• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا خوارج کافر ہیں

شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث کا مطلب ہمارے فہم کے مطابق یہ ہے:
جس طرح تیر کمان سے نکل کر اُس سے جدا تو ہو جاتا ہے لیکن تیر کی نسبت ہمیشہ کمان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔
اسی طرح خوارج بھی دین میں غلو کر کے اسلام سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ لیکن نسبت اُس کی اسلام کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ اِس لیے اُس کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
خوارج کی دین سے دوری کو تیر کمان کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ وہ بہت جلدی اورتیزی سے جادہ حق سے ہٹ گئے تھے ، حتی کہ ان کی ابتداء زمانہ نبوت میں ہی ہوگئی تھی ۔ واللہ أعلم ۔
علماء کا خوارج کی تکفیر میں اختلاف ہے ، قائلین تکفیر کے نزدیک یہ واضح دلیل ہے ، لیکن اکثریت عدم تکفیر کے قائل ہیں ، ان کے نزدیک یہاں دین سے نکلنے سے مراد اطاعت امام سے نکلنا ہے ۔ گو یہ تاویل ہے ، لیکن چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بعض خوارج کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے ہیں ، اس لیے انہیں واضح کافر کہنا بہت مشکل ہے ۔
حدیث کے معنی میں یہی دو احتمال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کیے ہیں ، فرماتے ہیں :
قوله يمرقون من الدين إن كان المراد به الإسلام فهو حجة لمن يكفر الخوارج ويحتمل أن يكون المراد بالدين الطاعة فلا يكون فيه حجة وإليه جنح الخطابي ۔(فتح الباري لابن حجر (6/ 618)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
حدیث کے معنی میں یہی دو احتمال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کیے ہیں ، فرماتے ہیں :
قوله يمرقون من الدين إن كان المراد به الإسلام فهو حجة لمن يكفر الخوارج ويحتمل أن يكون المراد بالدين الطاعة فلا يكون فيه حجة وإليه جنح الخطابي ۔(فتح الباري لابن حجر (6/ 618)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے گو دونوں احتمال بیان کیے ہیں ، لیکن ایک دوسری جگہ پر دوسرے احتمال کی تردید کی ہے : ملاحظہ فرمائیں :
قوله يمرقون من الدين في رواية سعيد بن مسروق من الإسلام وفيه رد على من أول الدين هنا بالطاعة وقال إن المراد أنهم يخرجون من طاعة الإمام كما يخرج السهم من الرمية وهذه صفة الخوارج الذين كانوا لا يطيعون الخلفاء والذي يظهر أن المراد بالدين الإسلام كما فسرته الرواية الأخرى وخرج الكلام مخرج الزجر وأنهم بفعلهم ذلك يخرجون من الإسلام الكامل ۔(فتح الباري لابن حجر (8/ 69)
بعض روایات میں ’’ الدین ‘‘ کی بجائے ’’ الاسلام ‘‘ کےلفظ آئے ہیں ، یعنی وہ مکمل اسلام سے خارج ہو جائیں گے ،اور یہ ان لوگوں پر رد ہے ، جو یہاں دین سےمراد اطاعت امام لیتے ہیں ۔
قوله يمرقون من الدين في رواية أبي إسحاق عن سويد بن غفلة عند النسائي والطبري يمرقون من الإسلام وكذا في حديث بن عمر في الباب وفي رواية زيد بن وهب المشار إليها وحديث أبي بكرة في الطبري وعند النسائي من رواية طارق بن زياد عن علي يمرقون من الحق وفيه تعقب على من فسر الدين هنا بالطاعة كما تقدمت الإشارة إليه في علامات النبوة۔
(فتح الباري لابن حجر (12/ 288)
بعض روایات میں ’’ الحق ‘‘ کے لفظ آئے ہیں ، یہ ان لوگوں پر رد ہے جو یہاں اطاعت امام مراد لیتے ہیں ۔
ایک دوسری جگہ پر تیر کے نکلنے کے ساتھ تشبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لا يعودون فيه حتى يعود السهم إلى فوقه والرمية فعيلة من الرمي والمراد الغزالة المرمية مثلا ووقع في حديث عبد الله بن عمرو من رواية مقسم عنه فإنه سيكون لهذا شيعة يتعمقون في الدين يمرقون منه الحديث أي يخرجون من الإسلام بغتة كخروج السهم إذا رماه رام قوي الساعد فأصاب ما رماه فنفذ منه بسرعة بحيث لا يعلق بالسهم ولا بشيء منه من المرمي شيء فإذا التمس الرامي سهمه وجده ولم يجد الذي رماه فينظر في السهم ليعرف هل أصاب أو أخطأ فإذا لم يره علق فيه شيء من الدم ولا غيره ظن أنه لم يصبه والفرض أنه أصابه وإلى ذلك أشار بقوله سبق الفرث والدم أي جاوزهما ولم يتعلق فيه منهما شيء بل خرجا بعده وقد تقدم شرح القذذ في علامات النبوة ووقع في رواية أبي نضرة عن أبي سعيد عند مسلم فضرب النبي صلى الله عليه وسلم لهم مثلا الرجل يرمي الرمية الحديث وفي رواية أبي المتوكل الناجي عن أبي سعيد عند الطبري مثلهم كمثل رجل رمى رمية فتوخى السهم حيث وقع فأخذه فنظر إلى فوقه فلم ير به دسما ولا دما لم يتعلق به شيء من الدسم والدم كذلك هؤلاء لم يتعلقوا بشيء من الإسلام وعنده في رواية عاصم بن شمخ بفتح المعجمة وسكون الميم بعدها معجمة بعد قوله من الرمية يذهب السهم فينظر في النصل فلا يرى شيئا من الفرث والدم الحديث وفيه يتركون الإسلام وراء ظهورهم وجعل يديه وراء ظهره وفي رواية أبي إسحاق مولى بني هاشم عن أبي سعيد في آخر الحديث لا يتعلقون من الدين بشيء كما لا يتعلق بذلك السهم أخرجه الطبري وفي حديث أنس عن أبي سعيد عند أحمد وأبي داود والطبري لا يرجعون إلى الإسلام حتى يرتد السهم إلى فوقه وجاء عن بن عباس عند الطبري وأوله في بن ماجه بسياق أوضح من هذا ولفظه سيخرج قوم من الإسلام خروج السهم من الرمية عرضت للرجال فرموها فانمرق سهم أحدهم منها فخرج فأتاه فنظر إليه فإذا هو لم يتعلق بنصله من الدم شيء ثم نظر إلى القذذ فلم يره تعلق من الدم بشيء فقال إن كنت أصبت فإن بالريش والفوق شيئا من الدم فنظر فلم ير شيئا تعلق بالريش والفوق قال كذلك يخرجون من الإسلام وفي رواية بلال بن بقطر عن أبي بكرة يأتيهم الشيطان من قبل دينهم وللحميدي وبن أبي عمر في مسنديهما من طريق أبي بكر مولى الأنصار عن علي أن ناسا يخرجون من الدين كما يخرج السهم من الرمية ثم لا يعودون فيه أبدا۔
فتح الباري لابن حجر (12/ 294)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
1۔ جس طرح تیر واپس نہیں آسکتا ، اسی طرح وہ بھی اسلام میں واپس نہیں آئیں گے ۔
2۔ جس طرح تیر اچانک شکار کو آن لیتا ہے ، اسی طرح یہ لوگ اچانک اسلام سے خارج ہوجائیں گے ۔
3۔ تیر انداز پوری قوت سے تیر چلائے تو وہ شکار سے تیزی سے گزر جاتا ہے ، اور بعض دفعہ اسے خون وغیرہ بھی نہیں لگتا ، اسی طرح خوارج جب اسلام سے نکلیں گے تو ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔
4۔ یہ لوگ دین کو ایسے پیچھے چھوڑ جائیں گے ، جیسے تیز رفتار تیر اپنا ہدف پار کرکے گزر جاتا ہے ۔
ان اقتباسات سے ایک تو تشبیہ اور مثال کے معنی کی وضاحت ہو جاتی ہے ، دوسرا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف سامنے آجاتا ہے کہ وہ خوارج کو کافر سمجھتے تھے ، اور یہ موقف امام بخاری رحمہ اللہ کا تھا ۔ احادیث کے ظاہر سے اسی کی تائید ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اکثریت ان کی تکفیر کی قائل نہیں ۔
 
Last edited:

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
جزاک اللہ خیرا
امام ابن حجر کے دلائل سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تکفیر کا موقف راجح ہے. لیکن صحابہ نے اور جمہور امت نے ان کی تکفیر کیوں نہی کی پھر؟

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
ان کا موقف اس حدیث کے بارے میں کیا ہے تفصیلا بتائے گا

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
لیکن صحابہ نے اور جمہور امت نے ان کی تکفیر کیوں نہی کی پھر؟
کہ
1-وہ شہادتین کا اقرار کرتے تھے ۔
2۔ اسلام کے عمومی احکامات پر سختی سے پابند تھے ۔
3۔ انہوں نے صراحت کے ساتھ کفریہ کلمات نہیں بولے ، اور جن اقوال کی بنیاد پر ان پر تکفیر کا فتوی لگتا ہے ، ان میں تاویل کی گنجائش ہے ۔
ایک اور بنیادی فرق ہے :
جن علما نے خوارج کی تکفیر کی ہے ، انہوں نے شخصیات کی تعیین نہیں کی ۔ بلکہ انہوں نے اس سلسلے میں وارد نصوص دیکھ کر نظری حکم لگایا ہے ، کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارک سے خوارج کی جو صفات ہیں ، وہ کافر ہیں ۔
لیکن جنہوں نے تکفیر سے گریز کیا ہے ، انہوں نے شخصیات کو مدنظر رکھا ہے ، مثلا صحابہ کرام جن خوارج کے پیچھے نماز پڑھتے رہے ، انہیں تامل تھا کہ یہ وہ لوگ نہیں جن کے بارےمیں حضور نے یمرقون من الدین وغیرہ الفاظ فرمائے ہیں ۔
گویا ایک طرف نص کا فہم ہے ، دوسری طرف اس کی اشخاص یا جماعت پر تطبیق ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
لیکن حضرت علی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ نے ایک آدمی کے بارے میں بھی بتایا تھا اور وہ آدمی ان خوارج میں شامل تھا.

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
سوری آپ کو تکلیف دے رہا ہوں اصل میں میں اس معاملے کو اچھی طرح سمجھنا چاہتا ہوں

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
اللہ اکبر
 
Last edited:
Top