• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس وضاحت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں:
1۔قسطنطنیہ پر ان حملوں کے دوران پوری جماعت پرعبدالرحمن بن خالد بن الولید امیر تھے اور اہل شام پر فضا لہ بن عبید اوراہل مصر پر عقبہ بن عامر جہنی امیر تھے۔
2۔شروع کے حملوں یا اوّل جیش میں یزید بن معاویہ شامل نہ تھے کیونکہ یہ واقعات ۴۴ھ، ۴۵ھ اور ۴۶ھ کے دوران پیش آئے تھے اور یہ حملے یزید بن معاویہ کے ۴۹ھ کے حملے سے پہلے ہوئے تھے کیونکہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید ۴۶ھ میں شہید ہوگئے تھے اور اس غزوہ میں بھی سیدنا اَبوایوب انصاری، سیدنا عبدالرحمن بن خالد کے ساتھ شریک تھے جیسا کہ وہ سیدنا معاویہؓ کے ساتھ ان کی بے رخی کے باوجود شریک ہوئے تھے اور پھر وہ آخری معرکہ میں یزید بن معاویہؓ کے ساتھ بھی شریک ہوئے اور پھر اسی حملہ کے دوران بیمارہوکر اُنہوں نے وفات پائی تھی، جس کی تفصیل اوپربیان ہوچکی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5۔قسطنطنیہ پر پانچواں حملہ (زیر امارت: سفیان بن عوف)
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’یزید بن معاویہؓ کے آخری حملہ سے پہلے قسطنطنیہ پر سابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
واستعمل معاوية سفیانَ بن عوف علی الصوائف وکان یعظّمہ
’’اور معاویہؓ نے سفیان بن عوف کوقسطنطنیہ پر صیفی(موسم گرماکے) حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔‘‘(الإصابة: ج۲؍ص۵۶)
محمد خضیری کی محاضرات الأمم الإسلامية میں ہے کہ
’’وفي ۴۸ھـ جھَّز معاوية جیشًا عظیمًا الفتح قسطنطينية وکان علی الجیش سفیان بن عوف‘‘ (ج۲؍ ص ۱۱۴)
’’اور ۴۸ھ میں معاویہؓ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے ایک عظیم لشکربھیجا جس کے امیر سیدنا سفیان بن عوف تھے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
6۔قسطنطنیہ پر آخری حملہ
سیدنا معاویہؓ کے دورِ حکومت میں قسطنطنیہ پر جو آخری حملہ ہوا تھا، اس لشکر کے سپہ سالار یزید بن معاویہ تھے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس لشکر میں سیدنا اَبوایوب انصاری بھی شامل تھے جو اسی جہاد کے دوران وفات پاگئے تھے اور اُنہیں قسطنطنیہ کے دروازہ کے قریب دفن کیا گیا تھا اور اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)
’’معاویہؓ نے قسطنطنیہ پر جو لشکر کشی کی تھی، ان میں ایک لشکر سردیوں میں(شواتی) اور دوسرا گرمیوں میں (صوائف) حملہ آور ہوتا تھا۔ (البدایہ:۸؍۱۲۷)
ان لشکروں میں الصائفة (اپریل ۶۷۲ء تاستمبر ۶۷۲ء ) کا سالار یزید تھا۔(دیکھئے خلافت ِمعاویہ و یزید: ص۴۳۵) اور عام کتب ِتاریخ‘‘(ماہنامہ الحدیث، حضرو : شمارہ نمبر۶،ص۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پاک و ہند میں یزید کے جنتی ہونے کا نظریہ کس نے پیش کیا؟
یزید بن معاویہ کے جنتی ہونے کا نظریہ پاک و ہند میں سب سے پہلے محمو داحمد عباسی نے پیش کیا۔ یہ شخص کٹر ناصبی عقائد کا حامل تھا اور اس نے اپنی کتاب ’خلافت ِمعاویہ و یزید‘ اس زمانے میں تحریر کی کہ
جب وہ چینی سفارتخانہ میں ملازم تھا۔ میں بھی جب اس کی اس تحقیق جدید سے متاثر ہوا تھا تو اس سے ملاقات کے لیے اس کے گھر گیا اور میں نے دورانِ گفتگو اس سے کہا کہ آپ نے سیدنا حسینؓ کے سر کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے متعلق تمام روایات وضعی ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حسینؓ کا سر مبارک ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا۔ عباسی صاحب نے کہا: ’’ہاں! بخاری گدھے نے یہ بات لکھی ہے۔‘‘ (معاذ اللہ)
میں نے جب اُس سے امام بخاریؒ کے متعلق یہ گستاخی سنی تو مجھے سخت صدمہ پہنچا اور عباسی صاحب کی عقیدت کاسارا نشہ اسی وقت اُتر گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے تحقیق کی توفیق عنایت فرمائی۔ وللہ الحمد
دراصل محمود احمد عباسی نے یہ سب کچھ تحقیق کے نام سے پیش کیا تھا جس سے عام تعلیم یافتہ طبقہ کافی متاثر ہوا اور بعض علماء کرام بھی ان کی تحقیق سے متاثر ہوکر ان کے دامن گرفتہ ہوگئے اور پھر ان کی تحقیق ایسی بلند ہوئی کہ انہوں نے صحیح بخاری پربھی ہاتھ صاف کردیا جیسا کہ جناب حبیب الرحمن کاندھلوی نے ’مذہبی داستانیں‘ لکھیں اور جناب محمد عظیم الدین صدیق صاحب نے اپنی کتاب ’حیاتِ سیدنا یزید‘ میں یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان حضرات نے اپنی کتب میں سیدنا علی ؓ اور خاندانِ اہل بیت رسول اللہﷺسے بغض و عداوت کا کھل کر اِظہار کرکے اپنے چھپے ہوئے گندے ناصبی عقیدہ کو بھی ظاہر کیا۔ ایک طرف یہ سیدنا علیؓ کی خامیاں نکالتے ہیں اور دوسری طرف یزید کو ’سیدنا‘ یزید اور ’رحمتہ اللہ علیہ‘ لکھتے ہیں۔
ان حضرات نے صحیح بخاری کی ’اوّل جیش‘ والی روایت کو بنیاد بنا کر یزید کو پہلے جنتی ثابت کیا اور پھر اس کے سیاہ کارناموں مثلاً قتل حسین، واقعہ حرہ اور خانہ کعبہ پر حملہ وغیرہ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ، حالانکہ یزیدبن معاویہ کے عہد ِخلافت میں سیدنا حسینؓ اور ان کے خاندان کا قتل ایک زبردست المیہ ہے اور جس سے وہ عہدہ برا قرار نہیں دیئے جاسکتے اور پھر مدینہ منورہ پر شامی فوج کا حملہ اور مدینہ طیبہ کو تاخت وتاراج کرنا صحابہ کرامؓ اور تابعین کا قتل عام اور مدینہ والوں کو خوفزدہ کرنا جس کے متعلق بہت سی احادیث ِصحیحہ موجود ہیں جن میں اہل مدینہ کو خوفزدہ کرنے والوں کو ڈرایا گیاہے۔اسی طرح حرم شریف اور خانہ کعبہ پرحملہ وغیرہ ؛ یہ خلافت ِیزید کے وہ سیاہ کارنامے ہیں کہ جنہیں آج تک اُمت ِمسلمہ فراموش نہیں کرسکی
اور ان میں حصہ لینے والوں میں سے اگر کسی نے حدیث بھی بیان کی ہے تواس کی حدیث کو اس کے اس سیاہ کارنامہ کی وجہ سے ردّ کردیا جاتا ہے۔

’’ تمت بالخیر‘‘​
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ

میری امّت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ) پر حملہ کرے گا وہ مغفور ہے

بخاری کے شا رح الْمُهَلَّبُ کہتے ہیں کہ

قَالَ الْمُهَلَّبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْقَبَةٌ لِمُعَاوِيَةَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا الْبَحْرَ وَمَنْقَبَةٌ لِوَلَدِهِ يَزِيدَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا مَدِينَةَ قَيْصَرَ – بحوا لہ فتح الباری از ابن الحجر

الْمُهَلَّبُ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں منقبت ہے معاویہ کی کیونکہ ان کے دور میں بحری حملہ ہوا اور منقبت ہے ان کے بیٹے کی کہ انہوں نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا

اس کے برعکس ماہ نامہ الحدیث حضرو نمبر ٦ سن ٢٠٠٤ کے شمارے میں حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ
سنن ابی داود کی ایک حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یزید والے حملے سے پہلے بھی قسطنطينية پر حملہ ہوا ہے جس میں جماعت (پورے لشکر ) کے امیر عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ تھے – چونکہ یہ حدیث ان لوگوں کے لئے زبردست رکاوٹ ہے جو ضرور بالضرور یزید کا بخشا بخشا یا ہونا ثابت کرنا چاہتے ہیں

مزید لکھتے ہیں کہ
خلاصہ تحقیق : یزید بن معاویہ کے بارے میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں

١. قسطنطينية پر پہلے حملہ آور لشکر میں اسکا موجود ہونا ثابت نہیں

٢. یزید کے بارے میں سکوت کرنا چاہیے حدیث کی روایت میں وہ مجروح راوی ہے

ضروری ہے کہ تاریخی حقائق کو تسلیم کیا جائے اور کسی کو بھی اپنے بغض و عناد کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے لہذا اس بلاگ میں اس تاریخی مسئلہ پر بحث کی گئی ہے

أبو عمرو خليفة بن خياط (المتوفى: 240هـ) اپنی کتاب تاريخ خليفة بن خياط میں لکھتے ہیں کہ

كتب عُثْمَان إِلَى مُعَاوِيَة أَن يغزي بِلَاد الرّوم فَوجه يَزِيد بْن الْحر الْعَبْسِي ثمَّ عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد عَلَى الصائفتين جَمِيعًا ثمَّ عَزله وَولى سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي فَكَانَ سُفْيَان يخرج فِي الْبر ويستخلف عَلَى الْبَحْر جُنَادَة بْن أَبِي أُميَّة فَلم يزل كَذَلِكَ حَتَّى مَاتَ سُفْيَان فولى مُعَاوِيَة عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد ثمَّ ولى عبيد اللَّه بْن رَبَاح وشتى فِي أَرض الرّوم سنة سِتّ وَثَلَاثِينَ

عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو حکم لکھا کہ روم کے شہروں پر حملے کئے جائیں پس معاویہ نے توجہ کی يَزِيد بْن الْحر الْعَبْسِي کی طرف عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد کی طرف اور دونوں کو گرمیوں کے موسم میں امیر مقرر کیا پھر ہٹا دیا اور سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي کو مقرر کیا – سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي کو بری جنگ پر اور بحری معرکے پر جُنَادَة بْن أَبِي أُميَّة کو مقرر کیا اور ان کو معذول نہیں کیا حتیٰ کہ سفیان کی وفات ہوئی – اس کے بعد مُعَاوِيَة عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد کو مقرر کیا اور ان کے بعد عبيد اللَّه بْن رَبَاح کو روم کے شہروں کے لئے مقرر کیا سن ٣٦ ھجری تک

الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٣٢ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

سنة اثنتين وثلاثين: فيها كانت وقعة المضيق بالقرب من قسطنطينية، وأميرها معاوية

سن ٣٢ ھجری : اور اس میں المضيق کا واقعہ ہوا جو قسطنطينية کے قریب ہے ، اور اس کے امیر معاوية تھے

المضيق اک استریت ہے اور اس سے مراد دردانیلیس ہے جو ایجین سمندر کو مرمرا سمندر سے ملاتا ہے اور اک تنگ سمندری گزر گاہ ہے

strait= استریت

Dardanelles= دردانیلیس

Aegean Sea=ایجین

Marmara= مرمرا

لیکن ان تمام معرکوں کے باوجود اسلامی لشکر الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ نہیں پہنچ سکا

الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٥٠ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

وَفِيهَا غَزْوَةُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ، كَانَ أَمِيرُ الْجَيْشِ إِلَيْهَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَكَانَ مَعَهُ وُجُوهُ النَّاسِ، وَمِمَّنْ كَانَ مَعَهُ أَبُو أيوب الأنصاري -رضي الله عنه

اور اس میں غَزْوَةُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ ہوا اور امیر لشکر عساکر یزید بن معاویہ تھے اور ان کے ساتھ لوگ تھے اور أَبُو أيوب الأنصاري -رضي الله عنه. بھی ساتھ تھے

مزید تفصیل أبي زرعة الدمشقي (المتوفى: 281هـ) بتاتے ہیں کہ

أبي زرعة الدمشقي (المتوفى: 281هـ) اپنی کتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي میں لکھتے ہیں کہ

قَالَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: فَأَغْزَا مُعَاوِيةُ الصَّوَائِفَ، وَشَتَّاهُمْ بِأَرْضِ الرُّومِ سِتَّ عَشْرَةَ صَائِفَةً، تَصِيفُ بِهَا وَتَشْتُو، ثُمَّ تُقْفِلُ وَتَدْخُلُ مُعَقِّبَتُهَا، ثُمَّ أَغْزَاهُمْ مُعَاوِيَةُ ابْنُهُ يَزِيدَ فِي سَنَةِ خَمْسٍ وَخَمْسِينَ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ فِي الْبَرِّ وَالبْحَرِ حَتَّى جَازَ بِهِمِ الْخَلِيجَ، وَقَاتَلُوا أَهْلَ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ عَلَى بَابِهَا، ثُمَّ قَفَلَ

سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِکہتے ہیں کہ مُعَاوِيةُ نے الصَّوَائِفَ (گرمیوں کے موسم میں حملے ) کیے اور سولہ حملے ارض روم پر کیے … پھر یزید بن معاویہ نے ٥٥ ھجری میں اصحاب رسول کی جماعت کے ساتھ سمندر اور خشکی کے ذریعہ حملہ کر کے خلیج کو پار کیا اور اہل الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ سے ان کے دروازے پر جنگ کی …

(عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ (المتوفى: ٤٦ هـ

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے حوالے سے روایات میں بیان ہوا ہے کہ وہ اس لشکر کے اوپر امیر تھے جس نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کیا – یہ روایت سنن ابی داوود ، جا مع ترمذی ، تفسیر ابن ابی حاتم ، مستدرک حاکم وغیرہ میں بیان ہوئی ہیں – تفسیر کی کتابوں میں یہ روایت اس لئے موجود ہے کہ اس میں سوره البقرہ کی اک آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} کا ذکر بھی آتا ہے – عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے حوالے سے تاریخ خلیفہ بن خیاط میں بیان ہوا ہے کہ ارض روم پر کسی حملے میں معاویہ رضی الله عنہ نے ان کو استعمال کیا تھا لیکن ان کے بعد اور لوگوں کو مقرر کیا جس سے ظاہر ہے کہ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کو ابتدائی دور میں امیر لشکر بنایا گیا تھا – سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٣٢ ھجری میں خود معاویہ رضی الله عنہ بھی الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ کے پاس المضيق تک پہنچ پائے – اس سے صاف ظاہر ہے کہ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ بھی الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ نہیں پہنچ سکے تھے

الذهبي (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے لئے لکھتے ہیں کہ

وَكَانَ يَسْتَعْمِلُهُ مُعَاوِيَةُ عَلَى غَزْوِ الرُّومِ. وَكَانَ شَرِيفًا شُجَاعًا مُمَدَّحًا

ان کو معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے روم کے معرکے میں مقرر کیا اور یہ شریف – بہادر اور ممدوح تھے

الذهبي جو اک معتدل مورخ ہیں انہوں نے کہیں بھی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے لئے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ کے معرکوں کا ذکر نہیں کیا- ا وہ ان معرکوں میں شامل ہوۓ جو ارض روم کے مختلف شہروں میں ہوۓ – روم وسیع علاقہ تھا جس میں موجودہ ترکی اور قبرص و یونان کے جزائر بھی شامل تھے

اب ان روایات کی اسناد دیکھتے ہیں جن میں عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملے کا تذکرہ آ رہا ہے – الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ کے حوالے سے یہ تمام روایات تقریبا اک سند (حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، وَابْنِ لَهِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ) سے آ رہی ہیں لیکن اضطراب کا شکار ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل شجرہ کو دیکھنے سے ہوتا ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، وَابْنِ لَهِيعَةَ

عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ

سنن أبي داود



مَا قُرِئَ عَلَى يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

غَزَوْنَا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ

تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الضَّحَّاكِ بْنِ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَسْلَمُ أَبُو عِمْرَانَ، مَوْلًى لِكِنْدَةَ

كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ

صحيح ابن حبان

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ

المستدرك على الصحيحين

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَنَسٍ الْقُرَشِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أَنْبَأَ حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَنْبَأَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، أَخْبَرَنِي أَسْلَمُ أَبُو عِمْرَانَ، مَوْلَى بَنِي تُجِيبَ

: كُنَّا بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ

المستدرك على الصحيحين

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ

كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ

الجامع الكبير – سنن الترمذي


کبھی راوی کہتے ہیں

غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ – ہم نے جنگ کی اک شہر میں ہم الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ چاہتے تھے

غَزَوْنَا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ ہم نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ میں جنگ کی

كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ ہم روم کے اک شہر میں تھے

كُنَّا بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ ہم الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ میں تھے

اسی اضطراب کی وجہ سے شاید یہ روایت صحیحین میں نہیں اور امام ترمذی بھی اس کو حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ کا درجہ دیتے ہیں

دراصل عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ کے امیر لشکر ہونے کے حوالے سے صحیح بات یہی ہے کہ وہ كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ ہم روم کے اک شہر میں تھے اور غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ اور انہوں نے جنگ کی اک شہر میں اور وہ ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ تک رسائی چاہتے تھے

منطقی نقطۂ نگاہ سے بھی یہ بات درست نہیں کہ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيد کی قیادت میں ہونے والا یہ حملہ پہلا تھا کیونکہ اگر یہ پہلا حملہ تھا اور ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ تک رسائی ہو گئی تھی تو پھر ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر سولہ حملوں کی کیا ضرورت تھی – اصل بات یہی ہے کہ یہ سارے حملے قُسْطَنْطِينِيَّةَ تک بری راستہ بنانے کے لئے تھے کیونکہ ا لْقُسْطَنْطِينِيَّةَ (موجودہ استنبول )ایک بندر گاہ تھی اور اس کا دفاع بہت اچھا تھا

اس روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایک مسلمان کفّار کی صفوں میں کود پڑا جس پر لوگوں نے کہا کہ اس نے اپنے آپ کو ہلاک کیا اور آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} پڑھی اس پر أَبُو أيوب الأنصاري رضي الله عنه.نے فرمایا کہ یہ آیت جہاد سے کنارہ کشی کرنے کی ہماری خواھش کی بنا پر نازل ہوئی تھی- اس کے برعکس امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] کی تفسیر حذیفہ رضی الله تعالیٰ عنہنے بیان کی ہے کہ

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] قَالَ: «نَزَلَتْ فِي النَّفَقَةِ»

یہ آیت انفاق کے بارے میں نازل ہوئی ہے

اس بحث کا خلاصہ ہے کہ تاریخ کی مستند کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کرنے والے لشکروں میں شامل تھے – الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر دو دفعہ حملہ ہوا – ایک سن ٥٠ یا ٥١ ھجری میں ہوا اور اس میں أَبُو أيوب الأنص
اس مضمون کا مطالعہ کرنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ تنقیدی نظر سے اس مضمون کا جائزہ لیں اور اس مضمون کے سلسلے میں جو مثبت یا منفی دلائل ان کے پاس موجود ہوں اُن سے راقم الحروف کو ضرور بہ ضرور آگاہ کریں۔ لیکن واضح رہے کہ وہ جوکچھ نقل کریں، وہ کسی شخص کی محض رائے نہ ہو یا تاریخ کی کوئی بے سند روایت نہ ہو بلکہ وہ جوکچھ بھی نقل کریں وہ تحقیقی مواد ہونا چاہئے اور جو روایت بھی وہ نقل کریں وہ باسند اور صحیح ہو۔جو محدثین کے اُصول کے مطابق صحیح یا حسن درجہ کو پہنچی ہوئی ہو کیونکہ بے سند روایت کا وجود اور عدم برابر ہے اور وہ شریعت میں کسی دلیل کی حیثیت نہیںرکھتی۔ اگر کوئی اہل علم اس سلسلہ میں ان اُصولوں کو مدنظر رکھ کر میری راہنمائی کریں تو اس کی کوشش اور جدوجہد کو ان شاء اللہ تعالیٰ قدروقیمت اورعزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ اور یہی قرآنِ مجید کا پیش کردہ اُصول ہے:
’’ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘ (البقرۃ:۱۱۱)
اري رضي الله عنه. بھی ساتھ تھے- دوسرا حملہ سن ٥٥ ھجری میں ہوا اور اصحاب رسول کی جماعت کے ساتھ سمندر اور خشکی کے ذریعہ حملہ کر کے خلیج کو پار کیا اور اہل الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ سے ان کے دروازے پر جنگ کی – ان دونوں حملوں میں سپہ سالار لشکر یزید بن معاویہ تھے

حدیث الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ پر شیعہ اعتراضات

تمام راویوں کا شامی ہونا. وہی شام جو معاویہ ابن ابی سفیان اور اسکے بیٹے یزید کا دارلحکومت تھا اور یہاں کے لوگ سخت مخالفین اہلبیت تھے اور بنی امیہ کی شان میں احادیث گھڑنے میں مشہور تھے

جواب: اس روایت میں شامیوں کا تفرد نہیں. اس کے ایک راوی خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي بھی ہیں

الأعلام الزركلي کے مطابق : خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله: تابعيّ، ثقة، ممن اشتهروا بالعبادة. أصله من اليمن، وإقامته في حمص (بالشام)

خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله یمنی تھے لیکن حمص شام میں رہتے تھے

یہ روایت ام حرام بنت ملحان رضی الله تعالی عنہا کی ہے اور ام حرام ، انس بن مالک رضی الله تعالی عنہ کی خالہ اور عُبَادَةَ بنِ الصَّامِتِ رضی الله تعالی عنہ کی بیوی ہیں. مدینہ کی رہنے والی تھیں. یہ بھی شامی نہیں. مسلمان فتوحات کی وجہ سے بہت علاقوں میں پھیل گئے تھے. اگر اس اعتراض کو صحیح مانا جاے تو اس بنیاد پر تو علی رضی الله تعالی عنہ بھی کوفی کہلائیں گے.

روایت کے دوسرے راوی ثور بن يزيد کے لئے لکھتے ہیں کہ

یحیی ابن معین (جن کے فن رجال کو تمام علماء مانتے ہیں) اس ثور کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ثور اس جماعت میں شامل تھا جو علی ابن ابی طالب پر سب کرتے تھے (سب کا مطلب ہے برا کہنا اور گالیاں وغیرہ دینا)۔ یحیی ابن معین کے الفاظ یہ ہیں : و قال فى موضع آخر : أزهر الحرازى ، و أسد بن وداعة و جماعة كانوا يجلسون و يسبون على بن أبى طالب ، و كان ثور بن يزيد لا يسب عليا ، فإذا لم يسب جروا برجلہ.

جواب: احمد کہتے ہیں کہ : وكان من أهل حمص اور یہ اہل حمص میں سے تہے. ابن معین کے الفاظ کا مطلب ہے: أزهر الحرازي اورأسد بْن وداعة علی کو گالیاں دتیے تھے و كان ثور بن يزيد لا يسب عليا اور ثور بن يزيد علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے بحوالہ الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی

اس بات کا تو مطلب ہی الٹا ہے ثور بن يزيد ، علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے. ہاں یہ ضرور ہے کہ ابن سعد کے مطابق وہ لا أحب رجلا قتل جدى : علی کو اپنے دادا کے صفیں میں قتل کی وجہ سے نا پسند کرتے تھے

یزید بن معاویہ کی بیعت

اب ہم اک دوسرے مسئلے کی طرف آتے ہیں جو کافی بحث طلب ہے اور اس مختصر بلاگ میں اس کو مکمّل احاطہ ممکن بھی نہیں لیکن چند معروضات پیش خدمت ہیں

١ سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ یزید بن معاویہ کی بیعت سے لے کر متمکن خلافت ہونے تک کل دس سال ہیں یعنی سن ٥١ ھجری سے لے کر سن ٦٠ ھجری تک – اس دوران تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ کسی نے مخالفت نہ کی لیکن معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کے اک سال بعد یعنی ٦١ ھجری میں حسین رضی الله عنہ نے اور عبدللہ بن زبیر رضی الله عنہ نے خروج کیا – دونوں کو وہ عصبیت یا سپورٹ نہ مل سکی جو یزید بن معاویہ کو حاصل تھی – ان دونوں نے راست قدم اٹھایا یا نہیں – اس پر رائے زنی کرنے کا ہمارا مقام نہیں کیونکہ حسین رضی الله عنہ اور عبدللہ بن زبیر رضی الله عنہ دونوں جلیل القدر ہیں

٢ معاویہ رضی الله عنہ کا اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کرنے کا عمل بھی قابل جرح نہیں کیونکہ اسلام میں خلیفہ مقرر کرنے کا حق خلیفہ کا ہی ہے جیسے ابوبکر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ کو خلیفہ مقرر کیا – عمر رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے اک کمیٹی مقرر کی – علی رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے اپنے بیٹے حسن رضی الله عنہ کو مقرر کیا – اسی طرح معاویہ رضی الله عنہ نے بھی علی رضی الله عنہ کی طرح اپنے بیٹے یزید کو مقرر کیا- اسلام میں موروثی خلافت کا نظریہ علی رضی الله عنہ نے ہی پیش کیا

٣ حسن رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ کی وفات کے اگلے سال ٤١ ھجری میں سات ماہ کے بعد خلافت سے دست برداری کا ١علان کر دیا – چونکہ وہ حسین رضی الله عنہ کے بڑے بھائی تھے اس لئے خاندان علی کے اک نمائندہ تھے – معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں دونوں بھائیوں کو وظیفہ بھی ملتا رہا – حسن رضی الله عنہ کی سن ٥٠ ھجری میں وفات ہوئی – سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ پر حملہ کر کے امّت میں اپنی امیر کی صلاحیتوں کو منوا لیا – اس حملے میں جلیل القدر اصحاب رسول بھی ساتھ تھے – سن ٥١ ھجری میں معاویہ رضی الله عنہ نے یزید کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دی

بخاری نے سوره الاحقاف کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ

باب {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (17)} [الأحقاف: 17]

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِى بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ قَالَ كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الْحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ، فَخَطَبَ فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، لِكَىْ يُبَايِعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ خُذُوهُ. فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْوَانُ إِنَّ هَذَا الَّذِى أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي}. فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلاَّ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِى.

مروان جو معاویہ رضی الله تعالیٰ کی جانب سے حجاز پر (گورنر ) مقرر تھے انہوں نے معاویہ کے بعد يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت کے لئے خطبہ دیا – پس عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى بَكْرٍ نے کچھ بولا – جس پر مروان بولے اس کو پکڑو اور عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى بَكْرٍ عائشہ رضی الله تعالیٰ کے گھر میں داخل ہو گئے – اس پر مروان بولے کہ یہی وہ شخص ہے جس کے لئے نازل ہوا ہے {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي} – اس پر عائشہ رضی الله تعالیٰ نے پردے کے پیچھے سے فرمایا کہ ھمارے لئے قرآن میں سواے برات کی آیات کے کچھ نازل نہ ہوا

عائشہ رضی الله تعالی عنہا ٰ کی وفات ٥٧ ھجری کی ہے لہذا یہ واقعہ معاویہ ر ضی الله تعالیٰ عنہ سے کم از کم تین سال پہلے کا ہے

أبو عمرو خليفة بن خياط (المتوفى: 240هـ) اپنی کتاب تاريخ خليفة بن خياط میں لکتھے ہیں کہ

فِي سنة إِحْدَى وَخمسين وفيهَا غزا يَزِيد بْن مُعَاوِيَة أَرض الرّوم وَمَعَهُ أَبُو أَيُّوب الْأنْصَارِيّ وفيهَا دَعَا مُعَاوِيَة بْن أَبِي سُفْيَان أهل الشَّام إِلَى بيعَة ابْنه يَزِيد بْن مُعَاوِيَة فأجأبوه وَبَايَعُوا

اور سن ٥١ ھجری میں یزید بن معاویہ نے رومی سر زمین پر جہاد کیا اور ان کے ساتھ تھے أَبُو أَيُّوب الْأنْصَارِيّ اور اسی سال مُعَاوِيَة بْن أَبِي سُفْيَان نے اہل شام کو یزید بن معاویہ کی بیعت کی دعوت دی جس کو انہوں نے قبول کیا اور بیعت کی

بخاری مزید بیان کرتے ہیں کہ

- باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ

نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے

بخاری یزید بن معاویہ کو حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تھے بخاری بَابُ مَنَاقِبِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا میں روایت کرتے ہیں کہ

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نُعْمٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، وَسَأَلَهُ عَنِ المُحْرِمِ؟ قَالَ: شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابن ابی نُعْمٍ کہتے ہیں میں نے عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کو سنا جب ان سے محرم کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر محرم (احرام ) کی حالت میں مکھی قتل ہو جائے تو کیا کریں پس انہوں نے کہا أَهْلُ العِرَاقِ مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور انہوں نے رسول اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے نواسے کا قتل کیا

بخاری نے ابن عمر کی یہ روایت بیان کر کے قتل حسین کا بوجھ أَهْلُ العِرَاقِ پر بتایا اور أَهْلُ الشام کو اس کا ذمہ دار قرار نہ دیا
 
Top