں سے غلام آزاد کر سکتا ہے اور حج کے لئے دے سکتا ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کوئی زکوۃ کے مال سے اپنے باپ کوجو غلام ہو خرید کر آزاد کردے تو جائز ہے اور مجاہدین کے اخراجات کے لئے بھی زکوۃ دی جائے۔ اسی طرح اس شخص کو بھی زکوۃ دی جا سکتی ہے جس نے حج نہ کیا ہو۔(تاکہ اس امداد سے حج کر سکے) پھر انہوں نے سورہ توبہ کی آیت انما الصدقات للفقرآء آخر تک کی تلاوت کی اور کہا کہ (آیت میں بیان شدہ تمام صارف زکوۃ میں سے) جس کو بھی زکوۃ دی جائے کافی ہے اور نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالی کے راستے میں وقف کردیں ہیں ابول لاس (زیادہ خزاعی صحابی) رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں زکوۃ کے اونٹوں پرسوار کرکے حج کرایا۔
تشریح
قرآن شریف میں زکوۃ کے آٹھ مصارف مذکورہیں ۔ فقراء مساکین عاملین زکوۃ مؤلفہ القلوب رقاب غازمین فی سبیل اللہ ابن السبیل یعنی مسافر ۔
امام حسن بصر کے قول کا مطلب یہ ہے کہ زکوۃ والا ان میں سے کسی میں بھی زکوۃ کا مال خرچ کرتے تو کافی ہوگا اگر ہو سکے تو آٹھوں قسموں میں دے مگریہ ضروری نہیں ہے حضرت امام ابو حنیفہ اور جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی قول ہے اور شافعیہ سے منقول ہے کہ آٹھوں مصرف میں زکوۃ خرچ کرنا واجب ہے گو کسی مصرف کا ایک ہی آدمی ملے مگر ہمارے زمانہ میں اس پر عمل مشکل ہے ۔ اکثر ملکوں میں مجاہدین اور مؤلفہ القلوب اور رقاب نہیں ملتے۔ اسی طرح عاملین زکوۃ (وحیدی)
آیت مصارف زکوۃ کے تحت امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
’’ یہ آٹھ مصارف جس ترتیب سے بیان کئے گئے ہیں حقیقت میں معاملہ کی قدرتی ترتیب بھی یہی ہے سب سے پہلے فقرا اور مساکین کا ذکر کیا جو استحقاق میں سب سے مقدم ہیں پھر عاملین کاذکر آیا جن کی موجودگی کے بغیر زکوۃ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا پھران کا ذکر آیا جن کا دل ہاتھ میں لینا ایمان کی تقویب اور حق کی اشاعت کے لئے ضروری تھا پھر غلاموں کو آزاد کرانے اور قرضداروں کو بارقرض سے سبکدوش کرانے کے مقاصد نمایاں ہوئے پھر فی سبیل اللہ کا مقدص رکھا گیا جس کا زیادہ اطلاق دفاع پر ہوا ۔ پھر دین کے اور امت کے عام مصالح اس میں شامل ہیں مثلاً قرآن اور علوم دین کی ترویج و اشاعت مدارس کا اجراء و قیام دعاۃ و مبلغین کے ضروری مصارف ہدیات وارشادات کے تما مفید و سائل۔
فقہاء ومفسرین کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے۔بعضوں نے مسجد کنواں پل جیس تمیرات خیر کو بھی اسمیں داخل کر دیا (نیل الاوطار)

فقہاء حنفیہ میں صاحب فتاوی ظہیر یہ لکھتے ہیں المراد طلبۃ العلم اور صاحب بداع کے نزدیک وہ تمام کام جو نیکی اور خیرات کیلئے ہوں اس میں داخل ہیں سب کے آخر میں ابن السبیل یعنی مسافر کو جگہ دی۔
جمہور کے مہہت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مصارف میں بیک وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے جس وقت جیسی حالت اور ضرورت ہو اسی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اوریہی مذہب قرآن وسنت کی تصریحات اور روح کے مطابق بھی ہے۔ ائمہ اربعہ میں صرف امام شافعی اس کے خلاف گئے ہیں۔‘‘
(اقتباس از تفسیر ترجمان القرآن آزاد جل ۲ ص ۱۳۰)
فی سبیل اللہ کی تفسی میں نواب صدیق حسن خاں مرحوں کہتے ہیں :۔
واماسبیل اللہ فالمراد ہہنا الطریق الیہ عزوجل والجہاد وان کان اعظم الطریق الی اللہ عزوجل لکن لا دلیل علی اختصاص ہذاالسہم بہ بل یصح صرف ذلک فی کل ما کان طریقا الی اللہ ہذا معنی الایہۃ لغتاً والواجب الوقوف علی المعنی اللغویۃ حیث لم یصح النقل ہنا الدینیۃ فان لم فی مال اللہ نصیبا بل الصرف فی ہذاہ الجہۃ من اہم الامور لان العلماء ورثۃ النبیاء وحملۃ الدین وبہم تحفظ بیضۃ الاسلام وشریعۃ سیدالانام وقدکان علماء الصحابۃ یاخذون من العطاء ما یقو م یما یحتاجون الیہ ۔
اور علامہ شوکان اپنی کتاب وبل الغمام میں لکھتے ہیں:-
ومن جملۃ فی سبیل اللہ الصرف فی العلماء فان لہم فی مال اللہ نصیباً سواء کانوا اغنیاء اوفقئا بل انصرف فی ہذہ الجہۃ من اہم الامور وقدکان علماء الصحابۃ یاخذون من جملہۃ ہذہ الاموال ال التی کنت تفرق بین المسلمین علی ہذہ الصفۃ من الزکوۃ الخ (ملخص از کتا دلیل الطالب ص ۴۳۲)
خلاصہ یہ کہ یہاں سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے جو وصولی الی اللہ کا بہت ہی بڑا راستہ ہے مگر اس حصہ کے ساتھ سبیل اللہ کا تخصیص کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ہر وہ نیک جگہ مراد ہے جو طریق الی اللہ سے متعلق ہو آیت کے لغوی معانی یہی ہیں جن پر واقفیت ضروری ہے اور سبیل اللہ میں ان علماء پر خرچ کرنا بھی جائز ہے جو خدمات مسلمین میں دینی حیثیت سے لگے ہوئے ہیں ان کے لئے اللہ کے مال میں یقینا حصہ ہے بلکہ یہ اہم الامور ہے اس لئے کہ علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں ان ہی کی مساعی جمیلہ سے اسلام اورشریعت سیدالانام محفوظ ہے علمائے صحابہ بھی اپنی حاجات کے مطابق اس سے عطا یا لیا کرتے تھے ۔
علامہ شوکان لکھتے ہیں کہ فی سبیل اللہ میں علمائے دین کے مصارف میں خرچ کرنا بھی داخل ہے ان کا اللہ کے مال میں حصہ ہے اگرچہ وہ غنی بھی کیوںنہ ہوں اس مصرف میں خرچ کرنا بہت ہی اہم ہے اور علمائے صحابہ بھی اپنی حاجات کیلئے اس صفت پر اموال زکوۃ سے عطایا لیا کرتے تھے واللہ اعلم بالصواب۔
(۱۳۷۸) ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی کہا کہ ہم سے ابو الزناد نے اعرج سے خبر دجی اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے زکوۃ وصول کرنے کا حکم دیا پھرآپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا ہے اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک تو وہ فقیر تھا پھر اللہ تعالی نے اپنے رسولﷺ کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنا دیا باقی رہے خالج تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو انہوں نے تو اپنی زرہیں ا للہ تعالی کے راستے میں وقف کررکھی ہیں اور عباس بن عبدالمطلب تو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں اور ان کی زکوۃ انہی پر صدقہ ہے اور اتنا ہی اور انہیں میر ی طرف سے دینا ہے اس روایت کی متابعت ابو الزناد نے اپنے والد سے کی اورابن اسحاف نے ابو الزناد سے یہ الفاظ بیا ن کئے ۔ہی علیہ و مثلہا معہا (صدق کے لفظ کے بغیر) اور ابن جرج نے کہا کہ مجھ سجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔
تشریح
اس حدیث میں تین اصحاب کا واقعہ ہے پہلیا ابن جمیل ہے جو اسلام لائے سے پہلے محض قلاچ اور مفلس تھا ۔ اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ اب وہ زکوۃ دینے میں کراہتا ہے اور خفا ہوتا ہے اور حضرت خالدرضی اللہ عنہ کے متعلق آنحضرت ﷺ نے خود فرمادیا جب انہوں نے اپنا سارا مال و اسباب ہتھیار وغیرہ فی سبیل اللہ وقف کردیا ہو تو اب وقفی مال کی زکوۃ کیوں دینے لگا اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دینا یہ خود زکوۃ ہے بعضوں نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ خلد ایسا سخی ہے کہ اس نے ہتھیار گھوڑے وغیرہ سب راہ اللہ میں دے ڈالے ہیں وہ بھلا فرض زکوۃ کیسے نہ دے گا تم غلط کہتے ہو کہ وہ زکوۃ نہیں دیتا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ یہ زکوۃ بلکہ اس سے دونا میں ان پر سے تصدق کروں گا مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ کو زکوۃ بلکہ اس کا دونا روپیہ میں دوں گا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ دو برس کی زکوۃ پیشگی آنحضرت ﷺ کو دے چکے تھے اس لئے انہوں نے ان تحصیل کرنے والوں کو زکوۃ نہ دی بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ بالفعل ان کو مہلت دو سال آئندہ اس سے دوہری یعنی دو برس کی زکوۃ وصول کرنا۔
(مختصر از وحیدی)
باب سوال سے بچنے کا بیان

(۱۳۷۹) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب سے خبر دی انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا تو آپﷺ نے انہیں دیا پھر انہوں نے سوال کیا اور آپﷺ نے پھر دیا یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا اب وہ ختم ہوگیا پھرآپﷺ نے فرمایا کہ آگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہو تو اللہ تعالی بھی اسے سوالی کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالی بھی اسے بے نیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر صبر کرتا ہے تو للہ تعالی بھی اسے صبر واستقلال دے دیتا ہے اورکسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملی (صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے)
تشریح
شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی بھی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اورساتھ یہی اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغبیات دلائی ہیں مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں ان کے لئے فرمایا
وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ
یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹوں بلکہ نریم سے ان جواب دے دو۔
حدیث ہذا کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں جن کا نام سعد بن مالک ہے اور یہ انصاری ہیں جو کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں ۔ حافظ حدیث اور صاحب فضل و عقل علمائے کبار صحابہ میں ان کا شمار ہے چوراسی سال کی عمر پائی اور ۷۴ ھ میں انتقال ہوا اور جنت البقیع میں سپر د خاک کئے گئے رضی الل عنہ وراضاہ ۔
(۱۳۸۰) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں ام ماک نے خبر دی انہیں ابو ازناد نے انہیں اعرج نے انہیں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے ) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آکر سوال کرے ۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہو وہ اسے دیا یا نہ دے۔
تشریح
حدیث ہذا سے یہ نکلتا ہے کہ ہاتھ سے محنت کرکے کھانا نہایت افضل ہے علماء نے کہا کہ کمائی کے تین اصول ہیں ایک زراعت دوسری تجارت تیسر صنعت و حرفت بعضوں نے کہا ان تینوں میں تجارت افضل ہے بعضوں نے کہا زراعت افضل ہی کیونکہ اس میں ہاتھ سے محنت کی جاتی ہے اور حدیث میں ہے کہ کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں ہے جو ہاتھ سے محنت کرکی پیدا کیا جائے زراعت کے بعد پھر صنعت افضل ہے اس میں بھی ہاتھ سے کام کیا جاتا ہے اور نوکری تو بدترین کسب ہے۔
ان احادیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ نے محنت کرکے کمانے والے مسلمان پر کس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اس کی خوبی پر آپ ﷺ نے اللہ پاک کی قسم کھائی پس جو لوگ محض نکمے بن کر بیٹھے رہتے ہیں اور اور دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں پھر قسمت کا گلہ کرنے لگتے ہیں یہ لوگ عنداللہ وعندالرسولﷺ اچھے نہیں ہیں۔
(۱۳۸۱) ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ان سے ان کے والد نے ان سے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا اور تم میں سے کوئی بھی اگر (ضرورت مند ہو تو) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اسے بیچے اس طرح اللہ تعالی اس کی عزت محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھا ہے کہ لوگون سے سوال کرتا پھر ے اسے وہ دیں یا نہ دیں۔
(اس حدیث کے راوی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہیں جن کی کنیت ابو عبداللہ قریشی ہے ان کی والدہ ماجدہ صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی اور حضور ﷺ کی پھوپھی ہیں یہ اور ان کی والدہ شروع میں ہی اسلام لے آئے تھے جبکہ ان کی عمر سولہ سال کی تھی اس پر ان کے چچا نے دھویں سے ان کا دم گھوٹ کر تکلیف پہنچائی تاکہ یہ اسلام چھوڑ دیں مگر انہوں نے اسلام کو نہ چھوڑا یہ تما م غزوات میں آنحضور ﷺ کے ساتھ رہے اور یہ وہ ہیں جنہوں نے سب سے اول تلوار اللہ کے راستے میں سونتی اور آنحضور ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں ڈٹے رہے اور عشرہ ہبرہ میں ان کا بھی شمار ہے چونسٹھ سال کی عمر میں بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔ یہ حادث ۳۶ ھ میں پی آیا اول وادی سباع میں دفن ہوئے بھی بصرہ میں منتقل کر دئیے گئے رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔
(۱۳۸۲) ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی انہیں زہری نے انہیں عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول الہﷺ سے کچھ مانگا آپﷺ نے عطا فرمایا میں نے پھر مانگا اورآپﷺ نے عکا فرمایا میں نے پھر ماںکا آپ ﷺ نی پھر بھی عطا فرمایا اس کے بعد آپﷺ نے ارشاد فرمایا اے حکیم ! یہ دولت بڑی سرسیز اوربہت ہی شیرین ہے لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے اور جو لالچ کے ساتھ لیتا رہے تو اس کی دولت میں کجھ بھی برکت نہیں ہوگی اس کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو گۃاٹ اہے لیکن آسودہ نیںی ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو سچائی کے ساتھ مبو ث کیا ہے اب اس کے بعد میں کس سے کوئی چیز نہیں لوں گا تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہو جاؤں چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کوان کا معمول دینے کو جاتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانو ! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے انکار کر دیا غرض حکیم حزام رضی اللہ عنہ رسولا للہ ﷺ کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیزلینے سے ہمیشہ انکاری رکتے رہے یہاں تک کہ آپ وفات پاگئے ۔ حضرت عمرؓ نے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہا مگر انہوں نے نہ لیا
تشریح
حکمی بن حزام ؓ کی کنیت ابو خالد قریشی اسدی ہے یہ حضر ت ام المومنین خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہیں واقعہ فیل سے تیرا سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے یہ قری کے معزز ترین لوگوں میں سے تھے جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں میں بڑی عزت و منزلت کے مالک رہی فتح مکہ کے دن اسلام لائے ۵۴ ھ میں اپنے مکان کے اندر مدینہ میں وفات پائی ان کی عمر ایک سو بیس سال کی ہوئی ساٹھ سال عہد جہالت میں گزارے اورساٹھ سالہ زمانہ اسلام میں زندگی پائی بڑے زیرک اور فاضل متقی صحاب میں سے تھے زمانہ جاہلیت میں سو غلاموں کو آزاد کیا اور سو اونٹ سواری کیلئے بخشے وفات نبوی کے بعد یہ مدت تک زندہ رہی یہاں تک کہ معاویہ کے عہد میں بھی دس سال کی زندگی پائی مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہوں نے کسی سے نہیں لیا جو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔
اس حدیث میں حکیم انسانیت رسول کریمﷺ نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اورحرص اورلالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لئے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اس کے لئے کافی ہوسکے گا۔ ا س کی زندگی بڑے ہی اطمینان اور سکون کی زندگی ہوگی اور جو شخص حرص کی بیماری اورلالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہو جائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جا سکے ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نا م پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اور اپنے اہل و عبال ہی پر خرچ کرتے ہیں اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالع کیا جائے تو ایک بہت بھیانک تصویر نطر آتی ہے فخر موجودات ﷺ نے ان ہی حاخئق کو اس حدیث مقدس میں بیان فرمایا ہے

باب اگر اللہ پاک کسی کو بن مانگے اور بن دل لگائے اور امیدوار رہے کوئی چیز دلادے (تو اس کو لے لے) اللہ تعالی نے (سورہ والذاریات) میں فرمایا ان کے مالوں میں مانگنے والے اور خاموش رہنے والے دونوں کا حصہ ہے۔

(اس آیت سے امام بخاری نی یہ نکال کہ بن مانگے جو اللہ دے دے اس کا لینا درست ہے ورنہ محروم خاموش فقیر کا حصہ کچھ نہ رہے گا قسطلانی نے کہا کہ بغیر سوال جو آئے اس کا لے لینا درست ہے بشرطیکہ حلال کا مال ہو اگر مشکوک مال ہو تو واپس کر دینا ہی پرہیزگار ی ہے)
(۱۳۸۳) ہم سے یحییٰ بن نکیر نے بیان کیا کہا ہم سے لیث نے بیا کیا ن سے یونس نی ان یے زہیر نے ان سے سالم نے ارو ان سے عبداللہ بن عمرؓ نے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ فرماتے کہ لے لو اگر تمہیں ایسا مل ملے جس پر تمہارا خیلا ن لگا ہو ا ہو اور نہ تم نے اسے مانگا ہو تو اسے قبول کر لیا کور اور جو نہ ملے تو اس پروانہ کرو اور اس کے پیچھے نہ پڑو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے کے لئے لوگوں سے سوال کرے؟

(۱۳۸۴) ہم سے یحی بن نکیر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے کہا کہ میں نے عروہ بن عبداللہ بن عمر سے سنا انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمرؓ سے سنا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہوگا اور آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کا تک پہنچ جائے گا لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کیلئے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے پھر موسی علیہ السلام سے اور پھر محمدﷺ نے ۔ عبداللہ نے اپید روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا کہ پھر آنحضورﷺ شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فصلہ کیا جائے پھر آپﷺ بڑھیں گے اور جنت کے دروازہ کا حلقہ تھام لیں گے اور اسی دن اللہ تعالی آپ کو مقام محمود عطا فرمائے گا جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ن سے زہری کی بھائی بعداللہ بن مسلم نے ان سے حمزہ بن عبداللہ نے اور انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ سے سنا انہوں نے آنحضرتﷺ سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کیباب میں ہے۔
تشریح
حدیث باب میں بھی سوال کرنے کی مدمت کی گئی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ غیر مستحق سوال کرنے والوں کا حشر میں یہ حال ہوکا کہ ان کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا ار اس ذلت وخواری کیساتھ وہ میدان حشر میں محشورہوں گے۔
سوال کرنے کی تفصیل میں علامہ عینی فرماتے ہیں
وہی علی ثلاثہ اوجہ حرام ومکروہ ومباح فالحرام لمن سال وہو غنی من زکوۃ اواظہر من الفقراء فوق ما ہو بہ والمکروہ لمن سال ما عندہ ما یمنعہ عن ذلک ولم یظہر من الفقر فوق ما ہو یہ واللمباح لمن سال بالمعروف قریبا او صدیقا اما السوال عند الضرورۃ واجب لاحیاء النفس وادخلہس الداودی فی المباح واما الاخذ من غیر مسئلہۃ والا اراف نفس فلا باسبہ (عینی)
یعنی سوال کی تین قسمیں ہیں حرام مکروہ اور مباح حرام تو اس کے لئے جو مالدار ہونے کے باوجود زکوۃ میں سے مانگے اور خواہ مخواہ اپنے کو محتاج ظاہر کرے مکروہ اس کیلئے جس کے پاس وہ چیز موجود ہے جسے وہ اورسے مانگ رہا ہے وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز تو میرے پاس موجود ہے ساتھ یہ یہ بھی کہ اپنے آپ کو محتاج بھی ظاہر نہیں کرتا پھر سوال کر رہا ہے اور مباح اس کے لئے جو حقیقی حاجت کے وقت اپنے کسی خاص دوست یا رشتہ دار سے سوال کرے بعض مرتبہ سخت ترین ضررت کے تحت جہاں موت و زندگی کا سوال آجائے سوال کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے اور بغیر سوال کئے اور تانکے جھانکے کوئی چیز از خود مل جائے تو اس کی لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
غیر مستحقین سائلین کی سزا کے بیا ن کے ساتھ اس حدیث میں آنحضرتﷺ کی شفاعت کبری کا بھی بیان کیا گیا ہے جو قیامت میں آپﷺ کو حاصل ہوگی جہاں کسی بھی نبی و رسول کو مجال کلام نہ ہوگا وہاں آپ ﷺ نوع اسنان کے لئے شافع اور مشفع بن کر تشریف لائیں گے
اللہم ارزقنا شعاعۃ حبیبکﷺ یوم القیامۃ اٰمین۔
باب (سورۃ بقرہ میں) اللہ تعالی کا ارشاد کہ جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے اس کا بیان اور نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ وہ شخص جو بقدر کفایت نہیں پاتا (گویا اس کو غنی نہیں کہہ سکتے) اور (اللہ تعالی نے اسی سورۃ میں فرمایا ہے کہ) صدقہ خیرات تو ان فقراء کے لئے ہے جو اللہ کے راستے میں گھر گئے ہیں کسی ملک میں جا نہیں سکتے کہ وہ تجارت ہی کر لیں ناواقف لوگ انہیںسوال نہ کرنے کی وجہ سے غنی سمجھتی ہیں آخر آیت فان اللہ بہ علیم تک (یعن وہ حد کیا جس سے سوال نا جائز ہو باب کی حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اس کے متعلق کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جو ان کے شرط پر ہو)

(۱۳۸۵) ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ مجھے محمد بن زیادن نے خبر دی کہا کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے در در پھرائیں مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں لیکن سوال سے شرم آتی ہے اور وہ لوگون سے چمٹ کر نہیں مانگتا (مسکین وہ جو کمائے مگر بقدر ضرورت نہ پا سکے)
تشریح
ابوداؤد نے سہل بن حنظلہ سے نکالا کہ صحابہ نے پوچھا تونگری جس سے سوال منع ہو کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا جب صبح شام کا کھانا اس کے پاس موجود ہو ابن خزیمہ کی روایت میں یوں ہے جب دن رات کا پیٹ بھر کھانا اس کے پاس ہو بعضوں نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے دوسری حدیثوں سے جس میں مالدار اس کو فرمایا ہے جس کے پاس پچاس درہم ہوں یا اتنی مالیت کی چیزیں (وحیدی)
(۱۳۸۶) ہم سے یعقوب بن براہیم نے بیان یکا کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے خالد جذا نے بیان کیا ان سے ابن اشوع نے ان سے عامر شعبی نے کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ کے منشی دراد نے بیان کیا کہ معاویہؓ نے مغیرہ بن شعبہؓ کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو ۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمہارے لئے تین باتیں پسند نہیں کرتا بلاوجہ کی گپ شپ فضول خرچی اورلوگوں سے بہت مانگنا۔
تشریح
فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے اسی لئے کم بولنا اور سوچ سمجھ کربولنا عقلندوں کی علامت ہے اسی طرح فضول خرچی کرنا بھی انسان کی بڑی بھاری حماقت ہے جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب دولت ہاتھ سے نکل جاتی ہے اسی لئے قرآنی تعلیم یہ ہے کہ نہ بخیل بنو اور نہ اتنے ہاتھ کشادہ کرو کہ پریشان حالی میں مبتلا ہو جاؤ درمیانی چال بہتر حال بہتر ہے تیسرا عیب کثرت کے ساتھ دست سوال دراز کرنا یہ بھی اتنا خطرناک مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور وہ بری طرح سے اس میں گرفتار ہو کر دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے یہ حدیث لکھ کر حضرت امیر معاویہؓ کو پیش کی اشارہ تھا کہ آپ کی کامیابی کا راز اس حدیث میں مضمر ہے جسے میں آپ کو لکھ رہا ہوں آنحضرتﷺ کے جوامع الکلم میں اس حدیث شریف کو بھی بڑا مقام حاصل ہے اللہ پاک ہم کو یہ حدیث سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔
(۱۳۸۷) ہم سے محمد بن غیریر زہری نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہی نے اپنے باپ سے بیان کیا ۔ ان سے صالح بن کیسان نے ان سے ابن شہاب نے انہوں نے کہا کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے خبر دی انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے چند اشخاص کو کچھ مال دیا۔ اسی جگہ میں بھی بیٹھا ہوا تھا انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے شخص کو چھوڑ دیا اور انہیں کچھ نہیں دیا حالانکہ ان لوگوں میں وہی مجھے زیادہ پسند تھا آخر میں رسول اللہﷺ کے قریب جاکر چپکے سے عرض کی فلاں شخص کو آپنے کچھ بھی نہیں دیا؟ واللہ میں اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا یا مسلمان؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں تھوڑی دیر تک خاموش رہا لیکن میں ان کے متعلق جو کچھ جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کیا اور میں نے عرض کی یارسول اللہﷺ ! آپ فلاں شخص سے کیوں خفاء ہوئے واللہ میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپﷺ نے فرمایا یا مسلمان؟ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا پھر آپﷺ نے فرمیا کہ ایک شخص کو دیتا ہوں (اور دوسرے کو نظر انداز کرتا جاتا ہوں ) حالانکہ وہ دوسرا میری نظر میں پہلے سے زیادہ پیار ہوتا ہے کیونکہ (جس کو میں دیتا ہوں نہ دینی کی صورت میں) مجھے ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے اور (یعقوب بن ابراہیم ) اپنے والد صالح سے وہ اسماعیل بن محمد سے انہوں نے بیان کیاکہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ یہی حدیث بیا ن کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ پھر آنحضورﷺ نے اپنا ہاتھ میری گردن اور مونڈھے کے بیچ میں مارا اور فرمایا سعد! ادھرسنو میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور آخر حدیث تک ۔ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) اکب لازم ہے یعنی اوندھا گرا اور اس کا متعدی کب ہے کہتے ہیں کب اللہ لوجہہ یعنی اللہ نے اسے اوندھے منہ گرادیا اور کببتہ یعنی میں نے اسکو اوندھا گرایا ۔ امام بخاری نے کہا کہ صالح بن کیسان عمر میں زہیر سے بڑے تھے وہ عبداللہ بن عمرؓ سے ملے ہیں۔
تشریح
یہ حدیث کتاب الایمان میں گزر چکی ہے ابن اسحق نے مغازی میں نکالا آنحضرتﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپﷺ نے عینیہ بن حصن اوراقراع بن حابس کو سو سو روپے دے دئیے اور جعیل سراقہ کو کچھ نہیں دیا آپﷺ نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جعیل بن سراقہ عینیہ اور اقرع ایسے ساری زمیں بھرلوگوں سے بہتر ہے لیکن میں عیینہ اوراقرع کا روپیہ دے کر دل ملاتا ہوں اور جعیل کے ایمان پر تو مجھ کو بھروسہ ہے ۔ (وحیدی)
(۱۳۸۸) ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے امام مالک نے ابو الزنا د سے بیان کیا ان سے اعرج نے اور ان سے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کا چکر کاٹتا پھرتا ہے تاکہ اسے دو ایک لقمہ یا دو ایک کھجور مل جائیں بلکہ اصلی مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بے پروا ہوجائے۔ اس حال بھی کسی کو معلو م نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دے دے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لئے اٹھتا ہے۔
(۱۳۸۹) ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا کہ مجھے سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو صالح ذکوان نے بیان کیا اوران سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگرتم میں سے کوئی شخص اپنی رسی لے کر (میرا خیال ہے کہ آپﷺ نے یوں فرمایا) پہاڑوں میں چلا جائے پھر لکڑیاں جمع کرکے انہیں فروخت کرے اس سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے۔ یہ اس کے لئے ا س سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔

باب کھجور کا درختوں پر اندازہ کر لینا درست ہے۔

تشریح
جب کھجور یا انگور یا اور کوئی میوہ درختوں پرپختہ ہو جائے تو ایک جاننے والے شخص کو بادشاہ یا حاکم بھیجتا ہے وہ جاکر اندازہ کرتا ہے کہ اس میں اتنا میوہ اترے گا پھر اسی کا دسواں حصہ زکوۃ کے طورپر لیا جاتا ہے اس کو خرص کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ یہ جاری رکھا اور خلفائے راشدین نے بھی۔ امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث سب اس کو جائز کہتے ہیں لیکن حنفیہ نے برخلاف احادیث صحیحہ کے صرف اپنی رائے سے اس کو ناجائز قرار دای ہے ان کا قول دیوار پر پھینک دینے کے لائق ہے (از مولانا وحید الزماں مرحوم)
اندازہ لگانے کیلئے کھجور کا ذکر اس لئے آگیا کہ مدینہ میں بکثرت کھجوریں ہی ہوا کرتی تھیں اور نہ انگور وغیرہ کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔
عن عتاب بن اسید ان النبیﷺ کان یبعث علی الناس من یخرص علیہم کرومہم و ثمارہم رواہ الترمذی و ابن ماجۃ
یعنی نبی کریمﷺ لوگوں کے پاس اندازہ کرنے والوں کو بھیجا کرتے تھے جو ان کے انگوروں اور پھلوں کا اندازہ لگاتے ۔
وعنہ ایضاً قال امر رسول اللہﷺ ان یخرص العنب الحدیث رواہ ابو داؤد والترمذی
یعنی آنحضرت ﷺ نے حکم فرمایا کہ کھجور کی طرح انگوروں کا بھی اندازہ لگا لیا جائے پھر ان کے خشک ہوتے پر ان میں سے اسی اندازہ کے مطابق عشر میں منقے لیا جائے گا۔
حضرت امام شوکانی فرماتے ہیں
والا حادیث المذکورہ تدل علی مشروعیۃ الخرص فی العنب والنخل وقد قال الشافعی احد قولیہ بوجوبہ مستدلاً بما فی حدیث عتاب من ان النبیﷺ امر بذالک وذہبت العنزۃ ومالک وروی الشافعی انہ جائز فقط وذہبت الہادویۃ وروی عن الشافعی ایضا الی انہ مندوب وقال ابو حنیفۃ الا یجوز لانہ رجم بالغیب والاحادیث المذکورۃ ترد علیہ (نیل الاطار ۔)
یعنی احادیث مذکورہ کھجور اور انگوروں میں ا ندازہ کرنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں اور عتا ب کی حدیث مذکورہ سے لیل پکڑتے ہوئے امام شافعی نے اپنے ایک قول میں اسے واجب قرار دیا ہے اور عترت اور امام مالک اور ایک قوم میں امام شافعی نے بھی اسے صرف درجہ جواز میں رکھا ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ اسے ناجائز کہتے ہیں اس لئے کہ یہ اندازہ ایک غیبی اندازہ ہے اور احادیث مذکورہ ان کے اس قول کی تردید کرتی ہیں۔
اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:۔
حکی الترمذی عن بعض الہ العلم ان تفسیرہ الثمار اذا ادرکت من الرحطب والعنب مما تجب فیہ الزکوۃ بعث السلطان خارصا ینظر فیقول یخرج من ہذا کذا وکذا زبینا وکذا وکذا اتمراً فیحصیہ ونتظر مبلغ العشر فیثبتہ علیہم ویخلی بینہم وبین الثمار فاذا جاء وقت الجذاذا خذ منہم العشر الی اخرہ (فتح الباری)
یعنی خرص کی تفسیر بعض اہل علم سے یوں منقول ہے کہ جب انگور اور کھجور اس حال میں ہوں کہ ان پر زکوۃ لاگوہو تو بادشاہ ایک اندازہ کرنے والا بھیجے گا جوان باغوں میں جاکر ان کا اندازہ کرکے بتلائے گا کہ اس میں اتنا انگور اور اتنی اتنی کھجور نکلے گی اس کا صحیح اندازہ کرکے دیکھے گا کہ عشر کے نصاب کو یہ پہنچتے ہیں یا نہیں اگر عشر کا نصاب موجود ہے تو پھر وہ ان پر عشر ثابت کردیگا اور مالکوں کو پھلوں کے لئے اختیار دے دے گا وہ جو چاہیں کریں جب کٹائی کا وقت آئے گا تو اسی اندازہ کے مطابق ان سے زکوۃ وصول کی جائے گی اگرچہ علماء کا اب اس کے متعلق اختلاف ہے مگر صحیح بات یہی ہے کہ خرص اب بھی جائز ہے اور اس بارے میں اصحاب الرائے کا فتوے درست نہیں ہے حدیث ذیل میں جنگ تبوک ۹ھ کا کا ذکر ہے اسی موقع پر ……… ایلہ کے عیسائی حاکم نے آنحضرتﷺ سے صلح کرلی تھی جو ان لفظوں میں لکھی گئی تھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ہذہ امنۃ من اللہ و محمد ن النبی رسول اللہ لیوحنا بن روبہ واہل ایلۃ سفنہم وسیارتہم فی البر والبحر لہم ذمۃ اللہ و محمد النبیﷺ
یعنی اللہ اور اس کے رسول محمد نبیﷺ کی طرف سے یوحنا بن روبہ اور اہل ایلہ کے لئے امن کا پروانہ ہے خشکی اور تری میں ہر جگہ ان کے سفینے اور ان کی گاڑیاں سب کے لئے اللہ اور اس کے رسول محمد مصطفیٰﷺ کی طرف سے امن وامان کی گارنٹی ہے۔
(۱۳۹۰) ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے ان سے عمرو بن یحییٰ نے ان سے عباس بن سہل ساعدی نے ان سے ابو حمدی ساعدیؓ نے بیان کیا کہ ہم غزوہ تبوک کے لئے نبی کریم، کے ساتھ جارہے تھے جب آپ ﷺ وادی قری (مدینہ اور شام کے درمیان ایک قدیم آبادی) سے گزرے توہماری نظر ایک عوت پر پڑی جو اپنے باغ میں کھڑی ہے رسول اللہﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اس کے پھلوں کا اندازہ لگاؤ (کہ اس میں کتنی کھجور نکلے گی) حضور اکرﷺ نے دس دسق کا اندازہ لگایا پھر اس عورت سے فرمایا کہ یاد رکھنا اس میں سے جتنی کھجور نکلے جب ہن تبوک پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لئے کوئی شخص کھڑ نہ رہے اور جس کے پاس اونٹ ہوں وہ انہیں باندھ دیں چنانچہ ہم نے اونٹ باندھ لئے اور آندھی بڑے زور کی آئی ایک شخص کھڑا ہواتھا تو ہوا نے اسے جبل طے پر جا پھینکا اور ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے نبی کریمﷺ کو سفید خچر اور ایک چادر کا تحفہ بھیجا ۔ آنحوررﷺ نے تحریری طور پر اس کی حکومت پر برقراررکھا پھر جب وادی قری (واپسی میں) پہنچے تو آپﷺ نے اسی عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میں کتنا پھل آیا تھا اس نے کہا کہ آپﷺ کے اندازہ کے مطابق دس دسق آیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں اس لئے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب ( ابن بکار امام بخاری کے شیخ نے ایک ایسا جملہ کہا جسے کے معنے یہ تھے) کہ مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ہے طابہ! پھرآپﷺ نے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں انصار کے سب سے اچھے خاندان کی نشاندہی نہ کروں؟ صحابہ نے عرض کی ضرور کیجئے آپﷺ نے فرمایا کہ بنو نجار کا خاندان ۔ پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان پھر بنو ساعدہ کا یا (یہ فرمایا کہ) نبی حارث بن خزرج کا خاندان اور فرمایا کہ انصار کے تمام خاندانوں میں خیر ہے ابو عبداللہ (قاسم بن سلام) نے کہا کہ جس باغ کی چہار دیواری ہو اسے حدیقہ کہیں گے اور جس کی چہار دیواری نہ ہواسے حدیقہ نہیں کہیں گے اور سلیمان بن بلال نے کہا کہ مجھ سے عمرو نے اس طرح بیان کیا کہ پھر نبی حارت بن خزرج کا خاندان اورپھر بنو ساعدہ کا خاندان اور سلیمان بن سعد بن سعید سے بیان کیا ان سے عمارہ بن غزیہ نے ان سے عباس نے ان سے ان کے باپ (سہل) نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
تشریح
اس طویل حدیث میں جہاں کھجوروں کا اندازہ کرلینے کا ذکر ہے وہاں اور بھی بہت سے حا ئق کا بیان ہے ۔ غزوہ تبوک ۹ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ موسم گرما اپنے پورے شباب پر تھا اور مدینہ میں کھجور کی فصل بالکل تیار تھی پھربھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بڑی جانثاری کا ثبوت دیا اور ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس طویل سفر میں شریک ہوئے سرحد کا معاملہ تھا آپﷺ دشمن کے انتظار میں وہاں کافی ٹھہرے رہے مگر دشمن مقابلہ کے لئے نہ آیا بلکہ قریب ہی ایلہ شہر کے عیسائی حاکم یوحنا بن روبہ نے آپﷺ کو صلح کا پیغام دیا آپﷺ نے اس کی حکومت اس کیلئے برقرارر رکھی کیونکہ آپﷺ کا منشاء ملک گیری کا ہرگز نہیں تھا واپسی میں آپ کو مدینہ کی محبت نے سفر میں عجلت پرآمادہ کردیا تو آپﷺ نے مدینہ جلد سے جلد پہنچنے کا اعلان فرما دیا ۔ جب یہ پاک شہر نظر آنے لگا تو آپﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ آپﷺ نے انتہائی محبت کا اظہار فرمایا پھر آپﷺ نے انصار کی درجہ بدرجہ فضیلت بیان فرمائی جن میں اولین درجہ بنو نجار کو دیا گیا ان ہی لوگوں میں آپ کی ننہال تھی اور سب سے پہلے جب آپﷺ مدینہ تشریف لائے یہ لوگ ہتھیار باندھ کر آپ ﷺ کے استقبال کے لئے حاضر ہوئے تھے ۔ پھر تمام قبائل انصار تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے دل و جان سے اسلام کی ایسی مدد کی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے یاد رہ گئے رضی اللہ عنہم ورضو عنہ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب جو شخص اپنا میوہ یا کھجور کا درخت یا کھیت بیچ ڈالے حالانکہ اس میں دسواں حصہ یازکوۃ واجب ہوچکی ہو اب وہ اپنے دوسرے مال سے یہ زکوۃ ادا کرے توی یہ درست ہے یا وہ میوہ بیچے جس میں صدقہ واجب ہی نہ ہوا ہو اور آنحضرتﷺ نے فرمایا میوہ اس وقت تک نہ بیچو جت تک اس کی پختگی نہ معلوم ہوجائے اور پختگی معلوم ہوجانے کے بعد کسی کو یچنے سے آپﷺ نے منع نہیں فرمایا اوریوں نہیں فرمایا کہ زکوۃ واجب ہوگئی ہو تو نہ بیچے اور واجب نہ ہوئی ہو تو بیچے۔

(امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں مالک کو اپنا مال بیچنا درست ہے خوہ اس میں زکوۃ اور عشر واجب ہوگیا ہویا نہہ وا ہو اور رد کیا شافعی کی قول کو جنہوں نے ایسے مال کا بیچنا جائز نہیں رکھا جس میں زکوۃ واجب ہوگئی ہو جب تک زکوۃ ادا نہ کرے امام بخاری نے فرمان نبوی لا تبیعو الثمرۃ الخ کے عمو سے دلیل لی کہ میوہ کی پختگی کے جب آثار معولم ہو جائیں تو اس کا پیچنا آنحضرتﷺ نے مطلقا درست رکھا اور زکو ۃ کے وجوب یا عدم وجوب کی آپ نے کوئی قیند نہیں لگائی (وحیدی)
(۱۳۹۴) ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نیبیان کیا کہا کہ مجھے عبداللہ بن دینارنے خبر دی کہا کہ میں نی ابن عمرؓ سے سنا انہوں نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے کھجور کو (درخت پر) اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جت تک اس کی پختگی ظاہرنہ ہو ا ور ابن عمرؓ سے جب پوچھتے کہ اس کی پختگی کیا ہے وہ کہتے کہ جب یہ معلوم ہو جائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا۔
(۱۳۹۵) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے لیث نیبیان کیا کہا کہ مجھ سے خالد بن یزید نے بیان کیا ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ رسول اللہﷺ نے پھل کو اس وقت تک پیچنے سے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی کھل نہ جائے۔
(۱۳۹۶) ہم سے قتیبہ نے امام مالک سے بیان کیا ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہﷺ نے جب تک پھل پر سرخی نہ آجائے انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے انہوں نے بیان کیا کہ مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہو جائیں ۔ (یعنی یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب میوہ ضرور اتر ے گا اور کسی آفت کا ڈر نہ رہے ۔ پختہ ہونے کا مطلب یہ کہ اس کے رنگ سے اس کی پختگی ظاہر ہو جائے ۔ اس س پہلے بیچنا اس لئے منع ہوا کہ کبھی کوئی آفت آتی ہے تو سارا میوہ خراب ہو جاتا ہے یا گر جاتا ہے اب گویا مشتری کا مال مفت کھالینا ٹھہرا)۔
باب کیا آدمی اپنی چیز کو جوصدقہ میں دی ہو پھرخرید سکتا ہے؟ اور دوسرے کا دیا ہوا صدقہ خریدنے میں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ آنحضرتﷺ نے خاص صدقہ دینے والے کو پھر اس کے خریدنے سے منع فرمایا لیکن دوسرے شخص کو منع نہیں فرمایا۔

(۱۳۹۷) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ان سے عقیل نے ان سے ابن شہاب نے ان سے سالم نے کہ عبداللہ بن عمرؓبیان کرتے تھے کہ حضرت خطابؓ نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں صدقہ کیا پھراسے آپ نے دیکھا کہ وہ بازار میں فروخت ہو رہا ہے اس لئے ان کی خواہش ہوئی کہ اسے وہ خود ہی خرید لیں اور اجازت لینے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپﷺ نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو ۔ اسی وجہ سے اگر ابن عمررضی اللہ عنہ اپنا دیا ہوا صدقہ خرید لیتے تو پھر اسے صدقہ کردیتے تھے ۔ (اپنے استعمال میں نہ رکھتے تھے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے)
(۱۳۹۸) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی انہیں زید بن اسلم نے اوران سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ انہوں نے ایک گھوڑا اللہ تعالی کے راستہ میں ایک شخص کو سواری کے لئے دے دیا لیکن اس شخص نے گھوڑے کو خراب کر دیا اس لئے میں نے چاہا کہ اسے خرید لوں میرا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اسے سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو خواہ وہ تمہیں ایک درہم میں ہی کیوں نہ دے کیونکہ دیا ہوا صدقہ واپس لینے والے کی مثال قے کرکے چاٹنے والے کی سی ہے (باب کی حدیثوں سے بظاہر یہ نکلتا ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ تو خریدنا حرام ہے لیکن دوسرے کا دیا ہو ا صدقہ فقیر سے فراعت کے ساتھ خرید سکتا ہے)

با ب نبی کریمﷺ اور آپﷺ کی آل پر صدقہ کا حرام ہونا

(۱۳۹۹) ہم سے آدم ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا کہا کہ میں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا چھی چھی ! نکالو اسے پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ کا مال نہیں کھاتے ۔ (قسطلانی نے کہا کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ فرض زکوۃ آپﷺ کی آل کیلئے حرام ہے امام احمد بن حنبل کا بھی یہی قول ہے ۔ امام جعفر صادق سے شافعی اوربیہقی نے نکالا کہ وہ سبیلوں سے پانی پیا کرتے ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو صدقے کا پانی ہے انہوں نے کہا کہ ہم پر فرض زکوۃ حرام ہے۔)
با ب نبی کریمﷺ اور آپﷺ کی آل پر صدقہ کا حرام ہونا

(۱۳۹۹) ہم سے آدم ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا کہا کہ میں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا چھی چھی ! نکالو اسے پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ کا مال نہیں کھاتے ۔ (قسطلانی نے کہا کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ فرض زکوۃ آپﷺ کی آل کیلئے حرام ہے امام احمد بن حنبل کا بھی یہی قول ہے ۔ امام جعفر صادق سے شافعی اوربیہقی نے نکالا کہ وہ سبیلوں سے پانی پیا کرتے ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو صدقے کا پانی ہے انہوں نے کہا کہ ہم پر فرض زکوۃ حرام ہے۔)
 
Top