• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جنت اور جہنم بھی ایک دن فنا ہوجائیں گی..؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آپ نے بہت اچھی بات کی ہے ابو فرقان بھائی۔

لیکن اپنی اس بات کی وضاحت کریں۔
اور ہمِں اللہ کے شعار کی قدر کرنی چاہیے،اور جان لینا چاہیے کہ اہل علم بھی اللہ کے شعار میں سے ہیں،
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
بہت افصوس ہوا خاص کر کے اس فورم پر اس طرح کی پوصٹ دیکنھے پر ایک بات صاف ہے جس نے پوصٹ لگائی اس کو انگلش سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔۔ الحمداللہ ڈاکٹر ذاکر نائک اللہ نے ان کوبہت زیادہ عذت بخشی ہے مجھے نہیں لگتا کہ ان سے غلطی ہوئی کلام کرتے وقت اگر مان بھی لی جائے غلطی ہے تو اتنی بڑی نہیں کہ ان پر اس طرح تنقید کی جئے اور جائے ان کے پاس چلے جائے اور ان کو دلائل سے سمجائے اپنا مؤقف اور انہیں سچ مانتے ہوئے زرا بھی دیر نہیں لگے گی۔۔۔۔انشاءاللہ اللہ پوصت والے صاحب کو
ھدایت دے۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
جیسا کہ اسی موضوع کے تحت پہلے بات گزر چکی ہے کہ اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنت اور جہنم باقی رہیں گی فناء نہیں ہوگی ۔
البتہ متأخرین میں سے دو شخصیات کا نام لیا جاتا ہے کہ ’’ نار ‘‘ ( جہنم ) کے فناء ہونے کے قائل ہیں ( البتہ جنت کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں )
ان میں سے ایک ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہیں ان کی طرف یہ موقف منسوب کیا جاتا ہے اور اس مسئلہ میں ایک رسالہ بھی چھپا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ابن تیمیہ کی تصنیف ہے لیکن اس کے باوجود بھی ابن تیمیہ کی طرف یہ نسبت ٹھیک نہیں ہے اس کی تین وجوہات ہیں :
١۔ اس رسالہ کی نسبت خود محقق رسالہ بھی ثابت نہیں کر سکے ۔
٢۔ بالفرض صحت نسبت تسلیم کر بھی لی جائے تو اس میں سوائے فریقین کے دلائل نقل کرنے کے اور کچھ نہیں ہے ۔ مطلب صاحب رسالہ نے اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا ۔
٣۔ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ بقاء النار پر امت کا اتفاق نقل کیا ہے ۔ جس سے ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت ہو جاتی ہے ۔

دوسری شخصیت ابن تیمیہ کے شاگر رشید حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ہیں ان سے اس سلسلے میں تین اقوال منقول ہیں :
١۔ بعض کتابوں میں فناء النار کی طرف مائل ہیں مثلا شفاء العلیل ، الصواعق المرسلہ وغیرہ میں ۔
٢۔ اس سلسلے میں توقف ۔ مطلب بقاء کے قائل ہیں نہ فناء کے ۔ جیساکہ ان کی ( طرف منسوب (عند البعض ) کتاب حادی ألأرواح سے یہ بات سمجھ آتی ہے ۔
٣۔ الوابل الصیب فی الکلم الطیب کے أوائل میں انہوں نے بالجزم یہ بات کہی ہے کہ عصاۃ الموحدین کی آگ فناء ہو جائے گی جبکہ کفار کی آگ باقی رہے گی ۔

بہر صورت یہ تو بات تھی ان دو شخصیات کے موقف کی باقی حق بات یہی ہے جس پر تمام امت کا ان بزرگوں کے زمانے سے قبل اتفاق چلا آر ہا ہے کہ جہنم ان مخلوقات میں سے ہے جو فناء نہیں ہوں گی ۔

صاحب أضواء البیان علامہ محمد أمین شنقیطی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اپنی کتاب ( دفع إیہام الاضطراب عن آیات الکتاب (فی تفسیر سورۃ الأنعام ) خوب انداز اختیار کیا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے کہ جہنمیوں اور جہنم کی اس حوالے سے پانچ سے زیادہ حالتیں نہیں ہو سکتیں :
١۔ جہنم کی آگ ختم ہو جائے اور اہل جہنم عذاب سے بچ جائیں ۔
٢۔ آگ باقی رہے لیکن جہنمیوں کو موت آ جائے اور عذاب سے چھٹکارا پا جائیں ۔
٣۔ جہنم کی آگ باقی رہے لیکن اہل جہنم کو وہاں سےنکال لیا جائے ۔
٤۔ آگ باقی رہے لیکن عذاب میں تخفیف کردی جائے ۔
٥۔ آگ بھی باقی رہے اور اہل جہنم بھی عذاب میں مبتلا رہیں ۔
پہلی چاروں صورتوں کی قرآنی آیات میں نفی موجود ہے نتیجتا صرف آخری پانجویں صورت ہی باقی رہ جاتی ہے ۔
پہلی صورت کی نفی : کلما خبت زدناہم سعیرا
دوسری صورت کی نفی : لا یقضی علیہم فیموتوا
تیسری صورت کی نفی : و ما ہم بخارجین منہا و لہم عذاب مقیم
چوتھی صورت کی نفی : لا یخفف عنہم من عذابہا

نکتہ : جو دلائل فناء نار کے سلسلے میں قائم کیے جاتے ہیں تقریبا اسی طرح کے دلائل جنت کی بقاء کے خلاف ہیں حالانکہ فناء الجنۃ کا موقف کسی نے بھی اختیار نہیں کیا ۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل کتب سے استفاد کیا جا سکتا ہے
١۔ دفع ایہام الاضطراب عن آیات الکتاب
٢۔ رفع الأستار لإبطال أدلۃ القائلین بفناء النار للصنعانی ۔۔ بتحقیق الألبانی


( میری مشارکت میں موجود تمام معلومات ( الا ماشاء اللہ ) ہمارے توحید کے ایک شیخ ہیں دکتور صالح السندی حفظہ اللہ ان کے افادات کا خلاصہ ہیں جزاہ اللہ خیرا )

باقی رہا مسئلہ اہل جنت یا جہنم کی بقاء سے اللہ کی صفت ’’ الآخر ‘‘ سے تعارض آتا ہے کہ نہیں آتا ؟ تو ایسی کوئی بات نہیں اس کی وضاحت یہاں کی بھی جا چکی ہے اور مزید ان شاء اللہ چند دن کے اندر اندر کوشش کروں گا کیونکہ آج کل ہمارے اختبارات چل رہے ہیں ۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے اور بھی بہت ساری مخلوقات ہیں مثلا عرش ، کرسی وغیرہ جن کے باقی رہنے میں تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے ۔ لیکن آج تک کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ اس سے اللہ کی ہمسری لازم آتی ہے ۔
قرآن وسنت کی نصوص پر ایمان لانا ضروری ہے البتہ ان نصوص کا ہم میں سے کسی کی عقل کے مطابق ہونا یا نہ ہونا یہ قطعا ضروری نہیں ۔ کیونکہ عقل کا ظرف انتہائی محدود ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
فنائے نار کے مسئلہ کا ڈاکٹر ذاکر نائک کے فتویٰ سے کیا تعلق ہے ۔
ڈاکٹر صاحب جنت و جہنم دونوں کے فنا کے قائل ہیں۔
اور پھر ہم اجتہاد میں غلطی کا حق بھی اسی کو دیتے ہیں جو علمی اعتبار سے اجتہاد کرنے کے مستحق ہیں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جیسا کہ اسی موضوع کے تحت پہلے بات گزر چکی ہے کہ اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنت اور جہنم باقی رہیں گی فناء نہیں ہوگی ۔
البتہ متأخرین میں سے دو شخصیات کا نام لیا جاتا ہے کہ ’’ نار ‘‘ ( جہنم ) کے فناء ہونے کے قائل ہیں ( البتہ جنت کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں )
ان میں سے ایک ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہیں ان کی طرف یہ موقف منسوب کیا جاتا ہے اور اس مسئلہ میں ایک رسالہ بھی چھپا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ابن تیمیہ کی تصنیف ہے لیکن اس کے باوجود بھی ابن تیمیہ کی طرف یہ نسبت ٹھیک نہیں ہے اس کی تین وجوہات ہیں :
١۔ اس رسالہ کی نسبت خود محقق رسالہ بھی ثابت نہیں کر سکے ۔
٢۔ بالفرض صحت نسبت تسلیم کر بھی لی جائے تو اس میں سوائے فریقین کے دلائل نقل کرنے کے اور کچھ نہیں ہے ۔ مطلب صاحب رسالہ نے اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا ۔
٣۔ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ بقاء النار پر امت کا اتفاق نقل کیا ہے ۔ جس سے ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت ہو جاتی ہے ۔

دوسری شخصیت ابن تیمیہ کے شاگر رشید حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ہیں ان سے اس سلسلے میں تین اقوال منقول ہیں :
١۔ بعض کتابوں میں فناء النار کی طرف مائل ہیں مثلا شفاء العلیل ، الصواعق المرسلہ وغیرہ میں ۔
٢۔ اس سلسلے میں توقف ۔ مطلب بقاء کے قائل ہیں نہ فناء کے ۔ جیساکہ ان کی ( طرف منسوب (عند البعض ) کتاب حادی ألأرواح سے یہ بات سمجھ آتی ہے ۔
٣۔ الوابل الصیب فی الکلم الطیب کے أوائل میں انہوں نے بالجزم یہ بات کہی ہے کہ عصاۃ الموحدین کی آگ فناء ہو جائے گی جبکہ کفار کی آگ باقی رہے گی ۔

بہر صورت یہ تو بات تھی ان دو شخصیات کے موقف کی باقی حق بات یہی ہے جس پر تمام امت کا ان بزرگوں کے زمانے سے قبل اتفاق چلا آر ہا ہے کہ جہنم ان مخلوقات میں سے ہے جو فناء نہیں ہوں گی ۔

صاحب أضواء البیان علامہ محمد أمین شنقیطی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اپنی کتاب ( دفع إیہام الاضطراب عن آیات الکتاب (فی تفسیر سورۃ الأنعام ) خوب انداز اختیار کیا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے کہ جہنمیوں اور جہنم کی اس حوالے سے پانچ سے زیادہ حالتیں نہیں ہو سکتیں :
١۔ جہنم کی آگ ختم ہو جائے اور اہل جہنم عذاب سے بچ جائیں ۔
٢۔ آگ باقی رہے لیکن جہنمیوں کو موت آ جائے اور عذاب سے چھٹکارا پا جائیں ۔
٣۔ جہنم کی آگ باقی رہے لیکن اہل جہنم کو وہاں سےنکال لیا جائے ۔
٤۔ آگ باقی رہے لیکن عذاب میں تخفیف کردی جائے ۔
٥۔ آگ بھی باقی رہے اور اہل جہنم بھی عذاب میں مبتلا رہیں ۔
پہلی چاروں صورتوں کی قرآنی آیات میں نفی موجود ہے نتیجتا صرف آخری پانجویں صورت ہی باقی رہ جاتی ہے ۔
پہلی صورت کی نفی : کلما خبت زدناہم سعیرا
دوسری صورت کی نفی : لا یقضی علیہم فیموتوا
تیسری صورت کی نفی : و ما ہم بخارجین منہا و لہم عذاب مقیم
چوتھی صورت کی نفی : لا یخفف عنہم من عذابہا

نکتہ : جو دلائل فناء نار کے سلسلے میں قائم کیے جاتے ہیں تقریبا اسی طرح کے دلائل جنت کی بقاء کے خلاف ہیں حالانکہ فناء الجنۃ کا موقف کسی نے بھی اختیار نہیں کیا ۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل کتب سے استفاد کیا جا سکتا ہے
١۔ دفع ایہام الاضطراب عن آیات الکتاب
٢۔ رفع الأستار لإبطال أدلۃ القائلین بفناء النار للصنعانی ۔۔ بتحقیق الألبانی


( میری مشارکت میں موجود تمام معلومات ( الا ماشاء اللہ ) ہمارے توحید کے ایک شیخ ہیں دکتور صالح السندی حفظہ اللہ ان کے افادات کا خلاصہ ہیں جزاہ اللہ خیرا )

باقی رہا مسئلہ اہل جنت یا جہنم کی بقاء سے اللہ کی صفت ’’ الآخر ‘‘ سے تعارض آتا ہے کہ نہیں آتا ؟ تو ایسی کوئی بات نہیں اس کی وضاحت یہاں کی بھی جا چکی ہے اور مزید ان شاء اللہ چند دن کے اندر اندر کوشش کروں گا کیونکہ آج کل ہمارے اختبارات چل رہے ہیں ۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے اور بھی بہت ساری مخلوقات ہیں مثلا عرش ، کرسی وغیرہ جن کے باقی رہنے میں تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے ۔ لیکن آج تک کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ اس سے اللہ کی ہمسری لازم آتی ہے ۔
قرآن وسنت کی نصوص پر ایمان لانا ضروری ہے البتہ ان نصوص کا ہم میں سے کسی کی عقل کے مطابق ہونا یا نہ ہونا یہ قطعا ضروری نہیں ۔ کیونکہ عقل کا ظرف انتہائی محدود ہے ۔
اس مضمون پر بھی کچھ روشنی ڈلیں
ابن تیمیہ فنا النار کے قائل تھے جو کہ خالص جہمیہ کا عقیدہ ہے
ابن تیمیہ فناء نار کے قائل ہیں یعنی جہنم آخرکار ختم ہوجائے گی اوراس کو وہ رحمت الہی کا تقاضامانتے ہیں ۔اس کی صراحت حافظ ابن قیم نے حادی الارواح فی بلادالافراح (2/168-228)میں پوری تفصیل کے ساتھ کی ہے اوربات یہیں تک ختم نہیں ہوتی ۔اس پر مشہور اصولی اورفقیہہ محمدبن اسماعیل الامیرالصنعانی نے ابن تیمیہ کی تردیدمیں ایک کتاب لکھی ۔جس کا نام رکھا ہے۔


رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النار
اس کتاب پر مقدمہ مشہور سلفی یاغیرمقلد عالم ناصرالدین البانی نے لکھاہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔


فأخذت في البطاقات نظرا وتقليبا ، عما قد يكون فيها من الكنوز بحثا وتفتيشا ، حتىوقعت عيني على رسالة للأمام الصنعاني ، تحت اسم (رفع الأستار لابطال أدلة القائلينبفناء النار) . في مجموع رقم الرسالة فيه (2619) ، فطلبته ، فإذا فيه عدة رسائل ،هذه الثالثة منها . فدرستها دراسة دقيقة واعية ، لان مؤلفها الإمام الصنعاني رحمهالله تعالى رد فيها على شيخ الإسلام ابن تيمية وتلميذه ابن القيم ميلهما الى القولبفناء النار ، بأسلوب علمي رصين دقيق ، (من غير عصبية مذهبية . ولا متابعة اشعريةولا معتزلية) كما قال هو نفسه رحمه الله تعالى في آخرها . وقد كنت تعرضت لرد قولهماهذا منذ اكثر من عشرين سنة بإيجاز في (سلسلة الأحاديث الضعيفة) في المجلد الثانيمنه (ص 71 - 75) بمناسبة تخريجي فيه بعض الأحاديث المرفوعة ، والآثار الموقوفة التياحتجا ببعضها على ما ذهبا إليه من القول بفناء النار ، وبينت هناك وهاءها وضعفها ،وان لابن القيم قولا آخر ، وهو أن النار لا تفنى أبدا ، وان لابن بيمية قاعدة فيالرد على من قال بفناء الجنة والنار .
وكنت توهمت يومئذ انه يلتقي فيها مع ابنالقيم في قوله الأخر ، فإذا بالمؤلف الصنعاني يبين بما نقله عن ابن القيم ، ان الردالمشار إليه ، انما يعني الرد على من قال بفناء الجنة فقط من الجهمية دون من قالبفناء النار ! وانه هو نفسه - اعني ابن تيمية - يقول : بفنائها ، وليس هذا فقط بلوان أهلها يدخلون بعد ذلك جنات تجري من تحتها الأنهار !
وذلك واضح كل الوضوح فيالفصول الثلاثة التي عقدها ابن القيم لهذه المسالة الخطيرة في كتابه (حادي الأرواحإلى بلاد الأفراح) (2 / 167 - 228) ، وقد حشد فيها (من خيل الأدلة ورجلها ، وكثيرهاوقلها ، ودقها وجلها ، واجري فيها قلمه ، ونشر فيها علمه واتى بكل ما قدر عليه منقال وقيل ، واستنفر كل قبيل وجيل) كما قال المؤلف رحمه الله ، ولكنه أضفى بهذاالوصف على ابن تيمية ، وابن القيم أولي به وأحرى لأننا من طريقه عرفنا راي ابنتيمية ، في هذه المسالة ، وبعض أقواله فيها ، وأما حشد الأدلة المزعومة وتكثيرها ،فهي من ابن القيم وصياغته ، وان كان ذلك لا ينفي انه تلقى ذلك كله أو جله من شيخه(رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارص ۳)

البانی صاحب نے اس پورے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم کے رد میں یہ کتاب لکھی ہے اوراس کتاب میں ان دونوں پر علمی تنقید کی گئی ہےاوریہ کہ ابن تیمیہ کاقول صرف اس قدر نہیں ہے کہ جہنم فناہوجائے گی بلکہ اس کے بعد اس میں اتناضافہ بھی ہے کہ اس کے بعد ان کو یعنی جہنمیوں کو جنت میں میں داخل کیاجائے گا۔


ابن تیمیہ کے تمام دلائل چاہے وہ قوی ہویاکمزور،چھوٹے ہوں یابڑے،تھوڑاہویازیادہ یعنی دلیل کے نام پر جوکچھ بھی انہیں مل سکتاتھا۔اس کو ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی بلاد الافراح میں نقل کردیاہے۔
ابن تیمیہ اورابن قیم کے درمیان فناء نار کے سلسلے میں تھوڑااختلاف ضرور ہے لیکن ہمیں سردست ابن تیمیہ سے بحث ہے۔


امید محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں۔

اعلم أن هذه المسألة اشار إليها الإمام الرازي في مفاتيح الغيب ولم يتكلم عليها بدليل نفي ولا إثبات ولا نسبها إلى قائل معين ولكنه استوفى المقال فيها العلامة ابن القيم في كتابه حادي الأرواح إلى ديار الأفراح نقلا عن شيخه العلامة شيخ الإسلام أبي العباس ابن تيمية فإنه حامل لوائها ومشيد بنائها وحاشد خيل الأدلة منها ورجلها ودقها وجلها وكثيرها وقليلها وأقر كلامه تلميذه ابن القيم (رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارمقدمہ امیرالصنعانی)


جان لو کہ اس مسئلہ کی جانب امام رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں اشارہ کیاہے لیکن اس پر کسی قسم کا کوئی کلام نہیں کیااورنہ ہی اس قول کو اس کے قائل کی جانب منسوب کیا۔لیکن اس بارے میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی دیارالافراح میں اپنے شیخ ابن تیمیہ کے فرمودات کی روشنی میں کیاہے۔اس لئے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ہی سرخیل اورسرفہرست اوراس کے دلائل وبراہین ذکر کرنے والے ہیں اورابن تیمیہ کے کلام کا ابن قیم نے اثبات کیاہے۔
ایک صاحب جن کا نام عبدالکریم صالح الحمید ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ''القول المختار لبیان فناء النار''جس میں البانی پرتنقید کیاہے اورابن تیمیہ کے مسلک کہ جہنم فناء ہوجائے گی اسی کی تائید کی ہے چنانچہ یہ صاحب البانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''اس کتاب کے لکھنے کا باعث یہ ہوا کہ ہم نے دیکھاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن قیم کی کتاب میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے پھر ہم نے کتاب رفع الاستار دیکھی اوروجہ کا پتہ چل گیا۔یہ کتاب جو الالبانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس میں البانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم پر سخت کلام کیاہے اورکہاہے کہ انہوں نے اپنے اس مسلک کیلئے آیات واحادیث میں خواہ مخواہ تکلف اورتاویل سے کام لیا بلکہ البانی نے یہاں تک کہاکہ


معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ جن چیزوں میں عقل کو کوئی دخل نہیں ہے اس میں بھی انہوں نے عقل کی دخل اندازی سے کام لینے کی کوشش کی جیساکہ معتزلہ کرتے ہیں البانی نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ یہ تک کہاکہ معتزلہ اوراشاعرہ نے جن صفات کی تاویل کی ہے وہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ جن آیات واحادیث میں تاویل کی ہے(القول المختار لبیان فناء النار صفحہ 13-14)
اس مسئلہ پر ایک اورصاحب نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے''کشف الاستار لابطال ادعاء فنار النار''اور اس میں کوشش کی ہے کہ کسی طرح یہ ثابت کردیاجائے کہ فناء نار کے ابن تیمیہ قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوشش سعی لاحاصل ہے اورغیرمقلدین کی پرانی عادت ہے کہ جہاں کہیں وہ کسی ایسی بات یاکوئی ایسی کتاب دیکھتے ہیں جوان کے مزعومات کے خلاف ہو تو فوراًاس کا انکار کردیتے ہیں بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ علمی اصول تحقیق کیاکہتاہے۔ یہی کرتب بازی انہوں نے زغل العلم میں بھی دکھائی ہے اورچونکہ حافظ ذہبی نے اس میں ابن تیمیہ پر سخت تنقید کی ہے لہذا ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حافظ ذہبی کی تصنفیات کی فہرست سے یہ کتاب نکال دیاجائے اوراسے مشکوک ثابت کیاجائے ۔


حضرت ابن تیمیہ اورابن قیم کے ا س موقف پر کہ جہنم بالآخر فناہوجائے گی پر ان کے ایک معاصر مشہور فقیہہ اورمحدث تقی الدین سبکی نے بھی رد کیاہے ان کی کتاب کا نام ہے۔"الاعتبار ببقاء الجنۃ والنار"جس میں انہوں نے ان حضرات پر تردید کی ہے جو کہ جہنم کے فناہوجانے کے قائل ہیں۔


ابن تیمیہ ابن قیم کا موقف
حضرت ابن تیمیہ کی ایک تصنیف "الردعلی من قال بفناء الجنۃ والنار"کے نام سے ہے۔اس میں انہوں نے جہنم کے فناء ہونے پر دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ایک دودلیل کو آپ بھی دیکھیں اورپرکھیں۔
حضرت ابن تیمیہ سب سے پہلے کہتے ہیں کہ جہنم کے فناء ہونے کا قول ایساہے کہ اس بارے مین سلف اورخلف میں دوآراء رہی ہیں۔


واماالقول بفناء النار ففیھاقولان معروفان عن السلف والخلف ،والنزاع فی ذلک معروف عن التابعین ومن بعدھم ۔(مقدمہ رفع الاستار ص9)
فناء نار کے بارے میں سلف اورخلف میں دوقول رہے ہیں اوراس بارے میں تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں نزاع رہاہے۔


والرابع : ان النار قیدھابقولھا (لابثین فیہااحقابا)وقولہ (خالدین فیہا الاماشاء اللہ)وقولہ (خالدین فیہامادامت السماوات والارض الاماشاء ربک ) فھذہ ثلاث آیات تقتضی قضیۃ موقتۃ اومعلقۃ علی شرط،وذاک دائم مطلق لیس بموقت ولامعلق۔
چوتھی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں نار کو مذکورہ تین آیتوں سے مقید کیاگیاہے۔ یہ تینوں آیتیں نار کے موقت اورشرط پر معلق ہونے کا تقاضاکرتی ہیں اورجس کی صفت دوام اورمطلق کی ہوتی ہے وہ موقت اورمعلق نہیں ہوتی ہے۔
السادس:ان الجنۃ من مقتضی رحمتہ ومغفرتہ والنار من عذابہ، وقد قال: (نبیء عبادی انی اناالغفور الرحیم وان عذابی ھوالعذاب الالیم) وقال تعالیٰ اعلموا ان اللہ شدید العقاب وان اللہ غفوررحیم)وقال تعالیٰ تعالی(ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفورالرحیم۔ )
فالنعیم من موجب اسمائ
ہ التی ھی من لوازم ذاتہ ،فیجب دوامہ بدوامعانی اسمائہ وصفاتہ واماالعذاب فانما ھو من مخلوقاتہ والمخلوق قد یکون لہ انتھاء مثل الدنیا وغیرھا ،لاسیما مخلوق خلق لحکمۃ یتعلق بغیرہ۔
چھٹی دلیل یہ ہے کہ جنت اللہ کی رحمت اورمغفرت کے تقاضوں میں سے ہے اورجہنم اس کے عذاب کومقتضی ہے۔اوراس کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد آیتوں مین خبردی ہے۔پس نعمت اس کے ان اسماء کے موجبات میں سے ہے جواس کی ذات کو لازم ہے لہذا اس کا دوام اس کے معانی اورصفات کے دوام کے ساتھ ہی متحقق ہوسکتاہے جہاں تک عذاب کی بات ہے تو وہ اس کی مخلوقات مین سے ہے اورمخلوق کی کبھی انتہاء بھی ہوتی ہے جیسے کہ دنیا اوردیگر چیزیں خاص طورپر وہ مخلوق جسے دوسری حکمت کی وجہ سے پیداکیاگیاہو۔


الوجہ السابع: انہ قد اخبر ان رحمتہ وسعت کل شی وانہ "کتب علی نفسہ الرحمۃ"وقال"سبقت رحمتی غضبی "و"غلبت رحمتی غضبی"وھذا عموم واطلاق فاذا قدرعذاب لاآخرلہ ،لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ(مقدمہ رفع الاستار ۱۳)
ساتویں دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کی رحمت ہرچیز پر وسیع ہے اوراس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیاہے اورفرمایاہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لئے ہوئے ہے اورمیری رحمت میرے غضب پر غالب ہے اوریہ تمام عموم اوراطلاق کےساتھ وارد ہواہے پھراگرکوئی عذاب ایساہو جس کی کوئی انتہاء نہ ہوتو یہاں رحمت کا قطعی تحقق نہ ہوگا۔


البانی کا موقف



البانی نے ابن تیمیہ پر اس مسئلہ پر تنقید کرتے ہوئے رفع الاستار میں جوکچھ بھی لکھاہے وہ پیش خدمت ہے۔ابن تیمیہ کی جوساتویں دلیل تھی کہ اگرلانہایہ عذاب ہوتو رحمت کا تحقیق نہیں ہوگا۔ اس پر البانی صاحب فرماتے ہیں


فکیف یقول ابن تیمیۃ :ولوقدرعذاب لاآخر لہ لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ فکان الرحمۃ عندہ لاتتحقق الابشمولھا للکفار المعاندین الطاغین !الیس ھذا من اکبرالادلۃ علی خطا ابن تیمیۃ وبعدہ ھو ومن تبعہ عن الصواب فی ھذہ المسالۃ الخطیرۃ !فغفرانک اللھم !
کہ ابن تیمیہ کیسے اس کے قائل ہیں کہ اگر جہنم فناء نہ ہوتو رحمت الہی کا تحقق نہیں ہوگا۔گویاکہ رحمت کا ثبوت جبھی متحقق ہوگا جب اس میں کفار اورسرکشوں کو بھی شامل کیاجائے اورکیایہ ابن تیمیہ اوراس مسئلہ میں ان کی پیروی کرنے والے کی غلطی کا اثبات نہیں ہے جو اس خطرناک مسئلہ میں ان کی پیروی کررہے ہیں۔اس کے بعد البانی صاحب نے یہ تاویل کرنی چاہی ہے کہ یہ ان کے ابتدائے حال کا اورسن شباب کا واقعہ تھا جب کہ ان مطالعہ کتاب وسنت میں وسیع نہیں تھا اورادلہ شرعیہ میں انہیں مہارت حاصل نہیں تھی (بعض لوگ اسی عمر مین انہیں مجتہد ماننے پر بضد ہیں)


ولعل ذلک کان منہ ابان طلبہ للعلم،وقبل توسعہ فی دراسۃ الکتاب والسنۃ،وتضلعہ بمعرفۃ الادلۃ الشرعیۃ ۔(مقدمہ رفع الاستارص25
یہ تاویل کئی وجوہ کی بناء پر باطل ہے لیکن اس کی تفصیل ہم کسی اوروقت کیلئے اٹھاکر ررکھتے ہیں ۔


یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان میں 2/334میں مذکور ہے۔
لنک
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
اس مضمون پر بھی کچھ روشنی ڈلیں
آپ نے میرا جو اقتباس نقل کیا ہے ، اس میں سب وضاحت موجود ہے ، اس سے زیادہ میرے پاس اس موضوع پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ۔
 
Top