روزے کی نیت کے حوالے سے حضرات حنفیہ نے جو الفاظ بنا رکھے ہیں ’’ وبصوم غد نویت من شہر رمضان ‘‘ ایک عرصے تک میں بھی انہیں لسانی قواعد و ضوابط کی رو سے غلط سمجھتا رہا ہوں ۔ اور بہت زیادہ تعجب بھی ہوتا تھا کہ اتنے بڑے بڑے علماء عربی کی ایک سادہ سی عبارت میں غلطی کر گئے اور پھر بعد والوں نے من و عن اس کو تسلیم کرلیا ۔
بہت سارے لوگوں کا ابھی تک یہی خیال ہے کہ یہ سب ایسا ہی ہوا ہے لیکن میرے خیال میں بات ایسے نہیں ہے ۔
کیونکہ نیت کے یہ الفاظ صبح سحری کے وقت نہیں کہے جاتے بلکہ رات سونے سے پہلے یا شام کے وقت افطاری کی دعا کے ساتھ کہے جانے کےلیے بنائے گئے ہیں ۔
حاشیۃ الشلبی کا ایک اقتباس ہے :
(فائدة) قال في الدراية في آخر باب الاعتكاف ومن السنة أن يقول عند الإفطار اللهم لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك أفطرت وصوم الغد من شهر رمضان نويت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت اهـ(حاشیۃ الشلبی مع تبیین الحقائق ج 1 ص 342)
مجمع الأبہر اور حاشیۃ الطحطحاوی میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں ۔
حقیقت حال احناف بہتر جانتے ہیں لیکن اگر بات ایسے ہی ہے تو اس لحاظ سے یہ الفاظ عربی زبان کے قواعد کے مطابق درست ہیں ۔یہ الگ بات ہےکہ سنت سے عدم ثبوت کی وجہ سے مردود ہیں ۔
اشماریہ صاحب نے جو جواب دیا میرے خیال میں وہ کافی بعید ہے ۔ اور اس پر محترم راجا صاحب نے جو اعتراض فرمایا بالکل بجا ہے ۔ کہ یہ کیسا روزہ ہے کہ سحری کے لیے تو شروع ہو چکا ہے لیکن نیت کے اعتبار سے فجر کے بعد شروع ہوگا ۔
خیر بہتر ہوگا کہ
@اشماریہ صاحب اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار علماء احناف کے فرمودات کی روشنی میں فرمائیں ۔
باقی نیت دل کا فعل ہے ظاہر ہے وہ دل سے ہی ادا ہوگا ۔ زبان سے ادا ہونے والے فعل کو ’’ قول ‘‘ وغیرہ کہتے ہیں ’’ نیت ‘‘ نہیں کہتے ۔ فورم کے ایک فاضل رکن نے کسی جگہ خوب فرمایا ہےکہ جس طرح کان کے علاوہ کسی اور عضو کے فعل کو ’’ سننا ‘‘ نہیں کہہ سکتے ، آنکھ کے علاوہ کسی اور عضو کے فعل کو ’’ دیکھنا ‘‘ نہیں کہہ سکتے تو پھر نیت جو دل کا فعل ہے وہ کسی اور عضو سے کیا جائے تو اسے نیت کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے ؟