مسند احمد اور مستدرک حاکم کی وہ احادیث ذکر کیں کہ فرمان رسول ؐ ہے کہ خراسان سے کالے جھنڈے والے لوگ نکلیں گے تو تم ان کی اتباع کرنا وغیرہ
اس سلسلہ کی کچھ روایات کی تحقیق پیش ہے ، بقیہ روایات کے متعلق حسب توفیق ان شاء اللہ بعد میں وضاحت کریں گے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
خراسان سے کالے جھنڈوں کا نکلنا
ایک روایت میں آیا ہے کہ:
” جب تم دیکھو کہ خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے نکل آئے تو اس لشکر میں شامل ہوجاؤ، چاہے تمہیں اس کے لیے برف پر گھسٹ کر کیوں نہ جانا پڑے، کہ اس لشکرمیں اللہ کے آخری خلیفہ مہدی ہوں گے۔“
(سنن ابن ماجہ: ۴۰۸۴، المستدرک للحاکم: ۴۶۳/۴۔۴۶۴ح۸۴۳۲، مسند الرویانی:ج۱ص۴۱۷۔۴۱۸ح۶۳۷،
دلائل النبوۃ للبیہقی:۵۱۵/۶وقال: "تفرد به عبد الرزاق عن الثوري"!، السنن الواردۃ فی الفتن و غوائلھا والساعۃ وأشراطھا للدانی: ۱۰۳۲/۵۔۱۰۳۳ح۵۴۸)
ضعیف: یہ روایت "سفیان (الثوري) عن خالد الحذاء عن أبي قلابة عن أبي أسماء الرحبي عن ثوبان رضی اللہ عنہ" کی سند سے درج بالا کتابوں میں موجود ہے۔
۱: اس کے راوی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ثقہ و متقن ہونے کے باوجود مشہور "مدلس" تھے۔
٭ابو زرعہ ابن العراقی نے کہا: "مشھور بالتدلیس" (کتاب المدلسین: ص۵۲رقم۲۱)
٭ابن العجمی اور سیوطی دونوں نے کہا: "مشھور به" (التبیین لأسماء المدلسین: ۲۵، اسماء المدلسین: ۱۸)
٭حافظ ابن حبان نے فرمایا: "وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیں، ہم اُن کی صرف ان مرویات سے ہی حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریں مثلاً سفیان ثوری، اعمش اور ابو اسحاق وغیرہم۔۔۔" (الاحسان:۹۰/۱، علمی مقالات:ج۱ص۲۶۶،ج۳ص۳۰۸)
٭عینی حنفی نے کہا: "اور سفیان (ثوری) مدلسین میں سے تھے اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی اِلا یہ کہ اُس کی تصریحِ سماع دوسری سند سے ثابت ہوجائے۔" (عمدۃالقاری:۱۱۲/۳، الحدیث حضرو:۶۶ص۲۷)
٭ابن الترکمانی حنفی نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا: "اس میں تین علتیں (وجۂ ضعف) ہیں: ثوری مدلس ہیں اور انھوں نے یہ روایت عن سے بیان کی ہے۔۔" (الجوہر النقی: ۲۶۲/۸)
اس روایت میں بھی سفیان ثوری کے سماع کی تصریح نہیں، لہٰذا یہ ضعیف اور یاد رہے کہ درج بالا تصریحات اور دیگر دلائل کی رُو سے سفیان ثوری کو مدلسین کے ظبقۂ ثانیہ میں ذکر کرنا غلط ہے۔ نیز دیکھئے الحدیث (حضرو) : ۶۷ص۱۱۔۳۲
٭سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری مرفوع روایت میں بھی خراسان کی طرف سے کالے جھنڈوں کا ذکر آیا ہے۔ (مسند احمد:۲۷۷/۵ح۲۲۳۸۷، دلائل النبوۃ للبیہقی:۵۱۶/۶، العلل
المتناھیہ لابن الجوزی: ۱۴۴۵)
ضعیف: یہ سند کئی وجہ سے ضعیف ہے؛
۱:علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب: ۴۷۳۴)
۲:شریک القاضی مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے۔
۳:روایت منقطع بھی ہے۔
٭سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مروی ایک طویل روایت میں کالے جھنڈوں کا ذکر آیا ہے: دیکھئے سنن ابن ماجہ (۴۰۸۲) مصنف ابن ابی شیبہ (۲۳۵/۱۵ح۳۷۷۱۶) مسند ابن ابی شیبہ (۲۰۹/۱۔۲۱۰ح۳۰۸) مسند الشافعی (۳۴۷/۱ح۳۲۹) مسند ابی یعلیٰ (۱۷/۹۔۱۸ح۵۰۸۴) المعجم الاوسط للطبرانی (۳۲۷/۶ح۵۶۹۵) الکامل لابن عدی (۱۷۸۳/۵، دوسرا نسخہ:۲۳۲/۶)
الضعفاء للعقیلی (۳۸۱/۴) الفتن للدانی (۱۰۳۱/۵۔۱۰۳۲ح۵۴۷) الفتن للامام نعیم بن حماد الصدوق (۸۵۲)
ضعیف: اس کا راوی یزید بن ابی زیاد الکوفی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھئے: ہدی الساری لابن حجر (ص۴۵۹) اور زوائد سنن ابن ماجہ للبوصیری (۲۱۱۶)
٭المستدرک للحاکم (۴۶۴/۴ح۸۴۳۴) میں ایک موضوع (من گھڑت) روایت ہے، جس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ قال الذہبی: ”ھذا موضوع"
٭سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک روایت میں بھی کالے جھنڈوں کا ذکر آیا ہے: (دیکھئے سنن الترمذی: ۲۲۶۹وقال: ھذا حدیث غریب حسن، مسند احمد: ۳۶۵/۲ح۸۷۷۵،الاوسط للطبرانی:۳۲۳/۳ح۳۵۶۰، البحرللبزار:۱۲۴/۱۴ح۷۶۲۵، دلائل النبوۃ للبیہقی:۵۱۶/۶)
ضعیف: اس روایت میں رشدین بن سعد ضعیف ہے، اور اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔
دیکھئے تخریج الاحیاء للعراقی (۸۴/۴) مجمع الزوائد (۶۶/۵، ۵۸/۱، ۲۰۱) اور اتحاف السادۃ المتقین (۵۳/۹)
٭کتاب الفتن للامام الصدوق نعیم بن حماد المروزی میں کئی ضعیف ومردود روایات و آثار موجود ہیں۔ (دیکھئے: ۸۵۱۔۸۶۶)