شامل تھے۔ یہ سب اپنی قوم کے سربرآوردہ اور شیطان تھے۔ عامر بن طفیل وہی شخص ہے جس نے بئر معونہ پر ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کرایا تھا۔ ان لوگو ں نے جب مدینہ آنے کا ارادہ کیا تو عامر اور اربد نے باہم سازش کی کہ نبی ﷺ کو دھوکا دے کر اچانک قتل کر دیں گے۔ چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے نبی ﷺ سے گفتگو شروع کی اور اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچا، اور ایک بالشت تلوار میان سے باہر نکالی، لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ اور وہ تلوار بے نیام نہ کر سکا۔ اور اللہ نے اپنے نبی کو محفوظ رکھا۔ نبی ﷺ نے ان دونوں پر بد دعا کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واپسی پر اللہ نے اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گرا دی۔ جس سے اربد جل مرا۔ اور ادھر عامر ایک سلولیہ عورت کے ہاں اترا، اور اسی دوران اس کی گردن میں گلٹی نکل آئی۔ اس کے بعد وہ یہ کہتا ہوا مر گیا کہ آہ! اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی، اور ایک سلولیہ عورت کے گھر میں موت؟
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ عامر نے نبی ﷺ کے پاس آ کر کہا: میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں: (۱) آپ کے لیے وادی کے باشندے ہوں اور میرے لیے آبادی کے (۲) یا میں آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہوں گا (۳) ورنہ میں غطفان کو ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار گھوڑیوں سمیت آپ پر چڑھا لاؤں گا۔ اس کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہو گیا (جس پر اس نے فرطِ غم سے) کہا: کیا اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی؟ اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں؟ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ، پھر وہ سوار ہوا، اور اپنے گھوڑے ہی پر مر گیا۔
۱۵۔ وفد تجیب:
یہ وفد اپنی قوم کے صدقات کو، جو فقراء سے فاضل بچ گئے تھے، لے کر مدینہ آیا۔ وفد میں تیرہ آدمی تھے۔ جو قرآن و سنن پوچھتے اور سیکھتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ باتیں دریافت کیں تو آپ نے وہ باتیں انہیں لکھ دیں۔ وہ زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں تحائف سے نوازا تو انہوں نے اپنے ایک نوجوان کو بھی بھیجا۔ جو ڈیرے پر پیچھے رہ گیا تھا۔ نوجوان نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: حضور! اللہ کی قسم! مجھے میرے علاقے سے اس کے سوا کوئی چیز نہیں لائی ہے کہ آپ اللہ عزوجل سے میرے لیے یہ دعا فرما دیں کہ وہ مجھے اپنی بخشش و رحمت سے نوازے اور میری مالداری میرے دل میں رکھ دے۔ آپ نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص سب سے زیادہ قناعت پسند ہو گیا۔ اور جب ارتداد کی لہر چلی تو صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہا بلکہ اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کی تو وہ بھی اسلام پر ثابت قدم رہی پھر اہل وفد نے حجۃ الوداع ۱۰ھ میں نبی ﷺ سے دوبارہ ملاقات کی۔
۱۶۔ وفد طَی:
اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبی ﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔
-----------
اس طرح ۹ھ اور ۱۰ھ میں پے در پے وفود آئے۔ اہلِ سیر نے یمن، اَزْد، قَضَاعہ کے بنی سعد ہذیْم، بنی عامر بن قیس، بنی اسد، بہرا، خولان، محارب، بنی حارث بن کعب، غامد، بنی منتفق، سلامان، بنی عبس، مزینہ، مراد، زبید،کندہ، ذی مرہ، غسان، بنی عیش اور نخع کے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ نخع کا وفد آخری وفد تھا محرم ۱۱ھ کے وسط میں آیا تھا اور دو سو آدمیوں پر مشتمل تھا۔ باقی بیشتر وفود کی آمد ۹ھ اور ۱۰ھ میں ہوئی تھی۔ صرف بعض وفود ۱۱ھ تک متاخر ہوئے تھے۔
ان وفود کے پے بہ پے آمد سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت اسلامی دعوت کو کس قدر فروغ اور قبولِ عام حاصل ہو چکا تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ عرب مدینہ کو کتنی قدر اور تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے حتیٰ کہ اس کے سامنے سپر انداز ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں سمجھتے تھے۔ درحقیقت مدینہ جزیرۃ العرب کا دار الحکومت بن چکا تھا۔ اور کسی کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہ تھا۔ البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان سب لوگوں کے دلوں میں دین اسلام اثر کر چکا تھا۔ کیونکہ ان میں ابھی بہت سے ایسے اکھڑ بدو تھے جو محض اپنے سرداروں کی متابعت میں مسلمان ہو گئے تھے ورنہ ان میں قتل و غارت گری کا جو رجحان جڑ پکڑ چکا تھا اس سے وہ پاک صاف نہیں ہوئے تھے۔ اور ابھی اسلامی تعلیمات نے انہیں پورے طور پر مہذب نہیں بنایا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم، سورۂ توبہ میں ان کے بعض افراد کے اوصاف یوں بیان کیے گئے ہیں: الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٩٧﴾ وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٩٨﴾ (۹: ۹۷، ۹۸)
''اعراب (بدّو) کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں۔ اور اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے اس کے حدود کو نہ جانیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور بعض اعراب جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں۔ اور تم پر گردشوں کا انتظار کرتے ہیں۔ انہی پر بُری گردش ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔''
جبکہ کچھ دوسرے افراد کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے:
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّـهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (۹: ۹۹)
''اور بعض اعراب اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ان کے لیے قربت کا ذریعہ ہے۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔ ''
جہاں تک مکہ، مدینہ، ثقیف، یمن اور بحرین کے بہت سے شہری باشندوں کا تعلق ہے، تو ان کے اندر اسلام پختہ تھا۔ اور انہی میں سے کبار صحابہ اور سادات مسلمین ہوئے۔ (یہ بات خضری نے محاضرات ۱/۱۴۴ میں کہی ہے۔ اور جن وفود کا ذکر کیا گیا یا جن کی طرف اشارہ کیا گیا ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے: صحیح بخاری ۱/۱۳، ۲/۶۲۶ تا ۶۳۰ ابن ہشام ۲/۵۰۱ تا ۵۰۳، ۵۱۰ تا ۵۱۴، ۵۳۷ تا ۵۴۲، ۵۶۰ تا ۵۶۱ زاد المعاد ۳/۲۶ تا ۶۰، فتح الباری ۸/۸۳ تا ۱۰۳)
****