فیس بک پر ایک کمنٹ میں ایک بریلوی نے لکھا کہ ذوالقرنین نے لوگوں سے دیوار بنانے کے لیے مدد مانگی تو کیا وہ بھی مشرک تھے کیونکہ انہوں نے بھی اللہ کو چھوڑ کر بندوں سے مدد مانگی تھی؟؟
یہ سوال یا اعتراض نری جہالت اور ضد کی مثال ہے ؛
ذوالقرنین اور اس قوم کا واقعہ دراصل زندہ انسانوں کے مابین ایک دوسرے کی اسباب کے تحت مدد کی بہترین مثال ہے ،
یعنی ذوالقرنین نے اس قوم کی دستیاب اسباب سے مدد کی ۔۔اور ان سے خود بھی مدد حاصل کی ،
یہ لیجئے قرآن نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے ؛
قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا (94)
وہ کہنے لگے : ''اے ذوالقرنین! یاجوج اور ما جوج نے اس سرزمین میں فساد مچا رکھا ہے۔ اگر ہم آپ کو کچھ چندہ اکٹھا کر دیں تو کیا آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار چن دیں گے؟''
توضیح :
ان لوگوں نے ذوالقرنین کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر یہ التجا کی کہ ہمیں یاجوج ماجوج حملہ کرکے ہر وقت پریشان کرتے رہتے ہیں اگر ممکن ہو تو ان دو گھاٹیوں کے درمیان جو درے ہیں انھیں پاٹ دیجئے اور اس سلسلہ میں جو لاگت آئے وہ ہم دینے کو تیار ہیں یا اس کے عوض ہم پر کوئی ٹیکس لگا دیجئے وہ ہم ادا کرتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا (95)
ترجمہ :
ذوالقرنین نے جواب دیا : ''میرے پروردگار نے جو مجھے (مالی) قوت دے رکھی ہے۔ وہ بہت ہے تم بس بدنی قوت (محنت) سے میری مدد کرو تو میں [٧٧] ان کے اور تمہارے درمیان بند بنا دوں گا (آیت نمبر ۹۴ )
تفسیر :
[٧٧]
چنانچہ ذوالقرنین نے ان کی اس درخواست کو منظور کرلیا اور کہا تمہاری مالی امداد کی مجھے ضرورت نہیں اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ موجود ہے البتہ لیبر یا مزدور تم مہیا کر دو تو میں ایسی دیوار بنوادوں گا۔ علاوہ ازیں مجھے کچھ لوہے کی چادریں اور دوسرا سامان تعمیر مہیا کرنا تمہاری ذمہ داری ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا (96)
ترجمہ :
مجھے لوہے کی چادریں لا دو ۔ ذوالقرنین نے جب ان چادروں کو ان دونوں گھاٹیوں کے درمیان برابر کرکے خلا کو پاٹ دیا تو ان سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ تاآنکہ جب وہ لوہے کی چادریں آگ (کی طرح سرخ) ہوگئیں تو اس نے کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ میں ان چادروں کے درمیان [٧٨] بہا کر پیوست کردوں''
تفسیر :
[٧٨] سد ذوالقرنین :۔ پہلے لوہے کے بڑے بڑے تختوں کی اوپر نیچے تہیں جمائی گئیں جب ان کی بلندی دونوں طرف کی گھاٹیوں تک پہنچ گئی تو لوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھونکو اور اس کام کے لیے لکڑی اور کوئلہ کو استعمال میں لایا گیا جب لوہا آگ کی طرح سرخ ہوگیا تو پگھلا ہوا تانبہ اوپر سے ڈالا گیا جو لوہے کی چادروں کی درزوں میں جم کر پیوست ہوگیا اور یہ سب کچھ مل کر پہاڑ سا بن گیا بظاہر ایسی دیوار کی تعمیر ایک حیران کن اور بالخصوص اس دور میں ایک خرق عادت واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم اہرام مصر اور ان کے دور تعمیر کی طرف نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ایسے ایسے آلات تعمیر پائے جاتے تھے جن کا آج تصور بھی نہیں ہوسکتا۔