االلہ اللہ ! اتی سی عمر اتی بڑی بڑی باتیں۔ شکر ہے آپ شاعر نہیں ورنہ ہر نئی صبح ایک نیا دیوان آجاتا۔ اور اردو شاعری کو ایک نیا میر تقی میر۔ بھیا! آپ کی ساری باتیں درست ہیں اور اسی کا نام دنیا ہے۔ اللہ آپ پر رحم کرے اور آپ کی نیک مانگ کو پورا کرے۔ آمین ثم آمین
ویسے ہمارے دین دار طبقہ میں بالعموم، اور دینی مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد میں بالخصوص دولتِ دنیا سے ایک خاص قسم کی "نفرت" پائی جاتی ہے، اسی لئے وہ اس کے "وافر حصول" کو بُرا جانتے ہیں یا کم از کم اچھا نہیں جانتے۔ اسی لئے دولتِ دنیا کے حصول کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ اور جب کوشش نہیں کرتے تو دولت کی دیوی ان سے دور دور ہی رہتی ہے۔ اور جب وہ "عملی دنیا" میں داخل ہوتے ہیں تو کم دولت کے باعث مختلف مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں دولت کمانا کوئی برا فعل نہیں ہے۔ بلکہ صرف ناجائز طریقہ سے دولت کمانا ہی برا ہے۔ ہم دن رات (غالباً بے سمجھے بوجھے) یہ دہراتے رہتے ہیں کہ ۔۔۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ ۔۔۔ لیکن "دنیا" کے حصول کے لئے "اہل دنیا" کی طرح سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ مدرسے سے نکلنے کے بعد مسجد، مدرسوں اور مکتبوں ہی میں رزق تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں وافر رزق کا حصول ممکن ہی نہیں۔ کاش ہم علم دین صرف آخرت کے لئے حاصل کریں اور دنیا اور رزق دنیا کے لئے دنیوی علوم و ہنر سیکھیں۔ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کریں اور کسی بھی چھوٹے بڑے ذریعہ رزق کو حقیر نہ جانیں تاوقتیکہ وہ حرام نہ ہو۔ تب ہی ہم دین و دنیا میں ایک توازن قائم کرسکتے ہیں۔ آج کے مادی دور میں اعلیٰ سوشیل اسٹیٹس حاصل کرکے ہی دینی علوم کے حامل افراد دنیا میں اپنا سکہ منواسکتے ہیں، اس کے بغیر تو انہیں معمولی و مجازی محبت کے حصول میں بھی دکھ اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
آمین، جزاک اللہ خیرا، آپ جیسے بزرگوں کی دعائیں چاہئیں۔
بھائی آپ کو دولت کمانے کے حوالے سے بھی ایک سچ بات بتاتا چلوں کہ جو باتیں آپ نے لکھی ہیں سو فیصد میں ان سے ایگری کرتا ہوں، دراصل لوگ دین اسلام کی تعلیمات کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھتے اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اب جس دنیا کمانے اور دنیا کے پیچھے بھاگنے سے منع کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی ضررویات کے لیے حلال طریقے سے روزی بھی نہ کماؤ، بلکہ دنیا کے پیچھے بھاگنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے اس قدر اندھے نہ بن جاؤ کہ نہ حلال کا پتہ ہو نا حرام کا، نہ عمر ضائع ہونے کی پرواہ ہو نا فرائض کی عدم ادائیگی کا، بلکہ ہر چیز کو مدنظر رکھ کر دنیا کمانا چاہیے۔ یہ بہت ضرروی ہے۔
اب میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا چلوں کہ لوگ کس طرح افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں:
میں نے کسی کو کہا کہ جب میری شادی ہو جائے گی تو اللہ میرے رزق میں مزید اضافہ فرما دے گا۔ ان شاءاللہ
تو مجھے جواب ملا
واہ تم بیٹھے رہو گے اور اللہ تمہیں ایسے ہی دے دے گا۔۔ (معاذاللہ، استغفراللہ)
اب دیکھیں کس قدر افراط و تفریط ہے، آج کل کسی کو یہ کہہ دینا کہ مجھے اللہ روزی دے گا اس کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر روزی کمانے کا خواہشمند ہے۔
حالانکہ میرا اس وقت کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو میں اب کما رہا ہوں اللہ اس میں مزید اضافہ فرمائے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جایا جائے، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شادی کے بعد مزید کسی اچھی روزی کمانے کا بندوبست فرما دے، جیسے مجھے میرے ایک سعودی دوست نے کچھ عرصہ پہلے بتایا کہ میری تنخواہ کم تھی شاید کوئی 2500 ریال یا 2700 ریال ، لیکن جب میرے رشتے کی بات چلی ( یا شاید رشتہ پکا ہوا) تو میری انہی دنوں ہی تنخواہ بڑھ گئی، اور اللہ نے برکت ڈال دی اور اس کی تنخواہ 3200 ریال ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے اپنے بندوں کو رزق عطا فرما دیتا ہے، بس انسان کو کوشش کرنی چاہیے اور توکل اللہ پر رکھنا چاہیے، نا کہ توکل کا غلط مطلب لے لینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین