• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی وسلم کو قلم دینے سے انکار کیا تھا؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
حدیث تو شاکر صاحب نے بھی پوری نہیں لکھی تو کیا یہ سلفیوں کا اصول ہے کہ حدیث کو پورا نہ لکھو؟

بہرام صاحب نے یہ اندازہ کہاں سے نکال لیا - اگر بہرام صاحب پوری حدیث لکھ دیتے تو شاہد خود ہی ننگے ھو جاتے
یہ کیسے اخذ کیا آپ نے مسٹر بہرام​
آپ کے اپنے ہی الفاظ ہیں یہ​
اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرماتے تو صحابہ آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ لیکن حضرت عمر اس قاعدے کے برخلاف ایک چھوٹی سی تکلیف پر اونچی آواز سے تکبیر کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جگادیا کیونکہ حضرت عمر ایک نڈر دل والے آدمی تھے ! تو کیا اللہ اور اس کے رسول سے نڈر ہونا بھی کوئی فضیلت ہے ؟ امام بخاری کی اس گواہی سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا خیال نہیں رکھتے تھے اور اپنی ایک چھوٹی سی تکلیف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے آرام کیا ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اگر شاکر صاحب نے بھی حدیث پوری نہیں لکھی تو ٹھیک نہیں کیا - حدیث ہمیشہ پوری لکھنی چاہیے تا کہ اس کا پورا مفہوم پتا چلے -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام صاحب نے یہ اندازہ کہاں سے نکال لیا - اگر بہرام صاحب پوری حدیث لکھ دیتے تو شاہد خود ہی ننگے ھو جاتے
یہ کیسے اخذ کیا آپ نے مسٹر بہرام​
آپ کے اپنے ہی الفاظ ہیں یہ​
اس حدیث میں بیان ہوا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرماتے تو صحابہ آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ لیکن حضرت عمر اس قاعدے کے برخلاف ایک چھوٹی سی تکلیف پر اونچی آواز سے تکبیر کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جگادیا کیونکہ حضرت عمر ایک نڈر دل والے آدمی تھے ! تو کیا اللہ اور اس کے رسول سے نڈر ہونا بھی کوئی فضیلت ہے ؟ امام بخاری کی اس گواہی سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا خیال نہیں رکھتے تھے اور اپنی ایک چھوٹی سی تکلیف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے آرام کیا ۔
صحیح بخاری کتاب تیمم حدیث نمبر 344 کی پوری حدیث کچھ اس طرح ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہو گئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور خدا کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، خدا کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔

یہ ہے پوری حدیث آپ اگر غور سے پڑھ لیتے تو یہ صورت حال پیدا نہیں ہوتی اب میں آپ کی سہولت کے لئے میں نے جو اس حدیث سے جوسمجھا اور جو حدیث میں بیان ہوا وہ ایک ہی رنگ سے واضح کردیا ہے اگر آپ سمجھنا چاہو تو
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
معاف کیجئے گا آپ نے بھی اس حدیث کا صرف 40 فیصد حصہ ہی پیش کیا
ایک چیز ہوتی ہے جسے کہتے ہیں حیا۔ جب وہ نہ ہو تو جو چاہے کرو جو چاہے کہو۔ آپ کے ادھوری حدیث پیش کرنے سے بات بالکل بدل رہی ہے۔ فقط من چاہا مطلب کشید کرنے کی خاطر ادھوری بات پیش کی ہے۔ جبکہ میں نے تمام ضروری اور متعلقہ حصہ پیش کر دیا۔ اور پوری حدیث پیش کرنے کے بعد بھی الحمدللہ، ہمارے مؤقف میں کوئی تضاد واقع نہیں ہوتا۔


اس سفر میں سونے والوں کو سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی جب سورج کی گرمی ہوتی ہے اس وقت تک نماز فجر کا وقت نکل چکا ہوتا ہے اور پھر آپ نے جو استدلال کیا اگر یہ بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ کوئی حرج نہیں سفر شروع کرو بلکہ پہلے آپ نماز فجر ادا کرتے پھر سفر شروع کرتے اس طرح آپ کا استدلال باطل ہوجاتا ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اگر نماز فجر کی بات ہوتی تو آپ ایسے اہمیت دیتے
اسی قسم کے نماز مؤخر ہو جانے کے دیگر واقعات سے اس اعتراض کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً لیلۃ التعریس کا مشہور واقعہ ہے کہ تیما سے واپسی پر پڑاؤ ڈالا گیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو پہرہ دینے کی ذمہ داری سونپی۔ انہیں بھی اونگھ آ گئی اور فجر کی نماز کا وقت نکل گیا، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وادی سے کوچ کرو، یہاں شیطان ہے۔ اور پھر تھوڑی دور جا کر بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا اور نماز پڑھی گئی۔

اسی قسم کا ایک اور واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غزوہ خندق کے موقع پر عصر کی نماز نکل گئی۔ اور سورج غروب ہو گیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری نماز بھی رہ گئی۔ پھر وہ وادی بطحان گئے اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور پھر پہلے عصر اور پھر مغرب کی نماز ادا کی۔

ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قضا ہو گئی، وہاں سے کچھ ہٹ کر ہی پھر نماز پڑھی گئی۔ یہی وجہ اس قصے میں بھی سمجھئے۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز کے لئے نہیں اٹھایا اور فقط دھوپ کی وجہ سے اٹھا دیا؟ آپ کا استدلال فقط آپ کی نرالی منطق کی بنیاد پر ہے۔ جبکہ ہمارے پاس اس ضمن میں صحیح احادیث موجود ہیں۔



ایک نکتہ اس حدیث میں اور بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایک شخص سے پوچھا کہ " اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔" اس نے جواب دیا کہ" مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔"
یہ سب باتیں اس سفر کی ہیں جس میں حضرت عمر بھی شریک ہیں اور جب حضرت عمار نے حضرت عمر کے دور حکومت میں تیمم کرنے کی حدیث حضرت عمر کو سنائی تو حضرت عمر نے حضرت عمار کی اس حدیث کو نہیں مانا تھا جبکہ یہاں حضرت عمر نے تیمم کی اس حدیث کو خود سنا ہوگا کیا خیال ہے کیا اس وجہ تو آپ نے اس حدیث کو پورا پیش نہیں کیا آپ اس بات کو چھپانا چاہتے تھے ؟؟؟
صحیح حدیث میں اپنی تحریف چھپانے کی خاطر ایک اور بے بنیاد الزام گھڑ لیا۔ ثابت کیجئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ہی یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ کیا ضروری ہے کہ ایک طویل سفر میں ہونے والی ہر ہر بات کی خبر لشکر میں موجود ہر شخص کو ہو؟ اور بعد میں حضرت عمر کے دور حکومت میں جبکہ اس واقعے کو اتنا عرصہ گزر چکا تھا، بھول جانا بھی ناممکن نہیں۔ بلکہ ہر وقت تو قرآن کی بھی تمام آیات اور تمام احکامات یاد نہیں رہتے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی آپ کی بدگمانی اور اندرونی نفرت کا غمازی ہے اور کچھ نہیں۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ایک چیز ہوتی ہے جسے کہتے ہیں حیا۔ جب وہ نہ ہو تو جو چاہے کرو جو چاہے کہو۔ آپ کے ادھوری حدیث پیش کرنے سے بات بالکل بدل رہی ہے۔ فقط من چاہا مطلب کشید کرنے کی خاطر ادھوری بات پیش کی ہے۔ جبکہ میں نے تمام ضروری اور متعلقہ حصہ پیش کر دیا۔ اور پوری حدیث پیش کرنے کے بعد بھی الحمدللہ، ہمارے مؤقف میں کوئی تضاد واقع نہیں ہوتا۔


ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران سفر جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قضا ہو گئی، وہاں سے کچھ ہٹ کر ہی پھر نماز پڑھی گئی۔ یہی وجہ اس قصے میں بھی سمجھئے۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز کے لئے نہیں اٹھایا اور فقط دھوپ کی وجہ سے اٹھا دیا؟ آپ کا استدلال فقط آپ کی نرالی منطق کی بنیاد پر ہے۔ جبکہ ہمارے پاس اس ضمن میں صحیح احادیث موجود ہیں۔
اس کو کہتے ہیں من چاہا مطلب کثید کرنا جو کہ آپ نے کیا ہے کہ
فقط دھوپ کی وجہ سے اٹھا دیا؟
یہ مطلب آپ نے کس بناء پر کشید کیا یہ میری سمجھ میں نہیں آیا جبکہ میں نے تو ایسا کچھ لکھا ہی نہیں

نماز فجر اگر سوتے رہنے کی وجہ سے قضاء ہوجائے تو اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یہ ہے
إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا
نیند میں کوئی کوتاہی نہیں ہے کوتاہی بیداری میں ہے (یعنی حالت نیند میں اگر نماز کا وقت گزر جائے تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر جاگتے ہوئے نماز کو قضاء کر دیتا ہے تو اس میں گناہ ہے ) لہذا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنا بھول جائے یا سویا رہ جائے تو جب اسے یاد آئے وہ نماز ادا کرے ۔
جامع الترمذی ابواب الصلاۃ باب ماجاء فی النوم عن الصلاۃ ح ۱۷۷
http://forum.mohaddis.com/threads/قضا-نماز-کے-بارے-میں-سوال.372/
اب اس فرمان کے ہوتے ہوئے اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز فجر کے قضاء ہونے کی بناء پر بے آرام کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عمر کو اس فرمان مصطفےٰ کا علم نہیں تھا کہ نیند میں کوئی کوتاھی نہیں اور نہ ہی حضرت عمر کو تیمم کے احکام کا پتہ تھا جس کا آپ اعتراف فرماچکے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس کو کہتے ہیں من چاہا مطلب کثید کرنا جو کہ آپ نے کیا ہے کہ
فقط دھوپ کی وجہ سے اٹھا دیا؟
یہ مطلب آپ نے کس بناء پر کشید کیا یہ میری سمجھ میں نہیں آیا جبکہ میں نے تو ایسا کچھ لکھا ہی نہیں
بڑی غلطی ہو گئی۔ آپ ہی فرما دیجئے گزشتہ پوسٹ میں آپ کی درج ذیل بات کا کیا مطلب تھا؟

حضرت عمر اس قاعدے کے برخلاف ایک چھوٹی سی تکلیف پر اونچی آواز سے تکبیر کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جگادیا کیونکہ حضرت عمر ایک نڈر دل والے آدمی تھے ! تو کیا اللہ اور اس کے رسول سے نڈر ہونا بھی کوئی فضیلت ہے ؟ امام بخاری کی اس گواہی سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کا خیال نہیں رکھتے تھے اور اپنی ایک چھوٹی سی تکلیف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے آرام کیا ۔
آپ فرما دیجئے یہ چھوٹی سی تکلیف آپ کے نزدیک کیا تھی، جس کی بنا پر آپ نے دامادِ علی رضی اللہ عنہ کے دامن کو داغدار کرنے کی جسارت فرمائی تھی؟ اگر دھوپ کے علاوہ کوئی تکلیف آپ ذکر کرنا چاہتے تھے تو آپ نے کی نہیں، اور اس کے علاوہ حدیث میں اور کچھ ایسا ہے نہیں۔

اب اس فرمان کے ہوتے ہوئے اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز فجر کے قضاء ہونے کی بناء پر بے آرام کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عمر کو اس فرمان مصطفےٰ کا علم نہیں تھا کہ نیند میں کوئی کوتاھی نہیں اور نہ ہی حضرت عمر کو تیمم کے احکام کا پتہ تھا جس کا آپ اعتراف فرماچکے
آپ ایک کے بعد ایک قلابازیاں کھا رہے ہیں۔ گزشتہ تین چار پوسٹس کا مطالعہ کریں اور خود اپنے کردار پر نظر ثانی کریں۔ پہلے آپ کا اعتراض تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی چھوٹی سی تکلیف کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے آرام کیا، وہاں آپ کی یہودیانہ تحریف آشکارا کی گئی تو آپ نے پینترا بدل کر فرمایا کہ نماز دور جا کر کیوں پڑھی۔ وہاں صحیح احادیث سے وضاحت پیش کر دی گئی تو یہ اعتراض کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوتیمم کے احکام انہیں معلوم نہیں تھے، اور اب یہ نیا شوشہ۔ اللہ کے بندے، اعتراض وہ کریں جو آپ کی جگ ہنسائی کا باعث نہ بنے۔ ہر بے ہودہ خیال جو آپ کے دماغ میں سڑاند پیدا کرے، اسے باہر نہ انڈیل دیا کریں۔ کچھ تدبر کرنے کی عادت ڈالیں۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بڑی غلطی ہو گئی۔ آپ ہی فرما دیجئے گزشتہ پوسٹ میں آپ کی درج ذیل بات کا کیا مطلب تھا؟
آئیندہ خیال رکھنا کوئی بات نہیں میں نے معاف کیا !!!!! ابتسامہ

آپ فرما دیجئے یہ چھوٹی سی تکلیف آپ کے نزدیک کیا تھی،
اس آمدہ آفت کو اس لئے چھوٹی سی تکلیف کہا گیا ہے کہ جب اس آفت کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کیا گیا تو تو آپ نے ارشاد فرمایا " کوئی حرج نہیں " اب جس آفت یا مصیبت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمادیں کہ کوئی حرج نہیں ایسے یقینا آپ بھی چھوٹی سی آفت یا مصیبت ہی مانو گے یا نہیں مانو گے امید ہے اب آپ کا اشکال دور ہوگیا ہوگا
آپ ایک کے بعد ایک قلابازیاں کھا رہے ہیں۔ گزشتہ تین چار پوسٹس کا مطالعہ کریں اور خود اپنے کردار پر نظر ثانی کریں۔ پہلے آپ کا اعتراض تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی چھوٹی سی تکلیف کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے آرام کیا، وہاں آپ کی یہودیانہ تحریف آشکارا کی گئی تو آپ نے پینترا بدل کر فرمایا کہ نماز دور جا کر کیوں پڑھی۔ وہاں صحیح احادیث سے وضاحت پیش کر دی گئی تو یہ اعتراض کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوتیمم کے احکام انہیں معلوم نہیں تھے، اور اب یہ نیا شوشہ۔ اللہ کے بندے، اعتراض وہ کریں جو آپ کی جگ ہنسائی کا باعث نہ بنے۔ ہر بے ہودہ خیال جو آپ کے دماغ میں سڑاند پیدا کرے، اسے باہر نہ انڈیل دیا کریں۔ کچھ تدبر کرنے کی عادت ڈالیں۔

گذشتہ چار پوسٹوں کا مطالعہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں آپ سے التماس ہے کہ اس دھاگہ کا صرف عنوان ہی پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ قلابازیاں کون کھا رہا ہے جہاں تک بات ہے تیمم کے احکام کی تو اس کے بارے میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے
صحیح حدیث میں اپنی تحریف چھپانے کی خاطر ایک اور بے بنیاد الزام گھڑ لیا۔ ثابت کیجئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ہی یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ کیا ضروری ہے کہ ایک طویل سفر میں ہونے والی ہر ہر بات کی خبر لشکر میں موجود ہر شخص کو ہو؟ اور بعد میں حضرت عمر کے دور حکومت میں جبکہ اس واقعے کو اتنا عرصہ گزر چکا تھا، بھول جانا بھی ناممکن نہیں۔ بلکہ ہر وقت تو قرآن کی بھی تمام آیات اور تمام احکامات یاد نہیں رہتے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی آپ کی بدگمانی اور اندرونی نفرت کا غمازی ہے اور کچھ نہیں۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اسی قسم کے نماز مؤخر ہو جانے کے دیگر واقعات سے اس اعتراض کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً لیلۃ التعریس کا مشہور واقعہ ہے کہ تیما سے واپسی پر پڑاؤ ڈالا گیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو پہرہ دینے کی ذمہ داری سونپی۔ انہیں بھی اونگھ آ گئی اور فجر کی نماز کا وقت نکل گیا، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وادی سے کوچ کرو، یہاں شیطان ہے۔ اور پھر تھوڑی دور جا کر بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کا حکم دیا اور نماز پڑھی گئی۔
بات کہاں کی کہاں پہنچ جائی گی مگر کیا کروں اس اقتباس کے مطالعے نے میرے ذہن میں ایک سوال کو جنم دیا ہے
اس میں کہا گیا ہے کہ جس وادی میں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم اور ان کےاصحابہ نے پڑاؤ کیا اس میں شیطان تھا جس کی وجہ سے سب کی نماز فجر قضا ہوئی یعنی شیطان کا داؤ چل گیا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وادی سے کوچ کرکے تھوڑی دور جاکر نماز ادا کی جب کہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ
"شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح دوڑتا ہے جس طرح خون جاری و ساری رہتا ہے ''
اب شیطان کی وادی سے دور جانے کے بعد کیا شیطان دور ہوگیا کیا وہ ان صحابہ کے رگوں سے نکل گیا ؟

دوسری بات یہ کہ سورہ النحل کی آیت 99 کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ
بیشک اس (یعنی شیطان )کا کوئی داؤ ان پر نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

لیکن آپ کے اس اقتباس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ شیطان کا داؤ صحابہ پر چل گیا تھا جس کی وجہ سے نماز فجر قضا ہوئی



یہ بات یاد رھے کہ میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہ رہا ہوں، تاہم بات سمجھنا چاہتا ہوں۔

 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بات کہاں کی کہاں پہنچ جائی گی مگر کیا کروں
گویا آپ اپنے پچھلے اعتراضات کی نامعقولیت سے خود واقف ہو گئے ہیں، اس لئے اب یہ نیا اعتراض لائے ہیں۔

لیکن آپ کے اس اقتباس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ شیطان کا داؤ صحابہ پر چل گیا تھا جس کی وجہ سے نماز فجر قضا ہوئی
کمال ہے اس اقتباس سے آپ فقط صحابہ پر شیطان کا داؤ چلنا سمجھے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیوں خاموشی اختیار کر لی؟ جہاں دامادِ علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کر رہے ہیں وہاں خسرِ علی رضی اللہ عنہ کی بلاوجہ تخصیص کیوں؟
ضمناً عرض ہے کہ داؤ تو شیطان کا شیعہ پر چلا ہے تب ہی تو وہ روزانہ دو نمازیں اپنے اوقات پر پڑھنے کی سعادت سے محروم ہیں۔
مزید عرض ہے کہ آپ کا بے بنیاد سا اعتراض لائق جواب نہیں۔ بس یہ بات نوٹ فرما لیجئے کہ اہل سنت والجماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معصوم نہیں گردانتے۔ ان میں بعض سے گناہ سرزد ہو ئے ہیں، بلکہ بعض سے تو کبیرہ گناہ بھی سرزد ہوئے، ان پر حد بھی جاری کی گئی۔ ہاں ہم ان کو مغفور ضرور کہتے ہیں کیونکہ اس کی سند خود اللہ نے اس قرآن میں اتاری ہے جو خلفائے راشدین کا جمع کردہ ہے، اور جس میں سورتوں و آیات کی موجودہ ترتیب کے آپ انکاری اور تحریف کے اقراری ہیں۔ جس کا آپ نے آج تک جواب بھی نہیں دیا ملاحظہ کیجئے۔
شیعہ کا عقیدہ تحریف قرآن

اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کے ذریعے قضا نماز کے احکام سکھلانے تھے، وہ ہم نے سیکھے۔ تیمم کا طریقہ لوگوں کو سکھانا تھا وہ سیکھ لیا گیا۔ جس طرح کے لچر اعتراضات آپ بتکلف کھرچ کھرچ کر برآمد کر رہے ہیں، ایسے ہی اعتراضات مستشرقین قرآن پر کر کے حضرت آدم علیہ السلام کی غلطی کو اچھالتے ہیں، حضرت یونس علیہ السلام کی غلطی اور پھر سزا، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بے گناہ کو قتل کر دینا وغیرہ۔ نہ وہ اعتراضات ہی لائق التفات ہیں اور نہ آپ کے ہی اس قابل ہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔

یہ بات یاد رھے کہ میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہ رہا ہوں، تاہم بات سمجھنا چاہتا ہوں۔
جو سطحی و کمزور باتیں آپ کے نزدیک بھی ثابت شدہ نہیں، کیا ضرور کہ ان پر بات کر کے ہمارا بھی وقت ضائع کرنا ہے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
گویا آپ اپنے پچھلے اعتراضات کی نامعقولیت سے خود واقف ہو گئے ہیں، اس لئے اب یہ نیا اعتراض لائے ہیں۔
شاید آپ نے میری یہ پوسٹ نہیں پڑھی یا پھر تغافل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں

بڑی غلطی ہو گئی۔ آپ ہی فرما دیجئے گزشتہ پوسٹ میں آپ کی درج ذیل بات کا کیا مطلب تھا؟
آئیندہ خیال رکھنا کوئی بات نہیں میں نے معاف کیا !!!!! ابتسامہ

آپ فرما دیجئے یہ چھوٹی سی تکلیف آپ کے نزدیک کیا تھی،
اس آمدہ آفت کو اس لئے چھوٹی سی تکلیف کہا گیا ہے کہ جب اس آفت کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کیا گیا تو تو آپ نے ارشاد فرمایا " کوئی حرج نہیں " اب جس آفت یا مصیبت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمادیں کہ کوئی حرج نہیں ایسے یقینا آپ بھی چھوٹی سی آفت یا مصیبت ہی مانو گے یا نہیں مانو گے امید ہے اب آپ کا اشکال دور ہوگیا ہوگا


آپ ایک کے بعد ایک قلابازیاں کھا رہے ہیں۔ گزشتہ تین چار پوسٹس کا مطالعہ کریں اور خود اپنے کردار پر نظر ثانی کریں۔ پہلے آپ کا اعتراض تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی چھوٹی سی تکلیف کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے آرام کیا، وہاں آپ کی یہودیانہ تحریف آشکارا کی گئی تو آپ نے پینترا بدل کر فرمایا کہ نماز دور جا کر کیوں پڑھی۔ وہاں صحیح احادیث سے وضاحت پیش کر دی گئی تو یہ اعتراض کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوتیمم کے احکام انہیں معلوم نہیں تھے، اور اب یہ نیا شوشہ۔ اللہ کے بندے، اعتراض وہ کریں جو آپ کی جگ ہنسائی کا باعث نہ بنے۔ ہر بے ہودہ خیال جو آپ کے دماغ میں سڑاند پیدا کرے، اسے باہر نہ انڈیل دیا کریں۔ کچھ تدبر کرنے کی عادت ڈالیں۔
گذشتہ چار پوسٹوں کا مطالعہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں آپ سے التماس ہے کہ اس دھاگہ کا صرف عنوان ہی پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ قلابازیاں کون کھا رہا ہے جہاں تک بات ہے تیمم کے احکام کی تو اس کے بارے میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے
صحیح حدیث میں اپنی تحریف چھپانے کی خاطر ایک اور بے بنیاد الزام گھڑ لیا۔ ثابت کیجئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ہی یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ کیا ضروری ہے کہ ایک طویل سفر میں ہونے والی ہر ہر بات کی خبر لشکر میں موجود ہر شخص کو ہو؟ اور بعد میں حضرت عمر کے دور حکومت میں جبکہ اس واقعے کو اتنا عرصہ گزر چکا تھا، بھول جانا بھی ناممکن نہیں۔ بلکہ ہر وقت تو قرآن کی بھی تمام آیات اور تمام احکامات یاد نہیں رہتے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی آپ کی بدگمانی اور اندرونی نفرت کا غمازی ہے اور کچھ نہیں۔
 
Top