ابوالبیان رفعت
رکن
- شمولیت
- جون 25، 2014
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 59
اصول الشاسی میں ایک قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ خبر واحد اس وقت قابل عمل ہوگی جبکہ وہ قرآن اور سنت مشہورہ کے خلاف نہ ہو اور اس کی دلیل کے طور پر یہ منگھڑت روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نےفرمایا میرے بعد تمہارے پاس بکثرت احادیث آئیں گی جب تمہارے سامنے مجھ سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کو کتاب اللہ پر پیش کرو جو موافق ہو اس کو قبول کرو اور جو مخالف ہو اس کو رد کردو ( اصول الشاسی ص:116)
یہ حدیث قطعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس رویت کو باطل قرا ر دیا ہے اسی طرح امام شوکانی امام صغانی ،امام عجلونی، امام ابن الجوزی اور امام یحیٰ بن معین رحمہم اللہ نے اسے موضوع کہا ہے
امام خطابی فرماتے ہیں اس حدیث کو زنادقہ نے گھڑا ہے اور اس باطل روایت کو رد کرنے کے لئے صرف یہی حدیث کا فی ہے اوتیت الکتاب و مثلہ معہ (مجھے کتاب اور اس کے ساتھ کتاب جیسی چیز (سنت) بھی دی گئی ہے
امام شوکانی فرماتے ہیں کہ : اس حدیث کا معنی خود اس حدیث کو باطل قرار دیتا ہے ، کیونکہ اس میں ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کے بعد قبول کرو جب ہم نے اس حدیث کو قرآن پر پیش کیا تو یہ حدیث اس آیت کے خلاف نکلی (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا )’’اللہ کے رسول تم کو جو (حکم ) دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ ‘‘ اس آیت میں مطلقا ً یہ حکم ہے کہ جو اللہ کے رسول تمہیں جو حکم دیں اسے قبول کرو یہ نہیں لکحا ہے کہ قرآن پر پیش کرو لہذا یہ حدیث خود ہی باطل ہو گئی۔
اسی طرح یہ باطل روایت اللہ کے اس فرمان کے بھی خلاف ہے (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى )’’وہ اپنی نفسانی خوہش سے کوئی بات نہیں کہتے وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کامل ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مطابق علم ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ سیدھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان شریعت کے شارع ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتدال والی راہ پر قائم ہیں۔ آپ کا کوئی قول، کوئى فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپ کو حکم الہی ہوتاہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے ، کمی بیشی ، زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے(تفسیر ابن کثیر محقق جدیدمحقق ایڈیشن نعمانی کتب خانہ لاہور )
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا تو بعض قریشیوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں کچھ فرمادیا کرتے ہیں ‘ چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو اپ نے فرمایا لکھ لیا کرو قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :۱۵۳۲)
خلاصہء کلام یہ کہ کوئى بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی صحیح حدیث ظاہری مفہوم کےاعتبار سے قران کے خلاف معلوم ہوتی ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہوں گی
۱۔ یاتو حدیث کا ظاہری معنی مراد نہیں ہوگا
۲۔ یا قرآن کا مطلب کچھ اور ہوگا
(دوام حدیث ج ۱ ص:۲۴۷)
جاری ان شاء اللہ
یہ حدیث قطعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس رویت کو باطل قرا ر دیا ہے اسی طرح امام شوکانی امام صغانی ،امام عجلونی، امام ابن الجوزی اور امام یحیٰ بن معین رحمہم اللہ نے اسے موضوع کہا ہے
امام خطابی فرماتے ہیں اس حدیث کو زنادقہ نے گھڑا ہے اور اس باطل روایت کو رد کرنے کے لئے صرف یہی حدیث کا فی ہے اوتیت الکتاب و مثلہ معہ (مجھے کتاب اور اس کے ساتھ کتاب جیسی چیز (سنت) بھی دی گئی ہے
امام شوکانی فرماتے ہیں کہ : اس حدیث کا معنی خود اس حدیث کو باطل قرار دیتا ہے ، کیونکہ اس میں ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کے بعد قبول کرو جب ہم نے اس حدیث کو قرآن پر پیش کیا تو یہ حدیث اس آیت کے خلاف نکلی (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا )’’اللہ کے رسول تم کو جو (حکم ) دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ ‘‘ اس آیت میں مطلقا ً یہ حکم ہے کہ جو اللہ کے رسول تمہیں جو حکم دیں اسے قبول کرو یہ نہیں لکحا ہے کہ قرآن پر پیش کرو لہذا یہ حدیث خود ہی باطل ہو گئی۔
اسی طرح یہ باطل روایت اللہ کے اس فرمان کے بھی خلاف ہے (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى )’’وہ اپنی نفسانی خوہش سے کوئی بات نہیں کہتے وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے ‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم کامل ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مطابق علم ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ سیدھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان شریعت کے شارع ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتدال والی راہ پر قائم ہیں۔ آپ کا کوئی قول، کوئى فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپ کو حکم الہی ہوتاہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے ، کمی بیشی ، زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے(تفسیر ابن کثیر محقق جدیدمحقق ایڈیشن نعمانی کتب خانہ لاہور )
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا تو بعض قریشیوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں کچھ فرمادیا کرتے ہیں ‘ چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو اپ نے فرمایا لکھ لیا کرو قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :۱۵۳۲)
خلاصہء کلام یہ کہ کوئى بھی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی صحیح حدیث ظاہری مفہوم کےاعتبار سے قران کے خلاف معلوم ہوتی ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہوں گی
۱۔ یاتو حدیث کا ظاہری معنی مراد نہیں ہوگا
۲۔ یا قرآن کا مطلب کچھ اور ہوگا
(دوام حدیث ج ۱ ص:۲۴۷)
جاری ان شاء اللہ