۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اميج ميں خوارج کي کچھ صفات بتانے والي حديث صحيح البخاري کے حوالہ سے بيان کي گئي ہے ؛
يہاں پہلي بات تو يہاں يہ واضح رہے کہ :
’’ ان الفاظ سے صحيح بخاري ميں کوئي حديث نہيں ۔۔البتہ ايک حديث کے الفاظ مندرجہ ذيل ہيں :
باب قراءة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم لا تجاوز حناجرهم:
باب: فاسق اور منافق کي تلاوت کا بيان اور اس کا بيان کہ ان کي آواز اور ان کي تلاوت ان کے حلق سے نيچے نہيں اترتي
عن ابي سعيد الخدري رضي الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"يخرج ناس من قبل المشرق ويقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ثم لا يعودون فيه حتى يعود السهم إلى فوقه قيل ما سيماهم؟ قال: سيماهم التحليق او قال التسبيد".(حديث نمبر: 7562 )
جناب ابو سعيد خدري رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ”کچھ لوگ مشرق کي طرف سے نکليں گے اور قرآن پڑھيں گے جو ان کے حلق سے نيچے نہيں اترے گا، يہ لوگ دين سے اس طرح دور پھينک دئيے جائيں گے جيسے تير پھينک ديا جاتا ہے? پھر يہ لوگ کبھي دين ميں نہيں واپس آ سکتے، يہاں تک کہ تير اپني جگہ (خود) واپس آ جائے، پوچھا گيا کہ ان کي علامت کيا ہو گي؟ تو فرمايا کہ ان کي علامت سر منڈوانا ہو گي۔“انتہي
اس حديث ميں مشرق کي جانب سے اہل فتنہ کے آنے کي پيشينگوئي کي گئي ہے ۔اور سب جانتے ہيں کہ مدينہ منورہ کا مشرق عراق ہے ،
قال الخطابي : ( نجد ) من جهة المشرق ، ومَن كان بالمدينة كان نَجدُهُ باديةَ العراق ونواحيها ، وهي مشرق أهل المدينة
اور يہ پيشنگوئي اس طرح ثابت ہوئي کہ :
مشرق يعني عراق سےمختلف فتنوں نے جنم ليا ـ اور امت ميں يہ فتنے ناسور بن کر رہ گئے
صحيح بخاري ميں حديث ہے کہ :
حدثنا يسير بن عمرو قال قلت لسهل بن حنيف: هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في الخوارج شيئا؟ قال: سمعته يقول واهوى بيده قبل العراق:"يخرج منه قوم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية".
(صحيح البخاري ، حديث نمبر: 6934
يسير بن عمرو نے بيان کيا کہ ميں نے سہل بن حنيف (بدري صحابي) رضي اللہ عنہ سے پوچھا کيا تم نے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو خوارج کے سلسلے ميں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے بيان کيا کہ
ميں نے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو يہ کہتے ہوئے سنا ہے اور آپ نے عراق کي طرف ہاتھ سے اشارہ فرمايا تھا کہ ادھر سے ايک جماعت نکلے گي يہ لوگ قرآن مجيد پڑھيں گے ليکن قرآن مجيد ان کے حلقوں سے نيچے نہيں اترے گا ، وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائيں گے جيسے تير شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے۔
تاريخ پر نظر ڈاليں تو پتا چلتا ہے کہ دور صحابہ سے عراق فتنوں کي سر زمين ہے
امير المومنين سيدنا عثمان ،کے خلاف سازش اور ان کي مظلومانہ شہادت ،اور پھر سيدنا علي کی شہادتـــــسيدنا حسين کي شہادت سب ميں عراق اور اہل عراق کا کردار
ڈھکا چھپا نہيں ــــ
اور دجال کا فتنہ ،جو سب سے بڑا فتنہ ہوگا ، اس اولین پیروکار مدينہ کے مشرق يعني ايران سے نکلیں گے
صحيح مسلم ميں نبي کريم ﷺ کا فرمان ہےـ
عن إسحاق بن عبدالله، عن عمه، أنس بن مالك؛أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "يتبع الدجال، من يهود أصبهان، سبعون ألفا. عليهم الطيالسة".(صحيح مسلم. )
يعني دجال کي پيروي ميں (اس کي پہلي سب سے بڑي جماعت ) اس کے ساتھ اصفہان کے ستر ہزار يہودي ہونگے ‘‘
يہ تو مدينہ کے مشرق کي وضاحت کي ، اب بقيہ نکات پر گذارشات پيش ہيں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسري بات جو حديث ميں ہے کہ وہ قرآن پڑھيں گے ـــــــــــ
اس پر عرض ہے کہ : قرآن تو ساري امت پڑھتي ہے ـــــــ بڑے بڑے خوش نصيب اس امت ميں قرآن پڑھنے والے گزرے ہيں اور الحمد للہ موجود ہيں
تو کيا وہ قرآن پڑھنے کي وجہ سے خوارج يا ديگر گمراہ گروہوں ميں شمار کردئے جائيں گے ،،
نہيں ـ ہرگز نہيں !
بلکہ قرآن پڑھنے کے باوجود اہل مشرق سے جن لوگوں نے اس امت ميں فتنہ پروري کي ۔وہ تاريخ کے صفحات ميں نماياں ہيں ،
یہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ـــــــــــجناب علي ؓ اور سيدنا حسين رضی اللہ عنہ کو شہيد کرنے والے اہل عراق
امير المومنين سيدنا عثمان کو قتل کرنے والے دوران محاصرہ مسجد نبوي ميں نماز باجماعت پڑھتے تھے بلکہ پڑھاتے تھے "
اور اس بات کو کون نہيں جانتا کہ نماز کي امامت قرآن کا قاري ہي کرسکتا ہے ـــبالخصوص جبکہ دور صحابہ کرام و تابعين کا ہو ــــــــــــــــ
اس لئے اس حديث ميں فتنہ اور اہل فتنہ سے مراد قاتلين عثمان و علي ؓہيںـــــــــــــــ
کوفہ سے دو سو افراد کا جتھہ لے کر سيدنا عثمان رضي اللہ عنہ کو قتل کرنے کيلئے لانے والا مالک بن حارث الاشتر نخعي کوفي
جو بعد ميں سيدنا علي رضي اللہ عنہ کي حکومت ميں مختلف فوجي مناصب پر براجمان رہا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وہ بھي قرآن کا قاري و عالم تھا ــ اہل عراق کا سرغنہ تھا ،يہ ايسا ظالم شخص تھا کہ سيدنا عثمان رضي اللہ عنہ کے محاصرہ کے دوران انہوں نے امير المومنين پر پاني بند کرديا تھا،اور ام المومنين سيدہ صفيہ رضي اللہ عنہا اپنے غلام کو لے خچر سوار ہو کر سيدنا عثمان رضي اللہ عنہ کو خود پاني پلانے لے جا رہي تھيں ،کہ راستے ميں اس ظالم اشتر نخعي نے ان کو روکا اور انکے خچر کے منہ پر اس قدر بے دردي سے مارا کہ خچر کا رخ الٹا ہوگيا اس پر سيدہ صفيہ رضي اللہ عنہا نے فرمايا :
مجھے واپس لے چلو يہ کتا ميري مزيد توہين نہ کرنے پائے ‘‘ امام بخاري رحمہ اللہ اپني بے مثال کتاب ’’ التاريخ الكبير ‘‘ ميں سيدہ صفيہ رضی اللہ عنہا کے غلام کنانہ کے ترجمہ ميں بيان کرتے ہيں کہ :
قَالَ نا كنانة مولى صفِية قَالَ كنت أقود بصفِية لترد عَنْ عثمان فلقيها الأشتر فضرب وجه بغلتها حتى قَالَت ردوني ولا يفضحني هذا الكلب،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جہاںتک بات ہے کہ سر منڈانے کي تو واضح رہے کہ امت کا ہر فرد جانتا ہے کہ سر منڈانا ــــــ يعني ٹنڈ کروانا حج اور عمرہ کے موقع پر عبادت کا حصہ ہے
اور اس کے علاوہ مواقع پر جائز ،مباح ہے :
عن نافع عن ابن عمر " ان النبي صلى الله عليه وسلم راى صبيا قد حلق بعض شعره وترك بعضه فنهاهم عن ذلك وقال: احلقوه كله او اتركوه كله ".
عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما سے روايت ہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے ايک بچے کو ديکھا کہ اس کے کچھ بال منڈے ہوئے تھے اور کچھ چھوڑ دئيے گئے تھے تو آپ نے انہيں اس سے منع کيا اور فرمايا: ”يا تو پورا مونڈ دو، يا پورا چھوڑے رکھو“
سنن ابو داود ، سنن النسائي/الزينة ? (????)، مسند احمد (?/??)
اور
سيدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سيدنا جعفر کي اولاد کو (ان کے شہيد ہونے کے بعد) تين دن مہلت دي، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشريف لائے اور فرمايا کہ آج کے بعد ميرے بھائي (جعفر ) پر مت رونا پھر فرمايا کہ ميرے بھتيجوں کو ميرے پاس لے کر آؤ چنانچہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کي خدمت ميں لائے گئے اور اس وقت ہم چُوزوں کي طرح (بہت کم سن) تھے،، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمايا کہ “بال مونڈنے والے کو بلا کر ميرے پاس لاؤ ” (جب وہ آگيا تو) آپ ﷺنے اسے (ہمارے بال) مونڈنے کا حکم ديا اور اسي نے ہمارے سروں کو مونڈا “
(ابو داود ، و سندہ صحيح و صححہ النووي في رياض الصالحين : علي شرط البخاري و مسلم، النسائي :)
اس لئے صرف سر منڈانا کوئي علامت نہيں جب تک کوئي خلاف اسلام کا نہ کيا جائے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وللحديث بقيۃ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب علامات النبوة في الإسلام:
باب: نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے معجزوں يعني نبوت کي نشانيوں کا بيان
حدثنا ابو اليمان اخبرنا شعيب عن الزهري قال: اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ان ابا سعيد الخدري رضي الله عنه قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يقسم قسما اتاه ذو الخويصرة وهو رجل من بني تميم فقال: يا رسول الله اعدل فقال:"ويلك ومن يعدل إذا لم اعدل قد خبت وخسرت إن لم اكن اعدل"فقال عمر: يا رسول الله ائذن لي فيه فاضرب عنقه فقال:"دعه فإن له اصحابا يحقر احدكم صلاته مع صلاتهم وصيامه مع صيامهم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر إلى نصله فلا يوجد فيه شيء ثم ينظر إلى رصافه فما يوجد فيه شيء ثم ينظر إلى نضيه وهو قدحه فلا يوجد فيه شيء ثم ينظر إلى قذذه فلا يوجد فيه شيء قد سبق الفرث والدم آيتهم رجل اسود إحدى عضديه مثل ثدي المراة او مثل البضعة تدردر ويخرجون على حين فرقة من الناس"قال ابو سعيد: فاشهد اني سمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه وسلم واشهد ان علي بن ابي طالب قاتلهم وانا معه فامر بذلك الرجل فالتمس فاتي به حتى نظرت إليه على نعت النبي صلى الله عليه وسلم الذي نعته.
(صحيح البخاري ،حديث نمبر: 3610 )
جناب ابو سعيد خدري رضي اللہ عنہ نے بيان کيا کہ ہم رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں موجود تھے اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم (جنگ حنين کا مال غنيمت) تقسيم فرما رہے تھے اتنے ميں بني تميم کا ايک شخص ذوالخويصرہ نامي آيا اور کہنے لگا کہ يا رسول اللہ! انصاف سے کام ليجئے،، يہ سن کر آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ”افسوس! اگر ميں ہي انصاف نہ کروں تو دنيا ميں پھر کون انصاف کرے گا? اگر ميں ظالم ہو جاؤں تب تو ميري بھي تباہي اور بربادي ہو جائے“ عمر رضي اللہ عنہ نے عرض کيا يا رسول اللہ! اس کے بارے ميں مجھے اجازت ديں ميں اس کي گردن مار دوں? آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ اسے چھوڑ دو? اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پيدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچيز سمجھو گے، وہ قرآن کي تلاوت کريں گے ليکن وہ ان کے حلق کے نيچے نہيں اترے گا، يہ لوگ دين سے اس طرح نکل جائيں گے جيسے زور دار تير جانور سے پار ہو جاتا ہے، اس تير کے پھل کو اگر ديکھا جائے تو اس ميں کوئي چيز (خون وغيرہ) نظر نہ آئے گي پھر اس کے پٹھے کو اگر ديکھا جائے تو چھڑ ميں اس کے پھل کے داخل ہونے کي جگہ سے اوپر جو لگايا جاتا ہے تو وہاں بھي کچھ نہ ملے گا اس کے نفي (نفي تير ميں لگائي جانے والي لکڑي کو کہتے ہيں) کو ديکھا جائے تو وہاں بھي کچھ نشان نہيں ملے گا، اسي طرح اگر اس کے پر کو ديکھا جائے تو اس ميں بھي کچھ نہيں ملے گا ، حالانکہ گندگي اور خون سے وہ تير گزرا ہے ان کي علامت ايک کالا شخص ہو گا? اس کا ايک بازو عورت کے پستان کي طرح (اٹھا ہوا) ہو گا يا گوشت کے لوتھڑے کي طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا? يہ لوگ مسلمانوں کے بہترين گروہ سے بغاوت کريں گے ابو سعيد خدري رضي اللہ عنہ نے کہا کہ ميں گواہي ديتا ہوں کہ ميں نے يہ حديث رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے سني تھي اور ميں گواہي ديتا ہوں کہ علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ نے ان سے جنگ کي تھي (يعني خوارج سے) اس وقت ميں بھي علي رضي اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرايا (جسے آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس گروہ کي علامت کے طور پر بتلايا تھا) آخر وہ لايا گيا ميں نے اسے ديکھا تو اس کا پورا حليہ بالکل آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے بيان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا،،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حدثني عبد الله بن محمد حدثنا هشام بن يوسف عن معمر عن الزهري عن سالم عن ابيه عن النبي صلى الله عليه وسلم انه"قام إلى جنب المنبر فقال: الفتنة ها هنا الفتنة ها هنا من حيث يطلع قرن الشيطان او قال قرن الشمس"
(صحيح البخاري ، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «الفتنة من قبل المشرق»:
باب: نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کا فرمانا ”فتنہ مشرق کي طرف سے اٹھے گا“
حديث نمبر: 7092 )
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندي نے بيان کيا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن يوسف نے بيان کيا، انہوں نے کہا ان سے معمر نے بيان کيا، ان سے زہري نے بيان کيا، ان سے سالم نے، ان سے ان کے والد جناب عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما نے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم منبر کے ايک طرف کھڑے ہوئے اور فرمايا ”فتنہ ادھر ہے، فتنہ ادھر ہے جدھر سے شيطان کا سينگ طلوع ہوتا ہے يا سورج کا سينگ فرمايا “
اور صحيح مسلم شريف ميں يہي حديث ’’ مشرق ‘‘ کي وضاحت کے ساتھ موجود ہے
ومسلم في كتاب الفتن، باب الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان(7292)بنحوه كلاهما من طريق الليث عن نافع عن ابن عمر رضى الله عنهما أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مستقبل المشرق يقول ألا إن الفتنة هاهنا من حيث يطلع قرن الشيطان )