• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حدیث سبعۃ أحر ف متشابہات میں سے ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭مثال نمبر۳:بقرہ رکوع نمبر۴ ’’فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ ‘‘بنصب اٰدَمُ ورفع کَلِمٰتٌ۔میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح برفع ِ اٰدَمُ ونصب کَلِمٰتٍ ۔ جس کے معنی یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کی جانب سے کچھ دعائیہ کلمات حاصل کر لئے۔ دوسری فَتَلَقّٰی اٰدَمَ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٖتٌ بنصب اٰدم ورفع کَلِمٰتٌ۔
جس کا معنی یہ ہیں کہ’’آد م علیہ السلام کو اپنے پروردگار کی جانب سے چند کلمات حاصل ہو گئے ‘‘ پہلی قراء ت حضرت آدم علیہ السلام کی گریۂ و زاری کے لحاظ سے ہے جبکہ دوسری قراء ت بارگاۂ الٰہی میں اس گریۂ و زاری کی قبولیت اور پھر اس کے نتیجے میں عطائِ کلمات کے ذکر پر مشتمل ہے۔ فیاسبحان اللہ۔
٭مثال نمبر۴:بقرہ رکوع نمبر۶ وَلَایُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح وَلَایُقْبَلُ بیا التذکیر،کیونکہ شَفَاعَۃٌ کی تانیث غیر حقیقی اورصرف لفظی ہے اورفعل وفاعل میں منہا کا فاصلہ بھی ہے اس لیے اس کو تذکیر کی یاء سے پڑھا گیا جیسا کہ فَقَدْجَآئَ کُمْ بَیِّنَۃٌ انعام رکوع نمبر۲۰ اور لَوْ لَا أَنْ تَدٰرَکَہُ نِعْمَۃٌ القلم رکوع نمبر۲ میں بھی فاعل کی لفظی تانیث کی وجہ سے تذکیر آئی ہے دوسری وَلَا تُقْبَلُ بتاء التانیث کیونکہ اس کا فاعل شَفَاعَۃٌ ہے جولفظاً مؤنث ہے اس لیے فعل کا مؤنث لانا بھی بلاشبہ درست ہے ۔ فیا سبحان اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭مثال نمبر۵:بقرہ رکوع نمبر۶ وَاَحَاطَتْ بِہٖ خَطَیْئَتُہُ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح بالتوحید ،کیونکہ خطیئہ سے مراد کفر اور جنسِ کبائر ہے دوسری خَطِیئٰتُہ بالجمع، کیونکہ خطیئات سے مراد کبیرہ گناہ ہیں جو متعدد ہیں نیز کفار بہت سے ہیں جن پر آیت کا آخر فَاُولٰئِکَ أَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ دال ہے یا کفر پر قائم رہنے کو بار بار گناہ کے مرتبے میں قرار دیا گیا ہے۔ فیا سبحان اللہ۔
٭مثال نمبر۶:بقرہ رکوع نمبر۱۵ فَاُمَتِّعُہُ میں دوقراء تیں ہیں ایک اسی طرح بتشدید التاء ،باب تفعیل سے ، جو کثرت پر دال ہے یعنی’’میں کافروں کو تھوڑے زمانے اورصرف دنیوی زندگی کی حد تک خوب سامان عیش دوں گا‘‘ دوسری فَاُمْتِعُہُ بتخفیف التاء ،باب افعال سے اور یہ قَلِیْلاً کے مناسب ہے جو بعد میں آر ہا ہے یعنی ’’بمقابلۂ نعمائے آخرت میں کافروں کو صرف دنیوی زندگی کا تھوڑا بہت سامان عیش دونگا‘‘ حاصل یہ ہے کہ تکثیر بلحاظ نعمائے دنیا اور تقلیل بمقابلۂ نعمائے آخرت ہے ،ظاہر ہے کہ دونوں ہی قراء تیں اپنی اپنی جگہ بر حق ہیں۔ فیا سبحان اللہ
٭مثال نمبر۷:بقرہ رکوع نمبر۱۶ اَمْ تَقُوْلُوْنَ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح بتاء الخطاب، اس میں ماقبل کے چار خطابات قُلْ اَتُحَاجُّوْنَنَا،وَرَبُّکُمْ،وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ اور بعد کے دو خطابات ئَ أَنْتُمْ ،عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ان چھ ضمائرِ خطاب کی رعایت ہے دوسری أَمْ یَقُوْلُوْنِ بیاء الغیب ، اس میں ماقبل کی پانچ ضمائرِ غیب فَاِنْ اٰمَنُوْا،فَقَدِ اہْتَدَوْا، وَإِنْ تَوَلَّوْا، فَإِنَّمَا ہُمْ ،فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اﷲ کی رعایت ہے نیز اس میں قل أتحاجّوننا وغیرہ کے خطابات کے لحاظ سے خطاب سے غیب کی طرف التفات کی خوبی بھی پائی جاتی ہے جیساکہ سورۂ یونس رکوع نمبر۳ میں ’’حَتّٰی اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلکِ‘‘ کے بعد ’’وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ ‘‘میں بھی خطاب سے غیب کی طرف التفات ہے ۔فیاسبحان اﷲ!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭مثال نمبر۸:بقرہ رکوع نمبر۲۸ ’’وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ‘‘میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح حَتّٰی یَطْہُرْنَ باب کَرُمَ سے، اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’حیض والی عورتوں سے صحبت اس وقت جائز ہے جبکہ خون کی بندش کے ذریعہ بس نفسِ طہر انہیں حاصل ہو جائے۔‘‘ یہ ان عورتوں کے بارے میں ہے جن کا خون پورے دس دن پر بند ہوا ہو، دوسری حَتّٰی یَطَّہَّرْنَ بابِ اِفَّعُّل سے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ’’ حیض والی عورتوں سے صحبت اس وقت جائز ہے جبکہ وہ خوب پاک صاف ہو جائیں‘‘یعنی خون کی بندش کے بعد غسل بھی کرلیں، کیونکہ تخفیف کے مقابلہ میں تشدید معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے، یہ ان عورتوں کے متعلق ہے جن کاخون دس دن سے کم پر بند ہوا ہو ان سے بغیرغسل کیے صحبت جائز نہیں اس طرح دوقراء توں میں سے ہر قراء ت ایک مستقل حکم اورمعنیٰ پر دلالت کر رہی ہے۔ فیاسبحان اﷲ!
٭مثال نمبر۹:نساء رکوع نمبر۱۳ ’’یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْل اﷲِ فَتَبَیَّنُوْا‘‘ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح فَتَبَیَّنُوْا ، اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ’’کسی نو مسلم کو جلد سے قتل نہ کردو بلکہ تحقیق کر لو۔‘‘ دوسری فَتَثَبَّتُوْا اس کے معنی یہ ہیں کہ’’اطمینان سے کام لو جلدی نہ کرو ‘‘ ظاہر ہے کہ دونوں باتوں میں کوئی ضدیت نہیں کیونکہ اوّلا اطمینانیت وسکون سے کام لیا جائے گا تو ثانیاًا اسی کے نتیجے میں تحقیقِ صورتِ حال کا وُقوع ہوگا۔فیا سبحان اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭مثال نمبر۱۰:مائدہ رکوع نمبر۲ وَاَرْجُلَکُمْ اِلٰی الْکَعْبَیْنِ میں دو قراء تیں ہیں ایک اسی طرح وَاَرْجُلَکُمْ بنصب اللام اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ’’وضو میں دونوں ٹخنوں تک پاؤں کا دھونا مطلوب ہے‘‘ کیونکہ اس صورت میں یہ لفظ وُجُوْہَکُمْ پر معطوف ہو گا جو مغسول ہے۔ دوسری وَاَرْجُلِکُمْ بجر اللام اس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’وضو میں پاؤں کامسح مطلوب ہے‘‘ کیونکہ اس صورت میں یہ بِرُئُ وسِکُمْ کے لفظ رُئُ وسِکُمْ پر معطوف ہوگا جوممسوح ہے۔ آنحضرتﷺنے اس کی تشریح یوں فرما دی کہ یہ دو مختلف حالتوں کے لحاظ سے دومستقل احکامِ شرعیہ ہیں کہ مسح (علی قراء ۃ الجرّ) موزے پہننے والے کے لئے ہے اور عسل(علی قراء ۃ النصب)موزے نہ پہننے والے کے لئے ہے۔ فیا سبحان اﷲ!(النشر: ۱؍۲۸،۲۹،مناہل العرفان للزرقانی:۱؍۱۴۰،۱۴۱،مقدمۂ کتاب المبانی:۲۳۰،۲۳۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دورِ عثمانی میں بعض غیر فصیح سبعہ احرف ولغات کی موقوفیّت
دورِ عثمانی کے مصاحف ِعثمانیہ میں’سبعہ کلماتِ مترادافات‘ کے ان مواقع میں جن میں الفاظ کئی تھے مگر معنی سب کے ایک ہی تھے ہر ہر جگہ حرفِ قریش کے مطابق صرف ایک ایک اسی کلمۂ مترادفہ کوباقی رکھ کر ، جس کے موافق اولاً قرآن کریم نازل ہوا تھا۔عثمانی مصاحف لکھے گئے اوربقیہ چھ لغاتِ مترادفہ کا ان مصاحف میں قطعا لحاظ نہ رکھا گیا مثلاً قل تعالوا، قُلْ ہَلُمَّ میں اَقْبِلُوْا اَسْرِعُوْا اِعْجَلُوْا اورتَعَالٰی اَقْبِلْ اَسْرِع اِعْجَل کا اور مَشَوْا فِیْہِ میں مُرُّوْا فِیْہِ سَعَوْا فِیْہِ کا اور لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا انْظُرُوْنَا میں اَخِّروْنَا اُرْقُبُوْنَا کا اوروَاَقْوَمُ قِیْلًا میں اَصْوَبُ قِیْلاً اَہْیَا قِیْلا ًکا لحاظ نہ رکھا گیا۔
مگر مترادفات کے علاوہ ’’سبعہ لغاتِ عرب‘‘ اور’’سبعہ انواعِ اختلافِ قراء ت‘‘ کا ان مصاحف عثمانیہ میں عرضۂ اخیرہ اور لغتِ قریش کی روشنی میں یقینا لحاظ رکھا گیا تھا۔اور ان کو ثابت وبدستور رکھا گیا تھا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ دور عثمانی میں قریشی حرف ولغت و وجہِ اختلافی کو توحسبِ سابق کلی طور پر باقی رکھا گیا تھا اور اس کاکوئی فرد بھی موقوف نہ کیا گیا تھا لیکن غیر قریشی باقی چھ احرف ولغات وانواعِ اختلافِ قراء ت میں سے جزوِ غالب کے طور پر صرف ان احرف ولغات واختلافاتِ قراء ت کو باقی رکھا گیا تھا جو اس عرضۂ اخیرہ اور آخری دورِ نبوی میں بھی مقروء ہوئے تھے جو حضور ِ امینﷺنے آخری سال وفات میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ماہِ رمضان المبارک میں فرمایا تھا اور لغتِ قریش کے تابع ہو کر وہ لغات واختلافات عند قریش بھی معتبر ومتداول ومقبول ومستعمل ہونے لگ گئے تھے اور انہیں کی لغت میں شامل ہو گئے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عرضۂ اَخیرہ کے مطابق اختلافاتِ قراء ت
نیز غیر قریشی لغاتِ ستہ فصیحہ معتبرہ عند قریش غیر منسوخ کی امثلہ
(١) امالہ نجد تمیم کا قیس کا لغت
(٢) فُعل کے وزن میں عین کلمہ کا سکون مثلاً عُذْراً أوْ نُذرًا،نُکرًا یُسرًا تمیم اسد قیس کا لغت
(٣) ضَعف میں ضاد کا فتحہ تمیم کا لغت
(٤) ہمزئہ ساکنہ کی تحقیق مثلاً یُوْمِنُوْنُ ،کَدَاْبِ بِئْسَ وغیرہ تمیم کا لغت
(٥) بِزُعْمِہِمْ میں زا کا ضمہ اسدی لغت
(٦) یَقْنَطُ میں نون کافتحہ نجد کا لغت
(٧) مَنْ یَّرْتَدَّ میں اسی طرح ادغام تمیم کا لغت
(٨) خُطْوٰتِ میں طا کا سکون تمیم وبعضِ قیس کا لغت
(٩) قِیْلَ وغیرہ میں اشمام عقیل اسد قیس کا لغت
(١٠) یا آت زوائد وَجْہِیَ ﷲِ وَمَنِ اتَّبَعَنِی ے، یَوْمَ یِأْتِے لَا تَکَلَّمُ وغیرہما میں یا کا حذف ہذیل کا لغت
(١١) یٰأَیُّہُ السّٰحِرُ وغیرہ میں ہا کا ضمہ بنی اسد کا لغت
(١٢) لمبی تا مثلا ذِکْرُ رَحْمِتِ رَبِّکَ ،یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اﷲِ وغیرہما وقف بالتّا(رحمت نعمت) بنی طے کا لغت ( اورمروّجۂ غالب روایت حفص میں بھی ان میں سے اکثر وبیشتر لغات مقروء وموجود ہیں) وغیر ذلک۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دورِ عثمانی میں ایسے اختلافاتِ قراء ت اورایسے لغات قطعاً منسوخ نہ ہوئے تھے بلکہ بحال وبدستور ہی رہے تھے۔ البتہ ان کے علاوہ حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور مبارک میں سداً لباب النزاع واعتباراً لانتہاء الحکم بانتہاء العلَّۃ باجماع صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان بعض اختلافاتِ قراء ت کو جو عرضۂ اخیرہ میں مقرووء نہ ہوئے تھے نیز غیر قریشی ان بعض چھ احرف ولغات کو جو نہ تو عرضۂ اخیرہ میں مقروء ہوئے تھے اور نہ ہی وہ عند قریش معتبر ومقبول ومتداول ومستعمل تھے موقوف قرار دے دیا تھا۔مثلاً وَجَائَ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ والا اختلاف قراء ت موقوف فرما دیا جو عرضۂ اخیرہ میں نہ تھا۔ سورۃ الیل میں وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی والی قراء ت کی ممانعت فرما دی جو عرضۂ اخیرہ میں نہ تھی۔ سورۃ الذاریات میں إِنِّی اَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِالْمَتِیْنُ والی قراء ت موقوف فرما دی جو عرضۂ اخیرہ میں نہ تھی۔ اسی طرح حَتّٰی کہ جگہ عَتّٰی بلغۃ ہذیل پڑھنے کی اجازت موقوف فرما دی۔ علامت مضارع کا کسرہ تِعْلَمُوْنَ ،إِعْہَد وغیرہ بلغۃ اسد پڑھنا ناجائز قرار دے دیا، ردُّوا میں بلغۃ بنی تمیم راکو کسرہ سے پڑھنے کی ممانعت فرما دی، کیونکہ عرب لسانی تعصب کا جو اندیشہ شروع زمانۂ اسلام میں تھا اب اس کا خاتمہ ہوچکا تھا لہٰذا صرف لغات معتبرہ عند قریش پر اکتفا کیا گیا ۔ اور پچاس ہزار(۵۰۰۰۰) صحابہ کرام﷢ کے اجماع واتفاق سے لغات غیر معتبرہ عند قریش کی اجازت موقوف کر دی گئی…
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عرضۂ اَخیرہ میں غیر میں غیر مقروء اختلافاتِ قراء ت
نیز غیر قریشی لغات ستَّہ منسوخہ شاذہ غیر فصیحہ غیر معتبرہ عند قریش کی بعض دیگر امثلہ
(١) إِذَا جَائَ فَتْحُ اﷲِ وَالنَّصْرُ
(٢) فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدِنَکَ
(٣) تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّ قَدْ تَّبَّ
(٤) جملہ قراء ات تفسیریہ مثلاً سورۃ البقرۃ رکوع ۲۵ میں أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ کے بعد فِیْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ۔ سورۃ الانفال رکوع ۱۰ میں وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ۔ سورۃ الجمعہ رکوع ۲ میں فَامْضُوْا إِلٰی ذِکْرِ اﷲِ۔ سورۃ القارعہ میں کَالصَّوْفِ الْمَنْفُوْشِ ۔ سورۃ الکہف ۱۰ میں یَاخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ صَالِحَۃٍ غَصْبًا ۔ سورۃ المائدہ رکوع ۶ میں فَاقْطَعُوْا اَیْمَانَہُمَا۔ اسی سورت کے رکوع ۱۲ فَصِیَامُ ثَلَاثَۃِ اَیَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ۔ سورۃ یس رکوع ۲،۴ میں إِنْ کَانَتْ إِلَّا زَقِیَّۃً وَّاحِدَۃ سورۃ الاحزاب رکوع ۱ میں وَأزْوَاجُہ‘ اُمَّہٰتُہُمْ وَہُوَ اَبُوْہُمْ۔ سورۃ الاسراء رکوع ۳ میں وَوَصّٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا الخ۔ سورۃ الفاتحہ میں صِرَاطَ مَنْ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ… وَغیْرِ الضَّالِّیْنَ۔ سورۃ الواقعہ رکوع۳ میں وَتَجْعَلُوْنَ شُکْرَ کُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ ۔ سورۃ النساء رکوع ۲ میں وَلَہُ اَخٌ أَوْ اُخْتٌ مِّنْ اُمِّ۔ سورۃ البقرۃ رکوع۳۱ میں وَالصَّلوٰۃِ الْوُسْطٰی صَلَوٰۃِ الْعَصْر۔ سورۃ القلم رکوع ۲ میں وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَیُزْ ہِقُوْنَکَ۔ سورۃ البقرۃ رکوع ۲۳ میں وَعَلی الَّذِیْنَ یَطَّوَّقُوْنَہُ۔وغیرہ ذلک
(٥) بِزِعْمِہْمِ میں زا کسرہ ، بعض بنی تمیم وقیس کی لغت
(٦) یَقْنُطُ میں نون کا ضمہ بھی بعض تمیم وقیس کی لغت جو باب نصر سے ہے۔
(٧) قِیْلَ کے بجائے قُوْلَ بنی فقص کی لغت
(٨) غَیْرَ یَاسِنٍ بنی تمیم کی لغت
(٩) مَا ہٰذَا بَشَرٌ بلغت ہذیل
(١٠) أَنَّ کی بجائے عَنَّ بلغت تمیم
(١١) اَعْطٰی کی جگہ اَنْطٰی بلغت سعد بن بکر وہذیل وغیرہما
(١٢) أنَّکَ کی بجائے عَنَّکَ بلغت قیس واسد وغیر ذلک
عہدعثمانی میں یہ تمام لغاتِ غیر معتبرہ عند قریش منسوخ کر دی گئی تھیں۔ اب اگر لغت قریش کی تابعیت سے قطع نظر کر کے فی حد ذاتہ ان باقی چھ احرف ولغات معتبرہ عند قریش کی طرف نظر کی جائے جو اوّلا مذکور ہوئیں مثلاً امالہ، سکون عین فعل ، فتحہ ضعف ، تحقیق ہمزۂ ساکنہ وغیرہ تب تو یہ کہا جائے گا کہ دور عثمانی میں ساتوں ہی حروف ولغات کو باقی رکھا گیا تھا اگر چہ ان میں کلیت واغلبیت کا فرق ضروری تھا لیکن اگر لغت قریش کی تابعیت کو ملحوظ رکھ کر متبوع اور اصل لغت قریش کی طرف نظر کی جائے تو پھر مجازاً بایں معنی کہ تابع محکم متبوع ہی ہوتا ہے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ دورِ عثمانی میں صرف لغتِ قریش ہی کو باقی رکھا گیا تھا اوراس کے علاوہ باقی چھ احرف ولغات کو جزوِ مغلوب کے طور پر موقوف قرار دے دیا گیا تھا۔
باقی لغت قریش کو متبوع اس لیے کہا گیا کہ وہ جامع اللغات ہونے کے سبب باقی چھ احرف ولغات کے بعض اجزاء کو بھی شامل ومحیط وحاوی تھی اس بنا پر مجازاً ان بعض احرف ولغات ستہ باقیہ معتبرہ عند قریش کو بھی لغت قریش ہی کا نام دے دیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لغت قریش کے جامع اللغات ہونے او رمصاحف عثمانیہ میں جملہ سبعۂ احرف کی بقائیت کے چند دلائل کا تذکرہ
٭دلیل نمبر۱:صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ’کتاب فضائل القرآن‘ میں ایک باب کایہ عنوان قائم فرمایا ہے:
باب أنزل القرآن بلسان قریش والعرب قرآنا عربیا بلسان عربی مبین اور پھر اس کے تحت جمع عثمانی کی بابت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث روایت فرمائی ہے:
قال عثمان لہم إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی عربیۃ القرآن فاکتبوہا بلسان قریش فإن القرآن أنزل بلسانہم ففعلوا (صحیح البخاري)
اس حدیث کے ترجمۃ الباب میں ’بلسان قریش‘ کے ساتھ ’’والعرب‘‘ کے اضافہ سے امام بخاری کایہی مقصد ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف عثمانیہ کی صرف رسم الخط تو خاص ’اصل قریشی لغت‘ ہی کے اتباع کا حکم صادر فرمایا تھا مگر قراء تاً ان مصاحف عثمانیہ میں جملہ سبعہ اَحرف ولغاتِ عرب موجود تھے(لغت قریش بالکلیہ، لغات ستہ بالاغلبیۃ) نیزیہ کہ لغت قریش میں نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ بالجملہ قرآن سب ہی لغات عربیہ میں اتر ا ہے، کیونکہ لغت قریش بقیہ تمام لغات عرب کے جزوی حصے پر مشتمل وحاوی تھی جس کا پس منظر یہ تھا کہ قریش باقی قبائل سے اختلاط رکھتے تھے اور ان کی لغات میں سے جید وفصیح لغات کی چھانٹی کر کے انہیں اپنی لغت میں شامل کر لیا کرتے تھے، لہٰذا لغت قریش میں نزول قرآ ن کا مقصدیہ ہے کہ بالجملہ قرآن سب ہی لغات عربیہ میں اترا ہے اورحدیث ہذا کے ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی ہدفِ مطلوب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭دلیل نمبر۲:لغت قریش اپنے ماحول کی بہت سی لغات سے متاثر ہوئی اور دوسری لغات کے بہت سے الفاظ اورصیغے چن کر قریش نے اپنی لغت میں شامل کر لئے تھے جس کے متعدد عوامل ومواقع انہیں مہیاہوتے تھے مثلاً وہ بیت اللہ کے مجاورین اورمرجع الخلائق تھے ، سردی وگرمی میں قریش دو اسفار کرتے تھے ، عرب میں متعدد بازار لگتے تھے ، شعر ونقدِ ادبِ عربی کی مختلف مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں پس جب ہم لغتِ قریش بولتے ہیں تو گویا ہم اس سے وہ پوری لغت عربیہ مشترکہ مراد لیتے ہیں جو عرب کے ان جملہ چیدہ چیدہ فصیح ادباء، شعراء، خطباء کی متشرکہ زبان تھی جنہیں قرآن نے اپنے مثل صرف ایک سورت یا صرف ایک جملہ ہی بنا کر پیش کرنے کا چیلنج کیا تھا۔
èدلیل نمبر۳:وکانت قریش أجود انتقائً لا فصح الالفاظ وأسہلہا علی اللسان عند النطق وأحسنہا جرساً وإیقاعا فی السمع وأقواہا إبانۃ عما یختلج فی النفس من مشاعر وأحاسس وأوضحہا تعبیراً عما یجول فی الذہن من فکر ومعان لذلک غدت قریش أفصح العرب (الصاحبی فی فقہ اللغۃ:۲۳)
’قریش‘ دیگر قبائل کے لغات ولہجات میں سے انتخاب وچناؤ کے بارے میں سب سے زیادہ باذوق واقع ہوئے تھے کہ وہ ایسے الفاظ کا انتخاب کرتے جو انتہائی فصیح ہوتے ، بولتے وقت زبان پر بہت آسان ، سننے میں پر شوکت ، اندرونی جذبات واحساسات کے اظہار میں سب سے قوی اور ذہنی افکار ومعانی کی تعبیر میں انتہائی واضح ہوتے تھے لٰہذا قریش افصح العرب قرار پائے۔‘‘
٭دلیل نمبر۴:قال الفراء: کانت العرب تحضر الموسم فی کل عام وتحج البیت فی الجاہلیۃ،وقریش یسمعون لغات العرب فما استحسنوہ من لغاتہم تکلموا بہ فصاروا أفصح العرب وخلت لغتہم من مستبشع اللغات ومستقبح الالفاظ وذہب ثعلب فی امالیہ مذہب الفراء(المزہر :۱؍۲۱۱،۲۲۱)
’’فراء کہتے ہیں کہ عرب ہر سال موسم میں آتے اور جاہلیت کے طریقے پر حج کرتے تھے ، قریش اس موقع پر سب عرب کے لغات سنتے اور جو لغت انہیں اچھی لگتی اسے بولنا شروع کر دیتے تھے اس طرح وہ افصح العرب بن گئے اور ان کی لغت کریہ وقبیح الفاظ سے خالی ومحفوظ ہو گئی ۔ امالی میں ثعلب نے بھی یہی فراء رحمہ اللہ والی تقریر کی ہے۔‘‘
 
Top