• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مثنوي رومي

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مثنوی مولانا رومی کی بڑی شہرت ہے۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال بھی اس سے متاثر ہیں۔ کیونکہ کہ فارسی شاعری میں اس مثنوی کا بڑا مقام ہے۔ مجھے فارسی نہیں آتی لہٰذا اس مثنوی کے شعری محاسن سے ذاتی طور پر نا آشنا ہوں۔ البتہ اس مثنوی کی حکایات کا اردو ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بیشتر حکایات سبق آموز کہانیوں پر مشتمل ہیں۔

عوام چونکہ کہانیوں کو پسند کرتے ہیں ہیں لہٰذا انہیں اچھی اچھی باتیں سکھلانے کے لئے دلچسپ فرضی قصے، خواہ وہ انسانوں کے بارے میں ہوں، جانوروں کے بارے میں، جنوں بھوتوں کے بارے میں یا فرضی خلائی مخلوقوں کے بارے میں، لکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں۔ اور اگر یہ کہانیاں منظوم ہوں تو پھر کیا کہنے۔ اس سے ادبی ذوق کی آبیاری بھی ہوتی ہے اور زبان و بیان میں قدرت حاصل کرنے میں معاون و مددگار بھی۔

لیکن ایسی نثری یا منظوم کہانیاں، جو فرضی ہوں، قرآن اور حدیث سے مصدقہ نہ ہوں، انبیاء علیہ السلام یا اسلامی تاریخ سے منسوب نہیں کی جاسکتیں۔ میرا خیال ہے کہ اس مثنوی کی وہ حکایات جو انبیاء علیہ السلام کے بارے مین ہے، ان میں سے بیشتر حکایات کی کوئی سند، حقیقت ہمیں قرآن اور حدیث سے نہیں ملتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے واقعات کربلا پر اردو میں لکھی گئی ”شاندار مثنویاں“ ادبی اعتبار سے تو یقیناً بہت خوبصورت اور اعلیٰ ہیں، لیکن دینی اعتبار سے ان کی کوئی حقیقت نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
Top