محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
ایام حیض .. اور وہ سوال کرتے ہے آپ سے حیض کے بارے میں !
Last edited:
بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہےوَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿٢٢٢﴾
پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو اُن کے پاس جاؤ اُس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں
اذی کا معنی تکلیف، بیماری اور گندگی بھی ہے۔ چنانچہ طبی حیثیت سے حیض کے دوران عورت کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ صحت کی نسبت بیماری سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ حیض کی مدت ہر عورت کے جسم اور اس کے مزاج کے لحاظ سے کم و بیش ہوتی ہے جو عموماً کم ازکم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن تک ہو سکتی ہے اور اپنی اپنی عادت (مدت حیض) کا ہر عورت کو علم ہوتا ہے۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے اور نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جس کے جواب میں یہ آیت اتری، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے جماع کے اور سب کچھ حلال ہے یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت ہی سے غرض ہے، حضرت اسید بن حضیر اور حضرت عباد بن بشر نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمیں جماع کی بھی رخصت دی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ یہ سن کر متغیر ہو گیا یہاں تک کہ اور صحابہ نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو گئے۔ جب یہ بزرگ جانے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی بزرگ تحفتاً دودھ لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی بھیج کر انہیں بلایا اور وہ دودھ انہیں پلایا، اب معلوم ہوا کہ وہ غصہ جاتا رہا۔
(مسلم)
۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے میں حیض سے ہوتی تھی، میں ہڈی چوستی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے، میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی
ابو داؤد میں روایت ہےکہ میرے حیض کے شروع دِنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ ہی لحاف میں سوتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا کہیں سے خراب ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی ہی جگہ کو دھو ڈالتے۔ اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں میں نماز پڑھتے۔
جاری ہےحضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی کسی اہلیہ سے ان کی حیض کی حالت میں ملنا چاہتے تھے تو انہیں حکم دیتے تھے کہ تہبند باندھ لیں (بخاری)
اوراس کے بارہ میں علمی ریسرچ بھی ہمارے لیے اس میں سے کچھ گندگي کا انکشاف کرتی ہے جس کا آیت کریمہ میں اشارہ کیا گيا ہے ، لیکن وہ بھی پوری طرح اس گندگی تک نہیں پہنچ سکے جوآيت قرآنی بیان کرتی ہے ۔فرمان باری تعالی ہے :
{ آپ سے حيض کے بارہ میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے ، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو } البقرۃ ( 222 ) ۔
تواللہ تعالی نے یہاں پر اسے گندگي کا وصف دیا ہے کہ یہ بیوی کے لیے گندگی اوراذیت ہے ، اوراسی طرح خاوند کے لیے بھی وہ ایک گندگي اوراذيت کے علاوہ اوربھی بہت سے نقصانات ہیں جنہیں صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے ۔بلکہ اللہ تعالی نے انہیں صرف گندگی سے تعبیر کیا ہے جوکہ اس فرمان باری تعالی میں ہے :
{ آپ کہہ دیجۓ کہ وہ گندگی ہے توحالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو ، اورپاک صاف ہونے سے قبل ان کے قریب نہ جاؤ } ۔
حتی کہ اگر کسی شخص کو اس کی حرمت کی کوئي حکمت نہ بھی معلوم ہو پھر بھی اس پرضروری اورواجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کو تسلیم کرے اوراس کی اطاعت کرتا ہوا اپنی بیوی سے اس مدت میں ہم بستری کوچھوڑ دے ۔اسی نے یہ فرمایا ہے :
{ حالت حيض میں عورتوں سے الگ رہو } البقرۃ ( 222 ) ۔
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
اس حديث كا مفہوم يہ ہے كہ: جس نے ايك ركعت نہ پائى اس نے نماز كو نہيں پايا." جس نے نماز كى ايك ركعت پالى تو اس نے نماز پالى "
متفق عليہ.
اور حائضہ عورت كا خود قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كے متعلق يہ ہے كہ اگر تو صرف آنكھ سے ديكھ كر اور دل كے ساتھ تدبر كرتے ہوئے ليكن زبان سے ادائيگى نہ ہو تواس ميں كوئى حرج نہيں، مثلا قرآن مجيد كسى رحل پر ركھ كر اسے ديكھ اور دل ميں پڑھے، تو " شرح المھذب " ميں امام نووى كہتے ہيں كہ بلا خلاف يہ جائز ہے." نوجوان بالغ اور كنوارى اور حيض والى عورتيں بھى نكليں ـ يعنى نماز عيدين كے ليے ـ اور انہيں خير اور مؤمنوں كى دعاء ميں شريك ہونا چاہيے، اور وہ نماز والى جگہ سے عليحدہ رہيں "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عورتوں كو حيض آيا كرتا تھا، اگر نماز كى طرح قرآت بھى ان كے ليے حرام ہوتى ہو تو اسے بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے بيان كر ديتے، اور امہات المؤمنين كو اس كا علم ہوتا، اور لوگوں ميں اسے نقل كيا جاتا." حائضہ اور جنبى قرآن نہ پڑھيں " محدثين كے ہاں بالاتفاق ضعيف ہے،
اور اگر روزے كى حالت ميں حيض آ جائے تو اس كا روزہ باطل ہو جائيگا، چاہے مغرب سے كچھ منٹ قبل ہى آئے، اور اگر يہ روزہ فرضى ہو تو اس پر اس دن كے روزہ كى قضاء ہوگى.عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" يہ ـ يعنى حيض ـ ہميں بھى آيا كرتا تھا، تو ہميں روزوں كى قضاء كا حكم ديا جاتا، اور نماز كى قضاء كا حكم نہيں ديا جاتا تھا "
متفق عليہ.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم كو منى ديكھنے پر معلق كيا ہے، نہ كہ منتقل ہونے پر، تو حيض بھى اسى طرح ہے، اس كے احكام حيض ديكھنے پر لاگو ہونگے نہ كہ منتقل ہونے پر.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:
" جى ہاں، جب وہ عورت پانى ديكھے "
كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جماع كى بنا پر جنبى حالت ميں صبح كرتے اور پھر رمضان كا روزے ركھتے تھے "
متفق عليہ.
ليكن حج اور عمرہ كا طواف حائضہ عورت سے ساقط نہيں ہوگا، بلكہ طہر آنے كے بعد اسے طواف كرنا ہوگا.اس كى دليل ابن عباس كى درج ذيل حديث ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو حكم ديا كہ:
" ان كا آخرى كام بيت اللہ كا طواف ہو "
ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حائضہ عورت سے اس كى تخفيف كر دى "
متفق عليہ.
" نوجوان اوربالغ اور كنوارى اور حيض والى عورتيں بھى عيدگاہ جائيں "
اور اس حديث ميں ہے:
" حائضہ عورتيں نماز والى جگہ سے عليحدہ اور دور رہيں "
متفق عليہ.
المحيض سے مراد وقت كا وقت اور جگہ يعنى شرمگاہ ہے.اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور يہ لوگ آپ سے حيض كے متعلق دريافت كرتے ہيں، كہہ ديجئے يہ گندگى ہے اس ليے حالت حيض ميں عورتوں سے عليحدہ اور دور رہو، اور ان كے پاك صاف ہونے سے قبل ان كے قريب نہ جاؤ ﴾.
اور اس ليے بھى كہ حائضہ عورت سے فرج ميں جماع كرنے كى حرمت پر سب مسلمانوں كا اجماع ہے.اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جماع كے علاوہ باقى سب كچھ كرو "
صحيح مسلم.
جاری ہےعائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
ميں حيض كى حالت ميں ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مجھے تہہ بند باندھنے كا حكم ديتے تو ميرے ساتھ آپ مباشرت كرتے "
متفق عليہ.
يعنى ايسى حالت ميں طلاق دو كہ طلاق كى عدت معلوم ہو سكے، اور يہ اس وقت ہى ہو سكتا ہے جب انہيں حمل يا طہر جس ميں جماع نہ كيا ہو طلاق دى جائے، كيونكہ جب حالت حيض ميں طلاق دى جائيگى تو اس كى عدت كى ابتدا نہيں ہوئى، اس ليے كہ جس حيض ميں اسے طلاق ہوئى ہے وہ عدت ميں شمار نہيں ہوگا، اور جب طہر ميں جماع كے بعد طلاق دى جائے گى تو بھى اس كى معلوم عدت شروع نہيں ہوگى، كيونكہ يہ علم نہيں كہ آيا اس جماع سے حمل ہوا ہے تا كہ اس كى عدت حمل شمار ہو، يا حمل نہيں ہوا كہ اس كى عدت حيض شمار ہو.كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اے ايمان والو جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كى ابتدا ميں طلاق دو ﴾.
اس ليے اگر كوئى شخص اپنى بيوى كو حالت حيض ميں طلاق دے گا تو وہ گنہگار ہے، اسے اس عمل سے توبہ كرنى چاہيے، اور وہ اسے اپنى عصمت ميں واپس لائے تا كہ اسے شرعى اور اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے موافق طلاق دے، اس ليے اس سے رجوع كے بعد اپنے پاس ركھے حتى كہ وہ اس حيض سے پاك ہو جائے جس ميں طلاق دى تھى، پھر دوبارہ حيض آئے تو طہر آنے كے بعد چاہے تو اپنے پاس ركھے اور چاہے جماع كرنے سے قبل طلاق دے، حيض ميں دى گئى طلاق شمار ہوگى.ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى بيوى كو حالت حيض ميں طلاق دے دى تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى خبر دى تو رسول صلى اللہ عليہ وسلم غصہ ہوئے اور فرمانے لگے:
" اسے كہو كہ وہ بيوى سے رجوع كر لے، اور اسے طہر تك روك كر ركھے، اور پھر حيض آئے پھر پاك صاف ہو، پھر اگر چاہے تو اسے اپنے پاس ركھے اور چاہے تو اسے جماع سے قبل طلاق دے، يہى وہ عدت ہے جس كا اللہ تعالى نے حكم ديا كہ ہے عورتوں كو اس ميں طلاق دى جائے "
كے مخالف نہيں.﴿ تو انہيں ان كى عدت كے ليے طلاق دو ﴾.
يعنى تين حيض.كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور طلاق والى عورتيں تين حيض انتظار كريں ﴾.
اور اگر عورت كو بڑھاپے يا رحم كے آپريشن كى بنا پر حيض نہ آتا ہو يا پھر وہ عورت جسے حيض آنے كى اميد ہى نہ رہى ہو تو اس كى عدت تين ماہ ہے،اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور حمل واليوں كى عدت يہ ہے كہ وہ اپنا حمل وضع كر ليں﴾.
اور اگر وہ عورتيں حيض والياں تو ہيں ليكن كسى معلوم سبب مثلا بيمارى، يا رضاعت وغيرہ كى بنا پر ان كا حيض بند ہے تو وہ عدت ميں ہى رہے گى حتى كہ حيض آ جائے، چاہے يہ مدت كتنى بھى لمبى كيوں نہ ہو جائے، اور اگر سبب ختم ہو جائے اور پھر بھى حيض نہ آئے مثلا وہ بيمارى سے شفاياب ہو جائے يا پھر رضاعت ختم ہو جائے ليكن حيض نہ آئے تو وہ سبب ختم ہونے كے بعد ايك برس عدت گزارےگى، صحيح يہى قول يہى ہے جو شرعى قواعد و اصول پر منطبق ہوتا ہے.كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور تمہارى وہ عورتيں جو حيض سے نااميد ہو چكى ہوں، اگر تم شبہ ميں پڑ جاؤ، اور وہ جنہيں حيض نہيں آيا ان كى عدت تين ماہ ہے ﴾.
غسل ميں كم از كم واجب يہ ہے كہ سارے جسم پر پانى بہايا جائے حتى كہ بالوں كے نيچے تك پہنچے، اور افضل يہ ہے كہ غسل حديث ميں بيان كردہ طريقہ كے مطابق كيا جائے." لہذا جب تمہيں حيض آئے تو نماز ترك كردو، اور جب حيض ختم ہو جائے تو پھر غسل كر كے نماز ادا كرو "
صحيح بخارى.
حائضہ عورت كے ليے اپنے بالوں كى ميڈياں كھولنا ضرورى نہيں، ليكن اگر پورى قوت سے بنائى گئى ہوں اور خدشہ ہو كہ پانى جڑوں تك نہيں پہنچےگا تو پھركھول لے.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميں سے كوئى ايك عورت اپنى بيرى اور پانى ليكر اچھى طرح وضوء كرے اور پھر اپنے سر پر پانى بہائے اور اچھى طرح ملے حتى كہ پانى بالوں كى جڑوں تك پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانى بہائے، اور پھر خوشبو ميں لتھڑى ہوئى روئى يا كپڑا ليكر اس سے پاكى اور طہارت حاصل كرے.
اسماء رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں: اس سے كيسے طہارت حاصل كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: سبحان اللہ!
تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اسماء كو كہا: تم خون والى جگہ پر ركھو "
صحيح مسلم.
اور جب عورت نماز كے وقت كے دوران پاك ہو جائے اور اسے طہر آئے تو اسے غسل كرنے ميں جلدى كرنى چاہيے تا كہ نماز بروقت ادا كر سكے، اور اگر وہ سفر ميں ہو اور اس كے پاس پانى نہ ہو، يا پانى تو ہو ليكن اس كے استعمال سے نقصان كا انديشہ ہو، يا وہ مريض ہو اور پانى نقصان ديتا ہو تو وہ غسل كے بدلے تيمم كر كے نماز ادا كر لے، اور جب مانع زائل ہو تو غسل كرے.صحيح مسلم ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہےكہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
" ميرے سال كے بال بہت زيادہ شديد ہيں كيا ميں غسل جنابت كے ليے بال كھولا كروں ؟
اور ايك روايت ميں ہے كہ:
كيا حيض اور غسل جنابت كے ليے كھولا كروں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
نہيں، بلكہ اتنا ہى كافى ہے كہ تم اپنے سر پر تين چلو پانى ڈال لو اور پھر سارے بدن پر پانى بہاؤ تو اس طرح تم پاك ہو جاؤ گى "