• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حدیث سبعۃ أحر ف متشابہات میں سے ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭دلیل نمبر۵:کان القرشیون یستملحون ماشائُ وْا ویصطفون ما راق لہم من الفاظ الوفود العربیۃ القادمۃ إلیہم من کل صوب وحدب ثم یصقلونہ ویہذبونہ ویدخلونہ فی دائرۃ لغتہم المرِنۃ التی اذغن جمیع العرب لہا بالزعامۃ وعقدوا لہا رایۃ الامامۃ وعلیٰ ہذہ السیاسیۃ الرشیدۃ نزل القرآن علی سبعۃ أحرف یصطفیٰ ماشاء من لغات القبائل العربیۃ علی نمط سیاسۃ القرشیین بل أوفق،ومن ہنا صحّ أن یقال أنہ نزل بلغۃ قریش لأن لغات العرب جمعاء تمثَّلت فی لسان القرشیین بہذا المعنی (مناہل العرفان:۱؍۱۳۹،۱۴۰)
’’قریش کے لوگ موسمِ حج اورعرب کے بازاروں میں نشیب وفراز سے آنے والے وفود عرب کے الفاظ میں سے جن الفاظ کو ملیح ولطیف سمجھتے ان کاچناؤ کر لیتے تھے اور پھر مزید تنقیح وتہذیب کے بعد انہیں اپنی اس مسلَّمہ متفقہ ٹکسالی لغت کے دائرہ میں شامل کر لیتے جس کی مقتدائیت سب عر ب کے یہاں مسلَّم تھی ، اسی سیاست راشدہ کے موافق قرآن کریم سبعہ احرف پر نازل ہوا، قرآن نے قریشیوں کی سیاست کے اندازے سے کہیں اونچے معیار پر قبائل عرب کی لغات میں سے جو لغات چاہیں منتخب کر لیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بناء پر یہ کہنا یقینا صواب وحق ہے کہ ’’قرآن لغت قریش پر نازل ہوا ہے‘‘ کیونکہ اس نکتے کی روشنی میں کل عرب کی سب لغتیں قریشیوں کی ایک ہی لغت میں متشخص ومجتمع ہو گئی تھی۔ ‘‘
٭دلیل نمبر۶:ولا یغیبن عن بالک أن ہذہ اللغات کلہا تمثّلت فی لغۃ قریش باعبتار أن لغۃ قریش کانت المتزعمۃ لہا والمہیمنۃ علیہا ولآخذۃ منہا ما تشاء مما یحلولہا ویرِقّ فی ذوقہا ثم یأخذہ الجمیع عنہا حتی صح أن یعتبر لسان قریش ہو اللسان العربی العام وبہ نزل القرآن (مناہل العرفان:۱؍۱۷۴)
’’اس بات سے آپ کی توجہ ہر گزنہ ہٹنے يپائے کہ لغت قریش جملہ لغات عرب کی قائد ومحافظ تھی، دوسری لغات کے جن الفاظ میں اہل قریش مٹھاس پاتے اور ان کے ذوق میں وہ الفاظ لطیف وفصیح ہوتے اولا قریش انہیں اخذ کرتے اور پھر ان کی اقتداء میں باقی سب لوگ بھی انہیں اپنے استعمال میں لانے لگتے تھے، اس اعتبار سے لغت قریش میں ان سب لغات کا تشخص موجود ہے اور اس بناء پر یہ کہنا درست ہے کہ ’’لسانِ قریش ہی عمومی لسانِ عربی ہے اور اسی میں قرآن نازل ہوا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭دلیل نمبر۷:ان الوجوہ السبعۃ التی نزل بہا القرآن الکریم واقعۃ کلہا فی لغۃ قریش، ذالک أن قریشاً کانوا قبل مہبط الوحی والتنزیل قد داوَرُوا بینہم لغات العرب جمیعاً وتداولوہا وأخذوا ما استملحوہ من ہؤلاء وہؤلاء فی الاسواق العربیۃ ومواسمہا وایّامہا ووقائعہا وحجہا وعمرتہا ثم استعملوہ واذاعوہ بعد ان ہذّبوہ وصقّلوہ وبہذا کانت لغۃ قریشِ مجمع لغات مختارۃ منتقاۃ من بین لغات القبائل کافّۃً(مناہل العرفان:۱؍۱۸۲،۱۸۳)
’’وجوہ سبعہ جن کے موافق قرآن کریم نازل ہوا ہے یہ سب لغتِ قریش ہی کے اندر واقع ہیں۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ قریش زمانہ قبل از نزول وحی و قرآن میں سب لغاتِ عرب کی چھان پھٹک کرتے تھے اور بازار ہائے عرب ،مواسم عرب، تاریخی واقعاتِ عرب نیز حج وعمرہ کے مواقع پر جائزہ لیا کرتے تھے اور ہر قبیلے کی لغات میں سے جو الفاظ انہیں چاشنی دارلگتے انہیں اخذ کر لیا کرتے اورپھر مزید تہذیب وتنقیح کے بعد ان کا اپنی زبان میں استعمال شروع کر دیا کرتے تھے اس طرح لغت قریش ،قبائل عرب کی جملہ لغات میں سے پسندیدۂ ومنتخب الفاظ کامرکز واجتماعی نقطہ قرار پاگئی۔‘‘
٭دلیل نمبر۸:علامہ ابن عبد البررحمہ اللہ کا ارشادہے :
’’قول من قال إن القرآن نزل بلغۃ قریش معناہ عندی ’فی الاغلب‘ ۔ واﷲ أعلم ۔لأن غیر لغۃ قریش موجودۃ فی صحیح القراء ات من تحقیق الہمزات ونحوہا وقریش لا تہمز ‘‘(تفسیر القرطبی:۱؍۳۳)
’’جس قائل نے یہ کہا ہے کہ ’’قرآن لغت قریش میں نازل ہوا ہے ‘ ‘ میرے نزدیک اس کا مقصد یہ ہے کہ’’ اکثر وبیشتر ایسا ہی ہے‘‘ واللہ اعلم۔ وجہ یہ ہے کہ قراء ات صحیحہ میں غیر لغت قریش بھی موجود ہے مثلاً ہمزات وغیرہ کی تحقیق (بلغۃ تمیم) باوجودیکہ قریش تحقیق نہیں کرتے (بلکہ ابدال کرتے ہیں)‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭دلیل نمبر۹:اختلافاتِ قراء ات کی بابت مصاحف عثمانیہ میں باہم خلافات پائے جاتے ہیں مثلاً
(١) مصاحف اہل مدینہ وشام میں سورئہ بقرۃ رکوع ۱۶ میں وَاَوْصٰی بِہَا اور مصحف کوفیین میں وَوَصّٰی بِہَا مرسوم تھا۔
(٢) مصحف اہل حرمین میں سورۃ الانعام رکوع ۸ میں لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا اور مصحف کوفیین میں لَئِنْ اَنْجٰنَا مرسوم تھا۔
(٣) مصاحف مکیہ وشامیہ میں سورۃ الاسراء رکوع ۱۰ میں قُلْ کی بجائے قَالَ سُبْحَانَ رِبِّیْ مرسوم تھا۔
(٤) مصاحف مدنیہ وشامیہ میں سورۃ الحدید رکوع ۳ میں فَإِنَّ اﷲَ ہُوَالْغَنِیُّ کی بجائے فَاِنَّ اﷲَ الْغَنِیُّ بحذف ہو مرسوم تھا ، وغیر ذلک۔
اگر مصاحف عثمانیہ میں صرف ایک ہی اختلافی وجہ ہوتی تو قطعاً ان کے مابین اس قسم کے خلافات نہ پائے جاتے۔ معلوم ہوا کہ جزوی فرش الحروف اورمخصوص کلمات خلافیہ کی بابت عرضۂ اخیرہ والے جملہ سبعہ اختلافاتِ قراء ت مصاحف عثمانیہ میں موجود تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭دلیل نمبر۱۰:دورِ عثمانی کے مصاحف میں سبعہ لغات وسبعہ اختلافاتِ قراء ت کی بقائیت کی ایک قوی ترین دلیل یہ ہے کہ دور عثمانی کی رسم میں جو مصاحف لکھے گئے تھے وہ غیر منقوط اور غیرمشکل وبے اعراب تھے تاکہ حرف قریش کے علاوہ دیگر احرف ولغات کی نیز جملہ سبعہ اختلافاتِ قراء ت کی بھی رعایت بر قرار رہ سکے مثلاً موسٰی میں سین کی کھڑی زبر تاکہ امالے والے لغت کی رعایت بھی ملحوظ رہے ۔ وزن فُعل میں عین کلمہ کو سکون سے خالی رکھا تاکہ یہ لفظ لغت ضمہ کا بھی حامل ہو سکے ضُعف میں ضاد کاضمہ نہ لکھا تاکہ یہ فتحہ والے لغتِ تمیم کو بھی شامل ہو جائے یُؤمِنُوْنَ وغیرہ میں واو پر جزم نہ بنائی تاکہ تحقیق ہمزہ والے لغت تمیم کی بھی رعایت ملحوظ رہے ۔ بِزَعْمِہِمْ میں زا کو فتحہ سے خالی رکھا تا کہ یہ لفظ ضمۂ زا والے اسدی لغت کا بھی حامل ہو سکے۔ وَلَایُقْبَلُ بقرۃ رکوہ ۶ میں یا کے نیچے دو (۲) نقطے نہ بنائے تاکہ تا والی قراء ت بھی ظاہر ہو جائے۔ قَدَرُہُ ، بقرہ رکوع ۳۱ میں دال پر زبر نہ بنائی تا کہ جزم والی قراء ت کی بھی گنجائش رہے۔ ہَیْتَ میں ہا کو زبر سے ، یا کو دونقطوں سے اور تا کو زبر سے خالی رکھا تا کہ یہی ایک رسم ہَیْتُ، ہِیْتَ، ہِئْتَ والی لغات وقراء ات کو بھی شامل ہو جائے۔ خلاصہ یہ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان مصاحف عثمانیہ کو نقاط واعراب سے خالی رکھا تاکہ وہ مصاحف جملہ لغات واختلافات واحرف وقراء ات کے حامل ہوسکیں ، یہ قول علامہ ابن الجزری اور علامہ قرطبی وامام ابوعمر و الدانی رحمہم اللہ وغیرہم سے منقول ہے۔
اس پورے بیان سے معلوم ہو گیا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مصاحف عثمانیہ میں حرف ولغت قریش کے علاوہ دیگر لغات واحرف کو بالکلیہ ہی منسوخ نہ فرمایا تھا بلکہ صرف الجزئیہ نادرًا و قلیلاً فقط انہی لغات کو موقوف فرمایا تھا جو عند قریش معتبر ومتداول ومستعمل نہ تھے۔ باقی بالاغلبیہ ان احرف ولغات ستہ کو یقینا ثابت و باقی رکھا تھا جوقریش کے نزدیک معتبر ومتداول ومستعمل تھے۔ نیز اس تقریر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ محض سطحی نظر میں جو بعض حضرات علمائے کرام یہ فرمادیا کرتے ہیں کہ عہد عثمانی میں صرف ایک ہی لغت باقی رہ گیا تھا اورباقی سب لغات ختم ہو گئے تھے اس لیے آج اختلافِ قراء ت کی گنجائش نہیں یہ بات سراسر خلاف واقعہ ہے کیونکہ حالیہ جملہ قراء ات عشرہ لغت قریش اور اس کے توابع باقی لغات ستہ فصیحہ معتبرہ عند قریش کی روشنی میں اس آخری عرضے والے سبعہ لغات وسبعہ وجوہِ اختلافی قراء ت کے مطابق مدوّن ہوئی ہیں جو حضور اَقدس علیہ السلام نے آخری سال وفات میں حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ساتھ ماہِ رمضان المبارک میں فرمایا تھا۔ اس مضمون کی مزید تفصیلات وتحقیقات ناچیز رقم کی تازہ ترین تالیف’’ دفاع قراء ات‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک شبہ اور اس کا جواب
شبہ:
یہ ہے کہ علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے بقول دورعثمانی میں سبعہ احرف میں سے صرف ایک قریشی حرف ہی کو باقی رکھا گیا تھا اور باقی غیر قریشی چھ احرف کو موقوف قرار دے دیا گیا تھا ، پھر سبعہ احر ف کی بقائیت کا قول کیونکر درست ہوا؟
الجــواب:
طبری رحمہ اللہ نے جمع عثمانی میں سبعہ احرف میں سے جو صرف ایک ہی حرف قریش کے بقاء کا قول کیا ہے طبری رحمہ اللہ کے یہاں راجح اورآخری تحقیق کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں بدوی قسم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رعایت کی وجہ سے سات کلمات ولغات کی حد تک ہم معنی متبادل کلمہ ولغت پڑھنے کی اجازت تھی لیکن پھر اولا حضور علیہ السلام کی حیات مبارکہ ہی میں یہ اجازت ختم کر دی گئی اس کے بعد ثانیاً جمع عثمانی کے وقت ان ستّہ مترادفات کی منسوخیت کی مزید اشاعت وتشہیر کی گئی اب خاص اس ایک ہی قریشی کلمۂ مترادفہ کے پڑھنے کی اجازت ہے جس کے مطابق اولاً قرآن کریم نازل ہوا تھا مثلاً ہَلُمَّ کی جگہ تَعَالَ پڑھنے کی اجازت قطعاً موقوف قرار دے دی گئی ۔ علامہ طبری رحمہ اللہ قطعا اس کے قائل نہیں کہ ’’سبعہ لغات غیر مترادافات ‘‘ اور سبعہ وجوہ انواع اختلافِ قراء ت‘‘ میں سے بھی صرف ایک ہی قریشی لغت اور صرف ایک ہی اختلافی وجہِ قراء ت پڑھنے کی اجازت ہے اور باقی چھ لغات ا ور چھ اختلافی وجوہ قراء ت ختم کر دی گئی ہیں۔ اس کی قوی ترین دلیل یہ ہے کہ علامہ طبری رحمہ اللہ نسخ مترادفات ستہ کے باوجود اختلافِ قراء ت کے یقینا مثبت وقائل ہیں جیسا کہ
(١) تفسیر طبری میں مختلف قراء ات کا تذکرہ موجود ہے۔
(٢) نیز طبری مقدمۂ کتاب المبانی ص:۲۳۰ میں فرماتے ہیں:
’’أن القراء ات التی تختلف بہا المعنی صحیحۃ منزلۃ من عند اﷲ ولکنہا خارجۃ من ہذہ السبعۃ الأحرف‘‘
’’یہ سب قراء ات جن میں معانی بھی مختلف ہو جاتے ہیں صحیح او رمنجانب اللہ نازل شدہ ہیں ولیکن بایں ہمہ یہ ان سبعہ احرف( بمعنی کلمات مترادفہ مختلفۃ المادہ) سے خارج وجدا گانہ ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) نیز خود طبری رحمہ اللہ قراء ۃِ حمزہ رحمہ اللہ اور روایت ورش بطور خاص پڑھا پڑھایا کرتے تھے۔ (مقدمۂ تفسیر طبری:۱۴)
(٤) بلکہ طبری رحمہ اللہ نے ’الجامع ‘ نامی ایک بڑی کتاب قراء ات پر تالیف کی جس میں بیس سے زائد قراء ات کا تذکر ہ کیا ۔ (النشر:۱؍۳۴) ظاہر ہے کہ یہ تمام قراء تیں ’سبعہ لغات غیر مترادفہ ‘ اور ’سبعہ انواع اختلافِ قراء ت‘کی روشنی میں مدوّن ہو کر معرض وجود میں آئی ہیں لہٰذا یقینا یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ طبری رحمہ اللہ کے یہاں بھی ’ سبعہ احر ف بمعنی سبعہ مترادفات‘ اور ’سبعہ احرف بمعنی سبعہ لغات غیر مترادفہ‘ اور’ سبعہ انواع اختلافِ قراء ت‘ یہ تین مستقل انواع واقسام کی احادیث ہیں جن میں سے’سبعہ احرف بمعنی مترادفات‘ والی احادیث تو صرف ابتدائے اسلام کے زمانے میں معمول تھیں اور اس کے بعد موقوف ومنسوخ ہو چکی ہیں لیکن’ سبعہ احرف بمعنی سبعہ لغاتِ غیر مترادفہ‘ نیز ’ سبعہ احرف بمعنی سبعہ انواعِ اختلاف قراء ت‘ والی احادیث اب بھی بتفاصیل محررہ صد ر یقینا معمول وباقی ہیں اور یہ لغات واختلافات قراء ت عرضۂ اخیرہ اور قریشی لغت کی رو شنی میں بدستور ہیں منسوخ قطعا نہیں۔ چنانچہ علامہ طبری رحمہ اللہ نے ’کتاب القراء ات‘ میں اپنی تحقیقی رائے کی ترجمانی یوں فرمائی ہے:
’’کل ما صح عندنا من القراء ات أنہ علّمہ رسول اﷲ ﷺ لأمتہ من الاحرف السبعۃ التی اذن اﷲ لہ ولہم أن یقرؤوا بہا القرآن فلیس لنا أن نخطیَٔ من قرأ إذا کان ذلک بہ موافقا لخط المصحف‘‘ (الابانۃ:۱۲،۲۰)
’’ہر وہ قراء ت جس کے متعلق بروئے صحت یہ بات ہمارے نزدیک ثابت ہو چکی ہو کہ حضور اقدس1نے اپنی امت کو اس کی تعلیم دی ہے وہ ان احرف سبعہ میں سے ہے جن کے موافق اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو اور آپ کی امت کو تلاوت قرآن کی اجازت عنایت فرمائی ہے لہٰذا جب کوئی شخص ایسی قراء ت پڑھے بشرطیکہ وہ رسم عثمانی کی موافقت کرنے والا ہو ہمیں قطعاً اس کی تغلیط کا حق نہیں پہنچتا۔ ‘‘ واﷲ یقول الحق وہو یہدی السبیل

٭_____٭_____٭
 
Top