- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
حضرت لقمان کی نوجوانوں کو نصیحتیں
نوجوان آج کے باغ و بہار اور مستقبل کا قیمتی اثاثہ ہیں۔'نوجوان'ایسی نسل ہےجس کی ہر دور میں قدر و قیمت رہی ہے۔ان کی تعلیمی یا تربیتی عمل میں کہیں ذرا سی بھی کمی واقع ہو تو معاشرہ اضطراب کی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔آج کا معاشرہ بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال میں اُلجھا ہوا ہے۔جرائم کی اکثریت ، معاشرتی بگاڑ ، لادینیت کی اندھی تقلید، بدامنی، قتل و فساد اور ہر طرف بے سکونی کی فضا چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ان مسلمان نوجوانوں کی گمراہی اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ دینِ اسلام سے دوری ہے۔اسلامی تہذیب و تمدن کو روندتے ہوئے یہ نوجوان آج خود کو دنیا کی تیز رفتار ترقی اور اس جہاںِ فانی میں کامیابی کے حصول کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں مگر در حقیقت یہ نوجوان طبقہ گمراہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔یہ صورتحال مزید سنگینی اختیار کرتی جا رہی ہے۔غیر اسلامی رسومات ، ذرائع ابلاغ کا بڑھتا ہوا منفی رجحان اور دشمنانِ دین کے اوچھے ہتھکنڈوں نے اُمّتِ مسلمہ کے ان نوجوان طبقہ کے فکر وسوچ کوبڑی حد تک متاثر کیا ہے اوریوں یہ طبقہ گمراہی میں زیادہ مبتلا نظر آتا ہے۔
اسلام جو ہمہ گیر مذہب ہے،انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لیے اُصول مرتب کرتا ہے۔ اسلام نے بچوں کی تعلیم و تربیت، فطرت سلیمہ کی تبدیلی اور امن سے انحراف کا پہلا ذمہ دار ماں باپ کو قرار دیا ہے۔سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ»1
''ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔''
جوانی ایک نعمت ہے،جس کی قدر کرنا اور صحیح رخ پر ڈالنا بہت ضروری ہے۔دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ دینِ حق کی دعوت میں نوجوانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔قرآن مجید میں اصحابِِ کہف کا تذکرہ موجود ہے۔جن کے دلوں نے ایمان کی دولت پاتے ہی ہر طرح کے ناز و نعم کو چھوڑ کر صحرا و بیاباں اور پہاڑوں کا رخ کیا۔حکومتِ وقت کی ریشہ دوانیوں سے بچنے اور اپنے ایمان کی دولت کو محفوظ کرنے کے لیے ہجرت کا راستہ اختیار کیا۔اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان نوجوانوں کی ان الفاظ میں تعریف بیان فرمائی:
﴿نَحنُ نَقُصُّ عَلَيكَ نَبَأَهُم بِالحَقِّ ۚ إِنَّهُم فِتيَةٌ ءامَنوا بِرَبِّهِم وَزِدنـٰهُم هُدًى ١٣﴾... سورة الكهف
''ہم آپ پر اُن کا قصہ برحق بیان کرتے ہیں کہ یہ چند نوجوان اپنے ربّ پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے اُنھیں ہدایت میں ترقی دی تھی۔''
نوجوانی میں کسی کام کو کرنے کا جذبہ، ولولہ ،کسی معاملے کو عروج تک پہنچانے کی جراءت اور کسی حادثے سے مقابلہ کرنے کی عظیم قوت پائی جاتی ہے۔علم النفس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانی کا یہ عرصہ اس قدر نازک ہوتا ہے کہ اسے جو راہ مل جائے ،وہ اسے اپنا لیتا ہے۔قرآن مجید کی ایک لمبی چوڑی سورت (سورۃ یوسف) ایک صالح نوجوان کی عصمت و عفت اور ہمت وجرات کی مثال قائم کرتی ہے جس نے پاکیزگی و عفت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور پاک دامنی کا راستہ ہی اختیار کیا۔نوجوانی کے اس سنہرے دور کی قدر و قیمت نبی کریمﷺکے اس فرمان سے واضح ہو جاتی ہے۔عبداللّٰہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
«اِغْتَنِمْ خمساً قَبْلَ خمسٍ، شَباَبَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَ صِحَتَكَ قَبْلَ سُقمِكَ وَ غِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَ فَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَ حَیٰوتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ»2
''پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت شمار کرو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مالداری کو اپنی تنگدستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔''
بے حسی اور غفلت میں گھرے اِن نوجوانوں کو گمراہی کی دلدل سے نکالنا بے حد ضروری ہے۔اللّٰہ تعالیٰ نے ہدایت کی کتاب قرآنِ مجید میں صراط مستقیم پر چلنے کی راہ دکھائی۔جن میں قرآن مجید نے حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کو نقل کیا، جو اُنھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔اُنھوں نے اپنی نصیحت کا آغاز توحید سے کیا اور اسے چند اخلاقی امور پر ختم کیا ہے،جن کو سات بنیادی نکات سے واضح کیا جا سکتا ہے: