اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کافی عرصہ ہوا کہ فقہی اور فروعی اختلافات پر بحثیں اور مناظرے (یا مناظرہ نما کہہ لیں) کرنا چھوڑ دیے۔ یہ سوچا کہ جو معاملات سلف سے مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں ان میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک جانب کو قطعاً و یقیناً راجح ثابت کر دیں؟ نیز دین کے بہت سے شعبے ہیں جہاں نئی تحقیقات کی ضرورت ہے تو ان شعبوں میں کام کیوں نہ کیا جائے کہ نافع ثابت ہو۔ چنانچہ فقہ المعاملات اور جدید مسائل میں تخصص فی الحال جاری ہے۔ کچھ تحقیقی کام بھی جاری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اسے مکمل فرمائیں اور نافع بنائیں۔ آمین
آج کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ انوار البدر کا خیال آیا۔ سنا تھا بہت عمدہ کتاب ہے اور بہت سے جید علماء کرام نے اس پر تقاریظ تحریر فرمائی ہیں۔ نیز شیخ محترم @کفایت اللہ سنابلی صاحب دام فیوضہم کی وسعت مطالعہ اور کثرت علم کا تو میں اسی دن سے معترف ہوں جس دن ان کی پہلی تحریر فورم پر نظروں سے گزری تھی۔ لیکن جب کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو کچھ عجیب سے احساسات نے آ گھیرا۔ خیال ہوا کہ ان احساسات کو فورم کی نظر کر دیا جائے۔ شاید کہ کوئی میری اصلاح کر سکے۔
ابھی کتاب کی ابتداء میں ہوں۔ میری تحریر کو اگر مسلکی اختلاف سے قطع نظر کرتے ہوئے دیکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
محترم شیخ نے اپنے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 171 سے یہ بحث شروع فرمائی ہے کہ "ذراع" عربی میں کہنی کے سرے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ سر آنکھوں پر! لیکن محترم شیخ نے جو اس سے پہلے روایت ذکر فرمائی ہے وہ کچھ یوں ہے:
كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة» قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم (بخاری)
شیخ محترم نے ذراع پر تو سیر حاصل بحث کی لیکن "ید" پر شاید بحث کرنا بھول گئے۔ "ید" یعنی ہاتھ عربی میں دو معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:
1۔ ہتھیلی اور انگلیوں کے لیے جو کہ اردو میں بھی معروف ہے۔
2۔ ہاتھ کی انگلی سے لے کندھے تک کے لیے۔
چنانچہ تاج العروس میں ہے:
(اليد) ، بتخفيف الدال وضمه (الكف أو من أطراف الأصابع إلى الكف) ؛ كذا في النسخ والصواب إلى الكتف؛ وهذا قول الزجاج؛ وقال غيره: إلى المنكب
شیخ محترم فرماتے ہیں:
اب اگر اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"
جس طرح حدیث میں "ذراع" سے مکمل ذراع شیخ محترم نے مراد لیا ہے اسی طرح "ید" سے بھی مکمل "ید" مراد لینا چاہیے۔ "ید" کا اگر پہلا معنی لیا جائے یعنی صرف ہاتھ کا تو اتنا بڑا ہاتھ کم از کم ہم نے نہیں دیکھ جو اس پورے حصے پر آجائے۔ یہ لازماً کچھ حصے پر ہی آئے گا اور باقی حصے پر دایاں بازو یعنی ذراع آئے گا۔
اور اگر دوسرا معنی یعنی انگلی سے کندھے تک مراد لیا جائے تو اسے پورا کا پورا بائیں "ذراع" پر کیسے رکھا جائے گا یہ ہماری ناقص فہم سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے کہ جیسے بچے ہاتھی سونڈ کھیلتے ہیں اسی طرح کی کوئی صورت بنانی ہوگی۔ شیخ محترم سے درخواست ہے کہ اگر ان دونوں معانی کی ایک ایک تصویر ارسال فرما دیں تو وضاحت تامہ ہو جائے۔
اور اگر "ید" سے مراد "بعض ید" ہے تو پھر "ذراع" سے مراد "بعض ذراع" کیوں نہیں ہے؟
کافی عرصہ ہوا کہ فقہی اور فروعی اختلافات پر بحثیں اور مناظرے (یا مناظرہ نما کہہ لیں) کرنا چھوڑ دیے۔ یہ سوچا کہ جو معاملات سلف سے مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں ان میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک جانب کو قطعاً و یقیناً راجح ثابت کر دیں؟ نیز دین کے بہت سے شعبے ہیں جہاں نئی تحقیقات کی ضرورت ہے تو ان شعبوں میں کام کیوں نہ کیا جائے کہ نافع ثابت ہو۔ چنانچہ فقہ المعاملات اور جدید مسائل میں تخصص فی الحال جاری ہے۔ کچھ تحقیقی کام بھی جاری ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اسے مکمل فرمائیں اور نافع بنائیں۔ آمین
آج کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ انوار البدر کا خیال آیا۔ سنا تھا بہت عمدہ کتاب ہے اور بہت سے جید علماء کرام نے اس پر تقاریظ تحریر فرمائی ہیں۔ نیز شیخ محترم @کفایت اللہ سنابلی صاحب دام فیوضہم کی وسعت مطالعہ اور کثرت علم کا تو میں اسی دن سے معترف ہوں جس دن ان کی پہلی تحریر فورم پر نظروں سے گزری تھی۔ لیکن جب کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو کچھ عجیب سے احساسات نے آ گھیرا۔ خیال ہوا کہ ان احساسات کو فورم کی نظر کر دیا جائے۔ شاید کہ کوئی میری اصلاح کر سکے۔
ابھی کتاب کی ابتداء میں ہوں۔ میری تحریر کو اگر مسلکی اختلاف سے قطع نظر کرتے ہوئے دیکھا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
محترم شیخ نے اپنے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 171 سے یہ بحث شروع فرمائی ہے کہ "ذراع" عربی میں کہنی کے سرے سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصے کو کہتے ہیں۔ سر آنکھوں پر! لیکن محترم شیخ نے جو اس سے پہلے روایت ذکر فرمائی ہے وہ کچھ یوں ہے:
كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة» قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم (بخاری)
شیخ محترم نے ذراع پر تو سیر حاصل بحث کی لیکن "ید" پر شاید بحث کرنا بھول گئے۔ "ید" یعنی ہاتھ عربی میں دو معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:
1۔ ہتھیلی اور انگلیوں کے لیے جو کہ اردو میں بھی معروف ہے۔
2۔ ہاتھ کی انگلی سے لے کندھے تک کے لیے۔
چنانچہ تاج العروس میں ہے:
(اليد) ، بتخفيف الدال وضمه (الكف أو من أطراف الأصابع إلى الكف) ؛ كذا في النسخ والصواب إلى الكتف؛ وهذا قول الزجاج؛ وقال غيره: إلى المنكب
شیخ محترم فرماتے ہیں:
اب اگر اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے "ذراع" (کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے۔"
جس طرح حدیث میں "ذراع" سے مکمل ذراع شیخ محترم نے مراد لیا ہے اسی طرح "ید" سے بھی مکمل "ید" مراد لینا چاہیے۔ "ید" کا اگر پہلا معنی لیا جائے یعنی صرف ہاتھ کا تو اتنا بڑا ہاتھ کم از کم ہم نے نہیں دیکھ جو اس پورے حصے پر آجائے۔ یہ لازماً کچھ حصے پر ہی آئے گا اور باقی حصے پر دایاں بازو یعنی ذراع آئے گا۔
اور اگر دوسرا معنی یعنی انگلی سے کندھے تک مراد لیا جائے تو اسے پورا کا پورا بائیں "ذراع" پر کیسے رکھا جائے گا یہ ہماری ناقص فہم سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے کہ جیسے بچے ہاتھی سونڈ کھیلتے ہیں اسی طرح کی کوئی صورت بنانی ہوگی۔ شیخ محترم سے درخواست ہے کہ اگر ان دونوں معانی کی ایک ایک تصویر ارسال فرما دیں تو وضاحت تامہ ہو جائے۔
اور اگر "ید" سے مراد "بعض ید" ہے تو پھر "ذراع" سے مراد "بعض ذراع" کیوں نہیں ہے؟