کیا میلاد کے وقت آسمانوں کی حفاظت بڑھ گئی
سعیدی : جب آپ کا میلاد ہوا تو آسمانوں کی حفاظت بڑھ گئی اور شیطانوں کی انتظار گاہیں ختم ہو گئیں (تو پھر وہ کیونکر آپ کے جشن عید میلاد میں شریک ہوتے) (شمامہ عنبریہ ص:۱۱) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۶)۔
یہ نقل قرآنِ مجید کی نص کے خلاف ہے
محمدی جواب اول:
یہ نقل قرآنِ مجید کی اس نص کے خلاف ہے:
وانا لمسنا السماء فوجدناھا ملئت حرسًا شدیدًا وشھبًا وانا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع ممن یستمع الان یجدلہ شھابًا رصداً۔ (الجن آیت :۸،پ:۲۹)
اور یہ کہ ہم نے آسمان کو چھوا تو اسے پایا سخت پہرے اور آگ چنگاریوں سے بھر دیا گیا اور یہ کہ ہم پہلے آسمان میں سننے کیلئے کچھ موقعوں پر بیٹھا کرتے تھے پھر اب جو کوئی سنے وہ اپنی تاک میں آگ کالو کا پائے (ترجمہ احمد رضا) اور مولوی نعیم الدین اس کی تفسیر میں لکھتا ہے:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے۔ گویا نعیم الدین مراد آبادی، اس تفسیر سے یہ سمجھا رہے ہیں کہ یہ شیاطین و جنات کی رکاوٹ اور ان پر پہرہ داری اور ان پر چنگاریوں کی بارش بعثت نبوی، اعلان نبوت کے وقت شروع ہوئی، پہلے یہ کھلے پھرتے تھے ان پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی
اور تفسیر جلالین میں اس کے متعلق لکھا :
قال الجن وانا لمسنا السماء استراق السمع منھا فوجدنا ھا ملئت حرسًا من الملائکۃ شدیدًا وشھبًا نجوما محرقۃ وذلک لما بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم وانا کنا ای قبل مبعثہ صلی اللہ علیہ وسلم نقعد منھا مقاعد للسمع ای نستمع فمن یستمع الآن یجدلہ شھابًا رصدا ای ارصدلہ لیرمی بہ ۔(تفسیر جلالین درسی ص:۴۷۶سورت جن پ:۲۹)
یعنی یہ رکاوٹ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور اعلان نبوت کے وقت (میلاد نبوی سے پورے چالیس سال بعد) شروع ہوئی اس سے پہلے (چالیس سال کے دوران) تو وہ اوپر کی خبروں کے سننے کیلئے آتے جاتے تھے کوئی رکاوٹ در پیش نہیں تھی۔
یہ نقل بخاری شریف کی صحیح حدیث کے خلاف ہے
دوم: یہ نقل بخاری شریف ج:۲، ص:۷۳۲کی صحیح حدیث کے خلاف ہے، جس کی صحت کا درجہ مسلمانوں کے ہاں قرآنِ مجید کے بعد مسلم ہے:
عن ابن عباسٍ رضی اللہ عنہ قال انطلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی طائفۃٍ من اصحابہ عامدین الی سوق عکاظٍ وقد حیل بین الشیاطین وبین خبر السماء وارسلت علیہم الشھب فرجعت الشیاطین فقالوا مالکم قالوا حیل بیننا وبین خبر السماء وارسلت علینا الشھب قال ما حال بینکم وبین خبر السماء الا ما حدث فاضربوا مشارق الارض ومغاربھا فانظروا ما ھذا الامر الذی حدث۔ فانطلقوا فضربوا مشارق الارض ومغاربھا ینظرون ما ھذا الامر الذی حال بینہم وبین خبر السماء قال فانطلق الذین توجھوا نحو تھامۃ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنخلۃ وھو عامدٌ الی سوق عکاظٍ وھو یصلی باصحابہ صلوۃ الفجر فلما سمعوا القرآن تَسَمعوا لہ فقالوا ھذ الذی حال بینکم وبین خبر السماء الخ۔(بخاری شریف ج:۲، ص:۷۳۲)
کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کچھ صحابہ کرام کے ساتھ عکاظ کی طرف چلےدوران حال شیاطین اپنی قوم کے پاس واپس لوٹے تو انہوں نے بے وقت واپس لوٹنے کا سبب دریافت کیا تو وہ بولے ہمارے درمیان اور آسمانی خبر کے درمیان رکاوٹ آ گئی ہے اور ہم پر شعلے گرنے لگے ہیں تو شیطان ابلیس نے کہا کہ سوائے کسی زمینی حادثہ کے یوں ہی تمہارے اور آسمانی خبر کے درمیان رکاوٹ نہیں آ گئی پس تم زمین کی مشرق اور مغرب کو چھان مارو اور دیکھو کہ کیا حادثہ ہوا ہے اور کیا ماجرا سرزد ہوا ہے پس وہ چلے دیکھتے تھے کہ کیا حادثہ ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ جنات و شیاطین جو تھامہ کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے صبح کی نماز اپنے ساتھیوں کو (راستہ) میں پڑھا رہے تھے (اور قرأت قرآن فرما رہے تھے) پس جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ مجید سنا تو کان لگایا اور کہنے لگے کہ یہ ہے وہ حادثہ جو ہمارے اور آسمانی خبر کے درمیان رکاوٹ ہے اس وقت اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہنے لگے کہ اے قوم (شیاطین و جنات) ہم نے قرآن سنا الخ… تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قل اوحی الی الخ آیات قرآنی نازل فرما دیں۔