• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’سید سلیم شاہ ‘ اور’ اَنور عباسی‘ کی خدمت میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارے نزدیک دنیاکا مشکل ترین کام کسی ایسے جاہل کو سمجھانا ہے جسے علم و تحقیق کا شوق چڑھ گیا ہو۔ شاہ صاحب کو ہم کیسے سمجھائیں کہ لفظ ’قراء ت‘ اور ’قراء ۃ‘ دونوں طرح درست ہے۔ چلیں!قرآن سے سمجھتے ہیں۔ قرآ ن نے لفظ ’نعمت‘ اور ’نعمۃ‘ دونوں طرح استعمال کیا ہے۔سورۃ بقرۃ آیت ۲۳۱ میں یہ لفظ ’نعمت‘ لمبی تاء کے ساتھ اور سورۃ ضحی آیت ۱۱ میں یہ لفظ ’نعمۃ‘ گول تاء کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔سورۃ بقرۃ ۲۱۸ آیت میں لفظ’رحمت‘ لمبی تاء کے ساتھ استعمال ہوا ہے جبکہ سورۃ الأحقاف آیت ۱۲ میں یہ لفظ’رحمۃ‘ گول تاء کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ اس طرح کے قرآن میں بیسیوں مقامات ہیں جن میں کسی جگہ ایک ہی کلمے کا رسم الخط لمبی تاء کے ساتھ اور دوسری جگہ گول تاء کے ساتھ ہے۔
سلیم شاہ صاحب کو جو یہ غلط فہمی لگی کہ ’التابوت‘ اور ’التابوۃ‘ میں کون سا درست ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لغت عرب میں دونوں درست ہیں لیکن قرآن میں ان میں سے ایک کا لکھا جانا تھا اور قریش اس کو لمبی تاء سے لکھتے تھے لہٰذا قرآن میں لمبی تاء سے لکھا گیا۔محسوس ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے تیز گام کی رفتار سے دونوں رسالوں کا مطالعہ فرمایا ہے ۔ ان کے تبصرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوران مطالعہ کئی مقامات پر نفس مضمون کی باریکی تک نہ پہنچ سکے۔اور کسی مضمون نگار کی عبارتوں کا جو سرسری مفہوم ان کے دل و دماغ میں سما گیا بس اس کی بنیاد پر انہوں نے تنقید کی بنیادیں کھڑی کرنا شروع دیں۔’رُشد‘کے کسی بھی مضمون میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ عربی زبان میں ’التابوت‘ اور ’التابوۃ‘ میں سے ایک ہی درست ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جناب سلیم شاہ صاحب نے لفظ ’قرأت‘ کو درست ثابت کرنے کے لیے اردو اور انگلش ڈکشنریوں کے حوالے دینا شروع کر دیے۔ ’قرأت‘ تو عربی لفظ ہے ‘ چاہیے تو یہ تھا کہ محقق صاحب اس لفظ کی تحقیق میں کسی عربی ڈکشنری کا حوالہ دیتے لیکن سلیم شاہ صاحب جیسے محقق اگر فارسی اور پشتو کی کسی ڈکشنری کا بھی حوالہ دے دیتے تو ہمیں حیرت نہ ہوتی کیونکہ فی زمانہ محققین کی ایک جماعت کے ہاں ’چولیاں‘ تحقیق کا بنیادی تقاضا شمار ہوتی ہیں اور بقول حافظ محمد زبیر’ چولیاں مارنے میں بھی اپناہی مزہ ہے‘۔سلیم شاہ صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عربی زبان میں لفظ ’قراء ت‘ اور ’قرأت‘ میں فرق ہے۔ پہلا لفظ قرأ یقرأ سے مصدر ہے جس کا معنی ’پڑھنے ‘ ہیں جبکہ دوسرے لفظ کا تلفظ ’قِرْأَۃ‘ کیا جاتا ہے اورا مام لغت امام اصمعی﷫ (متوفی ۲۱۶ھ ) کے نزدیک لفظ ’قِرْأَۃ‘ وباء کے معنی میں ہے اور اس کو بعض حضرات لمبی تاء کے ساتھ ’قِرْأَت‘ بھی لکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ لفظ یعنی ’قرأت‘ واحد مونث غائب کا صیغہ بھی بن سکتا ہے اس معنی میں کہ وہ عورت حیض والی ہوئی۔اسی طرح اگر اس لفظ کو آخر میں گول تاء کے ساتھ لکھیں یعنی ’قرأۃ ‘ تو یہ ’کفرۃ ‘کے وزن پر قاری کی جمع ہو گی۔ (لسان العرب: ۱؍۱۳۲‘ تھذیب اللغۃ: ۳؍۲۶۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سلیم شاہ صاحب یہ کوئی پشتو نہیں ہے ‘ عربی زبان ہے جہاں زیر‘ زبر سے معنی میں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتاہے اور یہ تو ایک الف کا حذف ہے۔ اور ایک الف ہی کے حذف سے تثنیہ کا صیغہ واحد کا بن جاتا ہے اور آپ اب بھی فرماتے ہیں کہ غامدی صاحب نے اگر ایسے لکھ ہی دیاہے تو فرق کیا پڑتاہے۔
سلیم شاہ صاحب نے خواہ مخواہ لفظ ’قراء ت‘ اور ’قراء ت‘ میں بھی فرق کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ان دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی بنتا ہے سوائے اس فرق کہ پہلے لفظ میں ہمزہ کرسی کے بغیر ہے اور دوسرے لفظ میں ہمزہ کو یاء کی کرسی دی گئی ہے۔کتابت کے ایسے اختلافات توسلیم شاہ صاحب کے قرآن کے ہر دوسرے نسخے میں موجود ہیں۔کبھی انہیں سعودی عرب اور پاکستان کے شائع شدہ مصاحف کا تقابلی مطالعہ کرنے کی فرصت ملے تو انہیں اپنے اس عقیدے کی حقیقت بھی معلوم ہو جائے گی کہ قرآن کے دو نسخوں میں شوشے کا بھی فرق نہیں ہے۔ اس اختلاف کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے طبع شدہ مصاحف میں کئی ایک مقامات پر رسم عثمانی کے مطابق کتابت نہیں پائی جاتی جبکہ سعودی مصاحف خاص طور پر مصحف مدینہ رسم عثمانی کے مطابق ہے اور ایک محقق شدہ نسخہ ہے۔سلیم شاہ صاحب یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بعض الفاظ میں رسم کے اختلاف سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ بعض الفاظ میں رسم کی تبدیلی سے معنی بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور شاہ صاحب جس لفظ کی بات کر رہے ہیں یعنی ’قرأت‘ اس میں رسم کی تبدیلی سے معنی بھی تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کا معنی ’قراء ت‘ کی طرح پڑھنا نہیں ہے بلکہ حیض یا وباء کا مفہوم اس میں پیدا ہو جاتا ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح سلیم شاہ صاحب نے لفظ ’قراء ات‘ اور ’قراآت‘ میں بھی فر ق کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔الف کے بعد اگر ہمزہ ہو تو اس کو ’آ‘ بھی لکھ سکتے ہیں اور اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔کبھی کبھار تو اس قسم کے بے تُکے اعتراضات پر مبنی مضامین کا جواب دیتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ فضول میں وقت ضائع کر رہے ہیں لیکن پھر یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ کوئی سادہ مسلمان ان نام نہاد محققین کی تحقیق سے بھٹک نہ جائے تودل کو کچھ تسلی ہو تی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہمارے مضمون کی وجہ سے بھٹکنے سے بچ گیا تو شاید ہمارا وقت بھی قیمتی بن جائے۔
آئیں !ہم قراء ات کے مسئلہ کو ایک اور پہلو سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم جناب اَنورعباسی اورسید سلیم شاہ صاحب سے یہ پوچھتے ہیں کہ جو قرآن ان کے پاس ہے ‘ ان کے نزدیک اس کے قرآن ہونے کی دلیل کیا ہے؟۔ یعنی انہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ وہی قرآن ہے جو اللہ کے رسولﷺکو دیا گیا تھااور اس میں تحریف نہیں ہوئی۔ پس جو معیار وہ اپنے قرآن کے لیے بتائیں گے ‘ اسی معیار پر قراء ات کو بھی پرکھ لیں۔اگر تو ہم اس قرآن(جسے قراء روایت حفص کہتے ہیں) کو اس لیے مانتے ہیں کہ پوری اُمت اس قرآن کو مانتی ہے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ مغرب اقصی اور افریقہ کے سینکڑوں شہر اور کروڑوں کی آبادی ایسی ہے جو ہمارے قرآن(روایت حفص) سے نا آشنا ہے اور اگر وہاںسلیم شاہ صاحب یا انور عباسی صاحب عوامی مقامات (public place)پر اپنے قرآن کی تلاوت کریں گے تو عوام الناس مرنے مارنے پر تل آئیں گے کیونکہ وہ قراء ات کے اختلافات سے واقف نہیں ہیں۔ ہاں! ان ممالک کے علماء ان اختلافات سے واقف بھی ہیں اور ان کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔پس قرآن درحقیقت وہ ہے جس پر علماء ‘ فقہاء اور قراء کے طبقے کا اتفاق ہو کہ یہ قرآن ہے اور جمیع فقہائے مالکیہ‘ شافعیہ‘ حنفیہ ‘ حنابلہ‘ اہل الحدیث اور اہل الظاہر قراء ات کے اختلافات کے قائل ہیں۔ جہاںتک شاہ صاحب کے قرآن(روایت حفص) کا معاملہ ہے تو امت مسلمہ کے عامۃ الناس کا اس کے قرآن ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔ مشرق میں روایت حفص کو قرآن سمجھا جاتا ہے تو مغرب اقصی اور افریقہ میں روایت ورش کو اور کچھ ممالک میں روایت دوری کو قرآن سمجھا جاتا ہے۔اور انہی روایات کے مطابق متعلقہ ممالک میں مصاحف چھپتے ہیں‘ لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور انہی رِوایات کو ان کے بچے حفظ بھی کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَنور عباسی صاحب کی خدمت میں چند گزارشات
جناب اَنور عباسی صاحب نے بھی اپنے مضمون میں سارا زور سبعہ اَحرف کے معنی و مفہوم کے تعین میں اختلاف ثابت کرنے میں لگا دیا ہے کہ جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے معنی و مفہوم میں اختلاف ہے‘ یہ بات تو سب کو معلوم ہے جس طرح ہر کسی کو یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن کے معنی و مفہوم کے تعین میں علماء کا اختلاف ہر دور میں رہاہے اور رہے گا۔لیکن صحابہ﷢ سے لے کر آج تک مفسرین کے اختلاف کے باوجود کوئی بھی مسلمان تفسیر کے اس اختلاف کو بنیاد بنا کر قرآن کا اِنکار نہیں کرتا۔ ہاں! مستشرقین مسلمانوں کو قرآن کی ہر تیسری آیت کے معنی و مفہوم میں اختلاف کا طعنہ ضرور دیتے ہیں۔ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر پیون کہ جس نے ۱۳ سال یمن کے قدیم مصاحف پر تحقیقی کام کیا ہے‘ قرآن کی عربی کے بارے کہتاہے:
" The Qur'an claims for itself that it is 'mubeen,' or clear, but if you look at it, you will notice that every fifth sentence or so simply doesn't make sense. Many Muslims will tell you otherwise, of course, but the fact is that a fifth of the Qur'anic text is just incomprehensible. This is what has caused the traditional anxiety regarding translation. If the Qur'an is not comprehensible, if it can't even be understood in Arabic, then it's not translatable into any language. That is why Muslims are afraid. Since the Qur'an claims repeatedly to be clear but is not-there is an obvious and serious contradiction. Something else must be going on.ـ"
(Retrieved from "http://en.wikipedia.org/wiki/Gerd_R._Puin)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جہاں تک ہم نے غور کیا ہے جناب اَنور عباسی کی قراء ات کے بارے تحقیق کو تحقیق کہنا ہم تحقیق کی توہین سمجھتے ہیں کیونکہ درحقیقت یہ دو چار افراد کی تحقیق کا خلاصہ ہے جو انہوں نے نقل کر دیا ۔ اپنے طے شدہ تحقیقی نتائج کے حصول کے لیے د وافراد جناب جاوید احمد غامدی اور شہزاد سلیم صاحب کی تحقیق سے انہوں نے سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ جناب غامدی صاحب کے نظریہ قراء ت کا مفصل جواب ہم ماہنامہ’ رُشد‘جون ۲۰۰۹ء کے دو مضامین میں نقل کر چکے ہیں‘ اَنور عباسی صاحب ان کی طرف رجوع فرما لیں۔جہاں تک انور عباسی صاحب کے دوسرے مصدر و مأخذ کا تعلق ہے یعنی محترم شہزاد سلیم صاحب تو ان کی تحقیق کے نمونوں میں سے ایک نمونہ بھی پیش خدمت ہے ۔
جناب اَنور عباسی صاحب حضرت حذیفہ بن یمان﷜ والی روایت کہ جس میں حضرت عثمان﷜ کو جامع قرائات قرار دیا گیا‘کو من گھڑت سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل ان کے پاس جناب شہزاد سلیم صاحب کی تحقیق ہے۔انور عباسی صاحب‘ شہزاد سلیم صاحب کی تحقیق کا خلاصہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) یہ روایت غرب ہے۔ اس کی ابتدائی دو کڑیاں صرف ایک ایک روای سے جڑی ہوئی ہیں۔ اسے صرف انس بن مالک روایت کرتے ہیں اور ان سے صرف ابن شہاب زہری نے روایت کی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تقریباً نصف صدی تک صرف چند اشخاص ہی کو اس روایت کا علم تھا۔
(٢) اس روایت کا کوئی متن بھی ابن شہاب زہری﷫ کی متنازع شخصیت کے بغیر نہیں ہے۔ ان کی موجودگی ہی اس روایت کو مشکوک بنائے دے رہی ہے۔
(٣) اس روایت کو اور زیادہ مشکوک اس حقیقت نے بنا دیا ہے کہ ابراہیم بن سعد ہی ابن شہاب زہری﷫ سے روایت کر رہے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ ان کی آپس میں ملاقات ہوئی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عمر زہری کی وفات کے وقت بمشکل سولہ سال تھی اور زہری ایلہ کے مقام پر رہتے تھے جبکہ ابراہیم بن سعد کی رہائش مدینہ میں تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) ابن حزم﷫ نے لکھا کہ حضرت عثمان﷜ کے عہد تک لاکھوں کی تعداد میں قرآن اسلامی مملکت میں پھیلے ہوئے تھے ۔ ان کی موجودگی میں اختلاف قراء ت کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا جیسا کہ اس روایت میں بتایا گیا ہے۔ اس میں پریشانی والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔
(٥) اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی قسم کاکوئی اختلاف پیدا ہو اتھا تو اس کا ایک آسان او ر سیدھا حل یہی ہو سکتا تھاکہ اس جگہ قرآن کے نسخے بھیج دیے جاتے ۔
(٦) یہ حقیقت تو ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ اس روایت میں حضرت عثمان﷜ نے حضرت زید بن ثابت﷜ کو‘ جو خود بھی قریش نہیں تھے‘ کہا کہ اس قرآن کو قریش کی زبان میں لکھنا۔ اگر یہ قرآن‘ اسی نسخہ سے نقل کیا جانا تھا جو پہلے سے موجود تھا تو فرق یا اختلاف پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ تو لکھا ہی قریش کی زبان میں گیا تھاجو خود حضرت زید بن ثابت﷜ ہی نے لکھا تھااور پھر کوئی کمیٹی بنانے کی ضرورت کس طرح پیش آ گئی کہ حضرت زید بن ثابت﷜ کی تصحیح کی جا سکے کیونکہ اصل نسخہ بھی تو ان ہی کا لکھا ہوا تھا اور اب تو وہ محض اس کی صرف نقل کر رہے تھے!یہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم حضرت عثمان﷜ کے جمع قرآن کی روایت قبول نہیں کر سکتے۔‘‘ (انسانیت ہدایت کی تلاش میں : ۲۸۵، ۲۸۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس تبصرے کی بنیاد ۶ نکات ہیں۔ ہم ترتیب وار ان نکات کا جواب نقل کر رہے ہیں:
(١) جناب اَنور عباسی صاحب نے اس لفظ کو’غرب‘ لکھا ہے حالانکہ اصل اصطلاح ’غریب‘ کی ہے۔شہزاد سلیم صاحب نے اپنے انگریزی مضمون میں یہ اصطلاح صحیح نقل کی ہے لیکن شاید انور عباسی صاحب انگریزی سے ترجمہ کرتے ہوئے اس کا صحیح تلفظ محفوظ نہ کر سکے ۔جب کسی محقق صاحب کے دین کے مصادر و مآخذ کی انتہاء اردو اور انگریزی کتابیں اور انسائیکلو پیڈیاز ہوں تو اس قسم کی چھوٹی موٹی غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں۔اگر کسی صاحب علم سے یہ لفظ یوں نقل ہوا ہوتا تو ہم ضرور اسے طباعت کی غلطی پر محمول کرتے لیکن اصول حدیث کی الف باء سے ناواقف شخص کے بارے طباعت کی غلطی کی تاویل کرنے سے ہماری طبیعت اباء کرتی ہے۔جناب شہزاد سلیم صاحب کا یہ مضمون المورد کے انگریزی رسالہ 'Rennaisance' کے فروری ۲۰۰۰ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ شہزاد سلیم صاحب نے اپنے اس مضمون میں’ غریب‘ حدیث کو 'weak report' یعنی ضعیف روایت کہا ہے۔ اگرکسی مدرسے یا دار العلوم کے شیخ الحدیث کے سامنے یہ علمی نکتہ رکھاجائے توبجائے کسی تبصرہ کرنے کے ایسے محقق پراس کی ہنسی نہ رکے۔’غریب‘ روایت کا صحت و ضعف کے ساتھ کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ محدثین ہم تک پہنچنے کے اعتبار سے جب حدیث کی قسمیں بیان کرتے ہیں تو پھر خبر متواتر‘ خبر واحد‘ مشہور‘ عزیز اور غریب کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں اور جب بات کسی حدیث کی قبولیت و عدم قبولیت کی ہوتی ہے تو پھر صحیح لذاتہ‘ صحیح لغیرہ‘ حسن لذاتہ‘ حسن لغیرہ‘ ضعیف‘ معلول‘ شاذ‘ مضطرب‘ مرسل‘ منقطع‘ معلق‘ معضل‘ منکر اور موضوع وغیرہ جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس روایت کے’ غریب‘ ہونے کی وجہ جناب شہزاد سلیم صاحب کی یہ نادر تحقیق ہے کہ اس کی ابتدائی د وکڑیاں یعنی ابن شہاب زہری اور انس بن مالک صرف ایک ایک روای سے جڑی ہوئی ہیں۔ انس بن مالکt تو صحابی ہیں اور ابن شہاب ‘ حدیث کے امام ہیں لہٰذا اگر یہ روایت غریب بھی ہو تو متعلقہ افراد کی جلالت علمی کی وجہ سے اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔
جہاں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ حضرت عثمان﷜ کے جامع قراء ات ہونے کا دعویٰ پہلے پچاس سالوں میں صرف انہی دو اشخاص نے کیا ہے تو یہ قطعاً درست نہیں ہے۔حضرت عثمان﷜ کے جامع قراء ات ہونے کی بیسیوں روایات موجود ہیں کہ جن میں پہلی د وکڑیوں میں ان دو اشخاص کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ ہمارا مقصود یہاں ان رِوایات کا احصاء کرنا نہیں ہے لیکن نمونے کے طور پر ہم د وروایات مع اسناد بیان کر دیتے ہیں تا کہ شہزاد سلیم صاحب اور ان کے خوشہ چیں جناب اَنور عباسی صاحب کے علم میں اضافہ ہو سکے۔
’’أخبرنا أبو عبد اﷲ الحافظ وأبو سعید بن أبي عمرو قالا: حدثنا أبو العباس: محمد بن یعقوب حدثنا أحمد بن عبد الحمید الحارثي حدثنا الحسین یعني ابن علي الجعفي عن محمد بن أبان وھو زوج أخت حسین عن علقمۃ بن مرثد عن العیزار بن جرول عن سوید ابن غفلۃ عن علي قال: اختلف الناس في القرآن علی عھد عثمان قال: فجعل الرجل یقول للرجل: قرائتي خیر من قرائتک قال: فبلغ ذلک عثمان فجمعنا أصحاب رسول اﷲ ﷺ فقال: إن الناس قد اختلفوا الیوم في القرائۃ وأنتم بین ظھرانیھم فقد رأیت إن أجمعھم علی قرائۃ واحدۃ۔ قال: فأجمع، رأینا مع رأیہ علی ذلک۔ قال: وقال علي : ’’لو ولیت مثل الذي ولي، لصنعت مثل الذي صنع۔‘‘
(السنن الکبری للبیھقي‘ کتاب الصلاۃ‘ باب الدلیل علی أن ما جمعتہ مصاحف الصحابۃ ﷢؛ الشریعۃ للآجري‘ کتاب الإیمان و الصلاۃ بأن الجنۃ والنار مخلوقتان‘ باب ذکر اتباع علي بن أبي طالب ﷜)
 
Top