اخلاق و کردار سے قطع نظر علمی لحاظ سے دین حنیف کا عالم
علامہ محمد بن علی الشوکانی ’’ ارشاد الفحول ‘‘ میں دینی عالم کے تعارف میں لکھتے ہیں :
الشرط الأول : أن يكون عالماً بنصوص الكتاب والسنة .
ولا يشترط أن يكون حافظاً للسنة ، بل يكفي أن يكون متمكناً من استخراجها من مواضعها ، وآكد ذلك العلم بما في دواوين السنة المشهورة ، (صحيح البخاري وصحيح مسلم وسنن أبي داود وسنن الترمذي وسنن النسائي وسنن ابن ماجه) وما يلتحق بها .
ويكون عالماً بالصحيح منها من الضعيف .
الشرط الثاني : أن يكون عارفاً بمسائل الإجماع .
الشرط الثالث : أن يكون عالماً بلسان العرب .
ولا يشترط حفظه له عن ظهر قلب ، وإنما يتمكن من معرفة معاني اللغة وخواص تراكيبها .
الشرط الرابع : أن يكون عالماً بأصول الفقه ، ومنه : القياس ، لأن أصول الفقه هو الأساس الذي يُبنى عليه استنباط الأحكام .
الشرط الخامس : أن يكون عالماً بالناسخ والمنسوخ .
انظر : "إرشاد الفحول" (2/297 – 303) .
علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے اعتبار سے تو آج کل کے جو پینٹ شرٹ والے مبلغ ہیں وہ عالم نہیں ہوں گے. صحیح سمجھا نا؟؟؟
یہ شرائط تو ضروری ہیں ہی البتہ یہ صرف ظاہری یا سطحی شرائط ہیں الغرض یہ صرف ایک شخص کے علم کو متعین کرتے ہیں کہ اسے کم از کم کتنا علم ہونا چاہیے عالم بننے کے لئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو ان شرائط کو پورا کرے وہ عالم ہو گیا۔
ان کے علاوہ اخلاق، اخلاص، كردار، عمل بالعلم، سنجیدگی، شرافت اور تقوی وغیرہ ایسی شروط ہیں جن کے بنا کوئی شخص عالم ومفتی نہیں کہلا سکتا۔ لہٰذا جو شخص ان تمام شروط پر پورا اترتا ہے وہ یقینا عالم ہے پھر چاہے وہ پینٹ شرٹ والا ہو یا کوئی بھی ہو۔
جو صرف ثانی الذکر شرائط پر پورا اترتا ہے اور پہلی والی شروط اس میں نہیں ہیں تو وہ مخلص عابد ہو سکتا ہے عالم نہیں ہے۔
اور جو صرف اول الذکر شرائط پر پورا اترتا ہے اور دوسری والی اس میں ناپید ہیں تو وہ محض ایک دو نمبری مولوی ہے اور کچھ نہیں!
عالم کے لئے یہ دونوں قسم کی شرائط ایک ساتھ موجود ہونا ضروری ہیں۔
پہلی قسم کی شرائط تو واضح اور ظاہری شرائط ہیں، جبکہ دوسری قسم کی شرائط تو وہ ہیں جو خود اللہ نے ایک عالم کے لئے متعین کی ہیں، لہٰذا ان کے بغیر کوئی عالم نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
"خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علماء ہیں، بے شک خدا غالب اور بخشنے والا ہے۔" (فاطر: 28)
اس ایک لائن میں ہی وہ تمام شرائط آ جاتی ہیں اگر غور کیا جائے۔
اس کے علاوہ الربیع نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں ہو سکتا۔"
اور اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ وہ ایک مخلص عبادت گزار اور متقی پرہیز گار ہو۔
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَلا أُخْبِرُكُمْ بِالْفَقِيهِ، كُلِّ الْفَقِيهِ؟ مَنْ لَمْ يُؤَيِّسِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُمْ فِي مَعَاصِي اللَّهِ، أَلا لا خَيْرَ فِي عِلْمٍ لا فِقْهَ فِيهِ، وَلا خَيْرَ فِي فِقْهٍ لا وَرَعَ فِيهِ، وَلا قِرَاءَةَ لا تَدَبُّرَ فِيهَا
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا، اور اللہ کی نافرمانی کی تحقیر نہیں کرتا، ۔۔۔ بے شک ایسا علم جس میں سمجھ نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں، اور ایسی سمجھ جس میں تقوی وپرہیزگاری نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں۔۔۔"
اللہ ہم سب کو سچا عالم بنا دے، آمین