﷽
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ سوره الکھف ١١٠
یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محبوبﷺ آپ فرمادیجئے کہ میں تو ایک بشر ہوں تمہاری طرح کا- میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے-
رسول اللہ ﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ وحی فرماتا ہے لیکن منافق کی سوئی صر ف أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ پر آکر رک جاتی ہے وہ آگے بڑھتی ہی نہیں يُوحَىٰ یعنی رسول کی جانب اور قبر میں بھی جب منافق سے رسول اللہﷺ کے متعلق پوچھا جائے گا تو ان کے بارے میں دنیا میں کیا کہتا تھا تو چونکہ دنیا میںمنافق یہ کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ میری مثل ہیں اور اس کا یہ کہنا اس کی مولویوں کی وجہ سے ہے جنکی یہ پیروی کرتا ہے تو وہ قبر میں اس سوال کے جواب میں کہے گا
فيقول لا أدري، كنت أقول ما يقول الناس. فيقال لا دريت ولا تليت. ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين أذنيه، فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين ".
ترجمہ داؤد راز
مجھے معلوم نہیں ' میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
لیکن اس کے برعکس جب مومن سے یہی سوال کیا جائے گا تو وہ جواب میں یہ بات کہے گا
أشهدُ أنهُ عبدُ اللهِ ورسوله
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1338
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2870
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے( یعنی بشر) اور رسول ہیں( یعنی جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے )
یعنی مومن اس آیت مبارکہ کی تصدیق قبر میں بھی کرے گا لیکن جو کافر اور منافق ہوگا وہ چونکہ دنیا میں رسول اللہﷺ کے لئے بشر بشر کی رٹ لگائے ہوئے ہے تو قبر میں بھی بشر سے آگے کچھ نہین کہے گا اور سزا کا مستحق ٹہرے گا
دوسری بات کہ آج کا منافق اس آیت سے جو معنی لے رہا ہے وہ معنی صحابہ نے نہیں لیا کیونکہ صحابہ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے ایسی لئے جب ایک بار رسول اللہ ﷺ صحابہ سے پوچھا کہ
أيُّكم مثلي؟
تم میں کون میری مثل ہے
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6851
اس سوال پر کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ آپ ہماری مثل تو ہیں اللہ قرآن میں یہی فرماتا بلکہ خاموش ہوگئے کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ ایسے ہیں جن کی جانب اللہ وحی نازل فرماتا ہے اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں یہ فرق ہے صحابہ کی فہم اور ایک منافق کی سوچ میں
الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے اور اچھے لوگوں کی پیروی نصیب فرمائے (آمین)-
یہ تو خیر ایک ضمنی بات تھی موضوع سے متعلق میری اس پوسٹ پر کسی ساتھی نے اپنی رائے نہیں دی اس لئے ایسے ایک بار پھر پیش کئے دیتا ہوں
بدعتی و مشرک لوگوں کی ہمیشہ یہ خصلت رہی ہے کہ وہ تقیہ کرتے ہوے انبیاء کرام علیہ سلام خوصوصا نبی کریم صل علیہ و آ لہ وسلم اور اپنے علماء و اکابرین کی محبّت کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں -لیکن حقیقت میں یہ ان کی تعلیمات کے منکر اور سخت دشمن ہوتے ہیں- اور جو بھی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا ہے اور ان تعلیمات کا پرچار کرتا ہے یہ اس کے بھی جانی دشمن بن جاتے ہیں -
یہ ان انبیاء کرام علیہ سلام خوصوصا نبی کریم صل علیہ و آ لہ وسلم اور اپنے علماءہ اکابرین کو غیر مرئی مخلوق ثابت کرنے کی کوشش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ باور کراسکیں کہ یہ الله کی کوئی عام مخلوق نہیں -اور ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی ان کے بغیر ممکن نہیں -کبھی ان کو نوری مخلوق کہتے ہیں تو کبھی عالم و الغیب کہتے ہیں اورسمجھتے ہیں - تو کبھی ان کو زندہ حاضر و ناظر کہتے اور سمجھتے ہیں -جب کہ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ پاک ہستیاں زندہ ہیں تو کیا صرف ان کے ذاتی مسائل حل کرنے کے لئے زندہ ہیں؟؟؟ - دنیا میں اس وقت لاتعداد دینی اور مسلکی مسائل موجود ہیں - شرک و بدعات نے ہر جگہ اپنا ڈیرا جمایا ہوا ہے -آخر یہ انبیاء کرام علیہ سلام براہ راست مسلمانوں کے مسائل کو حل کیوں نہیں کرواتے -کیا ایک نبی کو اپنی امّت کی فکر نہیں- وہ زندہ حاضر اور ناظر ہیں اور اپنی امّت کو گناہوں کے بوجھ سے بچا نہ سکیں؟؟؟
لیکن یہ بدعتی و مشرک لوگ اس حقیقت کو کیا جانیں - یہ لوگ اس لئے ہی تو انبیاء کرام علیہ سلام اور نبی کریم صل علیہ و آ لہ وسلم کو بشر ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ کہ وہ بشر تھے تو بشر کو موت بھی آتی ہے اور بشر اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد حاجت روائی کے قابل بھی نہیں رہتا -لہٰذا اس کو کسی طرح غیر بشر اور نوری مخلوق ثابت کرنا ان کے لئے ضروری ہو جاتا ہے- ورنہ ان کا شرک و بدعات کا کاروبار کیسے چلے اور چمکے - بات یہاں رکتی نہیں بلکہ انبیاء کرام سے بڑھ کر اپنے نام نہاد پیروں و اماموں اور اکابرین تک پہنچ جاتی ہے - اور پھر ان کو بھی انبیاء کرام علیہ سلام کے برابر لا کھڑا کیا جاتا ہے - جب کہ ان عقل کے اندھوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اول تو حاجت روائی کے لئے صرف الله ہی کی ذات کافی ہے - لیکن اگر تمہاری مت ماری گئی ہے اور تم نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو اپنا حاجت روا مان ہی لیا ہے ( جو کہ اگرچہ قرانی رو سے کفر ہے) - تو اپنے اماموں و پیروں اور اکابرین کو اپنا حاجت روا ماننے کی کیا ضرورت باقی رہ گئی ہے ؟؟
یہی بات حضرت یوسف علیہ سلام نے اپنے جیل خانے کے رفیقوں کو سمجھائی تھی -
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ سوره یوسف ٣٩
اے قید خانہ کے رفیقو کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے-
لیکن یہ حقیقت ہے کہ مشرک اور بدعتی کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور سب کچھ واضح ہونے کے باوجود اسے کو کچھ نظر نہیں آتا - اور وہ اپنے اکابرین اور انبیاء کرام علیہ سلام کی نام نہاد محبّت کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے اور اپنے بارے میں یہی گمان لئے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرلیتا ہے کہ صرف میں راہ راست پر ہوں اور باقی سب گمراہ اور ہمارے اکابرین اور انبیاءءعلیہ سلام کے گستاخ ہیں-
الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آمین )-
والسلام -