• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی صحابی نے کلمہ طیبہ کا انکار کیا ؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
شاید صحیح بخاری کا اسکیل آپ کی سمجھ میں نہیں آیا اس لئے عرض ہے کہ پہلے اپنے اسکیل میں آپ طاق ہوجائیں پھر دوسرے اسکیل کی طرف دھیان دیجئے یہ بہتر ہوگا
میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ جس کو تلبسوا الحق بالباطل کا سہارا لینا ہو تو وہ چیزوں کو متعین نہیں کرے گا مثلا جو قبضہ گروپ والے ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ باؤنڈری کو متعین نہ کیا جائے اور چار دیواری نہ لگائی جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کر سکیں مگر جو انصاف پسند اور اپنے حق کا دفاع کرنے والے ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے چار دیواری کرواتے ہیں چنانچہ اکثر یہ مشوری دیا جاتا ہے کہ بھائی اپنی جگہ کی چار دیواری کروا دو تاکہ قبضہ گروپ کے ہاتھوں لٹ نہ جائیں
بخاری سکیل نہیں بلکہ
اہل سنت کے نزدیک شریعت کا حکم معلوم کرنے کا اپنا ایک سکیل (نظریہ) ہے جس سکیل کے مطابق پھر قرآن یا بخاری وغیرہ کی احادیث سے احکامات کو اخذ کیا جاتا ہے
اسی طرح اہل تشیعہ کے ہاں سکیل صرف نہج البلاغہ، اصول کافی وغیرہ نہیں بلکہ انکا سکیل (نظریہ) کچھ اور ہے جس کے مطابق وہ باقی روایات کو مسترد کرتے اور قبول کرتے ہیں پس جب انکی کتاب میں کوئی بات انکے سکیل سے موافق نہ ہو تو کہتے ہیں کہ یہ تقیہ کیا تھا حتی کہ وہ تو قرآن کو بھی اس سکیل کے اوپر فٹ نہ آنے پر رد کرتے ہیں بلکہ تحریف کا مرتکب ٹھراتے ہیں نعوذ باللہ من ذلک
اب بتائیں کہ آپ کے نزدیک سکیل کسی ایک کتاب کو کہتے ہیں یا سکیل کچھ اور چیز ہوتی ہے اور کتابوں کو اس کے مطابق پرکھا جاتا ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بخاری سکیل نہیں بلکہ
اہل سنت کے نزدیک شریعت کا حکم معلوم کرنے کا اپنا ایک سکیل (نظریہ) ہے جس سکیل کے مطابق پھر قرآن یا بخاری وغیرہ کی احادیث سے احکامات کو اخذ کیا جاتا ہے
یہی میًں بھی عرض کررہا ہوں کہ بخاری اور مسلم کی مذکورہ احادیث سے جو نتیجہ آپ نے اخذ کیا اس پر روشنی ڈالیں تاکہ پتہ چلے کہ آپ کا نظریہ کیا ہے اور کہاں تک بخاری اور مسلم میں درج رسول اللہﷺ کے فرمامین قبول فرماتے ہیں لیکن یاد رہے اس کے لئے صحابہ پرستی کو ایک طرف رکھ کر غور اور فکر کرنا ہے اور امام کے قول کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر ترجیح نہیں دینی جو کہ آپ کا مسلک ہے یہ وہ اسکیل ہے اگر اب بھی سمجھ نہیں آیا تو میں مزید وضاحت عرض کردوں گا ان شاء اللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
آپ کا نظریہ کیا ہے اور کہاں تک بخاری اور مسلم میں درج رسول اللہﷺ کے فرمامین قبول فرماتے ہیں
جی ہم الحمد للہ تقیہ کا سہارا لینے والے نہیں البتہ ان جاہلوں اور خواہش پرستوں کی طرح بھی نہیں جو لا تقربوا الصلوۃ ہی پڑھ کر اپنے نفس کی تسکین کے لئے کہتے پھرتے ہیں کہ جی اللہ نے نماز سے روک دیا ہے ہم تو اللہ کے حکم کی وجہ سے نمازیں نہیں پڑھتے جیسے قرآن کہتا ہے وہ دعوی کرتے تھے واللہ امرنا (کہ اللہ نے ہمیں فحاشی کا حکم دیا ہے) جواب میں اللہ نے فرمایا کہ قل ان اللہ لا یار بالفحشاء والمنکر (کہ اللہ فحاشی اور منکر کا حکم نہیں دیتا) نہج البلاغہ میں ہی غالبا علی رضی اللہ عنہ کا قول خارجیوں کے ان الحکم للہ پر اشکال کے جواب میں لکھا ہے کہ کلمۃ حق یراد بھا الباطل
پس علی صاحب آپ کو علی رضی اللہ عنہ کا قول ہی پڑھنے کی تلقین کروں گا
میں ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ زید مسجد کے دروازے پر ایک کھونٹی (کلہ) گاڑھ دیتا ہے اب اسکی نیت کے بارے مندرجہ ذیل احتمالات ہو سکتے ہیں
1-نمازیوں کو اپنا جانور ادھر باندھنے میں آسانی ہو (ثواب کی نیت سے)
2-نمازی اس سے الجھ کر گریں ( انکو تکلیف دینے کی نیت سے)

بعد میں ابو بکر آ کر وہ کھونٹی اکھاڑ دیتا ہے اب اسکی نیت کے بارے مندرجہ ذیل احتمالات ہو سکتے ہیں
1-نمازی کہیں اس سے الجھ کر گر نہ پڑے (ثواب کی نیت سے)
2-نمازی کہیں اس سے جانور نہ باندھ لیں ( انکو تکلیف دینے کی نیت سے)

پس اگرچہ دونوں نے ایک ہی کام کو مخالف طریقے سے کیا لیکن دونوں کے صحیح ہونے کے احتمالات ہو سکتا ہے البتہ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ہر ایک کے کام میں ایک سے زیادہ احتمالات ہوں
پس اب میں اوپر آپکی حدیث کے بارے دونوں صحابہ کی صحیح نیتوں کو بیان کر کے اس کا احتمال بھی حدیث سے ثابت کرتا ہوں
1-پہلے صحابی جنہوں نے لا الہ والی حدیث آگے بیان کی ان کی نیک نیتی پر تو آپ کو بھی اعتراض نہیں بلکہ اس کو ہی بنیاد بنا رہے ہیں پس انکی نیک نیتی میں بیان نہیں کرتا
2-جنہوں نے اس حدیث کو بیان کرنے سے منع کیا اسکے بارے یہ احتمال واضح ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ اس طرح لوگ عمل چھوڑ کر اسی پر تکیہ کر لیں گے اور اس احتمال کا حدیث میں بھی ذکر ہے کہیں تو پوری حدیث لگا دوں گا
اب دوسرے احتمال پر آپ نے ایک گزارش کی تھی جو مندرجہ ذیل تھی
لیکن یاد رہے اس کے لئے صحابہ پرستی کو ایک طرف رکھ کر غور اور فکر کرنا ہے اور امام کے قول کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر ترجیح نہیں دینی
پس میں میں صحابی کو بچانے کے لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو قربان کیوں کروں گا بلکہ اللہ کے نبی کا دوسرا فرمان ہی اس کی تائید میں پیش کروں گا اور آپ کو کہوں گا کہ لا تقربوا لصلوۃ سے آگے بھی پڑھ لیا کریں

اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا"۔ (بخاری و مسلم)
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جی ہم الحمد للہ تقیہ کا سہارا لینے والے نہیں البتہ ان جاہلوں اور خواہش پرستوں کی طرح بھی نہیں جو لا تقربوا الصلوۃ ہی پڑھ کر اپنے نفس کی تسکین کے لئے کہتے پھرتے ہیں کہ جی اللہ نے نماز سے روک دیا ہے ہم تو اللہ کے حکم کی وجہ سے نمازیں نہیں پڑھتے جیسے قرآن کہتا ہے وہ دعوی کرتے تھے واللہ امرنا (کہ اللہ نے ہمیں فحاشی کا حکم دیا ہے) جواب میں اللہ نے فرمایا کہ قل ان اللہ لا یار بالفحشاء والمنکر (کہ اللہ فحاشی اور منکر کا حکم نہیں دیتا) نہج البلاغہ میں ہی غالبا علی رضی اللہ عنہ کا قول خارجیوں کے ان الحکم للہ پر اشکال کے جواب میں لکھا ہے کہ کلمۃ حق یراد بھا الباطل
ان الحکم للہ کا نعرہ آج کل بھی سننے کو مل رہا ہے نعرہ لگانے والے بھی وہابی ہیں کیا ایسی وجہ سے تو آج کے وہابیوں کو خارجی نہیں کہا جاتا ؟؟
1-پہلے صحابی جنہوں نے لا الہ والی حدیث آگے بیان کی ان کی نیک نیتی پر تو آپ کو بھی اعتراض نہیں بلکہ اس کو ہی بنیاد بنا رہے ہیں پس انکی نیک نیتی میں بیان نہیں کرتا
جی بلکل ٹھیک سمجھے آپ انھوں نے یہ حدیث اس اعتراض کے وادر ہونے کے بعد بھی بیان کی جبکہ اس وقت تک اس حدیث کا علم صرف 3 نفوس کو ہی تھا یعنی ایک خود رسول اللہﷺ دوسرے وہ صحابی جنہوں نے حدیث بیان کی اور تشدد کا نشانہ بنے تیسرے وہ جنہوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا اور فہم رسالت ﷺ پر اپنی سوچ کو مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی ناکام اس لئے کہ اگر رسول اللہﷺ کی یہ منشاء ہوتی کہ اس حدیث کو آگے بیان نہ کیا جائے تو ان صحابی رسول کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ اس حدیث کو آگے بیان کرتے لیکن ہوا اس کے برعکس ہے کہ حدیث بیان کرنے پر تشدد کا نشانہ بنے والے صحابی نے اس حدیث کو آگے بیان کیا اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حدیث پر ہم بات کررہے ہیں
2-جنہوں نے اس حدیث کو بیان کرنے سے منع کیا اسکے بارے یہ احتمال واضح ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ اس طرح لوگ عمل چھوڑ کر اسی پر تکیہ کر لیں گے اور اس احتمال کا حدیث میں بھی ذکر ہے کہیں تو پوری حدیث لگا دوں گا
کیا اس احتمال کا یہ نتیجہ نہیں نکلے گا کہ جس کی جو مرضی وہ فرمان رسول ﷺ کو اپنے باطل احتمالات کی وجہ سے رد کردے ؟
اب دوسرے احتمال پر آپ نے ایک گزارش کی تھی جو مندرجہ ذیل تھی
لیکن یاد رہے اس کے لئے صحابہ پرستی کو ایک طرف رکھ کر غور اور فکر کرنا ہے اور امام کے قول کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر ترجیح نہیں دینی
پس میں میں صحابی کو بچانے کے لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو قربان کیوں کروں گا بلکہ اللہ کے نبی کا دوسرا فرمان ہی اس کی تائید میں پیش کروں گا اور آپ کو کہوں گا کہ لا تقربوا لصلوۃ سے آگے بھی پڑھ لیا کریں

اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا"۔ (بخاری و مسلم)
کہاں آپ نے صحابہ پرستی کو ایک طرف رکھا وہی ڈھاک کے تین پات اس حدیث پر غور کرنے سے میرے علم میں یہ باتیں آئیں
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کے لئے جنت کی بشارت
اب جس صحابی رسول کو یہ فرمان دے کر حکم دیا کہ جو بھی تمہیں کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کو جنت کی بشارت دے دو جب کہ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہﷺ کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ اللہ کا حکم ہی لوگوں تک پہنچاتے ہیں تو جب یہ صحابی رسول یہ فرمان لیکر باغ سے باہر نکلے تو ان کی ملاقات جس سے سب سے پہلے ہوئی ان کو اللہ کا حکم پہنچایا کہ کلمہ طیبہ کی جو گواہی دے گا اس کے لئے جنت کی بشارت ہے اب ہونا تو چاہئے تھا جس کے آگے یہ بیان کیا گیا وہ فورا کلمہ طیبہ کی گواہی دیتا لیکن ہوا اس کے برعکس کہ اللہ کے فرمان پر اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے اللہ کا حکم بیان کرنے والے کو ذودکوب کیا کہ وہ روپڑے اب دیکھا جائے تو اللہ اور اس کے رسول کے اس فرمان کو بیان کرنے والے پر اس حد تک غصہ کرنا دراصل اللہ اور اس کے رسول پر ہی غصہ تھا کیونکہ جو کچھ اس بیان کرنے والے صحابی نے بیان کیا وہ اس کی اپنی بات نہیں تھی بلکہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمان تھا انہی سب باتوں کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنے والے صحابی بعد میں بھی کسی حدیث رسول ﷺ کو بیان کرتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن ان کو تشدد کا نشانہ بنانے والے کا انتقال ہوگیا تو پھر کھل کر مجع عام میں احادیث بیان کرتے اور ساتھ میں یہ بھی فرماتے کہ اب جب کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے تو میں یہ فرمان رسول اللہﷺ تم لوگوں سے بیان کررہا ہوں اگر ان کے زندہ ہوتے ہوئے بیان کرتا تو وہ میرا سر توڑ دیتے
دوسری بات آپ نے جو اس کی تائید میں فرمان رسول ﷺ بیان فرمایا ہے وہ ایک الگ بات ہے کہ جو کام رسول اللہﷺ نہ کیا اور اس خدشے کی وجہ سے اس کام کو ترک کیا لیکن یہاں تو مخبر صادق ﷺ کےفرمان کے آگے اپنے باطل احتمالات کو لایا جارہا جس طرح صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان
"کوئی حرج نہیں انشاءاللہ (یہ بخارتمہارے ) گناہوں کو دھو دے گا۔

اس فرمان رسول اللہ ﷺ کے مقابلے پر جب اعرابی نے اپنا باطل احتمال پیش کیا کہ
یہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔

اور جب یہ باطل احتمال آپ ﷺ نے سماعت فرمایا تو اس پر اپنے قول پر اصرار نہیں فرمایا بلکہ اس باطل احتمال کو اس اعرابی کے سر پر ڈال دیا یہ فرما کر کہ
اچھا تو پھر یوں ہی سہی
ٹھیک ایسی طرح کلمہ طیبہ والی حدیث میں بھی جب فرمان رسول اللہﷺ

جو کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کے لئے جنت کی بشارت

اس فرمان رسول اللہﷺ کے مقابلے پر جب اپنا باطل احتمال کسی نے پیش کیا کہ

اس طرح لوگ عمل چھوڑ کر اسی پر تکیہ کر لیں گے

اور جب یہ باطل احتمال آپ ﷺ نے سماعت فرمایا تو اس پر اپنے قول پر اصرار نہیں فرمایا بلکہ اس باطل احتمال کو اس کے سر ڈال دیا یہ فرما کر کہ

پھر عمل کرنے دو

اگر رسول اللہ ﷺ کی یہ منشاء ہوتی کہ اس حدیث کو بیان نہ کیا جائے اور امت کو عمل کرنے دیا جائے تو ایسی وقت اس حدیث کو بیان کرنے والے صحابی کو سختی سے منع کردیا جاتا کہ اب یہ حدیث بیان نہ کی جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کی یہ منشاء نہیں تھی بلکہ اس کے برعکس اس حدیث کو بیان کرنے کی اجازت دی گئی اس کی دلیل یہ ہے کہ آج 1450 سال بعد یہ فرمان رسول اللہﷺ ہم تک پہنچا اور آج ہم اس پر بات کررہے ہیں
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوران کے دل اس بات کوتسلیم سے انکارنہ کرتے تو میں اسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا"۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث رسول اللہﷺ کے بارے میں ایک مضمون کبھی پڑھا تھا اب یاد نہیں آرہا کہ وہ کون سی کتاب میں تھا اس کی ہلکی سی یاد اب بھی باقی ہے کہ غالبا عبداللہ بن زبیر یا کسی اور صحابی نے رسول اللہﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں کعبۃاللہ کی ازسر نو تعمیر فرمائی تھی یہ اس وقت کی بات ہے جب یزید (حذف ۔۔ انتظامیہ ) کی فوج نے کعبۃ اللہ میں آگ لگا دی تھی جس کی وجہ سے کعبہ کی دیواریں اس حد تک کمزور ہو گئی تھی اگر کبوتر بھی دیوار پر بیٹھتے تو دیوار کے پتھر گرنے لگتے اس تعمیر نو میں حطیم کو کعبہ میں شامل کیا گیا تھا اور کعبہ کا دروازہ بھی زمین کے برابر کردیا گیا تھا بلکہ کعبہ میں دو دروازے نسب کئے گئےتھے کہ ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے باہر نکلتے لیکن برا ہو بنو امیہ کے حاکم کا کہ اس کو رسول اللہﷺ کی خواہش اور فرمان کے مطابق کعبۃ اللہ کی تعمیر پسند نہ آئی اور ایک بار پھر بنو زرقا کے بادشادہوں کے ہاتھوں کعبۃاللہ کو ڈھادیا گیا اور کعبۃ اللہ کی تعمیر دور جہالت کے مطابق کردی گئی
اناللہ و انا الیہ راجعون
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
تیسرے وہ جنہوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا اور فہم رسالت ﷺ پر اپنی سوچ کو مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی ناکام اس لئے کہ اگر رسول اللہﷺ کی یہ منشاء ہوتی کہ اس حدیث کو آگے بیان نہ کیا جائے تو ان صحابی رسول کی یہ مجال نہیں تھی کہ وہ اس حدیث کو آگے بیان کرتے
اگر رسول اللہ ﷺ کی یہ منشاء ہوتی کہ اس حدیث کو بیان نہ کیا جائے اور امت کو عمل کرنے دیا جائے تو ایسی وقت اس حدیث کو بیان کرنے والے صحابی کو سختی سے منع کردیا جاتا کہ اب یہ حدیث بیان نہ کی جائے لیکن رسول اللہ ﷺ کی یہ منشاء نہیں تھی بلکہ اس کے برعکس اس حدیث کو بیان کرنے کی اجازت دی گئی اس کی دلیل یہ ہے کہ آج 1450 سال بعد یہ فرمان رسول اللہﷺ ہم تک پہنچا اور آج ہم اس پر بات کررہے ہیں
کہتے ہیں کہ دشمن اگر عقلمند بھی نہ ہو تو ڈبل مشکل ہوتی ہے
محترم قارئین سے گزارش ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ میں تو کھونٹا غاڑھنے والی مثال سے ثابت ہی یہ کر رہا ہوں کہ ایک ہی کام کو ایک انسان ایک طرح کرتا ہے جبکہ اسی کام کو دوسرا نیت کے فرق کی وجہ سے دوسری طرح کرتا ہے پس میں نے اس پر بات کہاں کی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حدیث کے بیان کرنے سے منشاء کیا تھا بلکہ میں نے تو یہ کہا ہے کہ دوسرے صحابی کےمنشاء پر بھی اس کی نیت کو دیکھ کر اعتراض کیا جائے گا پس نیت معلوم نہ ہونے پر ممکنہ احتمالات میں سے ان بعض الظن اثم اور اسکی پچھلی زندگی کا خیال رکھتے ہوئے ایک احتمال کی تعین کرنا ہو گا
چلیں اب اس کو آپ کے ہی اصول سے ثابت کرتے ہیں جیسے انراھیم علیہ السلام نے نمرود کو پہلی دلیل کے بعد سورج والی دلیل سے مبہوت کر دیا تھا
آپ کا دعوی
میں (بہرام) اس حدیث کو مطلق بیان کرنے کو ٹھیک سمجھتا ہوں
جو کلمہ طیبہ کی گواہی دے اسکو جنت کی بشارت دے دو
آپ کے دعوی کی وضاحت
یہاں لفظ "جو" عموم پر دلالت کرتا ہے کہ ہر مرزائی، شیعہ، وھابی، (بشمال سلمان رشدی) چونکہ کلمہ پڑھتے ہیں یونی اسکی گواہی دیتے ہیں پس ان ساروں کو علی بہرام جنت کی بشارت دیتا ہے
وضاحت کے بعد آپ کے دعوے سے کشید شدہ مفہوم
ہر مرزائی، وھابی، اور سلمان رشدی چونکہ کلمہ پڑھتے ہیں پس وہ سارے جنت میں جائیں گے
میرا سوال
کیا آپ اپنے امام باڑے میں ایسا اعلان کریں تو جو آپ کی پٹائی کرے گا وہ کون ہو گا

دوسری بات آپ نے جو اس کی تائید میں فرمان رسول ﷺ بیان فرمایا ہے وہ ایک الگ بات ہے کہ جو کام رسول اللہﷺ نہ کیا اور اس خدشے کی وجہ سے اس کام کو ترک کیا لیکن یہاں تو مخبر صادق ﷺ کےفرمان کے آگے اپنے باطل احتمالات کو لایا جارہا
ٹھیک ایسی طرح کلمہ طیبہ والی حدیث میں بھی جب فرمان رسول اللہﷺ
جو کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کے لئے جنت کی بشارت
اس حدیث کو لانے کا مطلب پھر آپ نہیں سمجھ سکے میں کیا کروں کہ مقابل ہی ایسا ملا
میں اس حدیث کو اس بات کی دلیل میں لایا تھا کہ ایک بات کو صحیح سمجھتے ہوئے بھی انسان یہ عقیدہ رکھ سکتا ہے کہ وہ کام نہ کیا جائے اور جب وہ یہ عقیدہ رکھے گا تو اس پر عمل کو لازمی منکر سمجھے گا مثلا اللہ کے نبی یہ عقیدہ تو رکھتے تھے کہ حطیم بنیاد میں شامل ہے مگر پھر بھی اس پر عمل کرنے کو منکر سمجھتے تھے اب اگر کوئی صحابی اس وقت کعبہ کی حدود کو بڑھانا شروع کر دیتا تو کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسکو نہ روکتے اور کیا وہ اللہ کے نبی صلی اللہ کو یہ جواب دے سکتا تھا کہ میں کوئی غلط کر رہا ہوں
اسی طرح کی غلطی ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ہوئی تھی (صلح حدیبیہ کے موقع پر) اور بھی مثالیں موجود ہیں
پس بظاہر ایک چیز جو اچھی اور شریعت کے مطابق ہو لیکن حقیقت میں مصلحت کے خلاف ہو تو علماء وہاں مصلحت کے تحت خلاف عمل کرنے کو ہی ٹھیک کہتے ہیں اور نہ کرنے کو مفسدہ کہتے ہیں جو منکر ہے اور جس پر اللہ کے نبی کا فرمان ہے
من رای منکم منکرا فلیغیر بیدہ----------
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ کا دعوی
میں (بہرام) اس حدیث کو مطلق بیان کرنے کو ٹھیک سمجھتا ہوں
جو کلمہ طیبہ کی گواہی دے اسکو جنت کی بشارت دے دو
آپ کے دعوی کی وضاحت
یہاں لفظ "جو" عموم پر دلالت کرتا ہے کہ ہر مرزائی، شیعہ، وھابی، (بشمال سلمان رشدی) چونکہ کلمہ پڑھتے ہیں یونی اسکی گواہی دیتے ہیں پس ان ساروں کو علی بہرام جنت کی بشارت دیتا ہے
وضاحت کے بعد آپ کے دعوے سے کشید شدہ مفہوم
ہر مرزائی، وھابی، اور سلمان رشدی چونکہ کلمہ پڑھتے ہیں پس وہ سارے جنت میں جائیں گے
میرا سوال
کیا آپ اپنے امام باڑے میں ایسا اعلان کریں تو جو آپ کی پٹائی کرے گا وہ کون ہو گا
عقل کے اندھوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے
جس قول کو آپ میری طرف نسبت دے رہے ہیں وہ میرا قول نہیں بلکہ یہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے
اور جب اس ارشاد کا اعلان حضرت ابوھیریرہ نے فرمایا تو ان کی بھی پٹائی ہوئی تھی یہ صحیح مسلم کی ایسی حدیث میں بیان ہوا
اب اگر بالفرض محال ابوھریرہ رسول اللہﷺ کے اس ارشاد کا اعلان امام بارگاہ میں آکر کریں تو اس ارشاد کو سن کر جو بھی جناب ابوھریرہ کی پٹائی کرے گا وہ فاروق اعظم کی سنت پر عمل کرے گااور وہ خلفہ کا مانے والا ہوگا کیونکہ خلفہ کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے کاعقیدہ خلفہ کے مانے والوں کا ہی ہے
امید ہے اب تسلی ہوئی ہوگی


اس حدیث کو لانے کا مطلب پھر آپ نہیں سمجھ سکے میں کیا کروں کہ مقابل ہی ایسا ملا
میں اس حدیث کو اس بات کی دلیل میں لایا تھا کہ ایک بات کو صحیح سمجھتے ہوئے بھی انسان یہ عقیدہ رکھ سکتا ہے کہ وہ کام نہ کیا جائے اور جب وہ یہ عقیدہ رکھے گا تو اس پر عمل کو لازمی منکر سمجھے گا مثلا اللہ کے نبی یہ عقیدہ تو رکھتے تھے کہ حطیم بنیاد میں شامل ہے مگر پھر بھی اس پر عمل کرنے کو منکر سمجھتے تھے اب اگر کوئی صحابی اس وقت کعبہ کی حدود کو بڑھانا شروع کر دیتا تو کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسکو نہ روکتے اور کیا وہ اللہ کے نبی صلی اللہ کو یہ جواب دے سکتا تھا کہ میں کوئی غلط کر رہا ہوں
اسی طرح کی غلطی ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ہوئی تھی (صلح حدیبیہ کے موقع پر) اور بھی مثالیں موجود ہیں
پس بظاہر ایک چیز جو اچھی اور شریعت کے مطابق ہو لیکن حقیقت میں مصلحت کے خلاف ہو تو علماء وہاں مصلحت کے تحت خلاف عمل کرنے کو ہی ٹھیک کہتے ہیں اور نہ کرنے کو مفسدہ کہتے ہیں جو منکر ہے اور جس پر اللہ کے نبی کا فرمان ہے
من رای منکم منکرا فلیغیر بیدہ----------
اعرابی والی حدیث کی دلیل شاید آپ کے سمجھ میں نہیں آئی اب اس پر میں یہ ہی کہہ سکتا ہوں جو آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
اس حدیث کو لانے کا مطلب پھر آپ نہیں سمجھ سکے میں کیا کروں کہ مقابل ہی ایسا ملا
چلو شکر ہے یہ تو مانا کہ حضرت ابو ھریرہ کو حدیث بیان کرنے پر مارنا حضرت عمر کی غلطی تھی !!!!!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اب اگر بالفرض محال ابوھریرہ رسول اللہﷺ کے اس ارشاد کا اعلان امام بارگاہ میں آکر کریں تو اس ارشاد کو سن کر جو بھی جناب ابوھریرہ کی پٹائی کرے گا وہ فاروق اعظم کی سنت پر عمل کرے گااور وہ خلفہ کا مانے والا ہوگا کیونکہ خلفہ کی سنت کو دانتوں سے پکڑنے کاعقیدہ خلفہ کے مانے والوں کا ہی ہے
امید ہے اب تسلی ہوئی ہوگی
جی نہیں تسلی نہیں ہوئی کیونکہ آپ نے جواب گول کر دیا
میرا مطالبہ
آپ اپنی امام بارگاہ میں جا کر اعلان کریں کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین نے چونکہ کلمہ کی گواہی دی ہے تو انکو میں جنت کی بشارت دیتا ہوں اور محمد بن عبد الوھاب کو بھی اسی وجہ سے جنت کی بشارت دیتا ہوں

کیا آپ تیار ہیں
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

آٓپ فکر نہ کریں ہم تو عقل کے گھوڑے دوڑانے والے ہیں اس لئے ابھی تماشا ہی دیکھ سکتے ہیں البتہ مرہم پٹی کا خاطر خواہ بندوبست ہو گا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جی نہیں تسلی نہیں ہوئی کیونکہ آپ نے جواب گول کر دیا
میرا مطالبہ
آپ اپنی امام بارگاہ میں جا کر اعلان کریں کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین نے چونکہ کلمہ کی گواہی دی ہے تو انکو میں جنت کی بشارت دیتا ہوں اور محمد بن عبد الوھاب کو بھی اسی وجہ سے جنت کی بشارت دیتا ہوں

کیا آپ تیار ہیں
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

آٓپ فکر نہ کریں ہم تو عقل کے گھوڑے دوڑانے والے ہیں اس لئے ابھی تماشا ہی دیکھ سکتے ہیں البتہ مرہم پٹی کا خاطر خواہ بندوبست ہو گا
اس طرح نہیں بلکہ میں اس طرح اعلان کروں گا کہ ابوھریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو بھی کلمہ طیبہ کی گواہی دے اس کو جنت کی بشارت اور اس فرمان نبیﷺ کے بیان کرنے پر خلیفہ دوئم نے حضرت ابوھیریرہ کی پٹائی کی اب کون ہے جو خلیفہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس حدیث کو بیان کرنے پر میری پٹائی کرے

(یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ اور احادیث ایسی طرح بیان کی جاتیں ہیں )
اب کیا نتیجہ نکلے گا یہ آپ بتادیں ؟؟؟؟
لیکن ایک بات ہے کہ حضرت ابوھریرہ کی مرہم پٹی کس نے کی تھی یہ حدیث میں بیان نہیں ہوا کیا آپ کے علم میں ہے اگر ہو تو ارشاد فرمائیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اس طرح نہیں بلکہ میں اس طرح اعلان کروں گا کہ-------
مجھے اسکی وجہ بتا دیں کہ آپ اس طرح کیوں نہیں کہیں گے جس طرح میں نے لکھا تھا کیا جو بھی کلمہ کی گواہی دے گا کے تحت محمد بن عبدالوھاب نہیں آتا کیا اس میں سلیمان رشدی نہیں آتا کیا اس میں تسلیمہ نسرین نہیں آتی
پس آپ لازمی وجہ بتائیں کہ میری بات کی طرح کیوں نہیں کہیں گے اگر آپ نے وجہ بتا دی تو وہی میرا ٹھوس جواب ہو گا مگر آپ وجہ نہیں بتائیں گے کیونکہ پھر آپ پھنس جائیں گے
 
Top