• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آسیب چڑھنا

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

آسیب چڑھنا

جن چڑھنے کا عقیدہ بہت قدیم ہے اس کا ذکر تلمود اور نصاری کی کتب میں ملتا ہے- ایک جسم میں دوسرے جسم میں داخل ہونا عیسائیوں کے نزدیک عیسیٰ کی الوہیت کی نشانی ہے کہ الله کی لطیف روح عیسی کے جسم میں داخل ہوئی اور جذب ہو گئی (انجیل مرقس) اس عقیدے کو مزید پختہ کرنے کے لئے شیطان کا عیسی کی مخالفت میں جانوروں اور انسانوں میں داخل ہونا بھی بیان کیا گے ہے، سوائے یوحنا کی انجیل کے

اس قدیم بدعتی عقیدے کی باز گشت اسلامی کتب میں بھی سنائی دیتی رہتی ہے اور جن چڑھنے کو بد روح سوار ہونا بھی کہا جاتا ہے اور آسیب لگنا بھی آٹھویں صدی کے ایک عالم ابن تیمیہ جو ارواح کے دنیا میں انے جانے کے قائل تھے -

انکے عقائد کی دلیل ہے کہ

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ


(سورۃ البقرۃ : 275)

ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔

سوره البقرہ کی آیت میں کہا جا رہا ہے کہ اس سود کے خلاف حکم کی مخالفت کرنے والے ایسے ہیں جیسے ان پر شیطان سوار ہو جو ان کو سود کے حق میں تاویلات سکھا رہا ہے کہ سود تجارت کی طرح ہے

اس پر جن چڑھنے کا عقیدہ رکھنے والے کہتے ہیں

اس آیت میں صریح دلیل ہے کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہوکر اسے خبط الحواس بنا دیتا ہے ۔آئیے چند مشاہر علماء و مفسرین کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ جن انسان کے بدن میں واقعتا داخل ہوجاتا ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سود خور کو روز قیامت اس مجنوں کی طرح اٹھایا جائے گا جس کا گلا گھونٹا جا رہاہو۔


(ابن ابی حاتم)

تفسیر ابن ابی حاتم میں اس روایت کی سند ہے

قَوْلُهُ تَعَالَى: إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ


- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ثنا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، ثنا الأَشْعَثُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدٍ الأَشْعَرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يتخبطه الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ قَالَ: آكِلُ الرِّبَا يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَجْنُونًا يُخْنَقُ

اس کی سند میں جَعْفَرِ بْنِ الْمُغِيرَةِ ہے جو مجھول ہے

کہا جاتا ہے

لفظ “تخبط” تفعل کے وزن پر فعل (یعنی خبط) کے معنی میں ہے ۔ اور اس کی اصل مختلف انداز کی مسلسل ضرب ہے ۔ اور ارشاد الہی (من المس) کا مطلب جنون اور پاگل پن ہے ۔ کہاجاتا ہے “مس الرجل فھو ممسوس” یعنی وہ پاگل ہوگیا ، اور مس کا اصل معنی ہاتھ سے چھونا ہے ۔

بخاری کی حدیث ہے

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ إِيَّاهُ، إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا»، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ}


کوئی پیدا ہونے والا ایسا نہیں جس کو شیطان مس نہ کرے جب پیدا ہو … سوائے ابن مریم علیہ السلام کے پھر ابو ہریرہ رضی الله نے کہا اور اگر چاہو تو آیت تلاوت کرو وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

حدیث کے مطابق پر شخص کو شیطان کا مس چھونا ہوتا ہے تو پھر ہر شخص پاگل کیوں نہیں ہے

قرآن میں ایوب علیہ السلام کے لئے کہا گیا ہے

وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ

اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کرو جب اس نے پکارا کہ شیطان نے چھو کر عذاب میں مبتلا کر دیا ہے


کیا انبیاء پر بھی جن چڑھا ہے کیا مس کا مفھوم یہاں بھی خبطی کرنا ہے؟

سوره الاعرآف میں ہے

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ

جو الله سے ڈرتے ہیں انہیں جب کوئی شیطانی خیال مس کرتا ہے تو الله کا ذکر کرتے ہیں


شیطانی مس خیالات کا مس ہے جس میں انسان کو وہ ورغلاتا ہے

جن چڑھنے کا عقیدہ رکھنے والوں کی طرف سے حدیث پیش کی جاتی ہے کہ

عن أبي سعيد – رضي الله عنه – قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا تثاءب أحدكم فليضع يده على فيه ، فإن الشيطان يدخل مع التثاؤب


( صحيح أبو داوود 1375 و صحيح الجامع 426)

ترجمہ : ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا نبی علیہ السلام نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا کرو کیونکہ شیطان جماہی کے ساتھ اندر داخل ہوجاتاہے ۔

سوال ہے کہ لیکن اگر شیطان منہ میں داخل ہوتا ہے تو انسان اب باولا کیوں نہیں ہوا

اس حدیث سے تو جن چڑھنے کا عقیدہ رد ہوتا ہے

جن چڑھنے کا عقیدہ رکھنے والوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ

ابوالحسن اشعری نے اپنی کتاب “مقالات اہل السنہ والجماعہ” میں ذکر کیا ہے : وہ کہتے ہیں کہ جن مصروع (آسیب زدہ) کے بدن میں داخل ہوتا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)

ترجمہ : سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔

(مجموع الفتاوی 19/12)

لیکن امام الاشعری نے ایسا نہیں کہا انہوں نے کتاب میں دونوں رائے لکھی ہیں لیکن نہ ان کو رد کیا ہے نہ قبول اور آیت کا تو ذکر بھی نہیں

امام الاشعری کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں لکھتے ہیں

واختلف الناس في الجن هل يدخلون في الناس على مقالتين:

فقال قائلون: محال أن يدخل الجن في الناس.

وقال قائلون: يجوز أن يدخل الجن في الناس لأن أجسام الجن أجسام رقيقة

اور لوگوں میں اختلاف ہوا کہ کیا جن لوگوں میں داخل ہوتا ہے اس میں دو رائے ہوئے

پس کہا یہ محال ہے کہ جن لوگوں میں داخل ہو

اور (بعض نے) کہا یہ جائز ہے کہ داخل ہو کیونکہ جن کا جسم رقیق ہے

امام الاشعری نے لوگوں کی رائے پیش کی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ان میں سے وہ کس سے متفق ہیں لہذا ان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے -

جن چڑھنے کا عقیدہ رکھنے والے کہتے ہیں

نبی ﷺ کی حدیث سے صحیح ثابت ہے ۔ شیطان اولاد آدم کے رگ و پے میں خون کی جگہ دوڑتا ہے ۔

(مجموع الفتاوی 24/276)

اس حدیث کے سیاق و سباق میں ہے کہ ایک رات نبی اپنی بیوی صفية بنت حيي رضي الله عنها کے ہاں سے نکلے جبکہ اپ معتكف بھی تھے اور کچھ انصاری صحابہ نے ان کو دیکھا اور تیزی سے جانے لگے- تو آپ نے کہا یہ میری بیوی ہیں اور کہا کہ شیطان انسان کو ایسے بہکآتا ہے کہ اس کے خوں میں ہوں

چونکہ صحابہ کو کہا جا رہا ہے تو کیا ان میں شیطان داخل ہوا یا ہم کو شیطان نے بہکایا تو کیا ہم میں داخل ہوا ؟

ان کی جانب سے حدیث پیش کی جاتی ہے

سنن ابن ماجہ کی روایت ہے

حدثنا محمد بن بشار . حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري . حدثني عيينة بن عبد الرحمن . حدثني أبي عن عثمان بن أبي العاص قال لما استعملني رسول الله صلى الله عليه و سلم على الطائف جعل يعرض لي شيء في صلاتي حتى ما أدري ما أصلي . فلما رأيت ذلك رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم . فقال : ( ابن أبي العاص ؟ ) قلت نعم يا رسول الله قال ( ماجاء بك ؟ ) قلت يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي حتى ما أدري ما أصلي . قال ( ذاك الشيطان . ادنه ) فدنوت منه . فجلست على صدور قدمي . قال فضرب صدري بيده وتفل في فمي وقال ( اخرج . عدو الله ) ففعل ذلك ثلاث مرات . ثم قال ( الحق بعملك ) قال فقال عثمان فلعمري ما أحسبه خالطني بعد


عثمان بن ابی العاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو نماز پڑھنے میں مشکل ہوتی اس کا ذکر نبی صلی الله وسلم سے کیا تو اپ میرے سینے ضرب لگائی اور کہا نکل اے الله کے دشمن ! ایسا تین دفعہ کیا … اس کے بعد نماز میں کوئی مشکل نہ ہوئی


اس کی سند میں محمد بن عبد الله بن المثنى بن عبد الله بن أنس بن مالك الأنصاري ہیں جن کو وقال أبو داود تغير تغيرا شديدا ابو داود کہتے ہیں یہ بہت تغیر کا شکار تھے گویا کسی ذہنی بیماری کا شکار تھے

یہی واقعہ صحیح مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں

یہی روایت مسلم میں بھی ہے جس میں جن نکالنے کا ذکر نہیں ہے اس میں صرف وسوسہ کا ذکر ہے جیسا کہ قرآن میں سوره المومنون میں ہمزات الشیطان کا ذکر ہے
مسلم کی روایت ہے

حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: “أُمَّ قَوْمَكَ” قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي شَيْئًا قَالَ: “ادْنُهْ” فَجَلَّسَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ فِي صَدْرِي بَيْنَ ثَدْيَيَّ. ثُمَّ قَالَ: “تَحَوَّلْ” فَوَضَعَهَا فِي ظَهْرِي بَيْنَ كَتِفَيَّ، ثُمَّ قَالَ: “أُمَّ قَوْمَكَ. فَمَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الْكَبِيرَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ، وَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ، وَإِنَّ فِيهِمْ ذَا الْحَاجَةِ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ وَحْدَهُ، فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ”


عثمان بن ابی العاص روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قول کی امامت کرو! میں نے کہا اے رسول اللہ ،میں اپنے نفس میں کوئی چیز (خوف) پاتا ہوں اپ نے فرمایا یہ شیطان کا وسوسہ ہے پھر اپ میرے سامنے بیٹھے پھر میرے سینے کے بیچ میں ہاتھ رکھا اور کہا بدل جاؤ، پھر میری پیٹھ پر دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور کہا اپنی قوم کی امامت کرو، پس جب امامت کرو تو کمی کرنا کیونکہ ان میں عمر رسیدہ ہوں گے، مریض ہوں گے ، کمزور ہوں گے اور ان میں ضرورت مند ہوں گے لیکن اگر کوئی اکیلا نماز پڑھے تو پھر جیسے چاہے پڑھے


ابن ماجہ اور مسلم کی روایت الگ الگ ہے ایک میں اخرج کا لفظ ہے اور دوسری میں تحول کا دونوں میں فرق ہے اخرج نکلنا ہے اور تحول بدلنا دونوں کا مفھوم الگ ہے ہاں کوئی کھینچ تان کر کے اس کو شیطان کا جسم میں داخل ہونا کرے تو بھی عجیب ہے

جن چڑھنے کا عقیدہ رکھنے والے روایت پیش کرتے ہیں

عن يعلى بن مرة رضى الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : أنه أتته إمرأة بإبن لها قد أصابه لمم- اى طرف من الجنون , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: “أخرج عدو الله أنا رسول الله “. قال فبرأفاهدت له كبشين و شيئا من إقط و سمن فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يايعلي خذ الإقط والسمن و خذ أحد الكبشين ورد عليها الآخر


(سلسلة الأحاديث الصحيحة 1/874)

ترجمہ: یعلی بن مرہ سے روایت ہے کہ کہ نبی ﷺ کے پاس ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ آئی جسے جنون ہوگیا تھا ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: “اے اللہ کے دشمن نکل جاؤ ، میں اللہ کا رسول ہوں “۔ وہ کہتے ہیں کہ بچہ ٹھیک ہوگیا تو اس عورت نے آپ کو دومینڈھا ، کچھ دودھ اور گھی ہدیہ کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے یعلی دودھ، گھی اور ایک مینڈھا لے لو اور ایک مینڈھا اسےواپس کردو۔

٭اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے شیطان کو مخاطب کیا جو بچہ میں داخل ہوکر اس کی عقل میں فتور پیدا کردیا تھا جب شیطان کو نبی ﷺ نے رسول ہونے کا واسطہ دے کربچے کے اندرسے نکلنے کا حکم دیا تو بچہ درست ہوگیا۔

مسند احمد میں اس کی سند ہے

حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الله بن نمير عن عثمان بن حكيم قال أخبرني عبد الرحمن بن عبد العزيز عن يعلى بن مرة قال : لقد رأيت من رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثا ما رآها أحد قبلي ولا يراها أحد بعدي لقد خرجت معه في سفر حتى إذا كنا ببعض الطريق مررنا بامرأة جالسة معها صبي لها فقالت يا رسول الله هذا صبي أصابه بلاء وأصابنا منه بلاء يؤخذ في اليوم ما أدري كم مرة قال ناولينيه فرفعته إليه فجعلته بينه وبين واسطة الرحل ثم فغرفاه فنفث فيه ثلاثا وقال بسم الله أنا عبد الله اخسأ عدو الله ثم ناولها إياه فقال القينا في الرجعة في هذا المكان فأخبرينا ما فعل قال فذهبنا ورجعنا فوجدناها في ذلك المكان معها شياه ثلاث فقال ما فعل صبيك فقالت والذي بعثك بالحق ما حسسنا منه شيئا حتى الساعة …..


تعلیق میں شعيب الأرنؤوط کہتے ہیں : إسناده ضعيف لجهالة عبد الرحمن بن عبد العزيز

عبد الرحمن بن عبد العزيز کے مجھول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے

ایک اور روایت جن چڑھنے کا عقیدہ رکھنے والوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے

عن عم خارجة بن الصلت التميمي – رضي الله عنه – : ( أنه أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسلم ، ثم أقبل راجعا من عنده ، فمر على قوم عندهم رجل مجنون موثق بالحديد ، فقال أهله : إنا حدثنا أن صاحبكم هذا ، قد جاء بخير ، فهل عندك شيء تداويه ؟ فرقيته بفاتحة الكتاب ، فبرأ ، فأعطوني مائة شاة ، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته ، فقال : ( هل إلا هذا ) وقال مسدد في موضع آخر : ( هل قلت غير هذا ) ؟ قلت : لا ! قال : ( خذها ، فلعمري لمن أكل برقية باطل ، لقد أكلت برقية حق )


(السلسلة الصحيحة – 2027)

ترجمہ : خارجہ بن صلت تمیمی رضی اللہ عنہ کے چچا سے مروی ہے : وہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا ۔ پھر آپ ﷺ کے پاس سے واپس لوٹ گئے ۔ ان کا گذر ایک قوم کے پاس سے ہوا جن کے پاس ایک آدمی جنوں کی وجہ سے لوہے سے بندھا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ بتلایا گیا ہے کہ تمہارے ساتھی (نبی ﷺ) نے بھلائی لایاہے ۔ تو کیا آپ کے پاس کچھ ہے جس کے ذریعہ آپ اس کا علاج کرسکیں ؟ تو میں نے اس پرسورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کردیا ۔ پس ٹھیک ہوگیاتو انہوں نے مجھے ایک سو بکریاں دی ۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی ۔ پس آپ نے کہا: کیا یہی تھا۔ مسدد نے کہا دوسری جگہ ہے : کیا اس کے علاوہ بھی پڑھا تھا؟ تو میں نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا: اسے لے لو۔ میری عمر کی قسم ! جس نے باطل دم کے ذریعہ کھایا(اس کا بوجھ اور گناہ اس پر ہے)، تو نے تو صحیح دم کے ذریعہ کھایا(تم پر کوئی گناہ نہیں)۔

سند ہے

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ عَمِّهِ


اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے سوره فَاتِحَةَ سے دم کیا اور اجرت لی


یہ روایت معلول ہے کیونکہ ابن ابی حاتم نے اسکوالعلل میں ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ

وَرَوَاهُ شُعبة ، عَنْ عبد الله بن أبي السَّفَر، عن الشَّعبي، عن خارِجَة بْنِ الصَّلْت، عَنْ عمِّه، عَنْ أَنَسٍ هَكَذَا.


شُعبة نے بھی اس کو روایت کیا ہے لیکن اس میں خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ کے چچا نے انس سے اس کو بیان کیا ہے – لہذا یہ روایت متصل نہیں

طبقات خليفة بن خياط کے مطابق خارجة بن الصلت کے چچا کا نام عبد الله بن عنيز ہے نہ کہ عِلاَقَةَ بْنِ صُحَارِ السَّلِيطِيّ التَّمِيمِيّ
وعم خارجة بن الصلت اسم عم خارجة: عبد الله بن عنيز بن عبد قيس بن خفاف, من بني عمر بن حنظلة, من البراجم.

بعض نے چچا کا نام عِلاَقَةَ بْنِ صُحَارِ السَّلِيطِيّ التَّمِيمِيّ بتایا ہے -

بعض نے العلاء بن صحار اور علاثة بْن صحار بھی کہا ہے دیکھئے أسد الغابة في معرفة الصحابة

شُعبة کی روایت کے مطابق خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ کے چچا نے اس کو انس رضی الله تعالیٰ عنہ سے سنا ہے اور خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ کے چچا صحابی رسول ہیں اس کو ثابت کرنے کے لئے کوئی اور دلیل بھی نہیں


ایک اور روایت جن چڑھنے پر پیش کی جاتی ہے

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ، وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا۔


(صحيح سنن أبي داود، 5/ 275و صححه الألباني في صحيح النسائي، 3/1123،)

ترجمہ : اے اللہ میں گرنے، ڈوبنے، جلنے ، بڑھاپےسے تیری پناہ مانگتاہوں۔ اور تیری پناہ مانگتاہوں کہ مجھے شیطان موت کےوقت خبطی نہ بنادے ، اور تیری پناہ طلب کرتاہوں کہ راہ جہاد سے پیٹھ پھیرتے ہوئے مارا جاؤں ، اور میں تیری پناہ چاہتاہوں اس بات سے کہ ڈنسنے سے مارا جاؤں ۔

سیوطی سنن نسائی کی شرح میں الخطابی کا قول لکھتے ہیں

حَاشِيَةُ السِّيُوطِيِّ : ( وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت ) قَالَ الْخَطَّابِيُّ هُوَ أَنْ يَسْتَوْلِي عَلَيْهِ عِنْد مُفَارَقَة الدُّنْيَا فَيُضِلّهُ وَيَحُول بَيْنه وَبَيْن التَّوْبَة

اور الفاظ وَأَعُوذ بِك أَنْ يَتَخَبَّطنِي الشَّيْطَان عِنْد الْمَوْت پر الْخَطَّابِيُّ کہتے ہیں شیطان کا سوار ہونا دنیا چھوڑنے پر ہے کہ وہ توبہ اور انسان کے درمیان حائل ہو جاتا ہے

گویا الفاظ ادبی ہیں اور ان کا مطلب توبہ کی توفیق نہیں ہونا ہے. الْخَطَّابِيُّ کی اس شرح سے معاملہ بالکل صاف ہو گیا کہ قرآن و حدیث میں جن چڑھنے کی کوئی دلیل نہیں

حدیث بخاری جن چڑھنے کا عقیدہ رکھنے والوں کی جانب سے پیش کی جاتی ہے

عن عطاء بن رباح قال : قال لي ابن عباس – رضي الله عنه – : ( ألا أريك امرأة من أهل الجنة ؟ قلت : بلى ، قال هذه المرأة السوداء أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت : إني أصرع وإني أتكشف فادع الله لي ، قال : إن شئت صبرت ولك الجنة ، وإن شئت دعوت الله أن يعافيك ؟ فقالت : أصبر ، فقالت : إني أتكشف فادع الله لي أن لا أتكشف ، فدعا لها)


(صحيح البخاري ح 5652)

ترجمہ : عطاء بن رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تم کو جنت کی ایک عورت نہ دکھاؤں ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ۔ تو انہوں نے کہا، یہ کالی عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہی : میں پچھاڑدی جاتی ہوں اور میں ننگی ہوجاتی ہوں پس آپ میرے لئے اللہ سے دعا کر دیجئے ، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم صبر کروگی تو تمہارے لئے جنت ہے ، اور اگر تم چاہوں میں اللہ سے دعا کردوں تاکہ ٹھیک ہوجاؤ؟ تو اس عورت نے کہا: میں صبر کروں گی ، کہی : میں ننگی ہوجاتی ہوں میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے تاکہ ننگی نہ ہوسکوں ، تو نبی ﷺ نے اس کے لئے دعا کی ۔

اس میں صراع کا لفظ ہے جو آسیب کے لئے استعمال ہوتاہے اور مرگی کے لئے بھی- عہد جاہلیت میں عربوں کا عقیدہ تھا کہ جن چڑھتا ہے اور مرگی کا مرض آسیب سے ہوتا ہے اس کو زبردستی مشرف با اسلام کیا جا رہا ہے- مترجمین نے اس حدیث کا ترجمہ مرگی ہی کیا ہے

روز محشر شیطان کہے گا

و قَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ ۖ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ


شيطان تو کہہ رہا ہے کہ مجھ کو صرف دعوت کا اختیار تھا جس کو تم لوگوں نے قبول کیا


الله سب کو ہدایت دے


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
لولی آل ٹائم بھائی !
اللہ کرے آپ کو جن چمٹ جائیں تاکہ آپ کو عین الیقین ہوجائے کہ ایسا ہوتا ہے ۔ ابتسامہ ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
464
پوائنٹ
209
"لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے" ۔ ایسے بھی کچھ ضدی ہوتے ہیں ۔
مجھے خود اپنے گھر میں ایک فرد کو جن چڑھنے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لئے ہم ہرکس وناکس کے واسطے اس شیطان کے چڑھنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں چاہے وہ کیسا بھی آدمی ہو۔ آمین
 
Top