طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
خوارج کافر ہیں ، نہ منافق؛ایک گم راہ قوم ہیں:امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ
خوارج انتہائی شریدہ سر لوگ تھے جنھوں نے صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنھم کی تکفیر کی اور ان سے برسرِ قتال ہوئے لیکن اس کے باوصف صحابہؓ نے انھیں کافر قرار نہیں دیا ۔یہ گروہ سیدنا علی ؓ کے عہد میں ظہور پذیر ہوا اور ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا؛نہروان کے مقام پر خوارج اور جناب امیر علیہ السلام کے مابین مشہور معرکہ لڑا گیا جس میں انھیں عبرت ناک شکست ہوئی تاہم ان کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا اور یہ لوگ اپنی ظالمانہ کاروائیوں میں مشغول رہے ؛یہاں تک کہ اسی ٹولے کے ایک بدبخت ملعون ابن ملجم کے ہاتھوں جناب علیؓ شہید ہوئے۔لیکن ان کی تمام تر ضلالت کے باوصف امیرلمومنین علیہ السلام نے انھیں کافر نہیں کہا؛چناں چہ جب ان سے دریافت کیا گیا:کیا یہ کافرہیں؟ انھوں نے جواب دیا:کفر ہی سے تو یہ بھاگ کر آئے ہیں! پھر سوال ہوا: کیا یہ منافق ہیں؟ فرمایا: منافق لوگ تو اللہ کا بہت ہی کم ذکر کرتے ہیں( جب کہ یہ کثرت سے ذکر الہٰی میں مگن رہتے ہیں)پو چھا گیا: پھر یہ کیا ہیں؟ جناب علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا:’’یہ ایسے لوگ ہیں جو فتنےمیں مبتلا ہو گئے اور اس میں اندھے بہرے ہو گئے۔ یہ ہمارے بھائی ہیں انھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی اور ہم سے بر سر پیکار ہو گئے ؛ سو ، ان کی سرکشی کی بنا پر پر ہم نے بھی ان سے جنگ کی۔‘‘ نیز سیدنا علی علیہ السلام خارجیوں سے فرمایا کرتے تھے:’’ تمھارے ہم پر تین حق ہیں: ایک یہ کہ ہم تمھیں مساجد میں آنے سے منع نہ کریں کہ تم یہاں ذکر الہٰی کر سکو؛ دوسرا یہ کہ ہم تم سے جنگ میں پہل نہ کریں؛ تیسرا یہ کہ جب تک تم ہمارا ساتھ دو ، ہم تمھیں مال فے سے محروم نہ کریں۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ’’منھاج السنۃ ‘‘ لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے خوارج سے مسیلمہ کذاب اور دیگر مرتدوں والا معاملہ روا نہیں رکھا اور کسی صحابہؓ میں سے کسی نے ان سے اختلاف نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا کہ صحابۂ کرام ر ضی اللہ عنھم اس امر پر متفق ہیں کہ خوارج دین اسلام سے مرتد نہ تھے۔واضح رہے کہ بعض محدثین نے ظاہر حدیث ( یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْن ؛ وہ دین سے نکل جائیں گے)کی بنا پر خوارج کو کافر کہا ہے لیکن ان کا موقف کم زور ہے؛ اما م خطابیؒ نے کہا ہے کہ یہاں دین بہ معنی اطاعت ہے ؛ یعنی وہ حکام اسلام کے دائرۂ اطاعت سے نکل جائیں گے اور ان سے آمادۂ جنگ و قتال ہوں گے ؛ استاد گرامی محدث مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے بھی اسی تاویل کو ترجیح دی ہے اور یہی قرین صحت ہے۔واللہ اعلم بالصواب( ۲۳ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ)
خوارج انتہائی شریدہ سر لوگ تھے جنھوں نے صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنھم کی تکفیر کی اور ان سے برسرِ قتال ہوئے لیکن اس کے باوصف صحابہؓ نے انھیں کافر قرار نہیں دیا ۔یہ گروہ سیدنا علی ؓ کے عہد میں ظہور پذیر ہوا اور ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا؛نہروان کے مقام پر خوارج اور جناب امیر علیہ السلام کے مابین مشہور معرکہ لڑا گیا جس میں انھیں عبرت ناک شکست ہوئی تاہم ان کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا اور یہ لوگ اپنی ظالمانہ کاروائیوں میں مشغول رہے ؛یہاں تک کہ اسی ٹولے کے ایک بدبخت ملعون ابن ملجم کے ہاتھوں جناب علیؓ شہید ہوئے۔لیکن ان کی تمام تر ضلالت کے باوصف امیرلمومنین علیہ السلام نے انھیں کافر نہیں کہا؛چناں چہ جب ان سے دریافت کیا گیا:کیا یہ کافرہیں؟ انھوں نے جواب دیا:کفر ہی سے تو یہ بھاگ کر آئے ہیں! پھر سوال ہوا: کیا یہ منافق ہیں؟ فرمایا: منافق لوگ تو اللہ کا بہت ہی کم ذکر کرتے ہیں( جب کہ یہ کثرت سے ذکر الہٰی میں مگن رہتے ہیں)پو چھا گیا: پھر یہ کیا ہیں؟ جناب علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا:’’یہ ایسے لوگ ہیں جو فتنےمیں مبتلا ہو گئے اور اس میں اندھے بہرے ہو گئے۔ یہ ہمارے بھائی ہیں انھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی اور ہم سے بر سر پیکار ہو گئے ؛ سو ، ان کی سرکشی کی بنا پر پر ہم نے بھی ان سے جنگ کی۔‘‘ نیز سیدنا علی علیہ السلام خارجیوں سے فرمایا کرتے تھے:’’ تمھارے ہم پر تین حق ہیں: ایک یہ کہ ہم تمھیں مساجد میں آنے سے منع نہ کریں کہ تم یہاں ذکر الہٰی کر سکو؛ دوسرا یہ کہ ہم تم سے جنگ میں پہل نہ کریں؛ تیسرا یہ کہ جب تک تم ہمارا ساتھ دو ، ہم تمھیں مال فے سے محروم نہ کریں۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ’’منھاج السنۃ ‘‘ لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے خوارج سے مسیلمہ کذاب اور دیگر مرتدوں والا معاملہ روا نہیں رکھا اور کسی صحابہؓ میں سے کسی نے ان سے اختلاف نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا کہ صحابۂ کرام ر ضی اللہ عنھم اس امر پر متفق ہیں کہ خوارج دین اسلام سے مرتد نہ تھے۔واضح رہے کہ بعض محدثین نے ظاہر حدیث ( یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْن ؛ وہ دین سے نکل جائیں گے)کی بنا پر خوارج کو کافر کہا ہے لیکن ان کا موقف کم زور ہے؛ اما م خطابیؒ نے کہا ہے کہ یہاں دین بہ معنی اطاعت ہے ؛ یعنی وہ حکام اسلام کے دائرۂ اطاعت سے نکل جائیں گے اور ان سے آمادۂ جنگ و قتال ہوں گے ؛ استاد گرامی محدث مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے بھی اسی تاویل کو ترجیح دی ہے اور یہی قرین صحت ہے۔واللہ اعلم بالصواب( ۲۳ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ)