شاید آپ پھر تغافل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے میری اس تحریر کو پڑھنا بھول گئے ہیںگویا آپ اپنے پچھلے اعتراضات کی نامعقولیت سے خود واقف ہو گئے ہیں، اس لئے اب یہ نیا اعتراض لائے ہیں۔
کمال ہے اس اقتباس سے آپ فقط صحابہ پر شیطان کا داؤ چلنا سمجھے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیوں خاموشی اختیار کر لی؟ جہاں دامادِ علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کر رہے ہیں وہاں خسرِ علی رضی اللہ عنہ کی بلاوجہ تخصیص کیوں؟
ضمناً عرض ہے کہ داؤ تو شیطان کا شیعہ پر چلا ہے تب ہی تو وہ روزانہ دو نمازیں اپنے اوقات پر پڑھنے کی سعادت سے محروم ہیں۔
مزید عرض ہے کہ آپ کا بے بنیاد سا اعتراض لائق جواب نہیں۔ بس یہ بات نوٹ فرما لیجئے کہ اہل سنت والجماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معصوم نہیں گردانتے۔ ان میں بعض سے گناہ سرزد ہو ئے ہیں، بلکہ بعض سے تو کبیرہ گناہ بھی سرزد ہوئے، ان پر حد بھی جاری کی گئی۔ ہاں ہم ان کو مغفور ضرور کہتے ہیں کیونکہ اس کی سند خود اللہ نے اس قرآن میں اتاری ہے جو خلفائے راشدین کا جمع کردہ ہے، اور جس میں سورتوں و آیات کی موجودہ ترتیب کے آپ انکاری اور تحریف کے اقراری ہیں۔ جس کا آپ نے آج تک جواب بھی نہیں دیا ملاحظہ کیجئے۔
شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن
اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کے ذریعے قضا نماز کے احکام سکھلانے تھے، وہ ہم نے سیکھے۔ تیمم کا طریقہ لوگوں کو سکھانا تھا وہ سیکھ لیا گیا۔ جس طرح کے لچر اعتراضات آپ بتکلف کھرچ کھرچ کر برآمد کر رہے ہیں، ایسے ہی اعتراضات مستشرقین قرآن پر کر کے حضرت آدم علیہ السلام کی غلطی کو اچھالتے ہیں، حضرت یونس علیہ السلام کی غلطی اور پھر سزا، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بے گناہ کو قتل کر دینا وغیرہ۔ نہ وہ اعتراضات ہی لائق التفات ہیں اور نہ آپ کے ہی اس قابل ہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔
جو سطحی و کمزور باتیں آپ کے نزدیک بھی ثابت شدہ نہیں، کیا ضرور کہ ان پر بات کر کے ہمارا بھی وقت ضائع کرنا ہے۔
یہ بات یاد رھے کہ میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہ رہا ہوں، تاہم بات سمجھنا چاہتا ہوں۔