• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم وفود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وفود

اہل مغازی نے جن وفود کا تذکرہ کیا ہے ان کی تعداد ستر سے زیادہ ہے لیکن یہاں نہ تو ان کے اِستقصاء کی گنجائش ہے اور نہ ان کے تفصیلی بیان میں کوئی بڑا فائدہ ہی مضمر ہے۔ اس لیے ہم صرف انہی وفود کا ذکر کر رہے ہیں جو تاریخی حیثیت سے اہمیت و ندرت کے حامل ہیں۔ قارئین کرام کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگرچہ عام قبائل کے وفود فتح مکہ کے بعد خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہونا شروع ہوئے تھے۔ لیکن بعض بعض قبائل ایسے بھی تھے جن کے وفود فتح مکہ سے پہلے ہی مدینہ آ چکے تھے۔ یہاں ہم ان کا ذکر بھی کر رہے ہیں۔
۱۔ وفد عبد القیس:
اس قبیلے کا وفد دوبار خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوا تھا۔ پہلی بار ۵ھ میں یا اس سے بھی پہلے۔ اور دوسری بار عام الوفود ۹ھ میں۔ پہلی بار اس کی آمد کی وجہ یہ ہوئی کہ اس قبیلے کا ایک شخص منقذ بن حبان سامان تجارت کے کر مدینہ آیا جایا کرتا تھا۔ وہ جب نبی ﷺ کی ہجرت کے بعد پہلی بار مدینہ آیا اور اسے اسلام کا علم ہوا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اور نبی ﷺ کا ایک خط لے کر اپنی قوم کے پاس گیا۔ ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اور ان کے ۱۳ یا ۱۴ آدمیوں کا ایک وفد حرمت والے مہینے میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا۔ اسی دفعہ اس وفد نے نبی ﷺ سے ایمان اور مشروبات کے متعلق سوال کیا تھا۔ اس وفد کا سربراہ الاشج العصری تھا۔ جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: (۱) دور اندیشی اور (۲) بُردباری۔
دوسری بار اس قبیلے کا وفد جیسا کہ بتایا گیا وفود والے سال میں آیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد چالیس تھی اور ان میں علاء بن جارود عبدی تھا، جو نصرانی تھا، لیکن مسلمان ہو گیا اور اس کا اسلام بہت خوب رہا۔ (شرح صحیح مسلم للنووی۱/۳۳، فتح الباری ۸/۸۵، ۸۶)
۲۔ وفد دَوس:
یہ وفد ۷ھ کے اوائل میں مدینہ آیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ خیبر میں تھے۔ آپ پچھلے اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ اس قبیلے کے سربراہ حضرت طُفیل بن عَمرو دوسیؓ اس وقت بگوش اسلام ہوئے تھے ، جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے۔ پھر انہوں نے اپنی قوم میں واپس جا کر اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام مسلسل کیا لیکن ان کی قوم برابر ٹالتی اور تاخیر کرتی رہی۔ یہاں تک کہ حضرت طفیل ان کی طرف سے مایوس ہو گئے۔ پھر انہوں نے خدمتِ نبوی ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ قبیلہ دوس پر بددعا کر دیجیے۔ لیکن آپ نے فرمایا: اے اللہ! دوس کو ہدایت دے۔ اور آپ کی اس دعا کے بعد اس قبیلے کے لوگ مسلمان ہو گئے۔ اور حضرت طفیل نے اپنی قوم کے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ستر یا اسی گھرانوں کی جمعیت لے کر ۷ھ کے اوائل میں اس وقت مدینہ ہجرت کی جب نبی ﷺ خیبر میں تشریف فرما تھے۔ اس کے بعد حضرت طفیل نے آگے بڑھ کر خیبر میں آپ کا ساتھ پکڑ لیا۔
۳۔ فروہ بن عَمْرو جذامی کا پیغام رساں:
حضرت فَرْوَہ، رومی سپاہ کے اندر ایک عربی کمانڈر تھے۔ انہیں رُومیوں نے اپنے حدود سے متصل عرب علاقوں کا گورنر بنا رکھا تھا۔ ان کا مرکز معان (جنوبی اُردن) تھا اور عملداری گرد و پیش کے علاقے میں تھی۔ انہوں نے جنگ مُوتہ (۸ ھ) میں مسلمانوں کی معرکہ آرائی، شجاعت اور جنگی پختگی دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔ اور ایک قاصد بھیج کر رسول اللہ ﷺ کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی۔ تحفہ میں ایک سفید خچر بھی بھجوایا۔ رومیوں کو ان کے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے تو انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ پھر اختیار دیا کہ یا تو مرتد ہو جائیں یا موت کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے ارتداد پر موت کو ترجیح دی۔ چنانچہ انہیں فلسطین میں عفراء نامی ایک چشمے پر سولی دے کر ان کی گردن مار دی گئی۔ (زادالمعاد ۳/۴۵)
۴۔ وفد صَدَاء :
یہ وفد ۸ ھ میں جعِرّانہ سے رسول اللہ ﷺ کی واپسی کے بعد حاضرِ خدمت ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے چار سو مسلمانوں کی ایک مہم تیار کر کے اسے حکم دیا کہ یمن کا وہ گوشہ روند آویں جس میں قبیلہ صَدَاء رہتا ہے۔ یہ مہم ابھی وادیٔ قناۃ کے سرے پر خیمہ زن تھی کہ حضرت زیاد بن حارثؓ صدائی کو اس کا علم ہو گیا۔ وہ بھاگم بھاگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ میرے پیچھے جو لوگ ہیں میں ان کے نمائندہ کی حیثیت سے حاضر ہوا ہوں۔ لہٰذا آپ لشکر واپس بلا لیں۔ اور میں آپ کے لیے اپنی قوم کا ضامن ہوں۔ آپ نے وادیٔ قناۃ ہی سے لشکر واپس بلا لیا۔ اس کے بعد حضرت زیاد نے اپنی قوم میں واپس جا کر انہیں ترغیب دی کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ان کی ترغیب پر پندرہ آدمی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ اور قبول اسلام پر بیعت کی۔ پھر اپنی قوم میں واپس جا کر اسلام کی تبلیغ کی۔ اور ان میں اسلام پھیل گیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان کے ایک سو آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شرفِ باریابی حاصل کیا۔
۵۔ کعب بن زہیر بن ابی سلمیٰ کی آمد:
یہ شخص ایک شاعر خانوادے کا چشم و چراغ تھا اور خود بھی عرب کا عظیم ترین شاعر تھا۔ یہ کافر تھا، اور نبی ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ امام حاکم کے بقول یہ بھی ان مجرموں کی فہرست میں شامل تھا جن کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا گیا تھا کہ اگر وہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے پائے جائیں تو بھی ان کی گردن مار دی جائے۔ لیکن یہ شخص بچ نکلا۔ ادھر رسول اللہ ﷺ غزوہ طائف (۸ ھ) سے واپس ہوئے تو کعب کے پاس اس کے بھائی بجیر بن زہیر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
نے لکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے کئی ان افراد کو قتل کرا دیا ہے جو آپ ﷺ کی ہجو کرتے اور آپ ﷺ کو ایذائیں پہنچاتے تھے۔ قریش کے بچے کھچے شعراء میں سے جس کی جدھر سینگ سمائی ہے نکل بھاگا ہے۔ لہٰذا اگر تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو رسول اللہ ﷺ کے پاس اُڑ کر آ جاؤ، کیونکہ کوئی بھی شخص توبہ کرکے آپ کے پاس آ جائے تو آپ ﷺ اسے قتل نہیں کرتے۔ اور اگر یہ بات منظور نہیں تو پھر جہاں نجات مل سکے نکل بھاگو۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں میں مزید خط و کتابت ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں کعب بن زہیر کو زمین تنگ محسوس ہونے لگی۔ اور اسے اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئے۔ اس لیے آخرکار وہ مدینہ آ گیا اور جُہینہ کے ایک آدمی کے ہاں مہمان ہوا۔ پھر اسی کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوا تو جُہینی نے اشارہ کیا اور وہ اُٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جا بیٹھا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اسے پہچانتے نہ تھے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کعب بن زہیر توبہ کرکے مسلمان ہو گیا ہے۔ اور آپ سے امن کا خواستگار بن کر آیا ہے تو کیا اگر میں اسے آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں تو آپ ﷺ اس کی ان چیزوں کو قبول فرما لیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سن کر ایک انصاری صحابی اس پر جھپٹ پڑے اور اس کی گردن مارنے کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چھوڑ دو، یہ شخص تائب ہو کر اور پچھلی باتوں سے دستکش ہو کر آیا ہے۔
اس کے بعد اسی موقع پر کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ آپ ﷺ کو پڑھ کر سنایا۔ جس کی ابتدا یوں ہے:
بانت سعاد فقلبی الیوم متبول
متیم إثرہا، لم یفد ، مکبول
''سعاد دور ہو گئی تو میرا دل بے قرار ہے۔ اس کے پیچھے وارفتہ اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ا س کا فدیہ نہیں دیا گیا۔ ''
اس قصیدے میں کعب نے رسول اللہ ﷺ سے معذرت کرتے ہوئے اور آپ ﷺ کی مدح کرتے ہوئے آگے یوں کہا ہے:
نـبـئت أن رسـول اللہ أوعــدنــی والـعـفــو عـند رسول اللہ مأمول
مـہـلا ہداک الذی أعطاک نافلۃ الـ ـقـرآن فـیـہا مـواعیـظ وتفصیــل
لا تأخذن بأقوال الـــوشـاۃ ولــم أذنـب ولـو کـثـرت فـي الأقاویل
لـقــد أقـوم مقامـاً لـــو یقـوم بـہ أرای وأسمـع مـا لـو یسـمع الفیل
لـظـل یـرعـــد إلا أن یـکون لـــہ مـن الـرسول بـإذن اللہ تـنـویــل
حتی وضعت یمینی ما أنــازعـــہ فـی کـف ذی نـقـمات قیلہ القیـل
فـلہـو أخـوف عـنـدی إذ أکلمــہ وقیل: إنـک منســـوب ومسئــول
من ضیغم بضراء الأرض مخـدرۃ فـی بطــن عـثـر غیــل دونـہ غیل
إن الرســول لنـور یستضــاء بـــہ مـہنــد من سیـوف اللہ مسـلـول
''مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے دھمکی دی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسول سے درگزر کی توقع ہے۔ آپ ٹھہریں چغل خوروں کی بات نہ لیں - وہ ذات آپ کی رہنمائی کرے جس نے آپ کو نصائح اور تفصیل سے پُر قرآن کا تحفہ دیا ہے- اگرچہ میر ے بارے میں باتیں بہت کہی گئی ہیں، لیکن میں نے جُرم نہیں کیا ہے۔ میں ایسی جگہ کھڑا ہوں اور وہ باتیں دیکھ اور سن رہا ہوں کہ اگر ہاتھی بھی وہاں کھڑا ہو اور ان باتوں کو سنے اور دیکھے تو تھراتا رہ جائے۔ سوائے اس صورت کے کہ اس پر اللہ کے اذن سے رسول کی نوازش ہو۔ حتی کہ میں نے اپنا ہاتھ کسی نزاع کے بغیر اس ہستی ٔمحترم کے ہاتھ میں رکھ دیا جسے انتقام پر پوری قدرت ہے، اور جس کی بات بات ہے۔ جب میں اس سے بات کرتا ہوں - درانحالیکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہاری طرف (فلاں فلاں باتیں) منسوب ہیں۔ اور تم سے باز پرس کی جائے گی - تو وہ میرے نزدیک اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جس کا کچھار کسی ہلاکت خیز وادی کے بطن میں واقع کسی ایسی سخت زمین میں ہو جس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو۔ یقینا رسول ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک سونتی ہوئی ہندی تلوار ہیں۔''
اس کے بعد کعب بن زہیر نے مہاجرین قریش کی تعریف کی۔ کیونکہ کعب کی آمد پر ان کے کسی آدمی نے خیر کے سوا کوئی بات اور حرکت نہیں کی تھی۔ لیکن ان کی مدح کے دوران انصار پر طنز کی، کیونکہ ان کے ایک آدمی نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی تھی۔ چنانچہ کہا :
یمشون مشی الجمال الزہر یعصمہم
ضـــرب إذا عـرد السود التنابیل
''وہ (قریش) خوبصورت، مٹکے اونٹ کی چال چلتے ہیں۔ اور شمشیر زنی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ ناٹے کھوٹے، کالے کلوٹے لوگ راستہ چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔ ''
لیکن جب وہ مسلمان ہو گیا۔ اور اس کے اسلام میں عمدگی آ گئی تو اس نے ایک قصیدہ انصار کی مدح میں کہا اور ان کی شان میں اس سے جو غلطی ہو گئی تھی اس کی تلافی کی۔ چنانچہ اس قصیدے میں کہا:
من سرہ کــرم الحیاۃ فلا یـزل في مـقـنب من صالحی الأنصار
ورثـوا المکارم کابراً عن کابر إن الخیــار ہــم بنو الأخیــــار
''جسے کریمانہ زندگی پسند ہو وہ ہمیشہ صالح انصار کے کسی دستے میں رہے۔ انہوں نے خوبیاں باپ دادا سے ورثہ میں پائی ہے۔ درحقیقت اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھوں کی اولاد ہوں۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۶۔ وفد عذرہ:
یہ وفد صفر ۹ھ میں مدینہ آیا۔ بارہ آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس میں حمزہ بن نعمان بھی تھے۔ جب وفد سے پوچھا گیا کہ آپ کون لوگ ہیں؟ تو ان کے نمائندے نے کہا: ہم بنو عذرہ ہیں۔ قُصّیِ کے اَخْیافی بھائی۔ ہم نے ہی قصی کی تائید کی تھی۔ اور خزاعہ اور بنو بکر کو مکہ سے نکالا تھا۔ (یہاں) ہمارے رشتے اور قرابت داریاں ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے خوش آمدید کہا۔ اور ملک شام کے فتح کیے جانے کی بشارت دی۔ نیز انہیں کاہنہ عورتوں سے سوال کرنے سے منع کیا۔ اور ان ذبیحوں سے روکا جنہیں یہ لوگ (حالت شرک میں) ذبح کیا کرتے تھے۔ اس وفد نے اسلام قبول کیا اور چند روز ٹھہر کر واپس گیا۔
۷۔ وفد بلی:
یہ ربیع الاول ۹ھ میں آیا۔ اور حلقۂ بگوش اسلام ہو کر تین روز مقیم رہا۔ دوران قیام وفد کے رئیس ابو الضبیب نے دریافت کیا کہ کیا ضیافت میں بھی اجر ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں! کسی مالدار یا فقیر کے ساتھ جو بھی اچھا سلوک کرو گے وہ صدقہ ہے۔ اس نے پوچھا: مدت ضیافت کتنی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تین دن۔ اس نے پوچھا: کسی لاپتہ شخص کی گمشدہ بھیڑ مل جائے تو کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ تمہارے لیے ہے۔ یا تمہارے بھائی کے لیے ہے۔ یا پھر بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس کے بعد اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں اس سے کیا واسطہ؟ اسے چھوڑ دو، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۸۔ وفد ثقیف:
یہ وفد رمضان ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہ ﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ہوا۔ اس قبیلے میں اسلام پھیلنے کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ ذی قعدہ ۸ھ میں جب غزوہ طائف سے واپس ہوئے تو آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس قبیلے کے سردار عُروہ بن مسعود نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ پھر اپنے قبیلہ میں واپس جا کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ چونکہ اپنی قوم کا سردار تھا، اور صرف یہی نہیں کہ اس کی بات مانی جاتی تھی، بلکہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنی لڑکیوں اور عورتوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے تھے، اس لیے اس کا خیال تھا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جب اس نے اسلام کی دعوت دی تو اس توقع کے بالکل برخلاف لوگوں نے اس پر ہر طرف سے تیروں کی بوچھاڑ کر دی اور اسے جان سے ماڑ ڈالا۔ پھر اسے قتل کرنے کے بعد چند مہینے تو یوں ہی مقیم رہے۔ لیکن اس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ گرد و پیش کا علاقہ جو مسلمان ہو چکا ہے، اس سے ہم مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہوں نے باہم مشورہ کر کے طے کیا کہ ایک آدمی کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجیں۔ اور اس کے لیے عَبْدِ یالَیْل بن عَمرو سے بات چیت کی، مگر وہ آمادہ نہ ہوا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو عروہ بن مسعود کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔ اس لیے اس نے کہا: میں یہ کام اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک میرے ساتھ مزید کچھ آدمی نہ بھیجو۔ لوگوں نے اس کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ حلیفوں میں سے دو آدمی اور بنی مالک میں سے تین آدمی لگا دیے۔ اس طرح کل چھ آدمیوں کا وفد تیار ہو گیا۔ اسی وفد میں حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی بھی تھے جو سب سے زیادہ کم عمر تھے۔
جب یہ لوگ خدمت نبوی ﷺ میں پہنچے تو آپ نے ان کے لیے مسجد کے ایک گوشے میں ایک قُبہّ لگوایا تاکہ یہ قرآن سن سکیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے جاتے رہے اور آپ ﷺ انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ آخر ان کے سردار نے سوال کیا کہ آپ اپنے اور ثقیف کے درمیان ایک معاہدہ صلح لکھ دیں جس میں زنا کاری، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت ہو۔ ان کے معبود ''لات '' کو برقرار رہنے دیا جائے۔ انہیں نماز سے معاف رکھا جائے اور ان کے بُت خود ان کے ہاتھوں سے نہ تڑوائے جائیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے کوئی بھی بات منظور نہ کی۔ لہٰذا انہوں نے تنہائی میں مشورہ کیا مگر انہیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سپر ڈالنے کے سوا کوئی تدبیر نظر نہ آئی۔ آخر انہوں نے یہی کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ ''لات'' کو ڈھانے کا انتظام رسول اللہ ﷺ خود فرما دیں۔ ثقیف اسے اپنے ہاتھوں سے ہرگز نہ ڈھائیں گے۔ آپ ﷺ نے یہ شرط منظور کر لی اور ایک نوشتہ لکھ دیا۔ اور عثمان بن ابی العاص ثقفی کو ان کا امیر بنا دیا کیونکہ وہی اسلام کو سمجھنے اور دین و قرآن کی تعلیم حاصل کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش اور حریص تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وفد کے ارکان ہر روز صبح خدمتِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوتے تھے، لیکن عثمانؓ بن ابی العاص کو اپنے ڈیرے پر چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے جب وفد واپس آ کر دوپہر میں قیلولہ کرتا تو حضرت عثمانؓ بن ابی العاص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن پڑھتے اور دین کی باتیں دریافت کرتے اور جب آپ ﷺ کو استراحت فرماتے ہوئے پاتے تو اسی مقصد کے لیے حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں چلے جاتے۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی گورنری بابرکت ثابت ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب خلافت صدیقی میں ارتداد کی لہر چلی اور ثقیف نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے مخاطب کر کے کہا: ''ثقیف کے لوگو! تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے مرتد نہ ہونا۔'' یہ سن کر لوگ ارتداد سے رک گئے اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔
بہرحال وفد نے اپنی قوم میں واپس آ کر اصل حقیقت کو چھپائے رکھا اور قوم کے سامنے لڑائی اور مار دھاڑ کا ہوّا کھڑا کیا اور حزن و غم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام قبول کر لیں اور زنا، شراب اور سُود چھوڑ دیں۔ ورنہ سخت لڑائی کی جائے گی۔ یہ سن کرپہلے تو ثقیف پر نخوتِ جاہلیہ غالب آئی اور وہ دو تین روز تک لڑائی ہی کی بات سوچتے رہے، لیکن پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے وفد سے گزارش کی کہ وہ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس جائے اور آپ ﷺ کے مطالبات تسلیم کر لے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وفد نے اصل حقیقت ظاہر کی اور جن باتوں پر مصالحت ہو چکی تھی ان کا اظہار کیا۔ ثقیف نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔
ادھر رسول اللہ ﷺ نے لات کو ڈھانے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں چند صحابہؓ کی ایک ذرا سی نفری روانہ فرمائی۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نے کھڑے ہو کر گرز اُٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: واللہ! میں ذرا آپ لوگوں کو ثقیف پر ہنساؤں گا۔ اس کے بعد لات پر گرز مار کر خود ہی گر پڑے اور ایڑیاں پٹکنے لگے۔ یہ بناوٹی منظر دیکھ کر اہلِ طائف پر ہول طاری ہو گیا۔ کہنے لگے: اللہ مغیرہ کو ہلاک کرے، اسے دیوی نے مار ڈالا۔ اتنے میں حضرت مغیرہؓ اچھل کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا : اللہ تمہارا بُرا کرے۔ یہ تو پتھر اور مٹی کا تماشا ہے۔ پھر انہوں نے دروازے پر ضرب لگائی اور اسے توڑ دیا۔ اس کے بعد سب سے اونچی دیوار پر چڑھے اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی چڑھے۔ پھر اسے ڈھاتے ڈھاتے زمین کے برابر کر دیا حتیٰ کہ اس کی بنیاد بھی کھود ڈالی اور اس کا زیور اور لباس نکال لیا۔ یہ دیکھ کر ثقیف دم بخورد رہ گئے۔ حضرت خالدؓ زیور اور لباس لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ واپس ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سب کچھ اسی دن تقسیم فرما دیا اور نبی کی نصرت اور دین کے اعزاز پر اللہ کی حمد کی۔ (زاد المعاد ۳/۲۶، ۲۷، ۲۸، ابن ہشام ۲/۵۳۷ تا ۵۴۲)
۹۔ شاہانِ یمن کا خط:
تبوک سے نبی ﷺ کی واپسی کے بعد شاہانِ حِمیر یعنی حارث بن عبد کلال، نعیم بن عبد کلال اور رعین، ہمدان اور معافر کے سربراہ نعمان بن قیل کا خط آیا۔ ام کا نامہ بر مالک بن مُرّہ رہادی تھا۔ ان بادشاہوں نے اپنے اسلام لانے اور شرک و اہلِ شرک سے علیحدگی اختیار کرنے کی اطلاع دے کر اسے بھیجا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس ایک جوابی خط لکھ کر واضح فرمایا کہ اہل ایمان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ آپ نے اس خط میں معاہدین کے لیے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بھی دیا تھا، بشرطیکہ وہ مقررہ جزیہ ادا کریں۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ نے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ فرمایا اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔
۱۰۔ وفد ہمدان :
یہ وفد ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہ ﷺ کی واپسی کے بعد حاضر ِ خدمت ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ کر، جو کچھ انہوں نے مانگا تھا عطا فرما دیا اور مالک بن نمطؓ کو ان کا امیر مقرر کیا، ان کی قوم کے جو لوگ مسلمان ہو چکے تھے ان کا گورنر بنایا اور باقی لوگوں کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھیج دیا۔ وہ چھ مہینے مقیم رہ کر دعوت دیتے رہے لیکن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر آپ ﷺ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو بھیجا اور حکم دیا کہ وہ خالدؓ کو واپس بھیج دیں۔ حضرت علیؓ نے قبیلہ ہمدان کے پاس جا کر رسول اللہ ﷺ کا خط سنایا اور اسلام کی دعوت دی تو سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کی بشارت بھیجی۔ آپ نے خط پڑھا تو سجدے میں گر گئے۔ پھر سر اٹھا کر فرمایا؛ ہمدان پر سلام، ہمدان پر سلام۔
۱۱۔ وفد بنی فَزَارہ:
یہ وفد ۹ھ میں تبوک سے نبی ﷺ کی واپسی کے بعد آیا۔ اس میں دس سے کچھ زیادہ افراد تھے۔ اور سب کے سب اسلام لا چکے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے علاقے کی قحط سالی کی شکایت کی، رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لے گئے۔ اور دونو ں ہاتھ اٹھا کر بارش کی دعاکی۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ! اپنے ملک اور اپنے چوپایوں کو سیراب کر، اپنی رحمت پھیلا، اپنے مردہ شہر کو زندہ کر۔ اے اللہ! ہم پر ایسی بارش برسا جو ہماری فریاد رسی کر دے، راحت پہنچا دے، خوشگوار ہو، پھیلی ہوئی ہمہ گیر ہو، جلد آئے، دیر نہ کرے، نفع بخش ہو، نقصان رساں نہ ہو، اے اللہ! رحمت کی بارش، عذاب کی بارش نہیں۔ اور نہ ڈھانے والی، نہ غرق کرنے والی اور نہ مٹانے والی بارش۔ اے اللہ! ہمیں بارش سے سیراب کر، اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔ (زاد المعاد ۳/۴۸)
۱۲۔ وفد نجران:
(ن کو زبر، ج ساکن۔ مکہ سے یمن کی جانب سات مرحلے پر ایک بڑا علاقہ تھا جو ۷۳ بستیوں پر مشتمل تھا۔ تیز رفتار سوار ایک دن میں پورا علاقہ طے کر سکتا تھا۔ (فتح الباری ۸/۹۴) اس علاقہ میں ایک لاکھ مردان جنگی تھے، جو سب کے سب عیسائی مذہب کے پیروکار تھے)
نجران کا وفد ۹ھ میں آیا۔ یہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ ۲۴ آدمی اشراف سے تھے۔ جن میں سے تین آدمیوں کو اہل نجران کی سربراہی و سرکردگی حاصل تھی۔ ایک عاقب جس کے ذمہ امارت و حکومت کا کام تھا۔ اور اس کا نام عبد المسیح تھا۔ دوسرا سید جو ثقافی اور سیاسی امور کا نگراں تھا۔ اور اس کا نام ایہم یا شرحبیل تھا۔ تیسرا اسقف (لاٹ پادری) جو دینی سربراہ اور روحانی پیشوا تھا۔ اس کا نام ابو حارثہ بن علقمہ تھا۔
وفد نے مدینہ پہنچ کر نبی ﷺ سے ملاقات کی، پھر آپ نے ان کچھ سوالات کیے ، اور انہوں نے آپ سے کچھ سوالات کیے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ اور قرآن حکیم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ اور دریافت کیا کہ آپ مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے اس روز دن بھر توقف کیا۔ یہاں تک کہ آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩﴾ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٦٠﴾ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (۳: ۵۹، ۶۰، ۶۱ )
''بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا ہوجا تو وہ ہو گیا۔ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ پھر تمہارے پاس علم آجانے کے بعد کوئی تم سے اس (عیسیٰ) کے بارے میں حجت کرے تو اس سے کہہ دو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے اپنے بیٹوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خود اپنے آپ کو پھر مباہلہ کریں (اللہ سے گِڑ گڑا کر دعا کریں) پس اللہ کی لعنت ٹھہرائیں جھوٹوں پر۔''
صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے انہی آیات کریمہ کی روشنی میں انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اپنے قول سے آگاہ کیا۔ اور اس کے بعد دن بھر انہیں غور وفکر کے لیے آزاد چھوڑ دیا لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ پھر اگلی صبح ہوئی - درآنحالیکہ وفد کے ارکان حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات تسلیم کرنے اور اسلام لانے سے انکار کر چکے تھے -- تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں مباہلے کی دعوت دی۔ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سمیت ایک چادر میں لپٹے ہوئے تشریف لائے۔ پیچھے پیچھے حضرت فاطمہ چل رہی تھیں۔ جب وفد نے دیکھا کہ آپ واقعی بالکل تیار ہیں تو تنہائی میں جا کر مشورہ کیا۔ عاقب اور سید دونوں نے ایک دوسرے سے کہا: دیکھو مباہلہ نہ کرنا۔ اللہ کی قسم! اگر یہ نبی ہے، اور ہم نے اس سے ملاعنت کر لی تو ہم اور ہمارے پیچھے ہماری اولاد ہرگز کامیاب نہ ہو گی۔ روئے زمین پر ہمارا ایک بال اور ناخن بھی تباہی سے نہ بچ سکے گا۔ آخر کی رائے یہ ٹھہری کہ رسول اللہ ﷺ ہی کو اپنے بارے میں حکم بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا جو مطالبہ ہو ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس پیش کش پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے جزیہ لینا منظور کیا۔ اور دو ہزار جوڑے کپڑوں پر مصالحت فرمائی۔ ایک ہزار ماہ رجب میں اور ایک ہزار ماہ صفر میں۔ اور طے کیا کہ ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ ( لایک سو باون گرام چاندی) بھی ادا کرنی ہو گی۔ اس کے عوض آپ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ عطا فرمایا۔ اور دین کے بارے میں مکمل آزادی مرحمت فرمائی۔ اس سلسلے میں آپ نے انہیں ایک باقاعدہ نوشتہ لکھ دیا۔ ان لوگوں نے آپ سے گزارش کی، آپ ان کے ہاں ایک امین (امانت دار) آدمی روانہ فرمائیں۔ اس پر آپ نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے اس امت کے امین حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو روانہ فرمایا۔
اس کے بعد ان کے اندر اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ سید اور عاقب پلٹنے کے بعد مسلمان ہو گئے۔ پھر نبی ﷺ نے ان سے صدقات اور جزیے لانے کے لیے حضرت علیؓ کو روانہ فرمایا اور معلوم ہے کہ صدقہ مسلمانوں ہی سے لیا جاتا ہے۔ (فتح الباری ۸/ ۹۴،۹۵ زادا لمعاد ۳/۳۸ تا ۴۱۔ وفد نجران کی تفصیلات میں روایات کے اندر خاصا اضطراب ہے اور اسی وجہ سے بعض محققین کا رجحان ہے کہ نجران کا وفد دوبار مدینے آیا۔ لیکن ہمارے نزدیک وہی بات راجح ہے جسے ہم نے اُوپر مختصراً بیان کیا ہے)
۱۳۔ وفد بنی حنیفہ:
یہ وفد ۹ھ میں مدینہ آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب سمیت سترہ آدمی تھے۔ (فتح الباری ۸/ ۸۷) مسیلمہ کا سلسلہ نسب یہ ہے، مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب بن حارث - یہ وفد ایک انصاری صحابی کے مکان پر اترا۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہو کر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ البتہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اکڑ، تکبر اور امارت کی ہوس کا اظہار کیا۔ اور وفد کے باقی ارکان کے ساتھ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ نبی ﷺ نے پہلے تو قولاً اور فعلاً اچھے اور شریفانہ برتاؤ کے ذریعے اس کی دلجوئی کرنی چاہی، لیکن جب دیکھا کہ اس شخص پر اس برتاؤ کا کوئی مفید اثر نہیں پڑا تو آپ ﷺ نے اپنی فراست سے تاڑ لیا کہ اس کے اندر شر ہے۔
اس سے قبل نبی ﷺ یہ خواب دیکھ چکے تھے کہ آپ ﷺ کے پاس روئے زمین کے خزانے لا کر رکھ دیے گئے ہیں۔ اور اس میں سے سونے کے دو کنگن آپ کے ہاتھ میں آ پڑے ہیں۔ آپ کو یہ دونوں بہت گراں اور رنج دہ محسوس ہوئے۔ چنانچہ آپ ﷺ کو وحی کی گئی کہ ان دونوں کو پھونک دیجیے۔ آپ ﷺ نے پھونک دیا تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر آپ ﷺ نے فرمائی کہ آپ ﷺ کے بعد دو کذاب (پر لے درجے کے جھوٹے) نکلیں گے۔ چنانچہ جب مسیلمہ کذاب نے اکڑ اور انکار کا اظہار کیا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد نے کاروبارِ حکومت کو اپنے بعد میرے حوالے کرنا طے کیا، تو میں ان کی پیروی کروں گا ۔ تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی، اور آپ ﷺ کے ہمراہ آپ کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ تھے۔ مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے درمیان موجود تھا۔ آپ اس کے سر پر جا کر کھڑے ہوئے اور گفتگو فرمائی۔ اس نے کہا: اگر آپ چاہیں تو ہم حکومت کے معاملے میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اپنے بعد اس کو ہمارے لیے طے فرما دیں۔ آپ ﷺ نے (کھجور کی شاخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: اگر تم مجھ سے یہ ٹکڑا چاہو گے تو تمہیں یہ بھی نہ دوں گا۔ اور تم اپنے بارے میں اللہ کے مقرر کیے ہوئے فیصلے سے آگے نہیں جا سکتے۔ اور اگر تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تمہیں توڑ کر رکھ دے گا۔ اللہ کی قسم! میں تجھے وہی شخص سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے وہ (خواب) دکھلایا گیا ہے جو دکھلایا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
گیا ہے۔ اور یہ ثابت بن قیس ہیں جو تمہیں میری طرف سے جواب دیں گے۔ اس کے بعد آپ واپس چلے آئے۔ (صحیح بخاری باب وفد بنی حنیفہ اور باب قصۃ الاسود العنسی ۲/۶۲۷، ۶۲۸ اور فتح الباری ۸/۸۷ تا ۹۳)
بالآخر وہی ہوا جس کا اندازہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی فراست سے کر لیا تھا، یعنی مسیلمہ کذاب یمامہ واپس جا کر پہلے تو اپنے بارے میں غور کرتا رہا۔ پھر دعویٰ کیا کہ اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کارِ نبوت میں شریک کر لیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور سجع گھڑنے لگا۔ اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب حلال کر دی۔ اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ شہادت بھی دیتا رہا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس شخص کی وجہ سے اس کی قوم فتنے میں پڑ کر اس کی پیروکار و ہم آواز بن گئی۔ نتیجتاً اس کا معاملہ نہایت سنگین ہو گیا۔ اس کی اتنی قدر و منزلت ہوئی کہ اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ اور اب اس نے رسول اللہ ﷺ کو ایک خط لکھا کہ مجھے اس کام میں آپ کے ساتھ شریک کر دیا گیا ہے۔ آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب میں لکھا کہ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور انجام متقیوں کے لیے ہے۔ (زاد المعاد ۳/۱۳، ۳۲)
ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ابن نواحہ اور ابن اثال مسیلمہ کے قاصد بن کر نبی ﷺ کے پاس آئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم دونوں شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ انہوں نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر میں کسی قاصد کو قتل کرتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ (مسند احمد مشکوٰۃ ۲/۳۴۷)
مسیلمہ کذاب نے ۱۰ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اور ربیع الاول ۱۲ھ میں بہ عہد خلافتِ صدیقی یمامہ کے اندر قتل کیا گیا۔ اس کا قاتل وحشی تھا، جس نے حضرت حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔
ایک مدعی نبوت تو یہ تھا۔ جس کا انجام یہ ہوا۔ ایک دوسرا مدعی نبوت اَسْوَد عنسی تھا۔ جس نے یمن میں فساد برپا کر رکھا تھا۔ اسے نبی ﷺ کی وفات سے صرف ایک دن اور ایک رات پہلے حضرت فیروزؓ نے قتل کیا۔ پھر آپ ﷺ کے پاس اس کے متعلق وحی آئی، اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس واقعہ سے باخبر کیا۔ اس کے بعد یمن سے حضرت ابو بکرؓ کے پاس باقاعدہ خبر آئی۔ (فتح الباری ۸/۹۳)
۱۴۔ وفد بنی عامر بن صعصعہ:
اس وفد میں اللہ کا دشمن عامر بن طفیل، حضرت لبید کا اخیافی بھائی اربد بن قیس، خالد بن جعفر اور جبار بن اسلم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
شامل تھے۔ یہ سب اپنی قوم کے سربرآوردہ اور شیطان تھے۔ عامر بن طفیل وہی شخص ہے جس نے بئر معونہ پر ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کرایا تھا۔ ان لوگو ں نے جب مدینہ آنے کا ارادہ کیا تو عامر اور اربد نے باہم سازش کی کہ نبی ﷺ کو دھوکا دے کر اچانک قتل کر دیں گے۔ چنانچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے نبی ﷺ سے گفتگو شروع کی اور اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچا، اور ایک بالشت تلوار میان سے باہر نکالی، لیکن اس کے بعد اللہ نے اس کا ہاتھ روک لیا۔ اور وہ تلوار بے نیام نہ کر سکا۔ اور اللہ نے اپنے نبی کو محفوظ رکھا۔ نبی ﷺ نے ان دونوں پر بد دعا کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واپسی پر اللہ نے اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گرا دی۔ جس سے اربد جل مرا۔ اور ادھر عامر ایک سلولیہ عورت کے ہاں اترا، اور اسی دوران اس کی گردن میں گلٹی نکل آئی۔ اس کے بعد وہ یہ کہتا ہوا مر گیا کہ آہ! اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی، اور ایک سلولیہ عورت کے گھر میں موت؟
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ عامر نے نبی ﷺ کے پاس آ کر کہا: میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں: (۱) آپ کے لیے وادی کے باشندے ہوں اور میرے لیے آبادی کے (۲) یا میں آپ کے بعد آپ کا خلیفہ ہوں گا (۳) ورنہ میں غطفان کو ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار گھوڑیوں سمیت آپ پر چڑھا لاؤں گا۔ اس کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہو گیا (جس پر اس نے فرطِ غم سے) کہا: کیا اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی؟ اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں؟ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ، پھر وہ سوار ہوا، اور اپنے گھوڑے ہی پر مر گیا۔
۱۵۔ وفد تجیب:
یہ وفد اپنی قوم کے صدقات کو، جو فقراء سے فاضل بچ گئے تھے، لے کر مدینہ آیا۔ وفد میں تیرہ آدمی تھے۔ جو قرآن و سنن پوچھتے اور سیکھتے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ باتیں دریافت کیں تو آپ نے وہ باتیں انہیں لکھ دیں۔ وہ زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں تحائف سے نوازا تو انہوں نے اپنے ایک نوجوان کو بھی بھیجا۔ جو ڈیرے پر پیچھے رہ گیا تھا۔ نوجوان نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: حضور! اللہ کی قسم! مجھے میرے علاقے سے اس کے سوا کوئی چیز نہیں لائی ہے کہ آپ اللہ عزوجل سے میرے لیے یہ دعا فرما دیں کہ وہ مجھے اپنی بخشش و رحمت سے نوازے اور میری مالداری میرے دل میں رکھ دے۔ آپ نے اس کے لیے یہ دعا فرمائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص سب سے زیادہ قناعت پسند ہو گیا۔ اور جب ارتداد کی لہر چلی تو صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہا بلکہ اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کی تو وہ بھی اسلام پر ثابت قدم رہی پھر اہل وفد نے حجۃ الوداع ۱۰ھ میں نبی ﷺ سے دوبارہ ملاقات کی۔
۱۶۔ وفد طَی:
اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبی ﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔
-----------​
اس طرح ۹ھ اور ۱۰ھ میں پے در پے وفود آئے۔ اہلِ سیر نے یمن، اَزْد، قَضَاعہ کے بنی سعد ہذیْم، بنی عامر بن قیس، بنی اسد، بہرا، خولان، محارب، بنی حارث بن کعب، غامد، بنی منتفق، سلامان، بنی عبس، مزینہ، مراد، زبید،کندہ، ذی مرہ، غسان، بنی عیش اور نخع کے وفود کا تذکرہ کیا ہے۔ نخع کا وفد آخری وفد تھا محرم ۱۱ھ کے وسط میں آیا تھا اور دو سو آدمیوں پر مشتمل تھا۔ باقی بیشتر وفود کی آمد ۹ھ اور ۱۰ھ میں ہوئی تھی۔ صرف بعض وفود ۱۱ھ تک متاخر ہوئے تھے۔
ان وفود کے پے بہ پے آمد سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت اسلامی دعوت کو کس قدر فروغ اور قبولِ عام حاصل ہو چکا تھا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ عرب مدینہ کو کتنی قدر اور تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے حتیٰ کہ اس کے سامنے سپر انداز ہونے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں سمجھتے تھے۔ درحقیقت مدینہ جزیرۃ العرب کا دار الحکومت بن چکا تھا۔ اور کسی کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہ تھا۔ البتہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان سب لوگوں کے دلوں میں دین اسلام اثر کر چکا تھا۔ کیونکہ ان میں ابھی بہت سے ایسے اکھڑ بدو تھے جو محض اپنے سرداروں کی متابعت میں مسلمان ہو گئے تھے ورنہ ان میں قتل و غارت گری کا جو رجحان جڑ پکڑ چکا تھا اس سے وہ پاک صاف نہیں ہوئے تھے۔ اور ابھی اسلامی تعلیمات نے انہیں پورے طور پر مہذب نہیں بنایا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم، سورۂ توبہ میں ان کے بعض افراد کے اوصاف یوں بیان کیے گئے ہیں: الْأَعْرَ‌ابُ أَشَدُّ كُفْرً‌ا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ‌ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَ‌سُولِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٩٧﴾ وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَ‌مًا وَيَتَرَ‌بَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ‌ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَ‌ةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٩٨﴾ (۹: ۹۷، ۹۸)
''اعراب (بدّو) کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں۔ اور اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے اس کے حدود کو نہ جانیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور بعض اعراب جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں۔ اور تم پر گردشوں کا انتظار کرتے ہیں۔ انہی پر بُری گردش ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔''
جبکہ کچھ دوسرے افراد کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے:
وَمِنَ الْأَعْرَ‌ابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُ‌بَاتٍ عِندَ اللَّـهِ وَصَلَوَاتِ الرَّ‌سُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْ‌بَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (۹: ۹۹)
''اور بعض اعراب اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کی قربت اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ان کے لیے قربت کا ذریعہ ہے۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بیشک اللہ غفور رحیم ہے۔ ''
جہاں تک مکہ، مدینہ، ثقیف، یمن اور بحرین کے بہت سے شہری باشندوں کا تعلق ہے، تو ان کے اندر اسلام پختہ تھا۔ اور انہی میں سے کبار صحابہ اور سادات مسلمین ہوئے۔ (یہ بات خضری نے محاضرات ۱/۱۴۴ میں کہی ہے۔ اور جن وفود کا ذکر کیا گیا یا جن کی طرف اشارہ کیا گیا ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے: صحیح بخاری ۱/۱۳، ۲/۶۲۶ تا ۶۳۰ ابن ہشام ۲/۵۰۱ تا ۵۰۳، ۵۱۰ تا ۵۱۴، ۵۳۷ تا ۵۴۲، ۵۶۰ تا ۵۶۱ زاد المعاد ۳/۲۶ تا ۶۰، فتح الباری ۸/۸۳ تا ۱۰۳)
****​
 
شمولیت
جون 13، 2015
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
40
۱۶۔ وفد طَی ٔ:
اس وفد کے ساتھ عرب کے مشہور شہسوار زید الخیل بھی تھے۔ ان لوگوں نے جب نبیﷺ سے گفتگو کی اور آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور بہت اچھے مسلمان ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت زید کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ سے عرب کے جس کسی آدمی کی خوبی بیان کی گئی اور پھر وہ میرے پاس آیا تو میں نے اسے اس کی شہرت سے کچھ کمتر ہی پایا، مگر اس کے برعکس زید الخیل کی شہرت ان کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکی۔ اور آپ نے ان کا نام زید الخیر رکھ دیا۔
شیخ نعیم حفظہ اللہ
کیا وفد طئ میں اس طرح سے کوئی واقعہ پیش آیا تھا کہ ان میں سے کسی عورت کا بچہ گم ہو گیا تھا اور وہ اس کو تلاش کر رہی تھی تو بد ہواسی کی صورت میں اسکا ڈوپٹہ سر سے گر گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چادر ایک صحابی کو دیکر بھیجا تو وہ صحابی کہنے لگے اے اللہ کے رسول کیا آپ اسکو چادر دے رہے ہیں جب کہ وہ اسلام نہیں قبول کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا ہوا وہ انسان تو ہے
کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ ؟؟؟؟؟؟
 
Top