• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء کون ہیں؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میں اسے عالم کہنا مناسب سمجھتا ہوں جسے علم میں معروف علماء عالم تسلیم کریں، ورنہ چاہے وہ کتنا ہی چرب زبان ہو اسے عالم نہیں کہنا چاہیے۔ وہ عموماً اپنی زبان سے فتنہ لاتا ہے۔
ہاں علماء کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ اگر چند ایک بھی کہیں تو کافی ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ علماء اسے کیسے پہچانیں گے تو علم کی خوشبو علم کے شناوروں سے چھپی نہیں رہتی۔ سب سے پہلے اس شخص کے اساتذہ کو اندازہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کے علم اور توفیق کے بقدر اس کی شہرت پھیل جاتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عالم وہ ہے ، جو پیش آمدہ مسائل کا حل ، قرآں وسنت سے تلاش کرسکتا ہو ۔ اگر کسی کو غلطی لگے تو اس غلطی کا ادراک اور اس کی تردید کرسکتا ہو ۔
خشیت الہی ، تقوی ، اخلاص ، بااخلاق ہونا ، خصائل حمیدہ سے متصف اور بری عادات سے دور رہنا ، یہ ایسے اوصاف ہیں ، جو ایک عالم دین میں ہوتے ہیں یا ہونے چاہییں ۔
لیکن ان کا تعلق عالم ہونے کے ساتھ اس طرح نہیں کہ اگر یہ ہوں گے تو کوئی عالم ہے ، اور جس میں یہ نہیں ہیں ، وہ عالم نہیں ۔ یا جس میں یہ موجود ہیں وہ ضرور بالضرور عالم بھی ہے ۔
خالق کا پیغام مخلوق تک صحیح شکل میں سمجھنے اور پہنچانے والے انبیاء کے ورثاء کو ’ علماء ’ کہا جاتا ہے ۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوئی کس قدر کامیاب ہے ، اسی بنا پر علماء کے بھی درحات اور مراتب ہیں ۔ کوئی چھوٹا عالم ہے ، کوئی بڑا ، کوئی بہت بڑا ۔
جو قرآن وسنت کے بیغام کو نہ خود سمجھ سکتے ہیں ، نہ عوام تک پہنچا سکتے ہیں ، پھر بھی اس میدان میں کود جاتے ہیں ، حدیث نبوی میں انہیں ’ علماء ‘ نہیں ’ جہال ‘ کہا گیا ہے ۔ اور یہ ’ تعلیم کتاب و حکمت ‘ کی بجائے ’ ضلوا فأضلوا ’ کا وظیفہ ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
خشیت الہی ، تقوی ، اخلاص ، بااخلاق ہونا ، خصائل حمیدہ سے متصف اور بری عادات سے دور رہنا ، یہ ایسے اوصاف ہیں ، جو ایک عالم دین میں ہوتے ہیں یا ہونے چاہییں ۔
محترم شیخ
کیا ایک عالم سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا ۔ یہ تو قریب قریب معصوم والی صفات ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
آج کل ہر ایرا غیرا دین میں اپنی راۓ سے نوازتا رہتا ہے. یہ کیا بات ہوئی کہ دو تین سالوں کا کورس کر لو اور فتوے بازی شروع کر دو؟
عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا»
تخریج :
صحیح البخاری/العلم ۳۴ (۱۰۰) ، والإعتصام ۸ (۷۳۰۷) ، صحیح مسلم/العلم ۵ (۲۶۷۳) ، سنن الترمذی 2652 ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۸ (۵۲) ( تحفة الأشراف : ۸۸۸۳) ، و مسند احمد (۲/۱۶۲، ۱۹۰) ، وسنن الدارمی/المقدمة ۲۶ (۲۴۵)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ فرماتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو علمی رئیس ، سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
وفي هذا الحديث الحث على حفظ العلم والتحذير من ترئيس الجهلة وفيه أن الفتوى هي الرياسة الحقيقية وذم من يقدم عليها بغير علم واستدل به الجمهور على القول بخلو الزمان عن مجتهد ولله الأمر يفعل ما يشاء »
یعنی : اس حدیث میں حصول علم اور حفظ علم کی ترغیب دی گئی ہے ، اور جہلاء کو علمی رئیس کا مقام دینےسے بچنے کی تنبیہ کی گئی ہے ؛
اور ضمناً یہ ارشاد ہے کہ افتاء ( فتوی دینا ) حقیقی ریاست و سرداری ہے ، اور جہلاء کو اہل علم پر مقدم کرنا بہت مذموم طرز عمل ہے
اور اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ : کوئی زمانہ مجتہد سے خالی بھی ہوسکتا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا»
تخریج :
صحیح البخاری/العلم ۳۴ (۱۰۰) ، والإعتصام ۸ (۷۳۰۷) ، صحیح مسلم/العلم ۵ (۲۶۷۳) ، سنن الترمذی 2652 ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۸ (۵۲) ( تحفة الأشراف : ۸۸۸۳) ، و مسند احمد (۲/۱۶۲، ۱۹۰) ، وسنن الدارمی/المقدمة ۲۶ (۲۴۵)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ فرماتے ہیں : کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو علمی رئیس ، سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
وفي هذا الحديث الحث على حفظ العلم والتحذير من ترئيس الجهلة وفيه أن الفتوى هي الرياسة الحقيقية وذم من يقدم عليها بغير علم واستدل به الجمهور على القول بخلو الزمان عن مجتهد ولله الأمر يفعل ما يشاء »
یعنی : اس حدیث میں حصول علم اور حفظ علم کی ترغیب دی گئی ہے ، اور جہلاء کو علمی رئیس کا مقام دینےسے بچنے کی تنبیہ کی گئی ہے ؛
اور ضمناً یہ ارشاد ہے کہ افتاء ( فتوی دینا ) حقیقی ریاست و سرداری ہے ، اور جہلاء کو اہل علم پر مقدم کرنا بہت مذموم طرز عمل ہے
اور اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ : کوئی زمانہ مجتہد سے خالی بھی ہوسکتا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ!
اصل میں یہی حدیث میرے لۓ غور وفکر کا باعث بنی. یوں تو میں غیر علماء (پینٹ شرٹ والے لوگوں) سے فتوی لینے یا سننے کا قائل پہلے بھی نہیں تھا. لیکن اس حدیث کو پڑھ کر مزید قوت پیدا ہوئی.
بارک اللہ فی علمک
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم شیخ
کیا ایک عالم سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا ۔ یہ تو قریب قریب معصوم والی صفات ہیں۔
ہوسکتا ہے ۔ بلکہ ہوتا ہے ۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
سلفی دعوت اور غیر عالم دعاۃ کا مسئلہ
______________________
تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارس
کتاب وسنت کی صاف وشفاف تعلیمات کو سلف صالحین کے فہم ومنہج کی روشنی میں لوگوں تک پہنچانے کا نام سلفی دعوت ہے. یہی وہ دعوت ہے جو ہر دور میں احقاق حق اور رد باطل کے لیے سرگرم رہی ہے. یہی وہ اکلوتی دعوت ہے جو تاویلات کی بھول بھلیوں سے، غلو وافراط کی انتہا پسندیوں سے، تکفیر وتضليل کی فتنہ سازیوں سے، بدعات وخرافات کی تاریکیوں سے ہمیشہ پاک رہی ہے. دین کی وہ صاف ستھری شکل اور وہ روشن شاہراہ جس پر رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو چھوڑا تھا اسی منہج ومسلک کی پاسداری سلفی دعوت کا خاصہ رہا ہے. اس دعوت سے جڑے ہوئے لوگ آج بھی دنیا بھر میں الحمد للہ یہ کار عظیم پوری تندہی اور اخلاص کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہیں.
دعوت کے اس کام کو ایک طرف وہ علماء کرام اپنے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے انجام دے رہے ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر دینی مدارس سے کسب فیض کیا ہے، اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال حصول علم کے لیے لگائے ہیں، تفسیر وحدیث، زبان وادب، عقیدہ ومنہج وغیرہ کی اہم کتابیں ماہرین علم وفن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے پڑھی ہیں اور پھر آزمائش کی مختلف بھٹیوں سے گزرتے ہوئے عملی طور پر دعوت کے میدان میں اترے ہیں. ان علماء میں ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جنہوں نے علوم دینیہ میں مزید درک حاصل کرنے کے لیے سعودی جامعات کا رخ کیا ہے اور وہاں کئی سال گزار کر علوم و فنون کے ماہر اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے بعد اپنے ملک میں آ کر تعلیمی اور دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں. دوسری طرف بہت سارے ایسے لوگ بھی اس دعوتی مہم سے جڑے ہوئے ہیں جو باقاعدہ طور پر عالم تو نہیں ہیں، نہ انہوں نے دینی تعلیم کے حصول کے لیے مدارس کا رخ کیا ہے، بلکہ انہوں نے ذاتی طور پر محنت کر کے دینی کتابوں کے مطالعے کے ذریعے معلومات حاصل کی ہے اور پھر اپنے اندر ایک حد تک افہام وتفہیم کی استعداد پیدا کر کے اپنے اپنے دائرے میں دعوتی کام کر رہے ہیں. ظاہر ہے کہ علمی صلاحیت کے معاملے میں علماء کے طبقے میں اور ان غیر عالم دعاۃ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ان کی دینی معلومات نہ صرف یہ کہ ناقص ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات غلط اور منہجِ سلف سے دور کرنے والی ہوتی ہے. یہ دعاۃ عموماً آزادانہ طور پر دعوتی کام انجام دیتے ہیں، ان کی اکثریت عصری علوم سے بہرہ ور ہوتی ہے، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے نوجوان ان سے تیزی سے متاثر ہوتے ہیں، ان کے ساتھ باقاعدہ ایک ٹیم ہوتی ہے، عموماً یہ جدید وسائل سے لیس ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ کی مدد سے اپنا دعوتی نیٹ ورک کافی وسیع کر لیتے ہیں. ان میں سے بعض دعاۃ اس حد تک مقبول ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھنے اور سننے والے دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں. یہ دعاۃ اکثر سوال وجواب کی مجلسیں بھی اٹینڈ کرتے ہیں اور اپنے محدود علم کے مطابق جواب بھی دیتے ہیں. ان غیر عالم دعاۃ ومبلغین کے تعلق سے عموماً علماء کے طبقے میں منفی تصور پایا جاتا ہے، انہیں امت کے لیے ایک فتنہ مانا جاتا ہے اور ان سے پیدا ہونے والے فتنوں پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دعاۃ میں سے بعض واقعی اپنی کم علمی، عقیدہ ومنہج سے ناواقفیت، غیر ضروری جذباتیت وغیرہ کے سبب فتنوں کا سبب بنتے ہیں، ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو احساس کمتری کے سبب علماء کے تعلق سے عوام میں منفی خیالات پھیلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں. لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان غیر عالم دعاۃ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بڑے اخلاص اور تندہی کے ساتھ دعوتی امور انجام دے رہے ہیں اور ان کے کاموں کے سبب مختلف حلقوں میں بہت مفید پیش رفت ہوئی ہے. ان کی کوششوں سے کہیں کہیں بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں.
ہمارا نقطہ نظر اس سلسلے میں یہ ہے کہ ان غیر عالم دعاۃ کے تعلق سے ہمیں معتدل موقف اختیار کرنا چاہیے. ہمارے علماء کو ان دعاۃ کو امت کے لیے ایک فتنہ قرار دینے کے بجائے، ان کے کاموں میں نقص نکالنے کے بجائے ان کی صحیح تربیت کا انتظام کرنا چاہیے. ان کی اہلیت اور صلاحیت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ان سے دعوت کے میدان میں مناسب کام لینا چاہیے. جن میدانوں کے وہ اہل نہیں ہیں ان سے انہیں ہٹا کر وہ مورچے علماء کو سنبھالنے چاہیے. ان میں سے بعض کی بے اعتدالی صرف تربیت کی کمی اور علماء سے دوری کا نتیجہ ہے جسے فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے. ہمارے ملک میں جس قسم کا دینی ماحول ہے اور دین کے نام پر جس جس طرح کی خرافات معاشرے میں رائج ہیں، شاہراہ کتاب وسنت سے لوگوں کو دور کرنے کے لیے جیسے جیسے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کے لیے بہت ہی منظم طریقے سے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے. دعوت کے لیے پورا میدان خالی نظر آ رہا ہے. یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے. تبلیغ وترسیل کے وسائل غیر معمولی ترقی کو پہنچ چکے ہیں. اب حالت یہ ہے کہ ایک انتہائی معمولی صلاحیت اور علم کا حامل شخص اپنی باتوں کو ٹکنالوجی کی بدولت دنیا بھر میں پھیلا دے رہا ہے جب کہ بہترین صلاحیتوں کے مالک مستند علماء ان وسائل سے محروم ہونے کی وجہ سے ایک محدود دائرے میں سمٹے ہوئے ہیں اور دنیا ان کے علم سے کما حقہ استفادہ نہیں کر پا رہی ہے.
آج ضرورت ہے ان وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے منظم طور پر ٹیم ورک کے ساتھ دعوتی کام کرنے کی اور لوگوں سے حسب صلاحیت کام لینے کی. ظاہر سی بات ہے کہ ہر شخص ہر میدان میں ماہر نہیں ہوتا، کوئی خطابت کے میدان میں آگے ہے، کوئی لکھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے، کوئی ٹکنالوجی اور وسائل کے استعمال سے واقف ہے،کوئی انتظامی امور میں درک رکھتا ہے، کوئی انفرادی دعوت میں ماہر ہے، کوئی افتا کی صلاحیت رکھتا ہے، کوئی غیر مسلموں میں کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، ہمیں ان سب سے کام لینے کی ضرورت ہے. ہمیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے، ایک دوسرے کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے دست وبازو بن کر "كمثل الجسد الواحد" بن کر کام کرنے کی ضرورت ہے. سلفی دعوت پر اس وقت چوطرفہ یلغار ہو رہی ہے، داخلی اور خارجی دونوں قسم کے فتنے سر اٹھا رہے ہیں. ان کے سد باب کا کام ایک دوسرے کے خلاف پرچہ بازیوں سے، آپسی سرپھٹول اور رنجشوں سے، تنقید برائے تنقید سے، جھوٹے غرور اور تعلی وتفاخر کی لڑائیوں سے پورا ہونے والا نہیں ہے. ہمیں چاہیے کہ ہم لایعنی چیزوں پر اپنی انرجی صرف نہ کریں. بہت سارے اہم کام پڑے ہیں انہیں کیسے پورا کیا جائے اس کے لیے ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے.
حال ہی میں بنگلور کے ایک دعوتی دورے کے دوران عالمِ اسلام کے ایک معروف داعی اور خطیب شیخ معراج ربانی صاحب حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی. شیخ کے پاس دعوتی میدان کا برسوں کا تجربہ ہے، ملک وملت کے حالات پر شیخ کی گہری نظر ہے،جماعت کا درد اور مسلکی غیرت بھی الحمد للہ شیخ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے، شیخ سے سلفی دعوت کو درپیش مسائل پر کافی تفصیل سے گفتگو ہوئی. شیخ نے اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں آج لوگ سلفی دعوت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، طرح طرح کے فتنے ہمیں درپیش ہیں، ان فتنوں کا ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے.ہمارا ایک بھی سلفی بھائی خواہ وہ کسی بھی درجے کی صلاحیت کا مالک ہو اگر وہ اس دعوت سے جڑا ہے اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے تو ہمیں اس کا تعاون اور تائید کرنی چاہیے، اس کی معمولی اغلاط اور لغزشوں سے صرف نظر کرنا چاہیے، اصولی اور منہجی غلطیوں پر مثبت انداز میں اس کی اصلاح کرنی چاہیے. افسوس آج یہی نہیں ہو رہا ہے. تذلیل وتوہین کو اصلاح کا نام دے کر آج ہم کام کرنے والوں کی بھی ٹانگ کھینچ رہے ہیں. آج جس اسپرٹ اور تیزی سے اہل باطل دعوت حقہ کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں اس کے مقابلے میں ہماری کاوشیں انتہائی سست روی کا شکار ہیں اور ہماری قوت اور انرجی آپس میں ہی صرف ہو رہی ہے.
کاش یہ اہم بات ہم سمجھ پاتے کہ سلفی دعوت سے جڑا ہوا ہر شخص اپنی جگہ قیمتی ہے. چاہیے تو یہ تھا کہ ہم بے کار لوگوں کو بھی کام کا آدمی بناتے، غیر مفید چیزوں سے بھی فائدہ اٹھانے کی ترکیبیں نکالتے، الٹے ہم نے مفید چیزوں کو بھی بے کار بنانا شروع کر دیا. یہ ایک انتہائی خطرناک شروعات ہے جسے بہت جلد سمجھنے اور اس کا سد باب کرنے کی ضرورت ہے.​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
اوپر ذکر کی گئی دو ۔۔روایات
أن العلماء ورثة الأنبياء , أن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهماً ولكن ورثوا العلم
علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک انبیاء کی وراث درہم و دینار نہیں ہوتے بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا
اور’’
يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ۔۔ علماء کی موت سے علم کا اٹھ جانا ۔
ان کی روشنی میں یوں کہنا چاہیے کہ علم کا ماخذ بھی علماء ہوتے ہیں ۔ اور یہ وراثت نبی سے علم کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔
چناچہ پھر آج کل کے عالم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے علم بھی عالم کی صحبت سے ہی حاصل کیا ہو ۔ صرف کتابوں سے نہیں ۔ روایتی مدرسہ سے فراغت یا ڈگری اگر نہ بھی ہو البتہ عالم کی صحبت اٹھائی ہو(اگرچہ آج کل اس کا پیمانہ مدارس سے تحصیل علم ہی ہے )۔
واللہ اعلم۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اصل میں یہی حدیث میرے لۓ غور وفکر کا باعث بنی. یوں تو میں غیر علماء (پینٹ شرٹ والے لوگوں) سے فتوی لینے یا سننے کا قائل پہلے بھی نہیں تھا. لیکن اس حدیث کو پڑھ کر مزید قوت پیدا ہوئی.
بارک اللہ فی علمک
عمر اثری بھائی! یوں تو یہ خود ایک موضوع و عنوان ہے، مگر یہاں صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ غیر علماء کا پینٹ شرٹ والا ہونا لازم نہیں، اور نہ ہی عالم کا دھوتی کرتے والا ہونا لازم ہے!
بات سیدھی سی ہے اور وہ یہ ہے کہ لباس کا تعلق معاملات سے ہے، اور معاملات میں جس کا منع کیا گیا ہو، وہ منع ہے باقی سب جائز!
خواہ کوئی پینٹ شرٹ پہنے یا دھوتی لنگی! ان ممنوعات کا لحاظررکھتے ہوئے! وہ عالم بھی ہو سکتا ہے اور عامی بھی!
 
Last edited:
Top