- شمولیت
- مارچ 17، 2015
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 36
*تحریر: فضیل احمد ظفر*
*متعلم: جامعہ سلفیہ، بنارس*
آج ہر صاحب بصیرت پر یہ بات کاشکارا ہے کہ سوشل میڈیا و ذرائع ابلاغ جہاں ایک طرف مفید ہے تو دوسری طرف مضر ہے اور تیسری طرف جو سب سے بڑی خرابی ہے وہ یہ کہ یہ عوام الناس اور علماء دین کے مابین حد فاصل بنا ہوا ہے
عوام الناس میں سے عموما جو شخص مستعمل انٹرنیٹ ہوتا ہے وہ جب کوئی آیت یا حدیث سوشل میڈیا پر پڑھتا ہے تو اس کو اپنی ناقص عقل سے سمجھتا ہے اور عمل پیرا ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق فتوے بھی دینے لگتا ہے (اس کی مثال آگے آرہی ہے )
وہ "ﻳَﺎ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁﻣَﻨُﻮﺍ ﺇِﻥْ ﺟَﺎﺀَﻛُﻢْ ﻓَﺎﺳِﻖٌ ﺑِﻨَﺒَﺄٍ ﻓَﺘَﺒَﻴَّﻨُﻮﺍ" (الحجرات: 6) کے حکم سے صم بکم عمی ہوتا ہیں
اور کچھ اس حکم سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں تو کسی ایپ سے حدیث کو سرچ کر لینے کی زحمت گوارا کرلیتے ہیں اگر حدیث صحیح نکل جاتی ہے تو بس اس کی صحت پر عمل کرتے ہوئے متعہ وغیرہ کو جائز گرداننے لگتے ہیں اور جواز کے فتوے کا نشتر چلانے لگتے ہیں ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ناسخ و منسوخ بھی کسی چڑیے کا نام ہے اس لیے کہ ان کی عقل مغالطات و اوہام کا شاخسانہ ہوتی ہے
جب کہ علماء دین جن کو ورثة الأنبياء کا خطاب دیا گیا ہے جو دین کو "لو كان الدين بالرأي" کی نظر سے دیکھتے ہیں جن کا فہم سلف صالحین کے فہم کا شاخسانہ ہوتا ہے جن کا استدلال سلف صالحین کے استدلال کا شاخسانہ ہوتا ہے
جو دین کو دین سمجھتے ہیں بازیچہ اطفال نہیں سمجھتے ہیں
جن کی مثال صحراء کی تاریک رات میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لیے "النجوم لتهتدوا بها" کی سی ہے
ہمیں اور عوام الناس کو چاہیے کہ ان سے جڑے رہیں ان کی قدر کریں ان سے احترام کے ساتھ فتوے پوچھیں
یاد رکھیں ۔۔۔!!
اگر کتابیں ہی علم حاصل کرنے کے لیے کافی ہوتیں تو پھر ان مکتب، معہد، مدرسے، جامعات کی کیا ضرورت تھی ؟
علماء کرام سے دوری در حقیقت صراط مستقیم سے دوری ہے
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ
ایک مرتبہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ تھا نماز میں حدث ہو جانے کے متعلق بات چل رہی تھی ایک صاحب نے جھٹ سے فتوے کی تیر چلائی اور کہا کہ وضو ٹوٹ جانے پر وضو بنائے گا اور جتنی رکعتیں چھوٹ گئیں وہ پڑھے گا
میں نے کہا کہ صاحب یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ اگر کوئی شخص وضو بنا رہا ہے اور درمیان میں حدث ہو جائے تو سرے سے وضو بنائے گا نہ کہ درمیان سے
بہر کیف میں نے ان کو استطاعت بھر سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ صاحب میری بات سے متفق نہ ہوئے اور کہا کہ میں نے حدیث میں پڑھا ہے جبکہ عائشہ والی روایت سخت ضعیف ہے
اسی طرح ہوی پرست بلکہ ہوس پرست "ﻭَﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨُﻮﻥَ ﻭَﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨَﺎﺕُ ﺑَﻌْﻀُﻬُﻢْ ﺃَﻭْﻟِﻴَﺎﺀُ ﺑَﻌْﺾٍ ۚ " (التوبة :71) سے عورت اور مرد کے مابین دوستی کے جواز کے فتوے جاری کر رہے ہیں
اور "الدين بالعقل" والے انکار حدیث کا ایک بہت بڑا فتنہ برپا کرتے چلے آرہے ہیں
کوئی عذاب قبر کا منکر ہے تو کوئی واقعہ افک کا منکر ہے
کوئی تدوین حدیث میں خامیاں نکال رہا ہے تو کوئی صحابہ کرام جیسی مقدس جماعت پر جرح کر رہا ہے
حتی کہ شیعہ حضرات "ﻭَﻋَﺪَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁﻣَﻨُﻮﺍ ﻭَﻋَﻤِﻠُﻮﺍ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤَﺎﺕِ ﻣِﻨْﻬُﻢ ﻣَّﻐْﻔِﺮَﺓً ﻭَﺃَﺟْﺮًﺍ ﻋَﻈِﻴﻤًﺎ ( الفتح: 29 )
سے استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ میں سے بعض کافر ہو گئے تھے (أعوذ بالله من ذلك) اور کہتے ہیں کہ یہاں "من" تبعیض کے لیے ہے
ایسے ہوی پرست مولویوں سے شیخ جلال الدین قاسمی صاحب کا ایک سوال ہے کہ اگر ہر جگہ "من" تبعیص کے لیے ہوتا ہے؟ تو پھر اس آیت "ﻓﺎﺟْﺘَﻨِﺒُﻮﺍ ﺍﻟﺮّﺟْﺲَ ﻣِﻦَ ﺍﻷﻭْﺛﺎﻥِ" (الحج: 30)
کا مطلب بتانے کی زحمت فرمائیں
یعنی بت میں سے جو پاک ہے اس کی عبادت کرو اور جو نجس ہے اس سے دور ہو جاؤ؟؟؟؟؟۔۔!!!!!!
اگر ہر جگہ "من" تبعیض کے لیے مان لیا جائے اور قرآن و حدیث کو اپنی ناقص عقل سے سمجھا جائے تو
*دین بازیچہ اطفال بن جائے گا*
*متعلم: جامعہ سلفیہ، بنارس*
آج ہر صاحب بصیرت پر یہ بات کاشکارا ہے کہ سوشل میڈیا و ذرائع ابلاغ جہاں ایک طرف مفید ہے تو دوسری طرف مضر ہے اور تیسری طرف جو سب سے بڑی خرابی ہے وہ یہ کہ یہ عوام الناس اور علماء دین کے مابین حد فاصل بنا ہوا ہے
عوام الناس میں سے عموما جو شخص مستعمل انٹرنیٹ ہوتا ہے وہ جب کوئی آیت یا حدیث سوشل میڈیا پر پڑھتا ہے تو اس کو اپنی ناقص عقل سے سمجھتا ہے اور عمل پیرا ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق فتوے بھی دینے لگتا ہے (اس کی مثال آگے آرہی ہے )
وہ "ﻳَﺎ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁﻣَﻨُﻮﺍ ﺇِﻥْ ﺟَﺎﺀَﻛُﻢْ ﻓَﺎﺳِﻖٌ ﺑِﻨَﺒَﺄٍ ﻓَﺘَﺒَﻴَّﻨُﻮﺍ" (الحجرات: 6) کے حکم سے صم بکم عمی ہوتا ہیں
اور کچھ اس حکم سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں تو کسی ایپ سے حدیث کو سرچ کر لینے کی زحمت گوارا کرلیتے ہیں اگر حدیث صحیح نکل جاتی ہے تو بس اس کی صحت پر عمل کرتے ہوئے متعہ وغیرہ کو جائز گرداننے لگتے ہیں اور جواز کے فتوے کا نشتر چلانے لگتے ہیں ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ناسخ و منسوخ بھی کسی چڑیے کا نام ہے اس لیے کہ ان کی عقل مغالطات و اوہام کا شاخسانہ ہوتی ہے
جب کہ علماء دین جن کو ورثة الأنبياء کا خطاب دیا گیا ہے جو دین کو "لو كان الدين بالرأي" کی نظر سے دیکھتے ہیں جن کا فہم سلف صالحین کے فہم کا شاخسانہ ہوتا ہے جن کا استدلال سلف صالحین کے استدلال کا شاخسانہ ہوتا ہے
جو دین کو دین سمجھتے ہیں بازیچہ اطفال نہیں سمجھتے ہیں
جن کی مثال صحراء کی تاریک رات میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لیے "النجوم لتهتدوا بها" کی سی ہے
ہمیں اور عوام الناس کو چاہیے کہ ان سے جڑے رہیں ان کی قدر کریں ان سے احترام کے ساتھ فتوے پوچھیں
یاد رکھیں ۔۔۔!!
اگر کتابیں ہی علم حاصل کرنے کے لیے کافی ہوتیں تو پھر ان مکتب، معہد، مدرسے، جامعات کی کیا ضرورت تھی ؟
علماء کرام سے دوری در حقیقت صراط مستقیم سے دوری ہے
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ
ایک مرتبہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ تھا نماز میں حدث ہو جانے کے متعلق بات چل رہی تھی ایک صاحب نے جھٹ سے فتوے کی تیر چلائی اور کہا کہ وضو ٹوٹ جانے پر وضو بنائے گا اور جتنی رکعتیں چھوٹ گئیں وہ پڑھے گا
میں نے کہا کہ صاحب یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ اگر کوئی شخص وضو بنا رہا ہے اور درمیان میں حدث ہو جائے تو سرے سے وضو بنائے گا نہ کہ درمیان سے
بہر کیف میں نے ان کو استطاعت بھر سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ صاحب میری بات سے متفق نہ ہوئے اور کہا کہ میں نے حدیث میں پڑھا ہے جبکہ عائشہ والی روایت سخت ضعیف ہے
اسی طرح ہوی پرست بلکہ ہوس پرست "ﻭَﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨُﻮﻥَ ﻭَﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨَﺎﺕُ ﺑَﻌْﻀُﻬُﻢْ ﺃَﻭْﻟِﻴَﺎﺀُ ﺑَﻌْﺾٍ ۚ " (التوبة :71) سے عورت اور مرد کے مابین دوستی کے جواز کے فتوے جاری کر رہے ہیں
اور "الدين بالعقل" والے انکار حدیث کا ایک بہت بڑا فتنہ برپا کرتے چلے آرہے ہیں
کوئی عذاب قبر کا منکر ہے تو کوئی واقعہ افک کا منکر ہے
کوئی تدوین حدیث میں خامیاں نکال رہا ہے تو کوئی صحابہ کرام جیسی مقدس جماعت پر جرح کر رہا ہے
حتی کہ شیعہ حضرات "ﻭَﻋَﺪَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁﻣَﻨُﻮﺍ ﻭَﻋَﻤِﻠُﻮﺍ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤَﺎﺕِ ﻣِﻨْﻬُﻢ ﻣَّﻐْﻔِﺮَﺓً ﻭَﺃَﺟْﺮًﺍ ﻋَﻈِﻴﻤًﺎ ( الفتح: 29 )
سے استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ میں سے بعض کافر ہو گئے تھے (أعوذ بالله من ذلك) اور کہتے ہیں کہ یہاں "من" تبعیض کے لیے ہے
ایسے ہوی پرست مولویوں سے شیخ جلال الدین قاسمی صاحب کا ایک سوال ہے کہ اگر ہر جگہ "من" تبعیص کے لیے ہوتا ہے؟ تو پھر اس آیت "ﻓﺎﺟْﺘَﻨِﺒُﻮﺍ ﺍﻟﺮّﺟْﺲَ ﻣِﻦَ ﺍﻷﻭْﺛﺎﻥِ" (الحج: 30)
کا مطلب بتانے کی زحمت فرمائیں
یعنی بت میں سے جو پاک ہے اس کی عبادت کرو اور جو نجس ہے اس سے دور ہو جاؤ؟؟؟؟؟۔۔!!!!!!
اگر ہر جگہ "من" تبعیض کے لیے مان لیا جائے اور قرآن و حدیث کو اپنی ناقص عقل سے سمجھا جائے تو
*دین بازیچہ اطفال بن جائے گا*