محترم بھائی،
چونکہ آپ نے سوال ایسے سیکشن میں پیش کیا ہے جہاں صرف اہل علم ہی کا جواب دینا ضروری نہیں۔ اس لئے یہاں اہل علم سے کچھ جوابات نقل کرتا ہوں۔ اسے فتویٰ مت سمجھئے گا۔ فقط میری ذاتی رائے ہے کہ :
1۔ قربانی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہےکہ آیا یہ واجب ہے یا سنت موکدہ۔
2۔ جو علماء اسے واجب سمجھتے ہیں۔ وہ بھی فقط اسی شخص پر واجب کہتے ہیں جو قربانی کی استطاعت رکھتا ہو۔
3۔ اگر قربانی خرید لینے کے بعد جانور مر گیا۔ اور اب اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قربانی کے لئے صاحب استطاعت نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
اسلام کیو اے ویب سائٹ سے اس مسئلے پر سعودی علماء کے درج ذیل فتاویٰ کا مطالعہ کارآمد رہے گا، ان شاء اللہ۔
قربانی : واجب یا سنت:
لنک
قربانی سے کیامراد ہے ؟ اورکیا قربانی کرنا واجب ہے یا سنت ؟
الحمد للہ
الاضحيۃ : ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے ( بھیمۃ الانعام بھیڑ بکری اونٹ گائے کوکہتے ہیں )
قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے اس کی مشروعیت کتاب اللہ اورسنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے ، ذيل میں اس کی مشروعیت پردلائل پیش کیے جاتے ہيں :
کتاب اللہ الکریم :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
1 - { اللہ تعالی کے لیے ہی نماز ادا کرو اورقربانی کرو }
2 – اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
{ آپ کہہ دیجیے یقینا میری نماز اورمیری ساری عبادت اورجینا میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالی ہی کا ہے جوسارے رب کا مالک ہے ، اس کا کوئي شریک نہيں اورمجھ کواسی کا حکم ہوا ہے اورمیں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں } ۔
3 - اورایک تیسرے مقام پراللہ تعالی نےاس طرح فرمایا :
{ اورہر امت کےلیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پراللہ تعالی کا نام لیں جواللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہيں ، سمجھ لوکہ تم سب کا معبود والہ برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ اورعاجزی کرنے والوں کوخوشخبری سنا دیجیے } ۔
سنت نبویہ سے دلائل :
1 - صحیح بخاری اورمسلم کی روایت ہے کہ انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ وسفید مینڈھوں کی قربانی دی انہيں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور( ذبح کرتے ہوئے ) بسم اللہ اللہ اکبر کہا اوراپنا پاؤں ان کی گردن پررکھا ۔
دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5558 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1966 ) ۔
2 - عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف میں دس برس قیام کیا اورہر برس قربانی کیا کرتے تھے ) ۔
مسند احمد حدیث نمبر ( 4935 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1507 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے مشکاۃ المصابیح ( 1475 ) میں اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔
3 - عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے مابین قربانیاں تقسیم کیں توعقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حصہ میں جذعہ آیا تووہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حصہ میں جذعہ آیا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کوہی ذبح کردو ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5547 ) ۔
4 - براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی نماز ( عید ) کے بعد ( قربانی کا جانور ) ذبح کیا تواس کی قربانی ہوگئي ، اوراس نے مسلمانوں کی سنت پرعمل کرلیا ) ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5545 ) ۔
تواس طرح معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم بھی قربانی کرتے رہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا کہ قربانی کرنا مسلمانوں کی سنت یعنی ان کا طریقہ ہے ۔
لھذا مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پراجماع ہے ، جیسا کہ کئي ایک اہل علم نے بھی اس اجماع کونقل بھی کیاہے ۔
اوراہل علم کااس میں اختلاف ہے کہ آیا قربانی کرنا سنت موکدہ ہے یا کہ واجب جس کا ترک کرنا جائز نہيں ؟
جمہورعلماءکرام کا مسلک یہ ہے کہ قربانی کرنا سنت موکدہ ہے ، امام شافعی کا مسلک بھی یہی ہے اورامام مالک اورامام احمد سے بھی مشہور مسلک یہی ہے ۔
اوردوسرے علماء کرام کہتے ہیں کہ قربانی کرنا واجب ہے ، یہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے اورامام احمد کی ایک روایت یہ بھی ہے ، اورشیخ الاسلام ابن تمیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے :
یہ مسلک مالکی مذھب کا ایک قول ہے یا امام مالک کے مذھب کا ظاہر ۔ انتھی ۔
دیکھیں : احکام الاضحیۃ والذکاۃ تالیف ابن عثیمین رحمہ اللہ ۔
شیخ محمد بن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
جوشخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہواس کے لیے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ، لھذا انسان اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے ۔
دیکھیں : فتاوی ابن عثیمین ( 2 / 661 ) ۔
واللہ اعلم .