مثنوی مولانا رومی کی بڑی شہرت ہے۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال بھی اس سے متاثر ہیں۔ کیونکہ کہ فارسی شاعری میں اس مثنوی کا بڑا مقام ہے۔ مجھے فارسی نہیں آتی لہٰذا اس مثنوی کے شعری محاسن سے ذاتی طور پر نا آشنا ہوں۔ البتہ اس مثنوی کی حکایات کا اردو ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بیشتر حکایات سبق آموز کہانیوں پر مشتمل ہیں۔
عوام چونکہ کہانیوں کو پسند کرتے ہیں ہیں لہٰذا انہیں اچھی اچھی باتیں سکھلانے کے لئے دلچسپ فرضی قصے، خواہ وہ انسانوں کے بارے میں ہوں، جانوروں کے بارے میں، جنوں بھوتوں کے بارے میں یا فرضی خلائی مخلوقوں کے بارے میں، لکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں۔ اور اگر یہ کہانیاں منظوم ہوں تو پھر کیا کہنے۔ اس سے ادبی ذوق کی آبیاری بھی ہوتی ہے اور زبان و بیان میں قدرت حاصل کرنے میں معاون و مددگار بھی۔
لیکن ایسی نثری یا منظوم کہانیاں، جو فرضی ہوں، قرآن اور حدیث سے مصدقہ نہ ہوں، انبیاء علیہ السلام یا اسلامی تاریخ سے منسوب نہیں کی جاسکتیں۔ میرا خیال ہے کہ اس مثنوی کی وہ حکایات جو انبیاء علیہ السلام کے بارے مین ہے، ان میں سے بیشتر حکایات کی کوئی سند، حقیقت ہمیں قرآن اور حدیث سے نہیں ملتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے واقعات کربلا پر اردو میں لکھی گئی ”شاندار مثنویاں“ ادبی اعتبار سے تو یقیناً بہت خوبصورت اور اعلیٰ ہیں، لیکن دینی اعتبار سے ان کی کوئی حقیقت نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب