- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
فیس بُک پر ایک خاتون کی جانب سے پیش کردہ صائمہ اکرم کے ناول "نارسائی" کے ذیل کے اقتباس کا "آپریش کلین اَپ"۔(ابتسامہ) اس قسم کے رومانی ناول کچی پکی عمر کی لڑکیوں اور خواتین کو 'گمراہ' کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترتیب وار پانچوں جملے مصنفہ کے ہیں اور اُن کے نیچے 'تبصرہ' اس خاکسار کا۔
1۔ مرد کی محبت کے رنگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔
(×)۔ درست بات یہ ہے کہ محبتوں کے رنگ ہوتے ہی ّعجیب و غریب ہیں، خواہ مرد کی محبت ہو یا عورت کی ۔ بلکہ ایک مرد کی محبت کے رنگ بھی دوسرے مرد کی محبت کے رنگ سے اسی طرح جدا ہوتے ہیں جس طرح ایک عورت کی محبت کے رنگ کسی دوسری عورت کی رنگ سے الگ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو محبتوں کی متنوع ہزاروں اور لاکھوں کہانیاں وجود میں نہ آتیں بلکہ صرف دو ہی کہانی موجود ہوتی۔ ایک مرد کی محبت اور دوسرا عورت کی محبت۔
2۔ (مرد کی محبت) وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
(×)۔ محبت خواہ مرد کی ہو یا عورت کی، وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتی، (گھٹتی اور بڑھتی) رہتی ہے۔ محبت کبھی کسی ایک مقام پہ ساکت و جامد نہیں ہوسکتی کہ محبت ایک متحرک جزبہ کا نام ہے۔ کسی مرد سے دیوانگی کی حد تک محبت کرنے والی لڑکی کی محبت کی شدت اسی مرد سے شادی سے قبل کچھ اور ہوتی ہے اور شادی کے بعد کچھ اور۔ مزید برآں شادی کے فوراً بعد والی محبت کی کیفیت اُس وقت "تبدیل" ہوجاتی ہے، جب وہ ایک بچہ کی ماں بن جاتی ہے۔ یہی حال مرد کا بھی ہوتا ہے۔ وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مرد و عورت دونوں کی محبتیں بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی کم، کبھی، زیادہ۔ کبھی ختم بھی ہوجاتی ہیں اور کبھی کبھی نفرت میں بھی "بدل" جاتی ہیں۔ "نفرت" بھی انہی سے کی جاتی ہے، جن سے کبھی محبت ہوئی ہو، یا ہونے کی توقع ہو اور نہ ہوئی ہو۔ بغیر کسی "قلبی تعلق" کے کسی سے ''نفرت'' ممکن نہیں۔ اجنبیوں،بےگانوں اور راہ گیروں سے کون نفرت کرتا (کرتی) ہے۔
3۔ مرد جس عورت سے محبت کرتا ہے اس کے معاملے میں اعلیٰ ظرف نہیں ہوتا۔
(×)۔ "محبوب" کے معاملہ میں کوئی بھی (مرد ہو یا عورت) "اعلیٰ ظرف" نہیں ہوتا۔ سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ اس کا محبوب بس "اسی تک محدود" رہے۔ یہ کوئی اعلیٰ ظرفی تو نہ ہوئی نا۔ اسی لئے ہر محبت کرنے والا یا محبت کرنے والی ہر دم "شک و شبہ" میں ہی پڑے رہتے ہیں کہ کہیں ان کا محبوب کسی اور سے تعلق استوار نہ کرلے یا کوئی اور ان کے محبوب سے تعلق استوار نہ کر بیٹھے اور اس کی محبت میں "شریک" ہوجائے۔ بقول شاعر ع وہ اور آرائش خم کاکل ؛ میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :)
4۔ اور اگر اسے عورت کے کردار پر شک ہوجائے تو وہ اسے محبت تو دیتا ہے،لیکن عزّت نہیں۔
(×) اور اگر عورت کو مرد کے کردا پر "شک" ہوجائے تو وہ اس کے "برعکس" رد عمل کا اظہار کرتی ہے :)
5۔حالانکہ عورت کے لیے محبت سے زیادہ عزت زیادہ قیمتی شے ہوتی ہے۔
(×) حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ عورتوں کو جن سے محبت ہوتی ہے، وہ اُن پر اپنی عزت (دولت، شہرت سب کچھ) بھی قربان کردیتی ہے۔ محبت قربانی مانگتی ہے۔ اگر محبت "عزیز" ہے تو بقیہ سب کچھ ''قربان'' کرنا پڑتا ہے اور محبت کرنے والے (مرد اور عورت دونوں) قربانیاں دیتے بھی ہیں۔ اور ہو جس کو جان و دل (یا عزت، دولت، شہرت) عزیز، وہ اُس (محبت) کی گلی میں جائے کیوں :) :) محبت کی شدت ہی کی وجہ سے لڑکیاں نہ صرف اپنی عزت بلکہ اپنے ماں باپ تک کی عزت کو داؤ پر لگا کر اپنے محبوب کے ساتھ خاموشی سے "رخصت" ہوجایا کرتی ہیں۔ ایسا کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آیا کہ کسی لڑکی یا عورت نے اپنے محبوب یا شوہر سے یہ "مطالبہ" کیا ہو کہ تم بس میری دل سے ''عزت'' کیا کرو، بے شک مجھ سے "محبت" نہ کرو :) :)
1۔ مرد کی محبت کے رنگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔
(×)۔ درست بات یہ ہے کہ محبتوں کے رنگ ہوتے ہی ّعجیب و غریب ہیں، خواہ مرد کی محبت ہو یا عورت کی ۔ بلکہ ایک مرد کی محبت کے رنگ بھی دوسرے مرد کی محبت کے رنگ سے اسی طرح جدا ہوتے ہیں جس طرح ایک عورت کی محبت کے رنگ کسی دوسری عورت کی رنگ سے الگ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو محبتوں کی متنوع ہزاروں اور لاکھوں کہانیاں وجود میں نہ آتیں بلکہ صرف دو ہی کہانی موجود ہوتی۔ ایک مرد کی محبت اور دوسرا عورت کی محبت۔
2۔ (مرد کی محبت) وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
(×)۔ محبت خواہ مرد کی ہو یا عورت کی، وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتی، (گھٹتی اور بڑھتی) رہتی ہے۔ محبت کبھی کسی ایک مقام پہ ساکت و جامد نہیں ہوسکتی کہ محبت ایک متحرک جزبہ کا نام ہے۔ کسی مرد سے دیوانگی کی حد تک محبت کرنے والی لڑکی کی محبت کی شدت اسی مرد سے شادی سے قبل کچھ اور ہوتی ہے اور شادی کے بعد کچھ اور۔ مزید برآں شادی کے فوراً بعد والی محبت کی کیفیت اُس وقت "تبدیل" ہوجاتی ہے، جب وہ ایک بچہ کی ماں بن جاتی ہے۔ یہی حال مرد کا بھی ہوتا ہے۔ وقت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مرد و عورت دونوں کی محبتیں بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی کم، کبھی، زیادہ۔ کبھی ختم بھی ہوجاتی ہیں اور کبھی کبھی نفرت میں بھی "بدل" جاتی ہیں۔ "نفرت" بھی انہی سے کی جاتی ہے، جن سے کبھی محبت ہوئی ہو، یا ہونے کی توقع ہو اور نہ ہوئی ہو۔ بغیر کسی "قلبی تعلق" کے کسی سے ''نفرت'' ممکن نہیں۔ اجنبیوں،بےگانوں اور راہ گیروں سے کون نفرت کرتا (کرتی) ہے۔
3۔ مرد جس عورت سے محبت کرتا ہے اس کے معاملے میں اعلیٰ ظرف نہیں ہوتا۔
(×)۔ "محبوب" کے معاملہ میں کوئی بھی (مرد ہو یا عورت) "اعلیٰ ظرف" نہیں ہوتا۔ سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ اس کا محبوب بس "اسی تک محدود" رہے۔ یہ کوئی اعلیٰ ظرفی تو نہ ہوئی نا۔ اسی لئے ہر محبت کرنے والا یا محبت کرنے والی ہر دم "شک و شبہ" میں ہی پڑے رہتے ہیں کہ کہیں ان کا محبوب کسی اور سے تعلق استوار نہ کرلے یا کوئی اور ان کے محبوب سے تعلق استوار نہ کر بیٹھے اور اس کی محبت میں "شریک" ہوجائے۔ بقول شاعر ع وہ اور آرائش خم کاکل ؛ میں اور اندیشہ ہائے دور دراز :)
4۔ اور اگر اسے عورت کے کردار پر شک ہوجائے تو وہ اسے محبت تو دیتا ہے،لیکن عزّت نہیں۔
(×) اور اگر عورت کو مرد کے کردا پر "شک" ہوجائے تو وہ اس کے "برعکس" رد عمل کا اظہار کرتی ہے :)
5۔حالانکہ عورت کے لیے محبت سے زیادہ عزت زیادہ قیمتی شے ہوتی ہے۔
(×) حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ عورتوں کو جن سے محبت ہوتی ہے، وہ اُن پر اپنی عزت (دولت، شہرت سب کچھ) بھی قربان کردیتی ہے۔ محبت قربانی مانگتی ہے۔ اگر محبت "عزیز" ہے تو بقیہ سب کچھ ''قربان'' کرنا پڑتا ہے اور محبت کرنے والے (مرد اور عورت دونوں) قربانیاں دیتے بھی ہیں۔ اور ہو جس کو جان و دل (یا عزت، دولت، شہرت) عزیز، وہ اُس (محبت) کی گلی میں جائے کیوں :) :) محبت کی شدت ہی کی وجہ سے لڑکیاں نہ صرف اپنی عزت بلکہ اپنے ماں باپ تک کی عزت کو داؤ پر لگا کر اپنے محبوب کے ساتھ خاموشی سے "رخصت" ہوجایا کرتی ہیں۔ ایسا کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آیا کہ کسی لڑکی یا عورت نے اپنے محبوب یا شوہر سے یہ "مطالبہ" کیا ہو کہ تم بس میری دل سے ''عزت'' کیا کرو، بے شک مجھ سے "محبت" نہ کرو :) :)