• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حدیث سبعۃ أحر ف متشابہات میں سے ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا حدیث سبعۃ أحر ف متشابہات میں سے ہے؟

شیح القراء قاری محمد طاہر رحیمی​
حدیث سبعۃ أحرف کے بارے میں متجدِّدین کے ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہ ’متشابہات‘ میں سے ہے، لہٰذا اس حدیث کی بنیادپرثابت ہونے والی قراء ات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس مسئلہ کے علمی جائزہ کے لیے ہم محقق عالم دین اور فن قراء ات کے نامور استاد مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کی زیر نظر تحریر کو ہدیہ قارئین کر رہے ہیں، جس میں انہوں نے سبعۃ أحرف کے ضمن میں وارد شدہ متعدد روایات کو پانچ متنوع اقسام کے تحت جمع فرما دیا ہے، جس سے جہاں سبعۃ أحرف کے مفہوم میں موجود الجھنیں ختم ہوتی ہیں، وہیں اس دعوی کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ یہ حدیث ’متشابہات‘ میں سے ہے۔ موصوف کی شخصیت کا امتیاز ہے کہ وہ علمی پختگی اور محدثانہ ذوق کے حامل تھے اور علم قراء ات کے بارے میں اُردو دان طبقے کے لئے ان کی خدمات اس قدر عالیشان ہیں کہ انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے کہ مصنف کی یہ مفید تحریر حضرت مولانا عبد الشکور ترمذی رحمہ اللہ کی حالات زندگی پر مرتب شدہ کتاب ’حیات ترمذی‘ سے اخذ کی گئی ہے، جس کا اصل نام تو’ضیافت مدینہ‘ تھا، لیکن موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے ہم اسے’کیا حدیث سبعۃ أحرف متشابہات میں سے ہے؟‘ کے عنوان سے شائع کررہے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درحقیقت سبعہ اَحرف کے متعلق پانچ طرح کی اَحادیث وارد ہوئی ہیں:
اوّل:وہ اَحادیث جن میں سبعہ احرف بمعنی ’سبعہ معانی آیاتِ قرآنیہ‘ ہے،یہ وہ اَحادیث ہیں جن میں’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف لکل آیۃ منہا ظہرٌ وبطنٌ ولکل حدٍّ مطلعٌ‘‘کے الفاظ وارد ہوئے ہیں (جیساکہ شرح السنۃ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودرحمہ اللہ سے یہ حدیث مرفوعا مروی ہے بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح:۱؍ ۳۵ کتاب العلم الفصل الثانی)مقصد یہ ہے کہ ہر آیت کے سبعہ معانی ہیں:
(١) ظاہری لغوی معنیٰ (٢)باطنی تفسیری مقصودی معنی
(٣) اَسرار ونکات ِبلاغت (٤) خواص وکیفیات
(٥) فوائد ومعارف (٦) اَحکام مستنبطہ
(٧) مسائل سلوک مستنبطہ جن میں سے بعض ظاہری ولغوی اور بعض باطنی تفسیری، اسرار،خواص،فوائد معارف وغیرہ ہیں، پھر ظاہری وباطنی دونوں میں سے ہر ایک کے لئے اس کی حد تک ایک مقامِ ادراک اور آلۂ وذریعۂ معرفت ہے کہ ظاہری معنی کا مقام ادراک ’ادب عربی‘ ہے اور باطنی تفسیری کا مقام اِدراک ’حدیث وبیان نبوی ہے۔ اور اس تفسیری معنی کے توابع(اسرار بلاغت،خواص وکیفیاتِ آیات،فوائد معارف ،احکام فقہ، مسائل سلوک) کا مقام اِدراک یہ ہے کہ کسی مردِ کامل کے سامنے پامال ہو کر ’ریاضت‘ کے ذریعہ غرور وپندار اور خود بینی سے ’نفس کا تزکیہ‘ کیا جائے پھر ’تقویٰ وطہارت اورقرب خداوندی ‘ کے نتیجے میں خاص وہبی علوم ومعارف اور الہامی وَلَدُنّی مواہب وعطایائے ربانیہ دریچئہ غیب سے حاصل کی جائیں،بالخصوص کیفیاتِ آیات مثلاً یہ کہ عذاب کے موقع پر دل لرزاں وترساں ہو جائے اس کا ذریعۂ حصول یہ ہے کہ اولاً تلاوت کے انوار واَحوال وآثار سے اعضائے بدن پر کپکپی طاری ہو جائے پھر ثانیاً دل خشیت وخشوع کے غلبہ سے لرز اٹھے اور اس پر رقت کی خاص وجدانی کیفیت طاری ہو کر گریہ غالب آجائے جو دراصل باطنی انقلاب کا عنوان ہے نیز یہ کہ تلاوتِ قرآن سے عجب وخود پسندی اور خواہشِ نفسانی سلب ہوکر اس پر یقین وعجز کا نتیجہ مرتب ہو جائے ، کما قال اللہ تعالیٰ:
’’تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَّقُلُوبُہُمْ إلٰی ذِکْرِ اﷲِ‘‘ (الزمر:۲۳)
’’کتاب اللہ کی عظمت سے ان لوگوں کی کھالیں لرز کر ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل یعنی قلب وقالب دونوں اللہ کی یاد کے سامنے نرم پڑ جاتے ہیں اور جھک جاتے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوم:وہ اَحادیث جن میں سبعہ ابواب جنت سے ’سبعہ انواعِ مضامین‘ پر نزول قرآن کا تذکرہ ہے، ان اَحادیث میں سبعہ احرف بمعنی سبعہ انواعِ مضامین قرآن ہے، مثلاً حدیث ابن مسعودرضی اللہ عنہ مرفوعا:
’’إن الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد ونزل القرآن من سبعۃ أبواب علی سبعۃ أحرف زاجر وآمر وحلال وحرام ومحکم ومتشابہ وأمثال‘‘ (تفسیر الطبری: ۱ ؍۵۳)
یعنی پہلی کتب سماویہ صرف ایک ایک جنتی دروازے سے صرف ایک ایک مضمون پر ہی مشتمل ہو کر نازل ہوئی ہیں (مثلا زبور میں صرف تذکیر وموعظت کا اور انجیل میں صرف مجد وثناء باری کا ذکر تھا) لیکن قرآن کریم سات جنتی دروازوں سے سات قسم کے مضامین پر مشتمل ہو کر نازل ہوا ہے، وہ یہ ہیں:
(١) ترک منہی (٢) علم بالأمر
(٢) تحلیلِ حلال (٤) تحریمِ حرام
(٥) علم بالمحکم (٦) إیمان بالمتشابہ
(٧) اتّعاظ بالأمثال
اسی قسم کا قول حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ موقوفاً بھی مسند احمد: ۱؍۴۴۵ میں منقول ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوم:وہ اَحادیث جن میں ابتداء ً تسہیل اُمت کے لئے ’سبعہ کلمات مترادفات‘ کے مطابق قراء تِ قرآن کی اِجازت کا تذکر ہ ہے، لیکن بعد میں یہ اجازت عرضۂ اَخیرہ سے بھی قبل منسوخ وموقوف ہو گئی اب قراء تِ بالمترادفات کی قطعٰاً ممانعت ہے۔ یہ وہ اَحادیث ہیں جن میں ہلُّمَ، تَعَال،أَقْبِل وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے نزدیک جو ’سبعہ احرف‘ بمعنیٰ’ سبعہ کلمات ولغات مترادفات‘ ہے ان کے اس قول کا مصداق اسی قسم کی اَحادیث کو قرار دینا ضروری ہے۔ ’سبعہ احرف‘ بمعنی سبعہ مترادفات والی چند اَحادیث حسب ذیل ہیں:
(١) حدیث ابی بکرۃرضی اللہ عنہ مرفوعا: أن جبرائیل علیہ السلام قال: یا محمدﷺ إقرأ القرآن علی حرف قال میکائیل علیہ السلام استزدہ قال: أقرأہ علی حرفین قال میکائیل علیہ السلام استزدہ فاستزادہ حتی بلغ سبعۃ أحرف قال: کل شافٍ کافٍ آیۃ عذاب برحمۃ أو آیۃ رحمۃ بعذاب، نحو قولک تعال وأقبل وہلم و اذہب وأسرع وعجل (مصنف ابن أبی شیبۃ والطبری والطبرانی واللفظ لأحمد، مسند احمد:۵؍۵۱ المطبعۃ المیمنیۃ)
’’حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: اے محمدﷺ! قرآن کو ایک حر ف پر پڑھیے حضرت میکائیل علیہ السلام نے عرض کیا زیادتی کا مطالبہ فرما لیجئے۔چنانچہ حضور علیہ السلام نے زیادتی کا مطالبہ فرمایا ،جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا دو حروف پر پڑھیے، میکائیل علیہ السلام نے دوبارہ عرض کیا۔مزید کا مطالبہ فرما لیجئے چنانچہ آپﷺنے مطالبہ فرمایا اسی طرح ہوتا رہا حتی کہ سات احر ف تک نوبت پہنچ گئی، جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یہ سب کافی وشافی ہیں جب تک کہ آپ عذاب والی آیت کو آیتِ رحمت کے ساتھ یا رحمت والی آیت کو آیت ِ عذاب کے ساتھ تبدیل نہ فرمائیں گے اور ان سبعہ احرف کی مثالیں یہ ہیں تَعَال،أَقْبِل،ہَلُمَّ ،اذْہَبْ،أَسْرِع، عَجِّل (سب کا مفہوم واحد ہے) ‘‘
(٢) قول ابن مسعودرضی اللہ عنہ:کقول أحدکم ہلم وتعال (تفسیرالطبری:۱؍۴۵)
(٣) أثر ابن عباس رضی اللہ عنہما :أن أبي بن کعب کان یقرأ کلما أضاء لہم مشوا فیہ مروا فیہ سعوا فیہ (تفسیر القرطبی:۱؍۳۲)
(٤) أثر ابن عباس رضی اللہ عنہما أیضا: أن أبي بن کعب کان یقرأ للذین آمنوا انظرونا للذین آمنوا أمہلونا للذین امنوا أخرونا للذین آمنوا ارقبونا (حوالہ بالا)
(٥) أثر أنس بن مالک رضی اللہ عنہ: قرأ إن ناشئۃ اللیل ہي أشد وطأ وأصوب قیلاً ’’فقیل لہ:إنما نقرأ ’وأقوم قیلا‘ فقال أنس: ’وأصوب قیلا‘ ’ وأقوم قیلا‘ ’وأہیا قیلا‘ واحدٌ(تفسیر القرطبی:۱؍۳۶)
(٦) جن احادیث میں ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف علیماً حکیما غفورًا رحیماً‘‘ (مصنف ابن أبی شیبۃ،طبری،أحمد من حدیث أبی سلمۃ عن أبی ہریرۃ) وارد ہوا ہے ان کا بھی ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ابتداء اسلام میں اسماء الٰہیہ کی تبدیلی کی اجازت تھی جو بعد میں موقوف ہو گئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چہارم: وہ احادیث جن میں تسہیل اُمت ہی کے لئے سبعہ احرف بمعنیٰ’سبعہ لغاتِ عرب‘ پر نزولِ قرآن کا تذکرہ ہے جنہیں قراء واہل فن اپنی اصطلاح میں ’اصول ‘ اور ’فروش کلیہ‘ سے تعبیر کرتے ہیں(مثلا امالہ نجد میں تمیم قیس کا اور فتح حجازکا لغت ہے۔ فُعْلٌ میں عین کلمہ کا ضمہ حجازی اور سکون تمیمی اَسدی قیسی لغت ہے۔ ضَعف میں ضاد کا فتحہ تمیمی اورضمہ حجازی واسدی لغت ہے۔ حتّٰی کی بجائے عتّٰی ہذیل کا لغت ہے۔ تعلمون،اعہد وغیرہ میں علامتِ مضارع کاکسرہ اسدی لغت ہے ، ہمزۂ ساکنہ کاابدال قریشی اور اس کی تحقیق تمیمی لغت ہے ، لمبی تا رحمت، نعمتَ وغیرہ پر وقف بالہاء قریشی اور وقف بالتا بنی طے کا لغت ہے، بِزَعْمِہِم میں زا کا فتحہ حجازی اور ضمہ اسدی لغت ہے ، یَقْنَطُ میں نون کا فتحہ عام اہل نجد کا او ر کسرہ اہل حجاز واسد کا لغت ہے ، مَنْ یرتَد میں اسی طرح ادغام تمیمی اورمَنْ یَرْتَدِد بالاظہار حجازی لغت ہے، خُطُوٰت میں طا کا ضمہ حجاز و اسد کا اور سکون تمیم وبعضِ قیس کا لغت ہے قیل وغیرہ میں اشمام عقیل اسد قیس کا اور خالص کسرہ قریش وبنی کنانہ کا لغت ہے ، یاآت زوائد مثلاً یوم یأت لا تکلم اور وَجْہِیَ ﷲِ وَمَنِ اتَّبع نے وغیرہ میں یا کا اثبات حجازی او رحذف ہذلی لغت ہے، یٰأیُّہ السّٰحرُ وغیرہ میں ہا کا ضمہ بنی اسد کا لغت ہے ، بزِعمہم میں زا کا کسرہ بعض بنی تمیم وقیس کا لغت ہے ، یَقْنُط میں نون کا ضمہ بھی بعض تمیم وقیس کا لغت ہے( جو باب نَصَرَ سے ہے) قیل کی بجائے قُولَ بنی فقص کا لغت ہے ، ردّوا ،ردّت میں را کاکسرہ اور غیر اٰسن کی بجائے غیر یاسن بنی تمیم کا لغت ہے ، علیٰ ہذا : ماہذا بشرا بلغت ِ ہذیل ،انّ کی بجائے عنّ بلغتِ تمیم ،اعطٰی کی بجائے انطی بلغتِ سعد بن بکر وہذیل وغیرہ، أنک کی بجائے عنک بلغتِ قیس و اسد (وغیر ذلک )
یہ وہ اَحادیث ہیں جن میں یہ تذکرہ ہے کہ حضور اقدسﷺنے تخفیف وتسہیل اُمت کی غرض سے بار بار حضرت جبرائیل علیہ السلام کودربار الٰہی میں واپس بھیجا اور مزید حصولِ تخفیف کی دعاء ودرخواست فرمائی اور اولا جبرائیل امین علیہ السلام ایک حرف کی پھر دوحرف ولغات کی اس کے بعد تیسری مرتبہ میں سبعہ احرف بمعنی سبعہ لغات ولہجاتِ عرب کی اجازت لے کر آئے مثلا: یا أبي أرسل إلی أن أقرأ القرآن علی حرف فرددت إلیہ أن ہوّن علی أمتی فرُدَّ إلیّ الثانیۃ اقرأہ علی حرفین فرددت الیہ أن ہوّن علی أمتي فرد إلیّ الثالثۃ اقرأہ علی سبعۃ أحرف (صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ المسافرین باب بیان أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، نیز نسائی ، طبری، مسند أحمد ،مسند أبي داؤد الطیالسی، سنن البیہقي)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نیزیہ وہ اَحادیث ہیں جن میں مطلق ’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘ کے الفاظ کے بعد کلہا شافٍ کافٍآیا ہے (مثلاً مسند کبیر ابی یعلی میں حدیث سیارہ بن سلامہ عن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما) یاأیّہا قرأت أجزاک کے الفاظ وارد ہوئے ہیں(مثلا مسند احمد میں حدیث اُم ایوب الانصاریۃ رضی اللہ عنہا) اہل عرب کو سہولت وآسانی کے لئے قرآن کریم کو نقل وروایت اورتلقی ومشافہت کی روشنی میں سات لہجات ولغات میں قراء ت کرنے کی اجازت دی گئی کہ ان سات لغات والے قبائل میں سے ہر قبیلے کو اپنے لغت کے مطابق تلاوت کرنے کی اجازت ورخصت دے دی گئی۔ امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق وہ سات لغات یہ ہیں:
(١)قریش (٢)ہذیل (٣)ثقیف (٤)ہوازن (٥)کنانہ (٦)تمیم
(٨)یمن اوربقول ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ سات لغات یہ ہیں:
(١)قریش (٢)خزاعہ (٣)سعدبن بکر (٤)جشعم بن بکر (٥)نصر بن معاویہ (٦)ثقیف (٧)بنی درام(فضائل القرآن للامام أبی عبید :ص۲۰۴)
قرآنی چیلنج ہر لغت والے کو تھا، لغاتِ عرب سب کی سب بالجملہ ایک ہی’لسان عربی‘ کی مصداق تھیں، سات لغات سے قرآن کریم پورے عرب کے لئے آسان ہو گیا، بلا اجازت سبعہ احرف دعوت اسلامیہ کامیاب نہ ہو سکتی تھی،نیز مختلف لغات و قرا ء ات سے قرآنی معجزہ کا اظہار ہوتا ہے کہ باوجود لفظی اختلاف کے باہم تخالف نہیں پایا جاتا۔ سبعہ لغات پر نزول قرآن ’’وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ‘‘ ،’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘’’لَا یُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا إلَّا وُسْعَہَا‘‘، ’’وَمِنْ آیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضِ وَاخْتِلَافُ ألْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ‘‘ ان آیات قرآنیہ کے بمصداق ہوا۔ اُمیت (ناخواندگی ونانوشتگی) عرب کا مشہور وصف تھا ،اُمیین کے لئے بالخصوص ایک حرف ولغت کی پابندی میں زیادہ مشقت کا سامنا ہوتا لہٰذا سبعہ لغات واحرف کی اجازت دی گئی ۔ اسی طرح سن رسیدہ مردوں عورتوں اورصغیر السن بچوں بچیوں کے لئے بھی ایک لغت کی پابندی کی صورت میں دشواری دو چند ہو جاتی اس وجہ سے بھی صغیر وکبیر عرب امیین کی سہولت کے لئے ان کی لغات کے اختلاف وتفاوت کی رعایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے سبعہ احرف ولغات عربیہ متعددہ مختلفہ کی اجازت دے دی گئی جس سے یہ غرض مقصود بدرجۂ اتم پوری ہوگئی کہ کم سے کم عرصے میں روئے زمین پر قرآنی قانون نافذ وشائع ہوکر فساد کا قلع وقمع ہوجائے۔ ابومحمد عبد اللہ بن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی’’کتاب المشکل‘‘ میں کہتے ہیں :
’’حق تعالیٰ نے آسانی عطا کرنے کے لئے اپنے پیارے نبیﷺکو حکم دیا کہ اپنی امت کو ان کی زبان اور عادت (ولغت)کے موافق الفاظ میں قرآن پڑھائیں چنانچہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) ہذیل حتّٰی کے بجائے عتّٰی بولتے ہیں۔
(٢) اسدی تِعلَمُوْنَ ،تِعلَمُ ،وَتِسْوَدُّ وُجُوْہٌ اورألَمْ إِعْہَدْ إِلَیْکُمْ میں علامت مضارع کوکسرہ سے ادا کرتے تھے ۔
(٣) بنی تمیم یُؤمِنُوْنَ ،شِئْتَ ،کَدَأب وغیرہ میں ہمزہ پڑھتے تھے۔
(٤) اور قریش ابدال کرتے تھے۔
(٥) بعض عرب قِیْلَ لَہُمْ اورغِیْضَ الْمَآئُ میں کسرہ کا ضمہ سے
(٦) اوربِضَاعَتُنَا رُدَّت میں را کے ضمہ کاکسرہ سے اشمام کرتے تھے۔
(٧) اور مَالَکَ لَا تَأمَنَّا میں ادغام اور ضمہ کااشمام کرتے تھے۔
(٨)بعض عرب علیہم، فیہم بضمۂ ہا
(٩) اوربعض علیہمو، منہمو صلۂ ضمہ سے پڑھتے تھے۔
(١٠) بعض قد أفلح ،قل أوحی، خلوا إلی میں نقل کرتے تھے۔
(١١) بعض حضرات موسی، عیسی، اور الدنیِا اما لہ محضہ سے
(١٢) اوربعض تقلیل (چھوٹے امالے) سے پڑھتے تھے
(١٣) بعض عرب خبیرا اوربصیرا کو ترقیق را سے
(١٤) اوربعض الصّلوٰۃ اورالطلاق کو لام کی تفخیم سے پڑھتے تھے۔
ابن قتیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اگر ان حضرات میں سے کوئی گروہ یہ چاہتا کہ وہ اپنے لغت کو، اپنی بچپن او رجوانی اور کبر سنی کی پڑی ہوئی عادت کو چھوڑ دے اورکوئی دوسرا لغت اختیار کرے تو اس میں اس کو بڑی دشواری پیش آتی اور انتہائی محنت اٹھانی پڑتی اورعرصے تک مشق کرنے اورزبان کو مسخر کرنے اورعادت کو ترک کرنے کے بعد یہ ممکن ہوتا اس لیے حق سبحانہ وتعالیٰ نے جس طرح اس امت کو’دین کے احکام ‘ میں آسانی دی تھی اسی طرح اپنے لطف وانعام سے قرآن کے لغات اور اس کی حرکات وسکنات میں بھی وسعت اورمتعدد طرق سے پڑھنے کی اجازت عطا فرما دی۔‘‘ (النشر الکبیر:۱؍۲۲،۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سبعہ احرف پر انزال قرآن کی اَجَلَّ حکمت اور اَہَمَّ غرض یہ ہے کہ تلاوت ِ قرآن کی بابت عرب پر تیسیر وآسانی پیدا کر دی جائے ۔ احرف سبعہ پر انزال قرآن منجانب اللہ امت محمدیہ پر توسع ورحمت اورتخفیف وتیسیر کا معاملہ ہے، کیونکہ اگر عرب کا ہر قبیلہ فتح و امالہ ،تحقیق وتخفیف ،مد وقصر وغیرہ کے متعلق اپنی عادی وطبعی لغت کو چھوڑ کر چارو ناچار دوسرے قبیلہ کے لغت کے موافق پڑھنے کا مکلف قرار دیا جاتا تو اس میں بہت مشقت وتنگی لازم آتی۔‘‘(البرہان في علوم القرآن للزرکشی:۱؍۲۲۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پنجم:وہ اَحادیث جن میں’’سبعہ احرف بمعنیٰ سبعہ انواع اختلافاتِ قراء ت‘‘ پر نزول قرآن کا تذکرہ ہے جن کو قراء واہل فن اپنی اصطلاح میں’جزوی فرش الحروف‘ سے تعبیر کرتے ہیں،یہ وہ اَحادیث ہیں جن میں جزوِ غالب کے طور پر مختلف قراء ات اورمخصوص فرشی اختلافات کی بابت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے باہم مخاصمۂ ونزاع کا اور پھر سبعہ احرف پر نزول ِ قرآن کے حوالے سے ہر صحابی کی قراء ت کے متعلق فرمان نبویﷺ ’’قد أحسنتَ‘‘ ’’ کذلک انزلَت‘‘ ’’قد أصبتَ‘‘ وغیرہ کا بیان ہے،مثلاً سورۂ فر قان کی مختلف قراء آت جَنَّۃٌ نَّاکُلُ ،تَشَّقَّقُ،سُرُجاً اورجَنَّۃٌ یَّأکُلُ، تَشَقَّقُ،سِرَاجًا۔ کی بابت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اورحضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے مابین مخاصمۂ ونزاع والی حدیث میں دونوں حضرات کا اختلاف وتنازع، فرشی اختلافات مخصوصہ کے بارے میں ہوا تھا(لغات کا اختلاف اس لیے نہ تھا کہ دونوں ہی حضرات قریشی تھے)اورحضور اقدسﷺنے سب ہی قراء ات واختلافات اور فرش الحروف کی تصدیق وتصویب فرمائی تھی۔(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اﷲ عزوجل فاقرؤا ما تیسر من القرآن، کتاب فضائل القرآن باب أنزل القرآن علی سبعۃ احرف، صحیح مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین باب بیان أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف، جامع الترمذی ابواب القراآت باب ما جاء أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ،سنن النسائی کتاب الافتتاح ،باب جامع ما جاء فی القراء ۃ، سنن ابوداؤد:کتاب الوتر ،باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)
وغیر ذلک۔ان احادیث میں سبعہ احرف کامصداق ’’جزوی ومخصوص فرش الحروف کی سبعہ انواعِ اختلافِ لفظی وقراء تی ‘‘ ہیں۔
’حر ف ‘ کے اصل معنیٰ’وجہ‘ اور ’نوع‘ کے ہیں اوریہاں قراء ت وتلفظِ الفاظ قرآنیہ کی سات اوجہ وانواع مراد ہیں جو بقول علامہ محقق ابن الجزری رحمہ اللہ الحصن الحصین حسب ذیل ہیں:
(١) تغیر حرکت مع اتحاد المعنی أفٍّ، أفِّ ، یَحْسَبُ ،یَحْسِبُ
(٢) تغیر حرکت مع اختلاف المعنی وَقَدْ أخَذَ مِیثَاقَکُم، وَقَدْ أخِذَ مِیثَاقَکُمْ، وَاتَّخِذُوا ،وَاتَّخَذُوا
(٣) تغیرحرف مع اتحاد المعنی (بصطۃ ،بسطۃ)
(٤) تغیر حرف مع اختلاف المعنیٰ دون الکتابۃ(تَبْلُوا، تَتْلُوا)
(٥) تغیر حرف مع اختلاف المعنی والکتابۃ جمیعاً (أشَدّ مِنہُمْ، أشَدّ مِنکُمْ)
(٦) تقدیم وتاخیر (وَقَٰتَلُوا وَقُتِلُوا، اور وَقُتِلُوا وَقَٰتَلُوا)
(٧) زیادت ونقص حرف (وَمَا عَمِلَتْہُ، وَمَاعَمِلَتْ) اس اختلاف لفظی وقراء تی کی توجیہ یہ ہے کہ چند مخصوص حروف وکلماتِ قرآنیہ کوکتاب اللہ کی اعجازی شان کی اظہار کی غرض سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بطور تنوّع وتفنن یعنی ایک ہی مضمون کو مختلف پیراؤں سے تعبیر کرنے کے لحاظ سے مختلف کیفیات بیان وصیغ تعبیر کے مطابق نازل فرمایا ہے جن کی تعلیم حضور اقدسﷺکوجبرائیل امین علیہ السلام نے رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ان مختلف ومتعدد دوروں میں دی جوہر رمضان المبارک میں وہ حضورﷺکے ساتھ کیا کرتے تھے مثلا ووصیٰ بہا، وأوصیٰ بہا ، لئن أنجٰنا، لئن أنجیتنا ، ولا تُسْئل ، ولا تَسْئل وغیر ذٰلک۔
اور ظاہر ہے کہ ایک ہی مضمون ومقصد کو مختلف پیراؤں میں بیان کرنا علم فصاحت وبلاغت اورعلم بیان کی خوبیوں میں سے ہے لہٰذا قرآن کریم کو ایسی خوبیوں سے بھی خالی نہیں رکھا گیا ۔ پھر حدیث سبعہ احرف کے علاوہ ایسے فرش الحر وف کی بابت بعض دیگر جزوی وارد روایات واحادیث بھی ثابت ہوئی ہیں جو سنن ابی داؤد اورجامع الترمذی کے ابواب القراآت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں مثلاً مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ، تَغْفِرْلَکُمْ خَطیٰکُمْ، والعینُ بالعین، ہَلْ تَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ، فَلْتَفْرَحُوْا ، ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا تَجْمَعُون ، إنَّہٗ عَمِلَ غَیرَصالحٍ ، فِی عَیْنٍ حَامِیَۃٍ ، فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ، لَا یُعَذَّبُ عَذَابَہُ، ولا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗ۔
یہ تمام فرش الحروف اورقراء ات مختلفہ ،جزوی احادیث وروایات سے بھی ثابت ہیں۔اوریہ اختلاف ،لغات واصول اورفروش کلیہ کے علاوہ غیبت وخطاب سے ،توحید وجمع ،تبدل حروف حرکات ،تفنن تعبیرات اورتنوع تراکیب نحویہ وغیرہ کے لحاظ سے ان فرش الحروف اورجزوی اختلافات کے اعتبار سے ہے جو اعجاز قرآنی وتفنن عبارات کی خوبی کے موافق متعدد وجوہ اورمختلف طرق بیان کی شکل میں مستقلاً نازل ہوئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مختلف قرا آت کی متنوع ومعجزانہ توجیہات وتعبیرات کی چند مثالیں:
٭مثال نمبر۱: بقرۃ رکوع نمبر۲ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ میں دو قراء تیں ہیں۔ ایک اسی طرح بابِ ضَرَبَ سے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’منافقین کے لئے دردناک عذاب ہے بسبب اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے‘‘ دوسری بِمَا کَانُوْا یُکَذِّبُوْنَ باب تفعیل سے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’بسبب اس کے کہ وہ جھٹلاتے بھی تھے۔ فیا سبحان اﷲ!
٭مثال نمبر۲: بقرہ رکوع نمبر۴ فَأزَلَّہُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْہَا میں دو قراء تیں ہیں۔ ایک اسی طرح فَاَزَلَّہُمَا ازلال سے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اورحوا علیہا السلام دونوں کو جنت سے پھسلا دیا ‘‘ دوسری فَاَزَالَہُمَا ازالہ سے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’شیطان نے ان دونوں کو جنت سے ہٹا دیا او ردور کر دیا۔ پس ان کی اس عیش سے نکال دیا جس میں وہ تھے‘‘ ظاہر ہے کہ پھسلانے کے نتیجے ہی میں دونوں کو جنت سے نکالا گیا لہٰذا دونوں قرا ء توں کی تعبیرات کاحاصل مفہوم ایک ہی ہو۔ا فیاسبحان اللہ!
 
Top