السلام عليكم ورحمة اللّه وبركاتہ.
کسی نے سوال پوچھا ہے کہ :
1) ایک مسلمان مرد و عورت پر کونسا علم حاصل کرنا فرض ہے(دنیاوی علم یا دین کا)؟؟
وعليكم السلام ورحمة اللہ وبركاتہ
اگر مذاہب ِ عالم کي تاريخ کا بغور مطالعہ کيا جائے تو يہ بات روز روشن کي طرح عياں ہے ہوجائے گي کہ دین ِ اسلام نے علم اور حصول علم پر جس قدر زور ديا ہے ديگر مذاہب ميں اس کي مثال ملني مشکل ہي نہيں بلکہ ناممکن ہے،
نبی کریم ﷺ نےاحاديث پاک ميں جس کثرت سے علم اور حصول علم کي فضيلت بیان فرمائی ہے اس کا احاطہ کرنا محال ہے ،
مثلاً :
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
’’إنَّ اللّہَ وَمَلَائِکَتَہُ وأہْلَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ حَتّي النَّمْل فِي حُجْرِہَا وَحَتّي الحُوتُ فِي جَوفِ البَحرِ يُصَلُّونَ عَلي مُعَلِّمِ النَّاسِ خَيراً‘‘ (سنن ترمذي)
یعنی اللہ تعالي اور اس کے فرشتے ، آسمان اور زمين والے يہاں تک کہ چيونٹي اپنے بل ميں اور مچھلياں سمندر کي گہرائي ميں لوگوں کو خير اور بھلائي کي بات سکھانے والوں کے ليے دعاکرتي ہيں،
ايک دوسري جگہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں:
’’مَن يُرِدِ اللّہُ بِہِ خَيْراً يُفَقِّہْہُ فِي الدِّينِ‘‘ (صحيح بخاري)
اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائي کا ارادہ کرتے ہيں اس کو دين کي سمجھ عطا فرماتے ہيں ‘‘
لیکن یاد رہے یہ علم وہ ہے جس سے انسان کا دنیاوی یا اخروی فائدہ ہو ، اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ ، ترقی ، استحکام حاصل ہو ،
اور جس میں مشغول ہونے سے انسانی وقت کا ضیاع نہ ہو ، عقائد اسلامیہ میں بگاڑ واقع نہ ہو ،
اور جو لغو و بے بیکار نہ ہو ، کیونکہ مومن بیکار اور لغو کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں صرف نہیں کرتے:
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ‘‘ یعنی اہل ایمان لغو ، بیہودہ کاموں سے مجتنب رہتے ہیں ‘‘
لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئي فائدہ نہ ہو يا اس ميں ديني يا دنياوي نقصانات ہوں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسرے مقام پر ارشاد ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (6)
اور بعض لوگ ايسے بھي ہيں جو لغو باتوں کو مول ليتے ہيں کہ بےعلمي کے ساتھ لوگوں کو اللہ کي راہ سے بہکائيں اور اسے ہنسي بنائيں يہي وہ لوگ ہيں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے (سورہ لقمان)
لَھْوالحديث (غافل کردينے والا کلام) سے مراد جيسا کہ سياق کلام سے واضح ہے خدا اور آخرت سے غافل کردينے والا اور اس کي نشانيوں اور اس کي نازل کردہ آيتوں سے توجہ ہٹا دينے والا کلام ہے ،
اور اس کو خريدنے کا مطلب اس کو قبول کرنا ، سیکھنا اور اختيار کرنا ہے چناچہ سورة بقرہ ميں ارشاد ہوا ہے :
أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ( سورة بقرہ : 16)
" يہي لوگ ہيں جنہوں نے ہدايت کے بدلہ گمراہي مول لي تو نہ ان کا سودا نفع بخش ہوا اور نہ وہ ہدايت پا سکے "
يعني ہدايت کو انہوں نے ترک کيا اور اس کے بدلے ميں گمراہي اختيار کرلي۔ قرآن کے مقابلہ ميں وہ جس چيز کو اپنا مشغلہ اور لوگوں کي گمراہي کا سامان بنائے ہوئے تھے وہ دنيا کے عيش و عشرت پر آمادہ کرنے والي اور عشق و محبت کي آگ بھڑکانے والي شاعري (اَ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ (224) أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ (225)) سورہ الشعراء
فضول قصہ گوئي ، افسانہ طرازی (
سَامِراً تَھْجُرُوْن۔سورة مومنون : 27 )
خلاصہ یہ کہ :
جو کلام خدا اور آخرت سے غافل کردينے والا ہو اس کا حقيقي علم سے کوئي تعلق نہيں ہوسکتا وہ جہالت اور جاہليت ہي کي پيداوار ہے
اور جو علم یا ہنر انسانوں کیلئے دنیاوی ضرورت ہو اسے اس قدر سیکھنا جس سے دین و ایمان میں خلل و بگاڑ نہ آئے وہ جائز بلکہ کئی صورتوں میں ضروری ہے ،اور مستحب و مستحسن ہے ،
2) کیا آخرت میں [ math - science - وغیرہ] انسان کے کام آئیں گے یا نہیں؟؟ مطلب دنیا کے علم کی کیا حیثیت ہے؟؟
جی بالکل کام آئیں گے اگر دنیا میں ان علوم و فنون کو اسلام کی ترویج و اشاعت اور اہل اسلام کی ترقی و بہبود کیلئے سیکھا سکھایا ،