عشرہ ذوالحجہ كي فضيلت
يسأل عن فضل العشر من ذي الحجة
هل للأيام العشر الأوائل من شهر ذي الحجة فضل على غيرها من سائر الأيام ؟ وما هي الأعمال الصالحة التي يستحب الإكثار منها في هذه العشر ؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد لله
من مواسم الطّاعة العظيمة العشر الأول من ذي الحجة ، التي فضّلها الله تعالى على سائر أيام العام ؛ فعن ابن عباس رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله منه في هذه الأيام العشر . قالوا ولا الجهاد في سبيل الله !! قال : ولا الجهاد في سبيل الله ، إلا رجل خرج بنفسه وماله ولم يرجع من ذلك بشيء ) أخرجه البخاري 2/457 .
وعنه أيضا ،ً رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ما من عمل أزكى عند الله عز وجل ، ولا أعظم أجراً من خير يعمله في عشر الأضحى . قيل : ولا الجهاد في سبيل الله ؟ قال : ولا الجهاد في سبيل الله عز وجل ، إلا رجل خرج بنفسه وماله ، فلم يرجع من ذلك بشيء ) رواه الدارمي 1/357 وإسناده حسن كما في الإرواء 3/398 .
فهذه النصوص وغيرها تدلّ على أنّ هذه العشر أفضل من سائر أيام السنة من غير استثناء شيء منها ، حتى العشر الأواخر من رمضان . ولكنّ ليالي العشر الأواخر من رمضان أفضل من ليالي عشر ذي الحجة ، لاشتمالها على ليلة القدر ، التي هي خير من ألف شهر . انظر تفسير ابن كثير 5/412
فينبغي على المسلم أن يستفتح هذه العشر بتوبة نصوح إلى الله ، عز وجل ، ثم يستكثر من الأعمال الصالحة ، عموما ، ثم تتأكد عنايته بالأعمال التالية :
1- الصيام
فيسن للمسلم أن يصوم تسع ذي الحجة . لأن النبي صلى الله عليه وسلم حث على العمل الصالح في أيام العشر ، والصيام من أفضل الأعمال . وقد اصطفاه الله تعالى لنفسه كما في الحديث القدسي : " قال الله : كل عمل بني آدم له إلا الصيام فإنه لي وأنا أجزي به " أخرجه البخاري 1805
وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة . فعن هنيدة بن خالد عن امرأته عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قالت : كان النبي صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة ويوم عاشوراء وثلاثة أيام من كل شهر . أول اثنين من الشهر وخميسين " أخرجه النسائي 4/205 وأبو داود وصححه الألباني في صحيح أبي داود 2/462 .
2- الإكثار من التحميد والتهليل والتكبير :
فيسن التكبير والتحميد والتهليل والتسبيح أيام العشر . والجهر بذلك في المساجد والمنازل والطرقات وكل موضع يجوز فيه ذكر الله إظهاراً للعبادة ، وإعلاناً بتعظيم الله تعالى .
ويجهر به الرجال وتخفيه المرأة
قال الله تعالى : ( ليشهدوا منافع لهم ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام ) الحج/28 . والجمهور على أن الأيام المعلومات هي أيام العشر لما ورد عن ابن عباس رضي الله عنهما : ( الأيام المعلومات : أيام العشر )
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد ) أخرجه احمد 7/224 وصحّح إسناده أحمد شاكر .
وصفة التكبير : الله أكبر ، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر ولله الحمد ، وهناك صفات أخرى .
والتكبير في هذا الزمان صار من السنن المهجورة ولاسيما في أول العشر فلا تكاد تسمعه إلا من القليل ، فينبغي الجهر به إحياء للسنة وتذكيراً للغافلين ، وقد ثبت أن ابن عمر وأبا هريرة رضي الله عنهما كانا يخرجان إلى السوق أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما ، والمراد أن الناس يتذكرون التكبير فيكبر كل واحد بمفرده وليس المراد التكبير الجماعي بصوت واحد فإن هذا غير مشروع .
إن إحياء ما اندثر من السنن أو كاد فيه ثواب عظيم دل عليه قوله صلى الله عليه وسلم : ( من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئاً ) أخرجه الترمذي 7/443 وهو حديث حسن لشواهده .
3- أداء الحج والعمرة : إن من أفضل ما يعمل في هذه العشر حج بيت الله الحرام ، فمن وفقه الله تعالى لحج بيته وقام بأداء نسكه على الوجه المطلوب فله نصيب - إن شاء الله - من قول رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة ).
4- الأضحية :
ومن الأعمال الصالحة في هذا العشر التقرب إلى الله تعالى بذبح الأضاحي واستسمانها واستحسانها وبذل المال في سبيل الله تعالى .
فلنبادر باغتنام تلك الأيام الفاضلة ، قبل أن يندم المفرّط على ما فعل ، وقبل أن يسأل الرّجعة فلا يُجاب إلى ما سأل .
الإسلام سؤال وجواب
ترجمہ :
عشرہ ذوالحجہ كي فضيلت كے متعلق سوال
كيا ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس دنوں كو دوسرے سب ايام پر فضيلت حاصل ہے ؟
اور ان دس دنوں ميں كونسے ايسے اعمال صالحہ ہيں جو كثرت سے كرنا مستحب ہيں ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ:
اطاعت وفرمانبردارى كے موسموں ميں سے ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس يوم بھي ہيں جنہيں اللہ تعالى نے باقى سب ايام پر فضيلت دى ہے:
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کوسب سے زيادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد بھی نہيں !! تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورجھاد فی سبیل اللہ بھی نہيں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے " صحیح بخاری ( 2 / 457 )
اور ايك دوسرى حديث ميں ہے ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عشرہ ذی الحجہ میں کیے گئے عمل سے زیادہ پاکیزہ اورزيادہ اجروالا عمل کوئي نہيں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ نہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورنہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا " سنن دارمی ( 1 / 357 ) اس کی سند حسن ہے دیکھیں الارواء الغلیل ( 3 / 398 ) ۔
مندرجہ بالا اوراس کے علاوہ دوسری نصوص اس پردلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہيں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي استثناء نہيں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہيں ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے ، اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ، تواس طرح سب دلائل میں جمع ہوتا ہے ۔دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 5 / 412 ) ۔
لھذا مسلمان شخص كو چاہئے كہ وہ ان دس دنوں كي ابتدا اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كے ساتھ كرے اور پھر عمومى طور پر كثرت سے اعمال صالحہ كرے اور پھر خاص كر مندرجہ ذيل اعمال كا خيال كرتے ہوئے انہيں انجام دے:
1 - روزے ۔
مسلمان شخص کےلیے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس ایام میں اعمال صالحہ کرنے پرابھارا ہے اور روزہ رکھنا اعمال صالحہ میں سے سب سے افضل اوراعلی کام ہے ، اوراللہ تعالی نے روزہ اپنے لیے چنا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( ابن آدم کے سارے کے سارے اعمال اس کے اپنے لیے ہیں لیکن روزہ نہيں کیونکہ وہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا ) ، صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1805 ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نو ذوالحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، ھنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بیان کیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ اوریوم عاشوراء اورہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے ، مہینہ کے پہلے سوموار اوردو جمعراتوں کے ۔
سنن نسائي ( 4 / 205 ) سنن ابوداود ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 2 / 462 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
2 - تکبیریں، الحمد اللہ اور سبحان اللہ كثرت سے کہنا :
ان دس ایام میں مساجد ، راستوں اورگھروں اورہر جگہ جہاں اللہ تعالی کا ذکر کرنا جائز ہے وہیں اونچی آواز سے تکبیریں اورلاالہ الااللہ ، اورالحمدللہ کہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اوراللہ تعالی کی تعظیم کا اعلان ہو ۔ مرد تواونچي آواز سے کہيں گے لیکن عورتیں پست آواز میں ہی کہيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اپنے فائدے حاصل کرنے کوآجائيں ، اوران مقرردنوں میں ان چوپایوں پراللہ تعالی کانام یاد کریں جوپالتوہیں } الحج ( 28 ) ۔
جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ معلوم دنوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں کیونکہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے مراد دس دن ہیں ۔
عبد اللہ بن عمر رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئي عمل محبوب نہيں، لھذا لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو" اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور اس كي سند كو احمد شاكر رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے: ديكھيں: مسند احمد ( 7/ 224 ) .
اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں :
الله أكبر ، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر ولله الحمد
اللہ بہت بڑاہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اوراللہ بہت بڑا ہے ، اوراللہ تعالی ہی کی تعریفات ہیں ۔
اس کےعلاوہ بھی تکبیریں ہیں ۔
یہاں ایک بات کہنا چاہیں گے کہ موجود دورمیں تکبریں کہنے کی سنت کوترک کیا جاچکا ہے اورخاص کران دس دنوں کی ابتداء میں توسننے میں نہیں آتی کسی نادر شخص سے سننے میں آئيں گیں ، اس لیے ضروری ہے کہ تکبیروں کواونچی آواز میں کہا جائے تاکہ سنت زندہ ہوسکے اورغافل لوگوں کوبھی اس سے یاد دہانی ہو۔
ابن عمر اور ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ، اس کا مقصد اورمراد یہ ہے کہ لوگوں کوتکبریں کہنا یاد آئيں اور ہرایک اپنی جگہ پراکیلے ہی تکبریں کہنا شروع کردے ، اس سے یہ مراد نہيں کہ سب لوگ اکٹھے ہوکر بیک آواز تکبیریں کہيں کیونکہ ایسا کرنا مشروع نہيں ہے
اورجس سنت کوچھوڑا جاچکا ہویا پھر وہ تقریبا چھوڑی جارہی ہو تواس پرعمل کرنا بہت ہی عظیم اجروثواب پایا جاتا ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس پردلالت کرتا ہے :
( جس نے بھی میری مرد سنت کوزندہ کیا اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب دیا جائے گا اوران دونوں کے اجروثواب میں کچھ کمی نہيں ہوگي ) اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے : دیکھیں سنن ترمذي ( 7 / 443 ) یہ حدیث اپنے شواھد کے ساتھ حسن درجہ تک پہنچتی ہے ۔
3 - حج وعمرہ کی ادائيگي :
ان دس دنوں میں جوسب سے افضل اوراعلی کام ہے وہ بیت اللہ کاحج وعمرہ کرنا ہے ، لھذا جسے بھی اللہ تعالی اسے اپنے گھرکا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس نے مطلوبہ طریقہ سے حج کے اعمال ادا کیے توان شاء اللہ اسے بھی اس کا حصہ ملے گا جونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :
( حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئي اجروثواب نہيں ) ۔
4 - قربانی :
عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے کہ قربانی کی جائے اوراللہ تعالی کےراستے میں مال خرچ کیا جائے ۔
لھذا ہميں ان فضيلت والے ايام سے فائدہ اٹھانا چاہئے يہ ہمارے لئے بہترين اور سنہري موقع ہے، قبل اس كے كہ ہم اپنى كوتاہى پر نادم ہوں، اور قبل اس كے كہ ہم واپس دنيا ميں آنے كا سوال كريں ليكن اس كي شنوائى نہ ہو.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب