برا ہو تعصب، تنگ ذہنی اور جہالت کا۔ محترم، آپ موضوع کی مناسبت والا حصہ پیش کر رہے ہیں یا فقط من چاہا مطلب کشید کرنے کے لئے آدھی عبارت پیش کر کے یہودیوں کی سنت کو زندہ کر رہے ہیں؟
اب جہاں تک آپ نے حدیث کوٹ کی، اس کے بعد کا فقط ایک جملہ ملاحظہ کریں، جو آپ کے خبث باطن کا پردہ چاک کرنے کو کافی و شافی ہے۔
اگر آپ یہ آخری ہائی لائٹ کردہ جملہ بھی لکھ دیتے تو ہر شخص سمجھ جاتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورج کی گرمی کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جگایا تھا، جیسے کہ آپ کی ذکر کردہ ادھوری حدیث سے تاثر پیدا ہوتا ہے، جس پر آپ نے ان الفاظ میں تبصرہ بھی کیا کہ
بلکہ جگانے کا مقصد نماز فجر کی ادائیگی تھا۔ پیش آمدہ مصیبت یہی تھی کہ نماز کا وقت یا تو نکل گیا تھا اور یا نکلنے ہی والا تھا۔ نماز کے لئے کسی کو جگانا، اہل تشیع کے نزدیک اسے بے آرام کرنا ہوتا ہے؟ اور اس میں ان کی اپنی تکلیف کیا تھی؟ اور نڈر دل والا ہونا کیا اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جائز احترام کے منافی ہے؟ بات اتنی سی ہے کہ جب دل میں کسی کے خلاف نفرت کا سمندر موجزن ہو، تو رائی نہ بھی ہو تو اسے پہاڑ بناتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ جب آپ کے اصول پر، اسی قسم کا اعتراض حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست حکم کی صریح مخالفت کی، اور تحریر میں رسول اللہ کے الفاظ کاٹنے سے انکار کر دیا، تو وہاں یہی حکم عدولی، عین فرمانبرداری نظر آتی ہے (اور ہمارے اصول پر وہ فرمانبرداری ہی ہے، اور یہ بھی، الحمدللہ)۔ لیکن دامادِ علی رضی اللہ عنہ کے لئے آپ کی تبرائی ذہنیت ہمہ وقت اعتراض ڈھونڈنے کی فکر میں مبتلا رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مرض سے نجات دیں۔ آمین
صحیح بخاری کتاب تیمم حدیث نمبر 344 کی پوری حدیث کچھ اس طرح ہے
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی (پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور فلاں (یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی (یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا (اور سب سیر ہو گئے) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور خدا کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے (کھانے کی چیز) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور (عجوہ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، خدا کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔
معاف کیجئے گا آپ نے بھی اس حدیث کا صرف 40 فیصد حصہ ہی پیش کیا
اس سفر میں سونے والوں کو سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی جب سورج کی گرمی ہوتی ہے اس وقت تک نماز فجر کا وقت نکل چکا ہوتا ہے اور پھر آپ نے جو استدلال کیا اگر یہ بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ
کوئی حرج نہیں سفر شروع کرو بلکہ پہلے آپ نماز فجر ادا کرتے پھر سفر شروع کرتے اس طرح آپ کا استدلال باطل ہوجاتا ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اگر نماز فجر کی بات ہوتی تو آپ ایسے اہمیت دیتے
ایک نکتہ اس حدیث میں اور بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایک شخص سے پوچھا کہ " اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔" اس نے جواب دیا کہ" مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔"
یہ سب باتیں اس سفر کی ہیں جس میں حضرت عمر بھی شریک ہیں اور جب حضرت عمار نے حضرت عمر کے دور حکومت میں تیمم کرنے کی حدیث حضرت عمر کو سنائی تو حضرت عمر نے حضرت عمار کی اس حدیث کو نہیں مانا تھا جبکہ یہاں حضرت عمر نے تیمم کی اس حدیث کو خود سنا ہوگا کیا خیال ہے کیا اس وجہ تو آپ نے اس حدیث کو پورا پیش نہیں کیا آپ اس بات کو چھپانا چاہتے تھے ؟؟؟