1۔توحید کی تعلیم
اسلام کی سب سے پہلی اور اہم ترین تعلیم 'توحید' ہے۔یہی چیز مسلم اور مشرک کے مابین تفریق قائم کرتی ہے۔اس کا انکار کرنے والا مشرک بن جاتا ہے،جس کے لیے دنیا و آخرت میں ذلّت و رسوائی ہے۔اس لیے حضرت لقمان نے سب سے پہلے اپنے نوجوان بیٹے کو شرک سے روکا۔کیونکہ شرک سے ایک خدا کی طرف بغاوت اور اس کی ہستی کا انکار لازم آتا ہے اور دوسری طرف شرک کرنے والا خود اپنی پیشانی اپنے جیسے یا اپنی سے کمتر مخلوقات کے سامنے جھکا کر ذلیل و خوار کرتا ہے:
﴿وَإِذ قالَ لُقمـٰنُ لِابنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يـٰبُنَىَّ لا تُشرِك بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّركَ لَظُلمٌ عَظيمٌ ﴿١٣﴾... سورة لقمان
''اے میرے پیارے بیٹے! اللّٰہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ، بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔''
نوجوانِ دین کے لیے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ بیان نہایت سبق آموز ہے:
''توحید سب سے بڑا علم ہے۔ تم جس قدر تحقیق اور جستجو کرو گے، تم کو یہی معلوم ہو گا کہ یہی علم کا سرا بھی ہے اور علم کی آخری حد بھی۔طبیعیات ، کیمیا ، ہیئت ، ریاضیات ، حیاتیات ، حیوانات اور انسانیت غرض کائنات کی حقیقتوں کا کھوج لگانے والے جتنے بھی علوم ہیں، ان میں سے خواہ کوئی علم لے لو، اس کی تحقیق میں تم جس قدر آگے بڑھتے جاؤگے،
لا إلٰه إلّا الله کی صداقت تم پر زیادہ کھلتی جائےگی اور اس پر تمہارا یقین بڑھتا جائے گا۔''
اُمّتِ مسلمہ کے یہ جوان اللّٰہ کی حقیقت اور اس کی گہرائی سے واقف ہی نہیں۔اس لیے آج بیشتر نوجوان پیروں فقیروں کی در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔روحانی بابا اور ماہرِ نجوم کی پیروی کرتے ہیں۔جادو منتر، عملیات اور ایسے دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔مگر درحقیقت وہ اس کے باوجود فلاح حاصل نہیں کر رہے، کیونکہ اس کا سبب اللّٰہ اس کی ذات و صفات اور یکتائی پر ان کے ایمان کی کمزوری ہے۔قرآنِ کریم میں اللّٰہ تعالیٰ نے اس کمزوری کا بیان اس طرح ارشاد فرمایا ہے :
﴿وَاتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ ءالِهَةً لَعَلَّهُم يُنصَرونَ ٧٤ لا يَستَطيعونَ نَصرَهُم وَهُم لَهُم جُندٌ مُحضَرونَ ٧٥﴾... سورة يس
''اور اُنھوں نے الله کے سوا اور معبود بنا لیے ہیں ، کہ شاید(اُن سے) اُسکو مدد پہنچے، (مگر) وہ ان کی مدد کی طاقت ہرگز نہیں رکھتے ، اور وہ ان کی فوج ہو کر ظاہر کئے جائیں گے۔''
مسلمان نوجوان عقیدہ توحید کو اپنے اندر راسخ اور جذب کر لیں اور قدم قدم پر اللّٰہ کی نصرت و حمایت کے طلب گار بن کر اس کا عملی ثبوت دیں۔فرمانِ مبارک ہے :
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اعبُدوا رَبَّكُمُ الَّذى خَلَقَكُم وَالَّذينَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ٢١ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الأَرضَ فِرٰشًا وَالسَّماءَ بِناءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَكُم ۖ فَلا تَجعَلوا لِلَّهِ أَندادًا وَأَنتُم تَعلَمونَ ٢٢﴾... سورة البقرة
'' اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو ، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ، جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا ، اور آسمان سے پانی برسا کر تمہارے کھانے کے لیے پھلوں کو نکالا پس تم اللّٰہ کے لیے شریک نہ بناؤ اور تم جانتے ہو۔ ''
جدید دور کے نوجوان طبقے میں اس بنیادی امراور حقیقت کو واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے۔ذہنی کشمکش اور مصائب کا شکار یہ نوجوان طبقہ بلند و بالا اور عظیم ہستی کو چھوڑ کر اپنے جیسی مخلوقات سے فریاد کر کے نہ صرف شرک کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ رحمتِ الٰہی سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔شرک کی سنگینی اس آیت سے واضح ہو جاتی ہے :
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرىٰ إِثمًا عَظيمًا ٤٨﴾..
. سورة النساء
''یقیناً اللّٰہ
تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللّٰہ
کے ساتھ شریک مقرر کرے، اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا ۔''
لہٰذا نوجوانوں کو شروع سے ہی شرک سے اجتناب کی تعلیم دینا بے حد ضروری ہے۔