• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب: ڈاکٹر ذاکر نائک کی اہل حدیثوں پر تنقیدوں کے جواب - اہل علم کی رائے

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دینی مدارس پر تنقید کیے بغیر بھی ایک بہترین پوسٹ کی جا سکتی ہے! ابتسامہ!
میری تنقید اندرونی دکھ اور کرب کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ویسے بھی تنقید برائے اصلاح اور تنقید برائے مخالفت میں فرق ہوتا ہے اور میں تنقید برائے اصلاح کا قائل ہوں۔ ہمارے دینی مدارس خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہیں۔ :) ہمیں خوبیوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ خامیوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے، تاکہ اصلاح کا امکان تو باقی رہے
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
Jo admi jitni wasee level pr kaam Kary osko utuna hi zimadar hona chahye. Ghalation ka taluq kaam k wusat se zyada ghair zimadari se hai.
Taqabal adyan pr Zakir sahib ka kaam qabil e qadar hai. Agar Zakir sahib sirf comparative religions pr focus rahain tu shayad kaam bahtar tor anjam de sakain
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
یوسف ثانی بھائی نے بالکل ٹھیک کہا کہ جو بندہ جس قدر وسیع پیمانے پر کام کرتا ہے اس سے غلطیاں بھی اسی قدر سرزد ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک بھی انسان ہیں اور ان سے غلطیوں کا سرزد ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت جلد نیتوں پر شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک عالمی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اسی لیے ان کا مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے واسطہ بھی رہتا ہے اور شاید اسی وجہ سے انھیں بعض مواقعوں پر مصلحت سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اور اسی لیے وہ لفظ اہل حدیث ہی کو کامیابی کی معراج سمجھنے کے بجائے درست عقیدے اور منہج کو اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اور یقیناً بعض مستثنیات کو چھوڑ کر ان کا عقیدہ و منہج بھی وہی ہے جو سلف صالحین اور اہل الحدیث کا ہے۔ یہ کتاب اگرچہ مصنف ساجد عبدالقیوم صاحب کی قابل قدر کاوش ہے لیکن ان کا اسلوب اور طریق کار بہر حال قابل داد نہیں ہے۔ اگر آپ کو ان سے علمی اختلاف ہے تو اسے علمی انداز میں بحث کیجئے کم از کم ان کو اہل حدیث اور سلفی حضرات کے دشمن کے روپ میں تو پیش نہ کریں۔ اور خود مصنف کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ملازمین ان کو اہل حدیث ہی مشہور کرتے ہیں۔
مصنف ڈاکٹر صاحب سے اس بات پر خفا نظر آتے ہیں کہ وہ ضدی طبیعت کے مالک ہیں اور اس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کے ڈاکٹر صاحب نے ہماری یا بعض دوسرے لوگوں کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا۔ ارے بھائی! یہ فیصلہ کس طرح ہوگا کہ آپ ان پر جو اعتراض کر رہے ہیں واقعتاً وہی ٹھیک ہیں اور ڈاکٹر صاحب غلط ہیں؟ ظاہر سی بات ہے اگر کوئی کسی پر اعتراض کرتا ہے تو ضروری تو نہیں کہ وہ اعتراض بالکل درست ہو اور جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے وہ بیک جنبش قلم اس سےرجوع کر لے۔ ظاہر سی بات ہے آپ ایک چیز کو جس زاویے سے دیکھ کر اعتراض کر رہے ہیں ہو سکتا ہے اس نے اسی چیز کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر اپنایا ہو اور اس کا جواب سن کر ہو سکتا ہے آپ بھی مطمئن ہو جائیں۔ لیکن ہمیں کیا! ہم نے اعتراض کر دیا اور اگلے بندے نے اصلاح نہیں کی اور بس فتووں کا بازار گرم۔ مصنف ایک جگہ ڈاکٹر ذاکر نائک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
’’اکثر لوگ کہتے ہیں : سلفی نجات پانے والا فرقہ ہے، یعنی باقی سار ےجہنم میں جائیں گے۔‘‘ پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر ذاکر کی سلفی دعوت پر الزام تراشیوں اور اتہامات کے بعد، ہمیں اس کتابچہ کو تصنیف کرنے کی ضرورت پیش آئی اپنے سلفی بھائیوں کی غیرت کو جگانے کے لیے اور ان سے التجا کرنے کے لیے کہ وہ تعاون نہ کریں اس کے ساتھ جو کاروان توحید و اتباع کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
مانا کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کا یہ جملہ قدرے تشدد پر مبنی ہے لیکن اس کو غیرت کا مسئلہ بنا لینا اور ان کو کاروان توحید و اتباع کو نقصان پہنچانے والا باور کرانا بھی ہرگز ہرگز قرین انصاف نہیں ہے۔
میرا ان چند گزارشات کو لکھنے کا مقصد ڈاکٹر ذاکر نائک کی وکالت کرنا نہیں ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ وہ دین اسلام کی دعوت کروڑوں لوگوں تک پہنچا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان سے بعض تسامحات ہو جانا ممکنات میں سے ہے۔ ان تسامحات پر جذباتی ردعمل کے بجائے اصلاحی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے مثبت کام پر پانی پھیرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لینا چاہیے۔ اور ان کو شیطان کے وکیل جیسے القابات سے نوازنا بہرحال کوئی علمی رویہ نہیں ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بد قسمتی سے ہم سب کے سب (الا ماشاء اللہ) نہ صرف یہ کہ مسلکوں، فرقوں اور گروپوں میں بٹ چکے ہیں بلکہ انہی کو اپنی شناخت بنانے پر پر بھی مصر ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ان مسلکوں، فرقوں اور گروپوں سے ”بالا تر ہوکر“ اسلام کی بات کرتا ہے تو ان گروپوں کا ان سے ”نالاں“ ہونا ایک سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ یہی ڈاکٹر ذاکر کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیونکہ جو ”عوام الناس مسلمان“ ان کی ”دعوت و فکر“ سے متاثر ہورہے ہیں، وہ بہر حال کسی ”خلا“ سے نہیں بلکہ انہی ”گروپوں“ سے آ رہے ہیں۔

بر صغیر پاک و ہند کی حالیہ صدی میں تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی ہی دو ایسی ”تحریکیں“ تھیں جنہوں نے عام پڑھے لکھے مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچا۔ جماعت اسلامی نے تو دینیات سمیت مختلف عصری علوم کے ماہر مسلمانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جو ہر شعبہ حیات میں اندرون ملک اور بیرون ملک سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ تبلیغی جماعت نے ”اکیڈمک سطح“ پر کوئی کام نہ کرتے ہوئے عام و خاص، پڑھے لکھے اور جاہل عوام کی اکثریت کو ”نماز روزہ اورگشت“ پر مبنی ”اسلام“ متعارف کراکے ”باقی معاملات“ میں انہیں ”آزاد“ چھوڑ دیا کہ جو چاہیں کریں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے سالانہ تبلیغی اجتماعات، حج کے اجتماع جتنے بڑے باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق دنیا کے پانچ سو ٥٠٠ با اثر مسلمانوں میں شاہ عبد اللہ سر فہرست ہیں۔ جبکہ اس فہرست میں پاکستان سے صرف ایک نام ہے، جو اس فہرست میں سولہویں ١٦ نمبر پر ہیں۔ اور وہ ہیں، تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب۔ یہ دونوں جماعتیں بھارت میں بھی موجود ہیں، لیکن پاکستان و بنگلہ دیش جتنی متحرک نہیں۔ اس منظر نامے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اللہ تبارک تعالیٰ کے عطا کردہ ”خصوصی صلاحیتوں“ کی مدد سے ”تقابل ادیان“ کے ذریعہ دین اسلام کو واحد سچا دین ”ثابت“ کرنے کا فریضہ سنبھالا۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی سورسز قرآن اور صحیح احادیث سے جڑنے کی راہ پر لگا دیا۔ آزادی کے بعد بھارت میں قرآن و حدیث کے دروس کی ایسی کوئی مجلس منعقد نہیں ہوئی، جس میں مسلم اور غیر مسلم سب مل کر لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتے ہوں۔ یہ کارنامہ ڈاکٹر ذاکر نے کر دکھایا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نے ان مجالس میں دوسرا بڑا کام یہ کیا کہ غیر مسلموں کو لاکھوں کے مجمع میں اسلام پر اپنے ”تحفطات، اعتراضات اور تنقید“ کی نہ صرف کھلی اجازت دی۔ بلکہ اسی مجمع میں ان تنقیدوں اور اعتراضات کو عقل و منطق، مروجہ علوم اور غیر مسلموں کی اپنی مذہبی کتب کے اقتباسات سے رفع کیا۔ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آج بچے بچے کی دسترس میں دنیا بھر کے علوم و فنون محض ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ لہٰذا اس عہد کے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے اذہان میں دین اسلام سے متعلق ایسے بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں، جن کے جوابات دینا تو دور کی بات، ایسے سوالات کو محدود محفلوں میں بھی پیش کرنا ”معیوب“ سمجھا جاتا ہے۔ مسلم امت کے رہنماؤں کی اسی ”نااہلی“ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کفارنے میڈیا کے پروپیگنڈہ کے زور پر ”بنیاد پرست“ مسلمانوں کو ”دہشت گرد“ بتلا کر امت کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ اور یہ ایک ایسی ”صلیبی جنگ“ ہے جس میں خود مسلمان اور مسلم حکمران و ریاستیں کفار کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو تباہ و برباد کر رہی ہیں۔ اس عالمی منظر نامے مین ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کی ٹیم بھارت کے علاوہ دنیا بھر کھلے اجتماعات اور بین الاقوامی زبان انگریزی سمیت اردو اور بنگالی زبانوں کے الگ الگ ڈش چینلز کے ذریعہ کفار کے پروپیگنڈہ کو مؤثر توڑ پیش کر رہے ہیں۔ ان کے ٹی وی چینلز کی ویوورشپ کروڑوں میں ہے اور دنیا کے بیشتر حصوں میں ڈش، کیبل اور نیٹ کے ذریعہ لایئو دیکھی، سنی اور سمجھی جارہی ہے۔ یہ وہ کام ہے، جسے مسلم ریاستوں کو کرنا چاہئے تھا یا ان قدیم اسلامی اداروں، تنظیموں کو جو عشروں سے موجود اور مستحکم ہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا قائم کردہ اسلامک اسکول بھی ایک منفرد اسکول ہے۔ اس اسکول کے قیام سے قبل ڈاکٹر ذاکر نے دنیا بھر میں قائم ”اسلامی اسکولوں“ کا دورہ کیا اور ایک منفرد اسکول کی بنیاد رکھی۔ اس اسکول میں:
١۔ عربی زبان کی تعلیم اس طرح دی جارہی ہے کہ اس اسکول کے طلباء عربی لکھنے پڑھنے کے علاوہ بولنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
٢۔ انگریزی زبان کی تعلیم اس طرح دی جارہی ہے کہ اس کے طلباء انگریزی لکھنے پڑھنے کے علاوہ بولنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
٣۔ طلباء کو سینکڑوں ہزاروں کے مجمع مین عربی اور انگریزی میں یکساں مہارت سے تقریر کرنے کی صلاحیت پیدا کی جارہی ہے۔
٤۔ طلباء کو قرآن بھی حفظ کروایا جارہا ہے۔ اور میٹرک کرنے سے پہلے پہلے طلباء حفظ مکمل کرلیتے ہیں۔
٥۔ اسکول سے میٹرک، او لیول، انترنس اور اے لیول کی اسناد دینے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔
٦۔ اس اسکول سے اے لیول کرنے والے طلباء اپنی پسند اور چوائس کے مطابق مدینہ یونیورسٹی میں بھی داکلہ کے اہل ہیں اور امریکہ، برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کی کسی بھی عالمی سطح کی یونیورسٹی میں داخل ہوسکتے ہیں۔
٧۔ اس اسکول سے فارغ ہونے والے طلباء ، حافظ قرآن اور عربی زبان میں سمجھ بوجھ رکھنے کے سبب بنیادی اسلامی تعلیمات سے آگہی بھی رکھتے ہیں اورقرآن و حدیث کے براہ راست ”مطالعہ“ (صرف ناظرہ نہیں) کی اہلیت بھی۔ اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے میڈیکل، انجینئرنگ، لاء اور دیگر عصری علوم کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بین الاقوامی جامعات کا رُخ بھی کر سکتے ہی اور اسلامی تعلیمات میں اختصاص کے لئے بین الاقوامی اسلامی جامعات میں بھی داخل ہوسکتے ہین۔

برادرم کفایت اللہ کا تعلق غالباً ممبئی ہی سے ہے۔ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اداروں کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ ان سے گذارش ہے کہ وہ اپنی براہِ راست معلومات کی بنیاد پر ان ادارون کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے بارے میں ہمیں مزید آگہی دیں۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کے ڈاکٹر ذاکر نائک سلفیوں کے خلاف ہیں تو
وہ یہ بتاۓ کے آخر ڈاکٹر ذاکر نائک کی دعوت کیا ہے؟
کیا یہ وہی دعوت نہیں جو سلف صالحین نے دی؟
کیا انکی دعوت حق پر نہیں ؟
کیا انکی دعوت قرآن اور حدیث پر نہیں؟
کیا انکی دعوت توحید پر نہیں؟
کیا زمانے سے اہل حدیث جس دعوت کو دے رہے ہیں، وہی دعوت کو ایک نیے انداز میں اور احسن انداز میں پیش نہیں کیا جا رہا؟
کیا ہم انکے خلاف ایسے پروپیگنڈا کرکے خود کے پیروں پر کلہاڑی نہیں مار رہے؟

الله ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرماے آمین
 

محمد اقبال

مبتدی
شمولیت
اگست 26، 2012
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
0
برائے دردمندان دعوت قران و سنہ

اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کے ڈاکٹر ذاکر نائک سلفیوں کے خلاف ہیں تو
وہ یہ بتاۓ کے آخر ڈاکٹر ذاکر نائک کی دعوت کیا ہے؟
کیا یہ وہی دعوت نہیں جو سلف صالحین نے دی؟
کیا انکی دعوت حق پر نہیں ؟
کیا انکی دعوت قرآن اور حدیث پر نہیں؟
کیا انکی دعوت توحید پر نہیں؟
کیا زمانے سے اہل حدیث جس دعوت کو دے رہے ہیں، وہی دعوت کو ایک نیے انداز میں اور احسن انداز میں پیش نہیں کیا جا رہا؟
کیا ہم انکے خلاف ایسے پروپیگنڈا کرکے خود کے پیروں پر کلہاڑی نہیں مار رہے؟

الله ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرماے آمین
میری گزارش ہے کہ یہ سب سوال اٹھانے کی بجائے آپ ان سوالات پر غور کریں جو اس کتاب میں مصنف نے اٹھائے ہیں۔ جیسے کہ کیا تابعین کی جماعت لفظ اھل سنت کے استعمال کرنے میں گمراہی پر تھی۔ اگر ذاکر نائک اس لفظ کو نہیں استعمال کرنا چاہتے خواہ کسی بھی وجہ سے تو وہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے لیکن ٢٠٠٣ سے آج تک انہوں اس لفظ کو استعمال کرنے والوں پر اپنی منطقی دلائل کی جو بمباری ہے اور عام سلفی عوام کو تذبذب میں ڈالا ہے گویا اھل حدیث بھی کوئی فرقہ ہے اس کا حق انہیں کس نے دیا۔ رہا سوال اس بات کا کہ وہ غیر مسلموں میں عالمی دعوت دے رہے ہیں تو میرا خیال ہے اس کتاب میں اس کا بھی ذکر ہے کہ کیا واقعی ایسا کہا جا سکتا ہے جبکہ ان کی تقاریر سننے والے ٩٩ فی صد افراد مسلمان ہوتے ہیں جو ان کے ہر جملے کو قرآن و سنت کی سیدھی تشریح اور عین دین کے طور پر لیتے ہیں۔ اگر غلطیوں کی گنجائش ہے تو کیا تصحیح کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیا انہیں ارتداد کی سزا پر اپنے مؤقف پر رجوع نہیں کرنا چاہئے۔ کیا ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں جو بات انہوں نے سلفیوں میں کہی یا جو شیخ عثیمین رحمہ اللہ کے بارے میں کہی یا شیخ البانی کا مؤقف توڑ مروڑ کر پیش کیا کیا اس کی تصحیح کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں جبکہ یہ باتیں ان کے علم لائی جا چکی ہیں۔ ان میں صرف غلطیاں نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کا باقاعدہ مؤقف ہے جو احادیث کی تشریح کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب علماء حدیث پر آپسی اختلاف کا الزام دھرتے ہیں اور خود کو سلجھا ہوا جتاتے ہیں۔ اس طرح کے کئی اہم سوالات ہیں جو اس کتاب میں اٹھائے گئے ہیں اور دعوت غوروفکر دیتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر صاحب کی تضحیک مقصود نہیں لیکن اگر ہم واقعی قران وسنت کے منہج سے محبت رکھتے ہیں اور اس دعوت کے لیے دل میں ہمدردی کا جذبہ بھی لیے پھرتے ہیں تو ضرور اس موضوع پر سوچیں۔ سوچیں کہ کیا ڈاکٹر صاحب کو اہلحدیث عوام کو اس طرح لتاڑنا چاہئے جیسا کہ اہل صحیح حدیث والے واقعہ میں بیان کیا گیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ڈاکٹر صاحب لوگوں کو دعوت قران و حدیث سے جوڑ رہے ہیں تو مصنف نے اس پر بھی قلم اٹھایا ہے کہ سب سے پہلے تو ڈاکٹر صاحب کے ادارے کے طلبہ و مداحین آپ کے متعلق رائے قائم کرتے ہیں اس بنیاد پر کہ آپ غیر مسلمین کو دعوت دیتے ہیں یا نہیں وہ بھی آئی آر ایف کے طرز پر۔ مزید یہ کہ اپنی دعوت کو بڑھاچڑھاکر پیش کرنا اور دوسروں کے کام کو حقیر انداز میں بیان کرنا تو سبھی جانتے ہیں کہ یہ احمد دیدات رحمہ اللہ سے ہی مستعار لیا گیا ہے۔ جبکہ کبار اس بات پر ذور دیتے ہیں کہ پہلے اپنی اصل ذر کو بچانا اور پھر منافع کی فکر کرنا ہر ذی عقل تاجر کا کام ہوتا ہے۔ اب آپ سوچیں کہ ڈاکٹر صاحب کے ادارے سے مسلمان ہوئے افراد دین کی مزید معلومات کے لئے کس سمت رخ کرتے ہیں کیونکہ انھیں مسالک کے متعلق تو کچھ بتایا ہی نہیں جاتا۔ جبکہ کبار کہتے ہیں کہ جس طرح مذاہب میں اسلام ہے ویسے ہی مسالک میں اہل حدیث ہیں۔ اوراس سب کے بعد بھی جب ڈاکٹر صاحب خود تصحیح اور رجوع کو غیر ضروری جان کر آگے بڑھتے جا رہے ہیں یکہ بعد دیگرے مسائل کھڑے کرنے کے لیے تو اگر کوئی جواب یا عوام کی معلومات کے لیے ان مسائل کو تحریر کرے تو لوگ اسی کو کوس رہے ہیں۔ یہ طرزعمل اہل قرآن وسنہ کی طرف سے افسوسناک ہے۔ اس دعوت کی یہی تو پہچان ہے کہ یہاں شخصیت نہیں بلکہ دلیل دیکھی جاتی ہے۔
 

محمد اقبال

مبتدی
شمولیت
اگست 26، 2012
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
0
برادرم،
چند باتیں عرض کرنا چاہونگا۔ امید ہے آپ اتفاق کریں گے۔
یوسف ثانی بھائی نے بالکل ٹھیک کہا کہ جو بندہ جس قدر وسیع پیمانے پر کام کرتا ہے اس سے غلطیاں بھی اسی قدر سرزد ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک بھی انسان ہیں اور ان سے غلطیوں کا سرزد ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت جلد نیتوں پر شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک عالمی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں اسی لیے ان کا مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے واسطہ بھی رہتا ہے اور شاید اسی وجہ سے انھیں بعض مواقعوں پر مصلحت سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اور اسی لیے وہ لفظ اہل حدیث ہی کو کامیابی کی معراج سمجھنے کے بجائے درست عقیدے اور منہج کو اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اور یقیناً بعض مستثنیات کو چھوڑ کر ان کا عقیدہ و منہج بھی وہی ہے جو سلف صالحین اور اہل الحدیث کا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے منہج کے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے کہ کیا واقعی ڈاکٹر صاحب منہج سلف پر ہیں۔ منہج پر رہنے کےلیے سب سے اہم چیز ہے اس منہج کے ماضی اور حال کے کبار علما سے علم کو لینا اور اسی کی ترویج و اشاعت کرنا۔ نا کہ مختلف طرزفکر کے لوگوں کے خیالات کو ملا جلا کر پیش کرنا۔ پہلے جو کام ڈاکٹر صاحب کے ادارے کے ذریعے مختلف صوفی طرز کے مقررین کے ٹیپ تقسیم کرکے ہوتا تھا اب وہی ان کی کانفرنس میں ہوتا ہے جہاں دیوبندی اور جماعت اسلامی وغیرہ کے مقرر بھی آتے رہتے ہیں۔ یہ اختلاط کس لیے۔ کیا منہج سلف کے داعیان علم پھیلانے کے لیے کافی نہیں جو ایسے لوگوں کو بلایا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیثوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے یا اس قسم کی دوسری باتیں۔
یہ کتاب اگرچہ مصنف ساجد عبدالقیوم صاحب کی قابل قدر کاوش ہے لیکن ان کا اسلوب اور طریق کار بہر حال قابل داد نہیں ہے۔ اگر آپ کو ان سے علمی اختلاف ہے تو اسے علمی انداز میں بحث کیجئے کم از کم ان کو اہل حدیث اور سلفی حضرات کے دشمن کے روپ میں تو پیش نہ کریں۔ اور خود مصنف کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ملازمین ان کو اہل حدیث ہی مشہور کرتے ہیں۔
جہاں تک میں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے موصوف نے کوئی بھی بات بغیر دلیل کے اور محض بحث کرنے کی غرض سے نہیں لکھی ہے۔ آپ پھر بھی ایسا سوچتے ہیں تو اقتباس بیان کر سکتے ہیں جہاں مصنف نے ایسا کیا ہو۔
ارے بھائی! یہ فیصلہ کس طرح ہوگا کہ آپ ان پر جو اعتراض کر رہے ہیں واقعتاً وہی ٹھیک ہیں اور ڈاکٹر صاحب غلط ہیں؟
اگر آپ کتاب کو غور سے پڑھیں تو ڈاکٹر صاحب کے موقف کے لیے انہی کی تقریر کے حوالے موجود ہیں اور ان کے جوابات مصنف نے کبار علما ء کے جوابات کے ساتھ نقل کیے ہیں۔ اب فیصلہ کرنا کیوں دشوار ہے کہ ڈاکٹر ذاکر پر کیے گئے اعتراضات بجا ہیں یا نہیں۔
ظاہر سی بات ہے اگر کوئی کسی پر اعتراض کرتا ہے تو ضروری تو نہیں کہ وہ اعتراض بالکل درست ہو اور جس پر اعتراض کیا جا رہا ہے وہ بیک جنبش قلم اس سےرجوع کر لے۔ظاہر سی بات ہے آپ ایک چیز کو جس زاویے سے دیکھ کر اعتراض کر رہے ہیں ہو سکتا ہے اس نے اسی چیز کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر اپنایا ہو اور اس کا جواب سن کر ہو سکتا ہے آپ بھی مطمئن ہو جائیں۔ لیکن ہمیں کیا! ہم نے اعتراض کر دیا اور اگلے بندے نے اصلاح نہیں کی اور بس فتووں کا بازار گرم۔ مصنف ایک جگہ ڈاکٹر ذاکر نائک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
’’اکثر لوگ کہتے ہیں : سلفی نجات پانے والا فرقہ ہے، یعنی باقی سار ےجہنم میں جائیں گے۔‘‘ پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر ذاکر کی سلفی دعوت پر الزام تراشیوں اور اتہامات کے بعد، ہمیں اس کتابچہ کو تصنیف کرنے کی ضرورت پیش آئی اپنے سلفی بھائیوں کی غیرت کو جگانے کے لیے اور ان سے التجا کرنے کے لیے کہ وہ تعاون نہ کریں اس کے ساتھ جو کاروان توحید و اتباع کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
مانا کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کا یہ جملہ قدرے تشدد پر مبنی ہے لیکن اس کو غیرت کا مسئلہ بنا لینا اور ان کو کاروان توحید و اتباع کو نقصان پہنچانے والا باور کرانا بھی ہرگز ہرگز قرین انصاف نہیں ہے۔
یہ مسائل کوئی آج کے نہیں جو ڈاکٹر صاحب کو وقت نہ ملا ہو رجوع کا۔ دعوت اور اصلاح، لفظ اہل حدیث کا استعمال، صف کے بیچ شیطان آنے کی تشریح، غیر مسلم میں دعوت مسلمانوں میں دعوت سے بدرجہا بہتر دکھانا، ارتداد کے واجب القتل کی سزا کا انکار، اہل صحیح حدیث، وغیرہ یہ سب آج کی بات نہیں کئی سال سے ڈاکٹر صاحب کے ذریعے پھیلائے گئے نظریات ہیں جس پر کوئی رجوع نہیں کوئی تصحیح نہیں۔اور یہ سب کوئی اختلافی مسائل نہیں جن میں علماء نے بحثیں کی ہوں اور مختلف قوی دلائل موجود ہیں۔ یہ مسائل تمام ایسے ہیں جن میں کبار متفق ہیں اور مستحکم موقف رکھتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی نوازش سے ہمارے اپنے بھائی جو کل تک قرآن و سنت بفہم سلف صالحین کو دین مانتے تھے وہ آج کنفیوذ ہو رہے ہیں اور کئی ایک ہم ہی سے بحث کرنے لگے ہیں۔ اس سب کو اگر کاروان توحید کا نقصان نہ گردانا جائےتو کیا کہا جائے۔
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمت اللہ
شاید تحریر ذہن کی ترجمانی نہ کرے لیکن کچھ کہنا غیر مبہم سمجھتا ہوں
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر بڑی شخصیت پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کی سب سے عظیم ہستی بھی ان الزامات سے مستثنی نہیں رہی۔ ذاکر نائک تو خود کو دین کا ادنی سا طالب علم سمجھتے ہیں اور وہ اغیار کی آنکھوں کو نہیں بھاتے۔ اغیار تو بے گانے ہیں، ان کے اپنوں میں بھی چند ایسے ہیں جو ان سے بلا وجہ خفا ہیں
یہ بات درست ہے کہ ذاکر نائک حنفی مکتب فکر کے چند علما کو بھی اپنی محفل کا حصہ بناتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیوں کہ اس کی وجہ بھی سورہ آل عمران کی آیت نمبر 64 ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ایسی باتوں سے محفوظ رکھے جو بھائیوں میں تفرقہ ڈالتی ہے
یہاں مناظرانہ انداز سے احتراز کرتے ہوئے یہ بات بھی واضح کرنا مقصود ہے کہ ڈاکٹر نائک نے کبھی یہ نہیں کہا کہ خود کو اہل حدیث کہنا گمراہی ہے، البتہ وہ خود کو اس نام سے مستثنی رکھنے کو مصلحت سمجھتے ہیں یا ترجیح دیتے ہیں۔ جو لوگ ان کی اس مجبوری یا مصلحت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ذات کو نشانے بناتے ہیں، ہمیں ویسے لوگوں کی پِیٹ تھپکنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ خود کو اچھا سا نام دینے سے کوئی جنتی نہیں بنتا بلکہ اس کے نیک اعمال اسے جنت میں داخل کرتے ہیں اور اسی طرح دوزخ بھی صرف کافروں کے لئے نہیں بنائی گئی اس میں ہر مذہب و فرقہ کے آدمیوں کی گنجائش ہے چاہے وہ خود کو کسی نام سے بھی متعارف کروائے
ذاکر بھائی منہج سلف پر ہیں اس لئے آج بھی کاروان توحید کے نامور معتبر علما ان کی دعوت پر حاضر ہوکر تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور اس میں کبھی جھنجھلاہٹ محسوس نہیں کرتے
اگر ہم انٹرنٹ و دیگر ذرایع ابلاغ میں یہ دیکھنے کی زحمت کریں کہ اسلام اور ذاکر نائک و دیگر مبلغ اسلام کے خلاف باطل قوتیں کیسی کیسی سازشیں کرنے میں لگی ہوئی ہیں تو شاید ہی ہم ان فروعی باتوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں
آخر میں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے، غلطیوں سے کوئی محفوظ نہیں رہتا لیکن ان خطاؤں کو لے کر کسی کو کٹھرے میں کھڑا کرنا بڑی جرات کی بات ہے
اللہ سبحانہ و تعالی ہمارے بھائیوں کو ہماری زبان و قلم سے محفوظ رکھے ان کی اور ہماری چھوٹی بڑی خطاؤں کو معاف فرمائے
والسلام
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
۔ اور وہ اس قابل بھی نہیں ہوتا (الا ماشاء اللہ)کہ وہ اتنی روزی بھی نہیں کما سکے کہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ احسن طریقے سے پال سکے۔
یہ پتانہیں لوگوں کوکیاہوتاجارہاہے کہ وہ علم دین کا تعلق اچھی معاشی زندگی سے جوڑنے لگے ہیں۔اس پر مناسب ہے کہ جمشید صاحب کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کردیاجائے۔
انبیاء میں بجزدوچار کو چھوڑ کر تقریباًتمام کی زندگی فقروفاقہ اورغربت کی رہی ہے۔خصوصا ہمارے اسوہ،نمونہ اورآئیڈیل حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی توخواہش تھی کہ ایک وقت کھائیں اورایک وقت بھوکے رہیں۔ جب ان کو خدا کی جانب سے دولت وتونگری اورفقرکااختیار دیاگیاتوانہوں نے حضرت جبرئیل کے مشورہ سے فقروفاقہ کواختیار کیا۔حضرت عائشہ کی روایت یاد کیجئے کہ حضورپاک کے گھر میں مہینوں چولہانہیں جلتاتھا۔کھجوراورپانی پرگزارہ ہواکرتاتھا۔غزوہ احزاب کا موقع یاد کیجئے ۔صحابہ کرام کے پیٹ پر ایک پتھر بندھاتھا حضور پاک فداہ ابی وامی کے پیٹ پر دوپتھر بندھے تھے۔

علماء انبیاء کے وارث ہیں اورصرف علم میں ہی ان کی وراثت نہیں بلکہ یہ فقہ وفاقہ اورتنگدستی کی زندگی بھی ان کو انبیاء سے وارثت میں ملی ہے۔اس وراثت پر ان کو فخر کرناچاہئے شرمانانہیں چاہئے۔یہ راہ مجاہدہ کی راہ ہے۔یہ راہ صبراورخواہشات نفسانی کا گلاگھونٹنے کی راہ ہے۔یہ راہ مادی آسائشوں سے محرومی کی راہ ہے۔یہ راہ دنیاوالوں کے طعنے سننے کی راہ ہے کہ قد کنت فینامرجوا قبل ھذا کہ اگرتم اس لائن کو چھوڑ کر دوسری لائن اختیار کرتے توبہت دنیا کماتے ،بہت پرآسائش زندگی گزارتے۔لیکن ایک شخص جب سوچ سمجھ کر ،غوروفکر کرکے یہ منزلیں طے کرتاہے توپھر راہ کی مشکلات اوربعد میں آنے والے حالات کا شکوہ نہیں کرناچاہئے۔
میرے ساتھ ساتھ چلے وہی جوکہ خارراہ کوچوم لے
جسے کلفتوں سے گریز ہو وہ میراشریک سفر نہ ہو​
علم دین کی راہ حقیقت میں بہت کٹھن راہ ہے۔اگرایک شخص علم کی حرمت کاخیال رکھتاہے اوراس کو اپنے لئےمال ومراتب کا زینہ اورذریعہ نہیں بناتاہے توایسے شخص کی زندگی عمومی ترشی اورتنگی میں ہی گزرتی ہے ہاں جن لوگوں نے دین کے علم کو دنیاکمانے کا ذریعہ بنارکھاہے یاوہ علم دین کوبھی ایک دنیاوی ہنر کی طرح کیش کرانے کاہنر جانتے ہیں اوراس کا برموقع اوربرمحل استعمال بھی کرتے ہیں ایسے لوگ ضرورعیش کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیایہ منافع کا سودا ہے یاخسارے کاسوداہے ۔اگرقرآن وحدیث سے جواب طلب کریں تویہ خسارے اورگھاٹے کا سوداہے۔

اہل علم کو جوتنگی وترشی پیش آتی ہے وہ آج کوئی نئی بات نہیں۔اہل علم ہردور میں الاماشاء اللہ دولت کے اعتبار سے تہی دست رہے ہیں اورمال ومنال سے ان کادامن خالی رہاہے ۔آپ ائمہ اربعہ میں سے مثال لیں۔ امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر کس کی زندگی میں شدید نوعیت کا فقروفاقہ نہیں آیا۔امام مالک کو گھر کی کڑیاں بیچ کر زندگی گزارنی پڑی،امام شافعی کی مالی طورپر مدد امام مالک اوران سے زیادہ امام محمد علیہ الرحمہ نے کی۔امام احمد بن حنبل کو حصول علم میں روپے پیسے کی تنگی سے جومشکلات آئیں وہ ان کی سوانح سے معلوم کی جاسکتی ہے۔

ائمہ اربعہ کو چھوڑدیں اوردیگر علماء کے حالات کا مطالعہ کریں توپتہ چلتاہے بیشتر ان میں ایسے تھے جو صاحب ثروت نہیں تھے ۔حصول علم کے سفر کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے وہ پیدل چلتے تھے۔کھانے کے لالے پڑجاتے تھے اورپیدل چلے چلتے پیروں میں چھالے پڑجاتے تھے ۔حصول علم کے بعد کی بھی زندگی ان کی بہت پرآسائش نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کی زندگی فقروفاقہ اورغربت ومسکینت کا مرقع ہواکرتی تھی۔

کل اورآج میں بس فرق اتناہے کہ کل کا معاشرہ دل کو اوپر اورپیٹ کو نیچے رکھتاتھا اورآج کا معاشرہ پیٹ کواوپر اوردل کو نیچے رکھتاہے۔ کل علم اوراہل علم کی حرمت تھی۔اہل علم چاہے مال ودولت کے اعتبار سے کتنابھی تہی دست ہو علم کی وجہ سے اس کی قدرہوتی تھی اورروپے پیسے کی تنگی کو نظرانداز کردیاجاتاتھا۔ آج جو ہمارامعاشرہ پیٹ والوں کا معاشرہ ہے اس مین سب سے پہلاسوال یہی ہوتاہے کہ "لڑکاکماتاکتناہے"۔اوریہ سوال کبھی کبھی اس شکل میں بھی اداہوجاتاہے " عالم اپنے بیوی بچوں کااحسن طریقے سے پیٹ نہیں پال سکتا
مجھے آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ لوگوں نے حقوق کی ادائیگی کا کیامطلب لے رکھاہے وہ سماج اومعاشرہ کے مروجہ طورطریقوں سے متاثر ہوتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ایک راشی افسر جس طرح بیوی بچوں پر بے دریغ لٹاتاہے ایک عالم کوبھی اسی طرح بیوی بچوں پر خرچ کرناچاہئے۔
کیاکبھی انہوں نے حضورپاک کے حالات اورسیرت پڑھنے کی زحمت گواراکی ہے۔ کیسی زندگی تھی اوراسی میں سبھوں نے زندگی بسر کی۔ ایک مرتبہ جب کچھ امہات المومنین نے نان ونفقہ کیلئے زیادہ زور ڈالاتو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر سخت انداز میں متنبہ کیا کہ اگر تم دنیا چاہتی ہوتورسول سے الگ ہوجاؤاوراگررسول کی مصاحبت مطلوب ہے تودنیا میں اسی تنگی اورغربت کو برداشت کرو۔
رسول کی زندگی ہردور کیلئے نمونہ ہے ایک عالم کوبھی چاہئے کہ وہ اپنے بیوی اوراہل خانہ کوپہلے دن سے ہی اس سے آگاہ کردے اورکہہ دے کہ دنیا کی وسعتیں اورآسائشوں کا یہاں گزرنہیں ہوگا اگرسات ساتھ چلناہے تودوچارہزار کے مشاہرہ میں چلناہے اوراگر وسعت وفراخی کی خواہش ہے تواپنے اپنے راستے جداکرلیں۔
علماء سلف کے حالات پڑھنے کے بعد اوران کی تنگیوں اورپریشانیوں کا بڑاحصہ پڑھنے کے بعد بھی راقم الحروف کو ایسی باتیں نہیں ملیں کہ کسی نے کہاہو کہ وہ اپنے بچوں کا احسن طریقے سے پیٹ نہیں پال سکتے، بیوی کے حقوق کی ادائیگی نہیں کرسکتے اوربھی نہ جانے کیاکیا۔علماء سلف کے حالات پڑھیں ایک شخص حصول علم کیلئے گھر سے باہر نکلتاہے تو دس سال پندرہ سال بعد گھر واپسی ہوتی ہے کیااس دور میں بیوی کے جذبات نہیں ہوتے تھے کیااس کی کچھ خواہشات نہیں ہوں گی لیکن شوہر کی رضا میں بیوی صبر وشکر سے جدائی کے یہ لمحات برداشت کرتی ہے، اہل محلہ ایسے فرد پر فخر کرتے ہیں ۔شہر والے سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں اورآج یہ حال ہے کہ اگر کوئی شخص علم دین کے حصول کیلئے دوسال گھر سے باہر رہے اورمتوقع خرچ نہ بھیجے تواس کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے ۔نہ صرف گھر والے بلکہ پاس پڑوس والے اوراس واقعہ کوعلم دین سے تعلق رکھنے والوں کی مذمت میں باقاعدہ ایک دلیل بنالیاجاتاہے۔

یاد رکھیں!علماء دین یاہر وہ شخص جو سچے من سے اوردل سے دینی علوم کے حصول کیلئے نکلتاہے اورجس کو اس نے شعوری طورپر سمجھاہے( شعوری طورپر کہ شرط اس لئے کہ بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ والدین نے کسی وجہ سے دینی مدرسہ بھیج دیا اوروہ اسی میں لگ گئے اس کو انہوں نے شعوری طورپر اختیار نہیں کیا)اس کا مطمح نظر" مال" نہیں بلکہ "مآل" ہوتاہے اور"معاش" نہیں بلکہ "معاد "ہوتاہے ۔
 
Top